دنیا کی تاریخ ایسے ہزاروں جانثاروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی جدوجہد، ایثار اور فکری بصیرت سے جمود زدہ معاشروں کو نئی سمت دی۔ ان کے افکار و اعمال نے مؤرخین کو لب کشائی کرنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ان کے کردار و اذکار کو تاریخ کے سرخ اوراق میں قلم بند کریں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے وقت کے سماجی، سیاسی، اور فکری جمود کو توڑ کر نئی راہیں تراشتے ہیں۔ وہ سماج کے اندر جستجو کی روح پھونکتے ہیں، اور یہی روح قوموں کو غلامی، خوف، اور تاریکی سے نکال کر ترقی، آزادی، اور شعور کی طرف لے جاتی ہے۔

اسی تناظر میں یونان کے عظیم مفکر سقراط نے فلسفے، سوال اور مکالمے کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ اسے معاشرتی جمود کے محافظوں نے زہر کا پیالہ دے کر خاموش کر دیا، لیکن تاریخ نے اسے سرخرو کر دیا۔ اس کی سوچ آج بھی ان تمام لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو اپنے سماج کے اندر فکری بیداری کے لیے کوشاں ہیں۔

جب ہم تاریخ کے پنہوں کو مزید ٹٹولنے کی سعی کرتے ہیں، تو ہمیں بے شمار ایسے کردار ملیں گے جنہوں نے قابض قوتوں کے خلاف طویل جدوجہد کر کے اپنی اقوام کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کا سورج دکھایا ان میں کیوبا اور لاطینی امریکہ کے انقلابی ڈاکٹر چے گویرا، چین کو متحد اور خودمختار ریاست بنانے والے ماؤ زے تنگ، مزدوروں کی آواز بننے والے کارل مارکس، یونان کے آمر پاپاڈوپولس کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے الیگزینڈر پیناگولز، دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کے بانی ولادیمیر لینن، امریکی و فرانسیسی سامراج کے خلاف ویتنام کی آزادی کے علمبردار ہو چی منھ، اور نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کرنے والے نیلسن منڈیلا قابل زکر ہیں جنہوں نے اپنی افعال و اقوال اور نامساعد حالات میں قربانی دینے سے تاریخ میں اپنا مقام بنایا۔اسی طرح بلوچ قومی تحریک میں بھی ایسی شخصیات کی کمی نہیں نواب محراب خان سے لے کر نورا مینگل، بابو نوروز، جنرل شروف، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، بالاچ مری، غلام محمد، اور اُستاد صبا دشتیاری جیسے انمول کردار اس جدوجہد کے ستون بن چکے ہیں۔

مجھے ایک ایسے کردار کی کھوج رہی جس میں ان تمام عظیم ہستیوں کی جھلک ہو۔ اسی تلاش میں مجھے ایک منفرد شخصیت ملی ،کوہستان مری کا رمضان مری عرف “بلّا”۔ جی ہاں، ہمارا بلّا بھی بلوچستان کا “پیناگولز” تھا۔ جب بلوچ تاریخ لکھی جائے گی اور اس میں شہید سگار بلوچ کا ذکر نہ ہو، تو وہ تاریخ ادھوری رہے گی۔ سگار صرف ایک جنگجو نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک رہنما، ایک فلسفہ، اور ایک زندہ داستان تھے۔ ان کی زندگی قربانی، عزم، وفاداری اور ناقابل تسخیر حوصلے کی عملی تفسیر تھی۔

شہید بلا مری ایک منفرد شخصیت تھے۔ جب انہوں نے شعور کی آنکھ کھولی، تو اپنے ارد گرد ظلم و استبداد کا منظرنامہ پایا۔ محض 16 برس کی عمر میں انہوں نے بلوچ قومی جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا خاندان ضیاء اور بھٹو کے آمریتی ادوار میں بھی تحریک کا حصہ رہا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے رگ و پے میں قوم پرستی اور آزادی کی تڑپ رچی بسی تھی۔

1973 میں جب ریاستی جبر اور فوج کشی نے مری علاقوں کو لپیٹ میں لیا، تو گوریلا مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ 1978 میں نواب خیر بخش مری کی قیادت میں مری قبائل نے افغانستان کی طرف ہجرت کی، جن میں بلا مری اور ان کا خاندان بھی شامل تھا۔ مگر یہ ہجرت محض جغرافیائی نہیں بلکہ ایک عہد کی شروعات تھی۔

بعد ازاں، بلا مری نے کاہان میں گوریلا کیمپ قائم کیا۔ وہ لوگوں سے روبرو ہو کر قومی آزادی کا پیغام درس دیتے رہے ۔ عوام ان کی باتوں سے اتنے متاثر ہوتے کہ سگار کی مجلس میں بیٹھنے کو بے تاب رہتے۔ وقت کے ساتھ سگار عوام میں گھل مل گئے اور ایک معتبر رہنما بن کر ابھرے۔ لوگ اپنے مسائل ان کے پاس لاتے اور وہ انہیں اخلاص سے حل کرتے۔

6 جنوری 2002 کو قلات میں ان کے بھتیجے صوبدار مری، شہید گلبہار پرکانی، اور شہید واحد بخش مری کی قربانی نے سگار کو رنج ضرور دیا، مگر ان کا حوصلہ مزید بلند ہو گیا۔ انہوں نے قابض ریاست کے خلاف کئی معرکے سر کیے۔ ان کے کیمپ پر بارہا حملے ہوئے، خاص طور پر 2016 اور 2017 میں، جب فضائی حملوں میں وہ کئی مرتبہ زخمی بھی ہوئے مگر پیچھے نہ ہٹے۔ 2007 میں ان کے بھتیجے شاہ میر مری اور 2017 میں بھانجے و دست راست رطا مری کی شہادت نے ان کی جدوجہد کو مزید جلا بخشی۔

بلّا مری پندرہ سال تک مسلسل جنگی محاذ پر ڈٹے رہے۔ وہ اپنے خاندان سے نہ ملے، لیکن ان کی ثابت قدمی، قربانیاں، اور کاہان سے محبت نے انہیں ایک حقیقی گوریلا جنگجو بنا دیا۔

بالآخر دشمن نے 12 اپریل 2021 کو ہمارا سگار ہم سے ہمیشہ کیلئے چھینا،کاہان کے علاقے بامبور میں ایک سازش کے تحت اس کو شہید کر دیا گیا بلوچ لبریشن آرمی نے ان کی قربانی کے اعتراف میں انہیں “سگار” کا اعزاز دیا — یہ تنظیم کا ایک اعلیٰ جنگی لقب ہے، جو اس سے قبل صرف شہید امیر بخش لانگو اور ماما مہندو مری کو دیا گیا تھا۔ سگار، واقعی کاہان کے بالاچ تھے۔

وہ ایک نظریہ تھا، ایک جذبہ، ایک مسلسل سفر، اور استقامت کا دوسرا نام تھا۔ وہ زخمی پاؤں، پتھریلی زمین، خطرناک چھٹانوں، اور سادہ سی بلوچی سواس کے ساتھ بھی محاذ پر ڈٹا رہا۔ ایسے حالات میں صرف جذبہ ہی انسان کو تھامے رکھتا ہے، اور بلا مری خود جذبے کی جیتی جاگتی تعبیر تھا۔

اسی جذبے سے بلّا مری نے گھنٹوں کو دنوں، دنوں کو ہفتوں، ہفتوں کو مہینوں، مہینوں کو سالوں اور سالوں کو دہائیوں میں بدل دیا۔ یہ سفر ایسا تھا جس کی گونج صدیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ ایسے راستوں کا انتخاب وہی کرتے ہیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا، لیکن بلّا مری کے پاس تو سب کچھ تھا خاندان، بچے، دوست، زمین، عزت، قوم۔۔۔ مگر ان سب پر ایک شے حاوی تھی۔۔وطن۔۔۔اگر وطن نہ ہو، تو باقی سب بے معنی ہے۔

رمضان مری عرف سگار بلوچ ایک ایسا نام ہے جو بلوچ قومی تحریک کے افق پر ایک چمکتے ستارے کی طرح ابھرا اور پھر آسمانِ جدوجہد پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔ وہ نہ صرف ایک سپاہی یا انقلابی، بلکہ فکری مزاحمت کی علامت تھے — ایک ادھ جلی سگریٹ کی مانند، جو خود جلتا رہا تاکہ دوسروں کو روشنی دے سکے۔

سگار بلوچ کا اصل ہتھیار بندوق نہیں، بلکہ اس کی سوچ، جذبہ اور اخلاص تھا، جو ہر گولی سے زیادہ اثر رکھتا تھا۔ وہ ایک غیر رسمی استاد تھے جو نوجوان بلوچ جہدکاروں کو صرف جنگ نہیں بلکہ نظریہ سکھاتے تھے۔ وہ خالی بندوق نہیں، ایک مکمل سوچ تھما دیتے تھے۔ ان کا خواب صرف آزادی کا نعرہ نہیں، بلکہ ایک ایسا سماج تھا جو برابری، مساوات، حمیت اور شناخت پر مبنی ہو۔

کاہان کے پہاڑوں میں جب وہ سرد راتوں اور یخ بستہ ہواؤں میں ساتھیوں کے ساتھ محو گفتگو ہوتے، تو ان کی باتوں میں ایک ایسی حرارت ہوتی جو سرد ہواؤں کو بھی گرم کر دیتی۔ بلّا کہا کرتے:

“یہ آزادی صرف زمین کی نہیں، ہماری روحوں کی بھی ہے۔ ہمیں غلامی سے صرف جسم نہیں، ذہن بھی نکالنا ہے۔”

سگار اپنی زندگی کی آخری سانس تک بلوچ قومی تحریک کو ایندھن فراہم کرتے رہے،گمنام ہوکر ہر قسم کے نمود و نمائش سے بالاتر ہو کر بالاچ کے نقش قدم پر چلتے رہے،مشکل جالات جھیلتے ، سہتے رہے ،تنظیم پر بحرانات آئے، چند ساتھی سخت حالات میں برداشت نہ کرسکے ،بالاچ کے کاروان سے الگ ہوئے،اس دوران ہمارا سگار ہی تھا جو دوستوں کو حوصلہ دیتا رہا،ساتھیوں کا ” ھاٹیگ” تھا،واقعی کاہان کا یہ سپوت ہمت،حوصلہ اور اخلاص کا نام تھا۔