Pakistani civilians, fleeing from a military operation in North Waziristan tribal agency, look on on the outskirts of Bannu district on June 19, 2014. Civilians are streaming out of a Pakistani tribal area in a two-pronged exodus ahead of an expected ground assault against Taliban militants, officials said, with many crossing the border into Afghanistan. AFP PHOTO/ A MAJEED (Photo credit should read A Majeed/AFP/Getty Images)
آج سے قریباً نوبرس قبل ہم نے اپنے ایک مضمون میں لکھاتھا کہ پشتون قوم اس سرزمین پر اُس طاقتورگھوڑے کی مانند ہے جس کو قیامت کے دن پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنا طاقتور تھا جووہ دنیا میں یہ نہیں جان سکا ۔اگر اُس وقت اُسے اپنی طاقت کا اندازہ ہوتاتو کوئی بھی اُس پر سواری نہیں کرسکتاتھا ۔ پشتون بھی اس ریجن میں سب سے طاقتور ترین قوم ہونے کے باوجود پنجابی کی خرکاری پر راضی ہے جس پنجابی کو اُس نے خود شرف بہ اسلام کیا اور اُس پر کئی بار فتع بھی حاصل کیا مگر اب اُس کے ایسے حکمرانوں سے اپنی ’’ پنجابی ساختہ کافری ‘‘کی سزا پارہا ہے جسکے بڑے سے بڑے لیڈر کو سورت اخلاص اور سورت کوثر جیسے مختصر ترین سورتیں بھی یاد نہیں۔ اس وقت پشتون اس ریجن کی سب سے بدنصیب ترین ا قوام میں سے ایک ہے ۔ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پاکستان سے دھوکہ دہی سے الحاق کے بعد سے آج تک وہ پنجاب کے مفادات کی خاطر بلاوقفہ وبیدردی سے موت کے گھاٹ اُتاراجا رہا ہے ۔خاصکرافغان جنگ کے بعد موت کا رقص رُکنے کا نام نہیں لے رہاہے حالانکہ یہ وہی جنگ ہے جس پر آج پاکستانی حاکم ندامت کا اظہار کرکے اسے اپنی غلطی کہتے ہیں لیکن اس غلطی کے فواہد پنجاب اور نقصان پشتون نے سود کیساتھ برداشت کرکے نسلوں کی تباہی کی صورت میں ادا کیا۔اُس کے بچے مجاہد،ملا ،طالب ، ملیشاء، امنیت ،عسکر ملی ،قبائل ،عام پشتون و افغان شہری بلکہ ہر عمر،وپیشے کے ساتھ موت کے منہ دھکیلا گیا ۔آج بھی یہ کاروبار کُشت و خون سرحدکے دونوں پار بڑی شدت کے ساتھ جاری وساری ہے جس پر ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان پھر آٹھ دس سال بعداسے غلطی کہہ کر پشیمانی کا اظہارکرے گا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ہر جوا ء پشتون کے خون کو داؤ پہ لگاکے کیوں کھیلتا ہے؟ کیا پشتونوں میں شعور نہیں یا اسلام آباد بہت چالاک ہے یا حالات کچھ ایسے بنے کہ جنگ کیلئے خام مال کی ضرورت پڑی اور پشتون پہلے ہاتھ لگا اور پاکستان نے اُسے جنگی قیمہ مشین کے سُپرد کیا جو اب کم از کم چالیس سالوں سے کسی وقفے کے بغیر اُسے دبوچ رہاہے۔ ان میں ایک اسلام آباد کی چالاکی والی سبب حقیقی ہے باقی سارے ثانوی ہیں ۔پشتون کسی بھی قوم سے کم ذہین نہیں اور نہ کسی قوم سے کم محنتی ہے کیونکہ جن جن پشتونوں کو باہر جانے اور اُن کے بچوں کو پڑھنے کا بہتر ماحول ملا اور اُن کے بڑوں کو کام میسر آیاوہ کسی سے بھی پیچھے نہیں رہے بلکہ بعض اوقات مقامی لوگوں سے بہت آگے نکل گئے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ پیدائشی نالائق و احمق ہیں جس طرح ایک مخصوص نظریے و منصوبے کے تحت اُنھیں کم عقل ثابت کرنے اور اس بات پر یقین کروانے ہزاروں لطیفے بنائے گئے ہیں ۔ یہ دلیل بھی حقیقی نہیں کہ چونکہ پشتون پہلے ہاتھ لگا لہذا اُسے جنگ میں خام مال کی طرح جھونک دیا گیا بلکہ حقیقت روز روشن کی طرح شفاف ہے کہ پاکستان نے شروع دن سے افغانستان کوپہلے برباد و نحیف کرنے اور بعد میں اُس پر قبضہ جمانے کا منصوبہ بنایا تھا اگر ایسا نہیں ہوتا تو سوویت یونین کے آنے اور مداخلت کے بہانے سے پہلے افغانستان کے خلاف بھٹو کی صف آرائیاں نہیں ہوتیں ۔افغان انقلاب ثور تو صرف ایک بہانہ تھا جس سے پاکستان کے اس ملک اور اس قوم کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کا سرمایہ اور اتحادی دونوں اس حد تک طویل مدت کیلئے میسر آئے کہ وہ دہشتگردی کو ایک باقاعدہ انڈسٹری میں تبدیل کرکے دنیا کو اس کے خوف سے لوٹتا رہے۔ اور پشتون کو بحیثیت دہشتگرد ایسی تعارف سے نوازاکہ پوری دنیا میں اُس کے قتل پر کسی کو بھی افسوس نہ ہو اور یوں اُسے پشتون کے قتل کا اجازت نامہ مل گیا اور اُس نے پوری دنیا کیساتھ ملکر اس کی نسلی کشی میں کوئی کوتائی نہیں کی۔ بنگالیوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد پنجابی پاکستان کو احساس ہوا کہ پشتون سب سے بڑا چیلنج بن کر اُبھر رہا ہے ۔دیگر صوبوں کی نسبت صوبہ سرحد میں تعلیمی ترقی قابل رشک تھی سیاسی قیادت بھی ایسی کہ جس نے ولی خان اور مفتی محمودکی سربراہی میں دیگر قوموں کو ساتھ رکھنے کا صلاحیت پیداکیا تھا فوج میں اُنکی شمولیت وقیادت پاکستانی مجبوریوں کے سبب ممکن ہوا تھاجواب اسلام آباد کیلئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں تھا ۔ اُنکی ترقی اُنکا شعور اور اُنکی قیادت پر ڈاکہ ڈالناضروری ٹھہرا تاکہ کل وہ کنٹرول پیکج (Control pakage)کے مالک ہوکر اسلام آباد کے کسی افغان و پشتون مخالف منصوبے کے سامنے رکاوٹ کھڑی نہ کرسکیں ۔ افغان( پشتون )کُش پالیسی کی بتداء ذوالفقار بھٹو نے کی اور اسے ضیاء الحق نے پروان چڑھاکر اتنا آگے لے گیا کہ وزیرستان سے لیکر کراچی تک پشاور سے لیکر کابل تک پشتون کا خون بہتا ہی رہا۔پشتون اب زندگی کے کسی بھی شعبے میں پنجاب کو ٹھکر دینے کے بجائے بموں سے اُڑتے اپنے بچوں کے پرخچے اور تعلیمی اداروں کی گرتی دیواروں کی تعداد گننے سے فرصت نہیں پارہا ہے ۔گذشتہ چالیس سالہ افغان جنگ نے پشتونوں کو بحیثیت قوم سوسال پیچھے دھکیل دیا جوکبھی افغان بن کر سوچتا تھا اب قبائلی ،افغانی ،پاکستانی پشتون اور صوبوں اورحلقہ بندیوں کے جغرافیہ تک سُکڑکر سوچتا اور محدود مراعات کو منزل جان کر اپنی ہی لاشوں کو روندتا اپنی نسل کُشی کے اہتمام کیساتھ آگے بڑھ رہا ہے جبکہ اُسکی قیادت پنجابی کا دست نگر اور طفیلی کے کردار پرنازاں اپنی اجتماعی موت پر زبانی جمع خرچ کوہی اپنی سیاسی کارکردگی کہہ کر خود کو طفل تسلی دیتا ہے ۔ کسی بھی قوم کیلئے یہ بات المیہ سے کم نہیں کہ وہ دشمن کے دیئے ہوئے پہچان کو قبول کرکے اُسی میں عافیت تلاش کرے اور بدقسمتی سے پشتون عین اِسی المیہ سے دوچار ہے جو اُسکی موجودہ سیاسی قیادت بھی پشتونوں کو قبائل کہکر اور اُ ن کے بارے میں انگریزوں کے قوانین کی بحالی کا مطالبہ کرتا ہے یا دنیا کے کرپٹ اور بدقول ترین ملک پاکستان سے چند مراعات کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ اصولی طور پراُسے ان کو پشتون کہکر اپنی مکمل آزادی کا مطالبہ کرنا چائیے تھا ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں جہاں صوبائی حکومتیں ہیں لکھی ہوئی قوانین ہیں اُن کے ساتھ کیا حشر ہورہا ہے جو پشتونوں کے ایک حصے کو قبائل سے شرف بہ صوبہ کرکے موت کے منہ سے نکالا جاسکتا ہے یقیناً نہیں !پشتونوں کے بلاامتیاز قتل کاسبب قبائلی علاقہ جات و اختیارات کی کمی و بیشی نہیں بلکہ اُن کا پشتون ہونا ہی سب سے بڑی جرم ہے جو کراچی ،حیدرآباد ،سکھر،لاہور ، ملتا ن بلکہ پورے پاکستان اور سرحد کے اُس پار افغانستان میں اُن کیلئے موت کا پروانہ لئے دندناتا پھرتاہے۔ ان بے پناہ مظالم کے بعداب کہیں جاکے پشتون قوم میں ایک حرکت پیدا ہوگئی ہے جس سے کچھ دوست بہت پُر اُمید ہیں اور کچھ محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔جہاں تک ہم سمجھتے ہیں اِسے ایک اچھی ابتداء سے بڑھکر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ پشتونوں نے جن چار بنیادی مطالبات کو سامنے رکھا ہے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوگا ۔ گوکہ اس وقت اُن کے دو مطالبات نقیب اللہ کے قاتل کی گرفتاری اور جا بجالینڈ مائنز کو ناکارہ بنانے کے کام کا آغاز ہوگیا ہے ۔باقی دو مطالبات پشتونوں کے ماورائے عدالت قتل کی روک تھام اور گمشدگاں کی بازیابی اور اُنھیں کھلی عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کسی طرح بھی پورے نہیں کئے جاسکیں گے ۔ جہاں تک نقیب اللہ کے قاتل کی گرفتاری یااُس کاخود کورٹ پر احسان کرکے پیش ہونے کا تعلق ہے وہ درجنوں میموں گیٹ اور منی لانڈرنگ جیسے بڑے کیسزکی طرح لٹک لٹک کر ہمیشہ کیلئے لٹک جائے گا ۔اور جہاں تک مائنز کے صفائی کا تعلق ہے وہ بھی وقتی ابھار کو دبانے ایک سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کا دائرہ وسیع ہورہا ہے جس سے نئے مطالبات بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ان کے صفوں میں متعلق اور غیر متعلق لوگ بھی شامل ہوں گے اُن کے کام میں کچھ نئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گے اورکچھ پید اکئے جائیں گے تاکہ یہ راہ سے بھٹک جائیں یا تھک کر مایوس ہوکر خودبخود بکھر جائیں۔ایسے میں بجاطور پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تحریک کو کسی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے یا یہ درمیان میں سمت تبدیل کرکے وقت کے ساتھ ختم ہوگا؟ تادم تحریر دونوں کے امکانات برابرہیں اگر انھیں درست سمت ملا تو یہ بنگالیوں کی طرح اقتدار میں شراکت کے مطالبے کے ساتھ اُٹھنے کے بعد آزادی لے کردم لیں گے اگر نہیں تو بلوچوں کی طرح جو نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے وقت پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے نکلے تھے لیکن پاکستانی پارلیمانی سیاست کے مداریوں نے درمیان میں آکر جرگہ اور بین القوامی عدالت میں کیس کرنے کا ڈرامہ رچا کراُن کے جذبات کو ٹھنڈا کیا ۔گوکہ بلوچ نے جنگ آزادی ترک نہیں کی کیونکہ وہ جنگ پہلے شروع ہوچکا تھا اور ان مداریوں کے اختیار سے باہر تھا تاہم انھوں نے پاکستان پر اتنااحسان ضرورکیا کہ نواب بگٹی کی شہادت کے وقت اُبھرتے جوش کو ٹھنڈا کرکے لوگوں کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا آج پشتونوں کا یہ حال ہے کہ وہ خداسے قیامت کی دعاکرتے ہیں تاکہ موت ایک بار آئے اور اُنھیں اپنی آغوش میں لے کر سکون دے وہ غیرت مند قوم کس کرب سے یہ ذلت برداشت کررہا ہے جووہ خود کہتے ہیں کہ اپنے گھر تک جانے کیلئے آپکو اپنا پشتون ولی اور خودی پہلی ایف سی یا ملٹری چوکی پر رکھنا ہوگاکیونکہ گھر پہنچتے پہنچتے آپ کی اتنی بار بے عزتی کی جائے گی کہ وہ خودی زندہ رہ نہیں سکتا اگر آپ خودی کو زندہ رکھوگے توتم یاتوہمیشہ کیلئے غائب کئے جاوگے یا تمہاری تشددزدہ لاش ملے گی۔ حرف آخر: ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ ایک اسٹیج ایسا بھی آئے گا کہ دباؤ میں آکر پاکستانی حکمران ہرشرط ماننے کیلئے تیار ہوں گے جسطرح ضرورت پڑنے پر بلوچوں کے ساتھ قران پر ہاتھ رکھکر عہد وپیمان کیا مگر جونہی بلوچ پہاڑوں سے اُتر گئے اُنھیں پھانسی دی گئی ۔ پشتون تحریک بھی اگر انہی مندرجہ بالا چار مطالبات کے گرد گھومتی رہی توایک دن ان تمام مطالبات کو ماننے کی یقین دہانی کراکے کوئی معاہدہ کیا جائے گا تاکہ یہ جوش ختم ہو اورلوگ بکھر جائیں بعد میں وہ وہی کرے گا جواب تک کرتا آیا ہے ۔بلوچ اس تجربے سے کم از کم چار بار گذر چکے ہیں اب یہ بات پشتون پر منحصر کہ وہ ایسے قوم (پنجابی)کے ساتھ کس اخلاقی معیار کوسامنے رکھکر شرافتمندانہ معاہدہ کرے گا جہاں سالانہ ایک لاکھ گدھے کا گوشت ،بیس لاکھ کے قریب کتوں،خنزیر،چوہوں اور بلیوں کا گوشت کھاتے ہیں اورمردہ خواتین کے رشتہ دار پندرہ دن تک اپنے مردے کی قبر پر پہرہ دیتے ہیں کہ کوئی اُسے قبر سے نکال کے اُس کے ساتھ ذیادتی نہ کرے ۔ اگرپشتون تحفظ تحریک کے منتظمین پنجابیوں اور اُن کے اتحادیوں ( بلا امتیازوہ تمام پشتون لیڈرجو پاکستانی پارلیمانی سیاست کرتے ہیں )سے ہمدردی یا کسی خیرکی اُمید رکھتے ہیں توہم تاسف کے سواکچھ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ پشتون کیلئے یہ وہ موافق وقت ہے ’’کہ ابھی نہیں توپھر کبھی نہیں ‘‘ اگر وہ اس سنہری موقع کوضائع کریں گے توپھر ان کے بربادیوں کا دورانیہ بہت طویل ہوگا اوروہ قیامت بھی نہیں آئے گی جس کیلئے آج پشتون زندگی سے بیزار دعا مانگ رہا۔ (ختم شُد)