کراچی (ہمگام نیوز)بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ہم گزشتہ ہفتوں کے غیر قانونی کارروائیوں کی مذمت کرنے میں ہی ابھی مصروف تھے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے مزید غیر قانونی کارروائیوں میں تیزی کی گئی جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ موجودہ چند دنوں کے کارروائیوں کی فہرست کچھ یوں ہے کہ ریاستی اداروں نے بلوچستان کے علاقے تمپ کلاھو کیچ کے رہائشی نعیم ولد حاصل خان نامی نوجوان کو لیاری کراچی سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا جو اپنے بچے کو علاج کے لیے کراچی لے آیا تھا۔ ضلع کیچ کے علاقے شے کہن کے رہائشی محکمہ صحت کے ملازم رفیق احمد ڈاکٹر ولد مراد محمد کراچی سے لاپتہ کردیا گیا خاندانی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر رفیق احمد بچوں کے علاج کی غرض سے کراچی گئے تھے جنہیں 11 اگست کو کراچی کے علاقے صدر سے لاپتہ کردیا گیا۔ مزید یہ کہ باکسر شعیب ولد غلام علی بابا کو لیاری کے علاقے سنگولین سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کے مختلف بلوچ اکثریتی علاقوں میں آپریشن جاری ہے۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق عمر بلوچ محلّہ، فقیر کالونی اور گولیمار میں سرچ آپریشن کیا گیا، فقیر کالونی میں بروز جمعرات شام 6 بجے سے رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی گئی جن میں خواتین اہلکار بھی شامل تھیں اور علاقے کو محاصرے میں لے لیا گیا۔ علاقائی ذرائع کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر جامع تلاشی لی گئی، لوگوں کے شناختی کارڈز، موبائل فونز کی ڈیٹا کو چیک کیا گیا۔ تاہم گرفتاری کی فی الحال کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ گولیمار میں بھی سرچ آپریشن کی گئی جبکہ گرفتاریوں کے حوالے سے ابتک کوئی معلومات نہیں۔ دوسری جانب حب چوکی سے متصل علاقے رئیس گوٹھ میں بھی گذشتہ دنوں رات گئے فورسز نے بڑی تعداد میں علاقے کو گھیرے میں لے کر گھر گھر تلاشی لی ہے اور گھروں میں موجود خواتین اور بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ رئیس گوٹھ میں دروان چھاپہ فورسز نے باقر نامی ایک نوجوان کو حراست میں لیا تاہم اگلے روز اس کو چھوڑ دیا گیا۔ ریاستی اداروں نے کراچی سے بلوچستان کے دو رہائشیوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔ لاپتہ ہونے والوں کی شناخت طفیل ولد شیر محمد سکنہ مند کیچ اور دینار ولد محمد اقبال سکنہ پروار مشکے کے ناموں سے ہوئی ہیں۔ ان میں سے دینار کو فورسز نے کراچی مرشد اسپتال سے حراست میں لیا جبکہ طفیل کو آغا خان اسپتال کے سامنے سے اس وقت حراست میں لیا جب وہ مسجد سے نماز پڑھ کر واپس نکل رہا تھا۔ دوسری جانب کراچی کے بلوچ اکثریتی علاقے لیاری سے اطلاعات ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے سے ریاستی اداروں کا آپریشن اور گھر گھر تلاشی جاری ہے، تاہم اس دوران کسی قسم کی گرفتاری کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ گزشتہ ہفتے کراچی کے علاقے ہاکس بے سے داد شاہ شاشانی کو بھی جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جن کی فیملی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ساتھ مل کر ان کی اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کراچی پریس کلب کے سامنے دو روزہ احتجاجی کیمپ و مظاہرہ کیا لیکن تاحال ان کا بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا اور وہ بازیاب نہیں ہو سکے۔ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے کہ ان مسئلوں کو کسی طرح سے حل کرنے کا کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا اور جواب میں بس آئے روز جبری گمشدگیوں کا معاملہ تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے جو کہ کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ریاست امن کا داعی نہیں ہے بلکہ اس ریاست میں بس ان کو آئے روز طرح طرح سے بلوچ نسل کشی کی نئی نئی ترکیب و تجویزیں تلاش کرنی ہیں اور اگر یہ ہی ان کا منشاء ہے تو ہم بھی یہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم اپنی آخری سانس تک مزاحمت کو جاری رکھیں گے اور جس طرح سے وہ نسل کشی کے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کریں گے ہم لوگ بھی مزاحمت کے راستے کو وسیع سے وسیع تر بناتے جائیں گے۔