بلوچ قوم کئی دہائیوں سے جبری گمشدگی اور “مارو اور پھینکو” جیسی پالیسیوں کا شکار ہے۔ روزانہ تعلیمی اداروں کے طلبہ اور گھروں کے چراغوں کو زبردستی اٹھایا جاتا ہے، گھروں کی چادر اور چار دیواری کی پامالی معمول بن چکی ہے۔ انہیں سیاہ زندانوں میں اذیتیں دی جاتی ہیں، اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔

یومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، فروری 2025 میں 144 بلوچ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے، جن میں سے 46 کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ نومبر 2024 میں 118 بلوچ جبراً لاپتہ کیے گئے، جبکہ 68 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ ستمبر 2024 میں 52 افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئے، اور 43 کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ ایچ آر سی بی کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، 1 جنوری 2024 سے 31 جنوری 2025 تک 180 بلوچ نوجوانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، اور ان کی خون میں لت پت لاشیں پھینکی گئیں۔ بلوچستان میں خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں! ہر روز، ایک نئی قیامت ٹوٹتی ہے۔ بلوچ قوم کے نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ وہ معصوم چہرے، جنہیں ماں اور بہنیں احترام میں آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھیں، آج مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ویرانوں میں پھینکے جا رہے ہیں۔ وہ ہنسی، جو گھروں میں خوشیوں کی گونج بن کر رہتی تھی، ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی گئی ہے۔ وہ غصہ، جس میں بھی ایک محبت اور اپنائیت تھی، مٹی میں ملا دیا گیا ہے۔

وہ بھائی، جن کے سہروں کو بہنیں بڑے ارمانوں سے تھامے ان کے دلہا بننے کا خواب دیکھتی تھیں، آج ان کے لیے کفن بھی نصیب نہیں۔ ان کی آوازوں کو گہرے صحراؤں میں دفن کر دیا گیا ہے، جہاں نہ کوئی سننے والا ہے، نہ کوئی انصاف دینے والا۔

مہینوں، سالوں کی اذیت کے بعد، جب ان کی خون میں نہائی لاشیں پھینکی گئیں، تو لواحقین پر ایک اور ظلم ڈھایا گیا—انہیں ان کے پیاروں کا آخری دیدار بھی نصیب نہیں۔ کیا مرنے کے بعد بھی ان سے خوف آتا ہے؟ کیا یہ لاشیں بھی تمہارے لیے خطرہ ہیں؟ کیا تمہیں ڈر ہے کہ لواحقین انہیں زندہ کر کے تمہارے خلاف کھڑا کر دیں گے؟ یا پھر تم جانتے ہو کہ ان کی خاموشی بھی ایک چیخ ہے جو تمہارے ظلم کے خلاف اٹھے گی؟

کل، بروز سوموار، 17 مارچ کو، کوئٹہ سول اسپتال میں 34 لاشیں منتقل کی گئیں۔ مگر تب بھی لواحقین کو ان کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ کیا اب بھی ظلم کی انتہا باقی ہے؟ کیا درد کے اس سمندر کی کوئی حد نہیں؟

مگر جب اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے، تو یا تو دہشت گرد کہا جاتا ہے یا باغی۔ کبھی سرفراز بگٹی جیسے “دلارے” تو کبھی عبد الرحمن کھیتران جیسے نام نہاد بلوچ، ہمیشہ بلوچ روایت کے خلاف بیانیہ تشکیل دیتے ہیں۔ بلوچ روایات کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ گویا بلوچ اپنی اقدار کے برخلاف جا کر مہمانوں کا قتل کرتے ہیں۔

سب سے پہلے، میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ کوئی قابض جبرًا کسی آزاد زمین میں گھس آئے تو وہ مہمان نہیں ہوتا، بلکہ قابض ہی سمجھا جائے گا۔ جہاں ظلم ہوگا، وہاں بغاوت ہوگی، اور جہاں غلامی مسلط کی جائے گی، وہاں آزادی کی جدوجہد زور پکڑے گی۔ لیکن سرفراز بگٹی، جو بلوچوں کی جدوجہد کو روایت کے خلاف کہتا ہے، کیا وہ خود بلوچ قوم سے غداری کر کے کسی قابض کا ساتھ دینا بلوچ روایت کے مطابق سمجھتا ہے؟ کیا بلوچستان کے وسائل لوٹ کر خود کو پاکستانی کہنا بلوچ روایات کے خلاف نہیں؟

چلو مان لیا کہ ہم بلوچ روایت کے خلاف ہیں، تو پھر آپ اپنے نام نہاد اسلامی ریاست کے محافظوں کو اسلامی اقدار کیوں یاد نہیں دلاتے؟ اگر اپنے دشمن اور نوآبادکار کے خلاف مزاحمت کرنا بلوچ روایت کے خلاف ہے، تو گھروں کی حرمت پامال کرنا، ماؤں کی گود اجاڑنا، بہنوں کو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دن رات سڑکوں پر رُلنے پر مجبور کرنا کیا اسلامی تہذیب ہے؟ سرعام عورتوں کی عزتیں پامال کرنا کیا اسلامی اقدار ہیں؟

مان لیتے ہیں کہ ہم نے بلوچ روایت کو پس پشت ڈال دیا، لیکن اسلام اور اسلامی تہذیب عورتوں—ماؤں اور بہنوں—کو عزت اور غیرت قرار دیتی ہے۔ تو پھر کیسے اسلامی تہذیب اور اسلامی شریعت یہ گوارا کر لیتی ہے کہ چوکیوں، سڑکوں، اور شاہراہوں پر بلوچ عورتوں کے دوپٹے کھینچے جائیں، انہیں گالیاں دی جائیں، ان پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی جائے، اور انہیں گھسیٹا جائے؟

عبدالرحمٰن کھیتران بلوچ روایت پر بڑی بڑی باتیں کرتا ہے، لیکن کیا ایک تقریر اس کے اپنے گناہ چھپا سکتی ہے؟ کیا وہ یہ بھلا سکتا ہے کہ ایک ماں، جس کے ہاتھ میں قرآن تھا، فریاد کرتی رہی، مگر اس کی آواز کو رد کر دیا گیا؟ کیا وہ اپنی نجی جیلوں میں بچوں کو قید کرکے، پھر ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دینے کا حساب دے سکتا ہے؟

میں نے پاکستان کے کسی آئین، کسی شق، کسی ترمیم، کسی سیکشن، کسی آرڈیننس، یا کسی عدالتی فیصلے میں یہ نہیں دیکھا اور نہ سنا کہ کسی مجرم کو سزا دینے کے لیے اسے جبری طور پر لاپتہ کیا جائے، اذیت خانوں میں تشدد دیا جائے، ماؤرائے عدالت قتل کرکے اس کی لاش پھینک دی جائے۔ پھر بھی بلوچ تو بغیر کسی جرم کے مارے جا رہے ہیں۔

جب آپ کے فوجی چھٹیوں میں ٹرین میں سوار ہو کر گھروں کو لوٹتے ہیں، تو وہ فوجی نہیں ہوتے، لیکن جب بلوچ نوجوان قلم اور کتاب تھام کر تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں، تو وہ باغی کہلاتے ہیں! جب آپ ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری ماؤں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ہمارے چراغوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، تو آپ رکھوالے بنتے ہیں، لیکن جب ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تو ہمیں دہشت گرد کہا جاتا ہے؟ آپ کی تہذیب اور روایت کو تو داد دینی پڑے گی!

اور سرفراز بگٹی، جو بلوچ روایت کو کاؤنٹر کرتا ہے، اگر وہ روایت کے پاسدار ہیں، تو پھر اپنی زبان سے کیوں مکر گئے؟ جب نواب اکبر خان کے گھر پر انٹرویو لیا جا رہا تھا، تو سرفراز بگٹی اور شاہ زین بگٹی جیسے ریاستی بت بھی موجود تھے۔ تب وہ یہی کہتے تھے کہ “میں اپنے دادا جیسا بنوں گا، ان کی اطاعت کروں گا۔” تو پھر، سرفراز بگٹی، آپ نے اپنی بلوچی زبان کو کیوں رد کیا؟ آپ نے بلوچ کوڈ آف کلچر کو کیوں جھٹلایا؟ آپ تو روایت کے پاسدار ہیں، نہ؟

1 جون 2024 کو آواران کے رہائشی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو لاپتہ کیا گیا، اور ان کی فیملی کو دھمکیاں دے کر خاموش کرایا جا رہا ہے۔ کیا یہ کسی تہذیب یا قانون کے مطابق ہے؟ وہ ایک ڈاکٹر ہیں، پھر انہیں 9 مہینے سے قید میں رکھنا درست ہے، لیکن اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا دہشت گردی؟

12 جون 2024 کو دلجان بلوچ کی فیملی کو احتجاج سے زبردستی ہٹا دیا گیا، ان پر جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔ کیا یہ غلط نہیں، مگر ان کا اپنے پیارے کی بازیابی کے لیے نعرے لگانا جرم ہے؟

14 مارچ 2025 کو ایف ایس سی کے طلبہ فہیم بلوچ اور خادم بلوچ کو کوئٹہ کے سمنگلی روڈ سے رات 1 بجے لاپتہ کر دیا گیا، اور ان کے اہلخانہ کو منگوچر میں دھرنے کے دوران ہراساں کیا گیا۔ وہاں نہ بچوں کا خیال رکھا گیا، نہ عورتوں کا۔ مگر سرفراز بگٹی کہے گا کہ “یہ 18 سالہ نوجوان اپنی بیوی سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ گئے۔”

جے یو آئی، ضلع کیچ کے جنرل سیکریٹری مفتی شاہ میر بزنجو نے جب ریاست کے کارندے ہونے اور بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے پر پھچتاوہ کرکے ریاست سے لاتعلقی کا اظہار کیا، تو ریاست کے کارندوں نے 8 مارچ 2025 کو انہیں خدا کے گھر سے نکلتے ہی خالق حقیقی سے جا ملایا اور اس قتل اور ہلاکت کا الزام بلوچوں پر لگا دیا گیا۔ اب شاہمیر بزنجو کو قتل کرکے ان کے تمام عالم دین ساتھی کو اس بات پر اکسانا کہ بلوچ مفتیوں کے خلاف ہے اس لیے مفتی شامیر بزنجو کو قتل کردیا گیا۔ یہ بلوچ قومی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کا ایک نیا حربہ ہے۔ جہاں آج بھی اسلام کا ناجائز استعمال کیا جا رہا ہے۔ جہاں آج تک آئی ایس آئی بلوچ تحریک کے بر خلاف رہی وہاں اب انقلاب اسلامی پاکستان تشکیل دی گئی جہاں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اسلام اور امن کا گہوارا بنایا جائیگا۔ اور اسلام کے مخالفوں کے خلاف جدوجہد کی جائیگی۔ جو ملک اسلام اور مذہب کے نام پر بنی ہو 76 سالوں میں جو اسلامی شریعت کی اطاعت نہ کر پائے، جہاں اسلام کو ایک فائدے کے لیے استعمال کیا گیا وہ کس کے لیے انقلاب اسلامی پاکستان تشکیل دے رہیں ہیں۔ جو خود ہی اسلام کی اطاعت نہ کر پائے وہ دوسروں سے کیا کروائے گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جبری گمشدگی، ماؤرائے عدالت قتل اور “مارو اور پھینکو” کی پالیسی کے علاوہ بلوچوں کا خاتمہ کرنے اور ان کی تحریک کو جڑ سے اکھڑ پھینکے کا یہ بھی ایک نیا حربہ ہے۔

کیچ، تربت سے تعلق رکھنے والے ایم فل اسکالر اللہ داد، جو کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے فارغ التحصیل طالب علم تھے، کو سفاک ریاست کے کارندوں نے 4 فروری 2025 کو ان کے گھر کے آنگن میں بے دردی سے قتل کر دیا۔ نہ صرف ایک گھر کا شیرازہ بکھیر دیا گیا، بلکہ اس سے پہلے 2020 میں حیات بلوچ کو ان کے معصوم والدین کے سامنے 8 گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔

اسی طرح، اگست 2023 میں بولان اسکول تربت کے ایک بلوچ استاد اور کتاب دوست، عبدالرؤف کو جرگہ جاتے وقت گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا، اور ان کی خون میں لت پت لاش وہیں چھوڑ دی گئی۔

مزید برآں، 18 مارچ 2014 کو شال (کوئٹہ) سے لاپتہ ہونے والے بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کے بھائی، شاہ جان بلوچ کو 15 مارچ 2025 کو نال، خضدار میں انتہائی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔

بلوچ نوجوانوں کو قتل کرنے، ان پر حملے کرنے، پھر انہی کو حملہ آور قرار دینے اور دہشت گرد یا باغی کا نام دینے کا یہ کون سا قانون ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے؟

بلوچ نوجوانوں کو بےگناہ جبری گمشدہ کرنا، ان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگا کر ماورائے عدالت قتل کرنا ایک سنگین جرم ہے، جو ناقابلِ قبول ہے۔

ہمیں تو اپنے انجام کی پروا نہیں، کیونکہ ہمیں دہشت گرد کہا جاتا ہے، مگر کیا آپ بھی اپنے خدا اور آخرت بھول چکے ہیں؟

اگر کسی بلوچ نوجوان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے، تو عدالت میں پیش کریں اور قانون کے مطابق سزا دیں۔ مگر انہیں زبردستی لاپتہ کرنا، تشدد کا نشانہ بنانا، اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنا کسی بھی مذہب، کسی بھی تہذیب اور کسی بھی قانون میں جرم کے لیے جائز سزا نہیں۔