ریاست کے لیے یہ ایک بہت پریشان کن بات تھی کہ جب بھی کسی جبراً لاپتہ کیے گئے بلوچ نوجوان مزاحمت کار کی مسخ شدہ یا تشدد زدہ لاش ملتی یا کوئی بلوچ نوجوان ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبراً لاپتہ ہوتا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور صبغت اللہ شاہ جی بلوچ کی بے لوث اور بے باک قیادت میں مقبوضہ بلوچستان کے گلی کوچوں میں نکل آتی۔ وہ ریاستی ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے اور ہزاروں لوگوں کو جمع کر کے ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرتے۔

 اس کے نتیجے میں عوام میں ریاستی اداروں کا خوف و ہراس ختم ہو گیا تھا، بلکہ ریاستی ادارے جبری طور پر لاپتہ کرنے کی پالیسی کی دفاع کرنے کی defensive پوزیشن پر چلے گئے تھے جبکہ بی وائی سی ریاست کے مقابلے میں حملہ آور (offensive) پوزیشن میں تھی۔

مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی خلا کو بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی بے لوث قیادت نے پر کرنے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب ہو گئی تھی۔ اس قیادت نے مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کے خلاف ریاستی ظلم و بربریت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ریاستی دہشت گردی کی پالیسیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اپنی آواز پہنچائی تھی۔ بلوچستان میں ہر بلوچ، بی وائی سی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا۔ بی وائی سی کی قیادت کے کال پر لوگ ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ جاتے تھے۔ بی وائی سی بلوچوں کی ایک توانا آواز بن کر ابھری تھی۔

بی وائی سی کی قیادت کی انتھک کوششوں سے بلوچ عوام میں ریاستی ظلم کے خلاف جرات اور سیاسی بیداری پیدا ہوئی، جس کے نتیجے میں ہر بلوچ ریاستی ظلم و جبر کی پروا نہیں کرتا تھا۔ ریاست، بی وائی سی کی قیادت کی جرات مندانہ پالیسیوں سے بہت پریشان تھی، کیونکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی ان قربانیوں کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا جو انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور ریاستی مشکلات برداشت کرنے میں دی تھیں۔

اسی اثناء میں اچانک سردار اختر مینگل دبئی سے واپس آئے اور اپنے آبائی علاقے وڈھ کے پولیس تھانے میں غیر ضروری طور پر ایف آئی آر کے خلاف دھرنا دے دیا۔ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر انہیں کوئی پذیرائی نہ ملی۔ بلکہ سردار صاحب کے بڑے بھائی میر جاوید مینگل نے بھی سردار کے اس عمل کو غیر ضروری اور غیر متعلقہ قرار دے دیا۔

جب جعفر ایکسپریس ٹرین کا واقعہ رونما ہوا اور ریاست نے بے گناہ بلوچ نوجوانوں کے جبراً لاپتہ ہونے کا لا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا، جبکہ ریاستی حراست میں بہت سے بلوچوں کو ماورائے قانون قتل کر کے انہیں انکاؤنٹر کا نام دیا گیا، تو بی وائی سی کی قیادت نے ریاست کے اس عمل کی سخت مخالفت کی اور احتجاج شروع کیا۔ جب ریاست نے بی وائی سی کی اعلیٰ قیادت کو بغیر کسی جرم کے حراست میں لے کر پابند سلاسل کر دیا، تو بی وائی سی کے احتجاجی کال پر لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اتنے میں سردار اختر مینگل نے بی وائی سی قیادت کی رہائی کے لیے بلوچ ناموس لانگ مارچ کا اعلان کیا اور کوئٹہ میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔

بی وائی سی سے ایک طرف تو ریاست پریشان تھی، تو دوسری طرف بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی بھی بہت نالاں تھے، کیونکہ بی وائی سی نے ان جماعتوں کو غیر متعلقہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ بی وائی سی کے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے تھے، جبکہ ان (دوسری جماعتوں) کے جلسوں و جلوسوں میں مشکل سے دو سو سے زیادہ افراد ہی جمع ہوتے تھے۔ بی وائی سی کو ریاست، بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی نے اپنا دشمن قرار دے دیا تھا۔

ریاست نے ظلم و جبر کے خلاف لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کو دبانے کے لیے بی این پی مینگل کا انتخاب کیا۔ بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور دیگر گروہ بی وائی سی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے ریاست سے ملے ہوئے تھے۔ بی این پی مینگل اس وقت تک دھرنے میں موجود رہے جب تک ریاست کو بی وائی سی کو دبانے کا بھرپور موقع نہ مل گیا، اور وہ دوبارہ لوگوں میں ریاستی خوف و ہراس بحال کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی۔

جب بی این پی مینگل نے دیکھا کہ لوگوں کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے ہیں، تو ڈرامہ کر کے اپنا دھرنا ختم کیا اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے تین /چار علاقوں میں جلسے کر کے ریاست سے آکسیجن لے کر ریاستی ایجنڈے کے تحت خاموش ہو گیا۔ لوگوں کے خدشات بالکل درست ثابت ہوئے کہ بی این پی مینگل کو ایک منصوبے کے تحت بی وائی سی کی قیادت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی، اور بی این پی نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔