میرے نزدیک، بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی نے کافی تعداد میں بلوچوں کو اپنی جماعتوں کے ساتھ مصروف رکھا ہوا ہے۔
ریاست نے ان جماعتوں کو اس سیاست میں کسی حد تک جگہ (space) بھی فراہم کی ہے۔ ریاست کا یہ اقدام اس لیے ہے تاکہ ان جماعتوں سے وابستہ افراد بلوچ مزاحمتی تحریک کی طرف رجوع نہ کریں۔
اس عمل کا براہِ راست فائدہ ریاست کو ہو رہا ہے، جبکہ نقصان مزاحمتی تحریک کو پہنچ رہا ہے۔ کوئی اس بات کو مانے یا نہ مانے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اندرونِ خانہ، ان تینوں جماعتوں کے کردار میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ ان کے درمیان فرق موجود ہے۔
کوئی بی این پی مینگل کو بہتر سمجھتا ہے، کوئی نیشنل پارٹی کو ترجیح دیتا ہے، تو کوئی بی این پی عوامی کو فوقیت دیتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ہمارے اپنے مفادات اور ان سے وابستہ امیدوں کا معاملہ ہے۔ اسی لیے ہماری باتوں میں “اگر”، “مگر”، “لیکن” آجاتے ہیں، ورنہ ان جماعتوں کے درمیان ریاست کی سہولت کاری اور بلوچوں کو دھوکا دینے کے معاملے میں کوئی فرق نہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان تینوں جماعتوں (نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی اور بی این پی مینگل) میں بلوچوں کی کافی تعداد موجود ہے۔
بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی، بلوچوں کو مزاحمتی تحریک کی طرف جانے سے روکنے میں کسی حد تک ریاست کے ساتھ مل کر اپنی کوششوں میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ جماعتیں ریاست کے ایجنڈے پر پوری طرح اور خوش اسلوبی سے کام کر رہی ہیں کیونکہ ریاست نے ان جماعتوں کے رہنماؤں کو ذاتی مفادات کا لالچ دے کر ان کے کارکنوں کو سیاسی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔