گوادر (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے گرفتار کمانڈر گلزار امام کو ایک بار پھر پاکستان کے کسی نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شوم میں پیش کیا گیا۔
بلوچ گوریلہ کمانڈر گلزار امام نے نجی ٹی وی کو دیئے گئے جبری انٹرویو میں کہا کہ 2001 سے لیکر ابتک بلوچستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد مسلح جنگ کا حصہ بن گئی ہے۔
گلزار امام نے کہا کہ مسلح جدوجہد میں شمولیت کی وجہ اپنی سرزمین پر ہونے والے ناانصافیوں اور نواب اکبر بگٹی کے شہادت کے بعد پیدہ ہونے والے حالات پر ہوئی تھی۔
گلزار امام نے کہا کہ بلوچستان کے چند علاقے فوج کیلئے نو گو ایریا بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے تنظیم میں لوگوں کی شمولیت آسانی سے ہو جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور گوادر پورٹ بھی ہے یہاں (یعنی پنجاب) تعلیم، صحت یا بنیادی سہولیات کا نظام دیکھ لیں اور گوادر کو دیکھیں جہاں مچھیرے آج بھی بنیادی حقوق کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔
بلوچ سرداروں کیخلاف صحافی کے چار بار پہ در پہ سوال پر گلزار امام نے کہا کہ سرداری نظام بلوچی روایت کا حصہ ہے اس میں جدت لانے کی ضرورت ہے لیکن جان بوجھ کر دونوں جانب (یعنی ریاست اور سرداروں) کی جانب سے قبائلی علاقوں کو پسماندہ اور لوگوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا کیونکہ لوگ اپنے حقوق جاننے لگیں گے۔
ہندوستان کی مدد کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے بزات خود ہندوستان کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملی، مکران جو کہ ایک انٹرنیشنل روٹ ہے جہاں منشیات فروشوں کے منشیات ضبط کرکے اسے عالمی منڈیوں میں فروخت کیا اور اسی سے اپنی تنظیم کاری کرتے تھے البتہ ایک بار علاج کیلئے افغانی پاسپورٹ کے ذریعے ہندوستان گیا ہوں۔ وہاں بھی کوئی مدد نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی ادارے سے ملاقات ہوئی بس تاج محل کا زیارت کرکے واپس ہوا۔
لاپتہ افراد کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک متنازع خطہ ہے وہاں یہ مسائل لازمی ہوں گے جو کہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جہاں سیاسی کارکن حتٰی کے صحافی بھی لاپتہ اور انکی لاشیں ملی ہیں لیکن لاپتہ افراد کے عدالتوں میں مقدمے ہونے چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ کی یا دنیا میں کوئی بھی مسلح جنگ اور مسلح مذاحمت کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اپنے مخالف فریق کو کسی نا کسی طریقے سے نقصان پہنچائی جائے اور میں بھی ریاست کیخلاف انتہائی سطح پر گیا ہوں۔
انہوں نے آئی ایس آئی کی کامیابی کے سوال پر کہا کہ میری گرفتاری آئی ایس آئی کی کامیابی تو ہے لیکن بلوچ مسلح تنظیموں کے کچھ لوگ شریک تھے جو زاتی طور پر میرے سے رابطے میں تھے۔