زاہدان(ہمگام نیوز ) اطلاعات کے مطابق آج بروز جمعہ کو شہدائے زاہدان کی یاد میں جمعہ کی نماز کے بعد بلوچ عوام نے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک ریلی نکالی، ریلی میں ہزاروں بلوچوں نے شرکت کی ، ریلی میں مظاہرین نے 30 ستمبر 2022 میں زاہدان میں قابض ایرانی آرمی اور سیکورٹی فورسز کی براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے قابض ایران ریاستی دہشتگردی کے خلاف بھر پور نعرہ لگایا ۔ رپورٹ کے مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر قابض ایران کی بڑھتی ہوئی مظالم کے نعرے درج تھے ـ زاہدان کے عوام سخت فوجی اور سیکورٹی صورتحال کے باوجود احتجاجی نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آئے اور شہدا کے حق میں نعرے لگائے ـ مظاہرین نے نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ ” شہیدوں کا خون رائیگان نہیں جائے گا ” خون کا بدلہ خون سے لیں گے ” مرگ بر خامنہ ای” اور مولوی عبدالحمید کی حمایت میں نعرہ لگائے ہوئے مولانا مراد زہی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا جبکہ بلوچ مظاہرین نے بلوچ سیاسی قیدیوں کی بھی رہائی کا مطالبہ کیا ، اس کے علاوہ بلوچ قیدیوں پر ایرانی جیلوں میں قابض کے ہاتھوں تشدد اور پھانسیوں کو لے کر احتجاج کیا ـ   رپورٹس کے مطابق جب بلوچ مظاہرین کی ریلی زاهدان کے خیام اور المردان گلی میں پہنچی تھی تو پہلے سے تعنیات قابض ایرانی آرمی آئی آر جی سی IRGC اور دیگر سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر زبردست فائرنگ کیا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کہا جاتا ہے ایرانی درندہ صفت فوج نے خیام اور المردان گلی کے پہلے حصے سے عوام پر حملہ کیا اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی جبکہ بلوچ مظاہرین پر ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس سے شیلنگ کی۔   رپورٹ کے مطابق ل مکی مسجد کو قابض ایرانی سیکورٹی فورسز اور افواج نے گھیرے میں لیا ہے جس عوام نے مسجد کے اندر پناہ لی ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی جابر فورسز نے متعدد بلوچ نوجوانوں کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں سیکیورٹی اداروں نے زاہدان میں مکی مسجد اور اردگرد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے ہیں۔ لہذا، اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مظاہرین حفاظتی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ مزید رپورٹ کے مطابق بلوچ مظاہرین زاہدان مسجد سے باہر نکل رہے ہیں اور ہر چند میٹر کے فاصلے پر فوجی دستوں کی بڑی موجودگی نے ماحول کو مکمل طور پر غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 30 ستمبر کو زاہدان میں قابض ایرانی آرمی آئی آر جی سی اور سیکورٹی فورسز نے زاہدان میں بلوچ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 100 سے زائد بلوچ شہید ہوئے تھے اور 300 سے قریب بلوچ زخمی ہوگئے تھے، زخمیوں میں سے درجنوں بعد میں زخموں کی شدت نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔ یہ مظاہرہ اس وقت شروع ہوا جب چابہار میں قابض ایرانی پولیس نے ایک 16 سالہ بلوچ بچی ماہو کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا جب اس واقعہ کی تصدیق مولانا عبدالغفار نقشبندی نے کی تھی تو بلوچ عوام قابض ایرانی پولیس کے خلاف سڑکوں پر نکل کر اس جبر کی خلاف زبردست مظاہرہ کیا جبکہ اسی دوران ایک کرد خاتون مہسا امینی کی ریاستی قتل کو لے کر بلوچ عوام نے کردوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے 30 ستمبر کو زاہدان میں مظاہرین کی شکل میں مکی مسجد کے اطراف جمع ہو کر ایرانی ریاستی دہشتگردی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ نوٹ: سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ویڈیو اور تصاویر میں مظاہرین کے چہروں کو چھپایا گیا ہے۔