بلوچستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسی دلکش سرزمین ہے جس تک پہنچنے کیلئے ہزاروں سال سے لے کر آج تک تمام غیر اقوام اور ان کے شہنشاہ جتن کرتے رہے اور اس پر ملکیت کے خواب دیکھتے رہے۔

کئی ایسی اقوام بلوچستان میں آ کر بلوچستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں جنکے ہاں صرف زندہ رہنے کے لیئے لوازمات تھے، لیکن بلوچستان بلوچوں کے لئے ایک ایسا وطن ہے جس کی سرزمین نے نہ صرف بلوچ قوم کیلئے غذائی ضروریات کو پوری کی ہیں بلکہ اس گلزمین کے ہر ذرے نے بلوچ کو جینے کے تمام ہنر سکھا دیئے ہیں۔

جب برطانیہ بلوچستان میں داخل ہوا تو ابتدا میں سب سے پہلے بلوچ قوم کی نفسیات، کلچر، زبان و لبزانک اور دیگر اقدار کا تحقیقی مطالعہ کرنے لگا اس کے بعد برطانیہ نے مجموعی طور پر فیصلہ کر لیا کہ اس قوم کا سب سے بڑا خدا ان کے سردار اور سماجی اقدار ہوتے ہیں وہ اپنے قبائلی سرداروں کو خدائی صفات بخشتے ہیں تو انہوں نے بلوچوں کو تھوڑنے یا تقسیم کرنے کے لیئے عام بلوچ کو سرداروں کے خلاف اکسایا جو کہ کافی حد تک ان کا یہ حربہ کامیاب رہا پھر جب بلوچ قابو میں نہیں آئے تو بلوچستان کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا اس بار وہ کافی حد تک کامیاب رہے کیونکہ بلوچستان کے ایک حصے پر ایران قابض ہوگیا اور ایک بڑا حصہ افغانستان کے ہاتھ لگا۔

اس کے بعد وہ بلوچستان پر بلاواسطہ حکمرانی کرنے لگے، بلوچستان کا ساحل بھی اسی طرح تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک وسیع ساحلی علاقہ ایران کے قبضے میں چلا گیا جس کی ایران ہمیشہ خواہش و کوشش میں تھا۔

1947 میں برطانیہ کے چلے جانے کے بعد بلوچستان کے لوگوں کو چند مہینوں کی آزادی ملی تھی لیکن 1948 میں پاکستان نے برطانیہ کے منصوبے اور مدد سے جبری طور بلوچستان پر قبضہ جما لیا۔

بلوچ قوم نے شروع دن سے لیکر پاکستان کے اس ناجائر قبضے کو تسلیم نہیں کیا تھا اسی سبب بلوچوں نے پاکستان کے خلاف چار جنگیں لڑیں ۔

رواں جنگ کی شروعات اکیسویں صدی کے اوائل میں کی گئی جو کہ اب تک اپنی پوری شدت سے جاری ہے۔ اس جنگ کی شروعات بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے نے کی ہے جو کہ ایک اچھی پیشرفت تھی اور اب بھی جنگ آزادی جاری ہے۔ لیکن دشمن نے اس تحریک کو کمزور کرنے کے لیئے ہر طرح کی کوشش کی جو کہ کبھی بھی بارآور ثابت نہیں ہوئی۔ بلوچ تحریک اس وقت کمزور پڑ گئی جب لیڈرشپ کی سطح پر اختلافات کھل کر سامنے آئے کیونکہ کچھ لوگوں میں لیڈر بننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی لیڈر بنوں۔

دشمن کے لاکھوں جتن اور ہمارے وہ لوگ جن کو زندہ رہنا چاہئیے تھا، جن کو مزید کام کرنے کی ضرورت تھی ہم سے جب جُدا ہوئے تھے چیزیں آہستہ آہستہ ہاتھوں سے نکلنے لگیں۔ بی این ایم کے چئیرمین شہید غلام محمد کی شہادت ہماری قومی تحریک کی وہ خلا ہے جو کبھی بھی پُر نہیں ہوسکے گا۔ بہت سے نادان دوستوں نے ان کی زندگی ہی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی مگر ان کی موجودگی میں ایسا کرنا ممکن نہ ہوا۔ دشمن کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اگر شہید غلام محمد کی قیادت سے بلوچ محروم ہوجائے تو کافی چیزیں اس کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق ہوسکتی ہیں لہٰذا اس نے شہید کی قیادت ان کی شہادت کی صورت میں ہم سے چھین لی، کیونکہ دشمن کو اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ ان کے بعد ذمہ داریاں ایسے لوگوں کو ہاتھ لگیں گی کہ مرتبے پر موجود ہوتے ہوئے بھی وہ قومی مفادات کے محافظ نہیں بن پائیں گے۔ ایسا ہی ہوا، ان کی شہادت کے فوری بعد بلوچ نیشنل فرنٹ بکھر گیا، مسلح مزاحمتی تنظیموں میں بھی زوال کا رجحان زور پکڑنے لگا جس کی واضح مثال یو بی اے اور بی این ایل ایف کا بننا ہے۔

بی ایس او جو ہمیشہ تحریک میں صف اوّل کا کردار ادا کرتی رہی ہے میں بھی دراڑیں پڑنے لگیں جس کے بعد کافی اندرونی معاملات سوشل میڈیا میں آنے لگیں جس سے ہر کسی کے سامنے تصویر کی دھندلی ہی صحیح اصل صورت سامنے آگئی۔ حقائق سامنے لانے اور تنقید برائے تعمیر کو گالی گلوچ اور بد تمیزی و بد تہذیبی کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا۔

رفتہ رفتہ معاملات اور بگڑتے گئے اور ایک دفعہ پھر مسلح مزاہمتی تنظیم بی ایل اے کو توڑا گیا جس کے بعد بی آر اے بھی تقسیم ہوگیا۔

بی ایل اے کی اس تقسیم کے پیچھے بشیر زیب اور شہید اسلم بلوچ کے ساتھ کچھ دوسرے دیدہ نادیدہ قوتوں کا ہاتھ تھا، ٹھیک اُسی طرح بی آر اے بھی گلزار امام اور کچھ دیگر دیدہ نادیدہ قوتوں کی خواہشوں و کوششوں کے باعث تقسیم ہوگیا۔ یہ تقسیم پُرانی تقسیم سے زیادہ خطرناک اور پریشان کُن ہے کیونکہ اس دفعہ ان دونوں تقسیم کاروں نے نہ صرف تنظیمیں توڑنے کا گھناؤنا جرم کیا بلکہ تنظیم کے نام کو بھی ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

دونوں تنظیموں کے حوالے سے ان کی مرکزی قیادت بیان جاری کرچُکی ہے لیکن حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر اور بی این ایم اس تقسیم کاری پر خوش لگ رہے ہیں جس کی واضح مثال ایسے کرداروں کے احتساب کی بجائے ان کو خوش آمدید کہہ کر ان کی مدد بھی کررہے ہیں۔

اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد جس طرح سے بشیر زیب تحریک کا بیڑہ غرق کررہا ہے اس کے کچھ نتائج تو امریکی پابندیوں و اقوام متحدہ کی مذمت کی صورت میں منظر عام پر آ چُکے ہیں مزید تباہ کاریاں عنقریب قوم کے سامنے آئیں گی مگر وہ ایسے نتائج ہونگے جن کے شائد ہم ساری عمر کفارہ ادا کرتے رہیں۔ یہ تحریک شہدا کے پاک لہو کی امانت ہے جس کو ہم نے شہدا کے ارمانوں اور قربانیوں کے عین مطابق آگے بڑھانا ہے۔ بی ایس او آزاد ایک منظم طلباء تنظیم تھی جو بلوچستان میں ایک ماس پارٹی سے زیادہ طاقت ور تھی جس نے زندگی کے ہر شعبے میں کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر بشیر زیب کے سبوتاژی مہم اور اس کو مسلح تنظیموں سے جوڑنے کے بچکانہ اور ناعاقبت اندیشانہ روئیے نے ایسی حالت میں پہنچا دیا جہاں یہ منظم تنظیم نہ صرف پس منظر میں چلی گئی بلکہ اب کہیں نظر نہیں آتی آپ کے معاشرے کی کریم شہید کردی گئی۔ یہ سچ ہے کہ تحریکیں قربانیاں مانگتی ہیں اور جب بات آزادی کی تحریک کی ہو تو وہ قربانیوں سروں کی قربانیاں بن جاتی ہیں مگر بی ایس او کے شہید کامریڈوں سے ہمیں وہ زندہ کامریڈوں کی زیادہ ضرورت تھی، مگر پوچھنے پر یار لوگ کہتے ہیں ریاست تو ظاہر ہے یہ عمل کریگی قتل بھی کریگی اور جبری گُمشدگیوں کا شکار بھی بنائے گی۔ اب کوئی جاکر ان کو دکھائے کہ بلوچ طلباء اب بھی سیاست کررہے ہیں، کیا بی ایس او آزاد بساک کی نسبت اپنی سیاست اس وقت جاری رکھ سکتی تھی ایسی مہم جوئی کی کیا ضرورت تھی جس سے ہمارے معاشرے کے نگینے ریاست نے آپ کی بیوقوفیوں کی وجہ سے ہم سے جُدا کردئیے؟

جس طرح اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد دنیا کے مروجہ سیاسی، جنگی و سفارتی دستور کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایڈونچرازم کا راستہ اپنا کے خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کروایاـ، صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیکر تحریک کو بدنام کرنے سے لیکر شوبازی میں ہمارے جان نثاروں کو یوں مذبح خانوں میں بھیجنے تک اس شخص نے ہر وہ عمل کیا جس سے ہماری تحریک کی بدنامی ہوئی یہاں تک کہ جہاں بیس سال سے اوپر کی جنگ نے بلوچ مسلح تنظیم کو دہشتگرد تنظیموں کی لسٹ تک پہنچا دیا مگر اس غیر ذمہ دار شخص نے یہ عظیم کارنامہ بھی سرانجام دیا۔ اگر پچھلے بیس سالوں کا ان دو سالوں میں موازنہ کیا جائے تو نتائج بیس سالوں کے اتنے نقصانات کی صورت نظر نہیں آئیں گے جتنے نقصاندہ اور خطرناک ان دو سالوں کے ہیں۔

دوسری جانب تنظیم سے فارغ کردہ بیشر زیب گروہ نے اپنی غیر ذمہ داریاں جاری رکھتے ہوئے اکثر عوامی مقامات پر حملے کئے جس سے کئی بلوچ شہید و زخمی ہوئے جس کی وجہ سے بلوچ عوام کی تحریک و مسلح تنظیموں سے نفرت بڑھی ہے۔

پچھلے ہفتے اسی طرز کے ایک حملے میں 6 بلوچ زخمی ہوئے جن میں سے بعد میں دو افراد شہید بھی ہوئے۔ ایسی شرمناک کاروائی کے بعد میڈیا میں ایک بیان دیا گیا کہ ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی فوج سے دور رہیں، بندا پوچھے عوام تو دور رہتی ہے مگر جب فوج دور نہیں رہتی تو کیا آپ کی بحیثیت ایک مسلح آزادی پسند جنگجو کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔ آپ اپنے اس اخباری بیان سے تمام تر ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوجاتے ہیں۔ آپ کی تو یہ ذمہ داری ہے کہ آپ عوام کو قابض فوج سے محفوظ رکھیں مگر عوام کو محفوظ رکھنا تو دور آپ اپنے حملوں سے عوام کو جانی نقصان پہنچا رہے ہو۔ اب شہروں میں ہر جگہ فوج چوکیاں بنا کر بیٹھی ہوئی ہے، ان سے دور رہنا ممکن ہی نہیں ہے یا پھر آپ ایک شاہی فرمان جاری کرلیں کہ عوام گھروں سے ہی نہ نکلیں ان کے ضروریات زندگی کی اشیا ان کے گھروں میں مہیا کی جائیں گی تو بات بنے۔

تنظیمیں ہمیشہ سے ایسا کرتی آرہی ہیں کہ جن چیزوں سے انہوں نے عوام کو منع کیا ہے اس کا متبادل بھی فراہم کیا گیا ہے۔ اگر آپ متبادل پیدا کرکے فراہم نہیں کرسکتے تو عوام بیچاری کیا کرے؟

آپ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ کاروائیوں کو زر پہازی نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ تحریک آزادی کو لے ڈوبنے والی بات ہوتی ہے کیونکہ ان کی طرف سے جس طرح کے حملے کئے گئے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ بلوچ قومی تحریک کومستقبل قریب میں اس طرح کی مہم جوئی اور غیر ذمہ داری سے بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔

ایران کے ساتھ بشیر زیب، ڈاکٹر اللہ نظر، گلزار امام اور خلیل بلوچ نے سودا بازی کرکے بلوچستان اور بلوچ شہدا کے خون کو فروخت کر دیا ہے۔ اگر یہ عمل آگے جاکر نقصان دہ نہ ہوتا تو آپ کرلیتے مگر سوچھنے کی بات یہ ہے کہ ایران پاکستان کے خلاف کس بنیاد پر بلوچ تحریک کو مدد فراہم کرسکتا ہے؟ کیا ایران کی انتظامیہ اور مقننہ اتنا بھی نہیں جانتی کہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی آزادی اس کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے؟ اگر وہ اتنے ہی بیوقوف ہوتے تو پورے مڈل ایسٹ میں اپنی اجارہ داری یوں قائم نہ کرتے۔ اگر ایرانی ادارے سی آئی اے اور موساد کا مقابلہ کرسکتی ہیں تو آپ کو ٹِشو پیپر کی مانند استعمال کرکے کچرے میں پھینک دینا ان کے لئے کونسا مشکل کام ہے جب آپ خود چل کر ان کی جھولی میں جاکر گرے ہیں۔

دنیا کی طاقتیں ہمیشہ اپنے ملکی مفادات کے تحت خطے میں رشتے بناتے یا بگاڑتے ہیں۔ اب ایران کے کونسے مفادات ہیں جو آپ سے پاکستان کے خلاف وابستہ ہیں جس کی وجہ سے ایران آپ کو مدد فراہم کرے ہاں البتہ ایک وجہ ہے، وہ یہ کہ پاکستان سعودی عرب کی مدد سے مذہبی انتہا پسندوں کو چند ٹکوں کے عیوض مدد فراہم کررہا ہے جس سے ایران میں انتشار پھیلایا جاسکے ٹھیک اُسی طرح ایران اپنا بدلا لے کر پاکستان میں انتشار پھیلانے کو ہوا دے سکتا ہے لیکن صرف انتشار کی حد تک، مگر آپ کا مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا نہیں بلکہ اپنی قبضہ شُدہ زمین کو پاکستانی قبضے سے آزادی دلانا ہے۔ جب تک آپ کو مدد کرنے والا آپ کی قومی غلامی کو قبول کرکے آپ کی آزادی کی تحریک کی مدد کو اپنی پالیسی نہیں بناتا اُس وقت تک آپ کے ساتھ کیا جانے والا ہر عمل یا فراہم کی گئی ہر مدد وقتی انتشار تک محدود رہ جاتا ہے۔

سنگت حیربیار مری نے اس حوالے سے ایک واضح موقف اپنایا ہے کہ جو ملک یا قوت بلوچ قوم کی مدد کرنا چاہے وہ آگے آکر پہلے اس بات کو تسلیم کرے کہ بلوچ وطن ایک مقبوضہ سرزمین ہے اور بلوچوں کو اپنی آزادی کی جدوجہد کا عالمی قوانین کے تحت حق حاصل ہے لہٰذا ان کی مدد کی جائے گی۔ یہ مدد نہیں کہلائی جاسکتی کہ کوئی قوت آپ کی مدد کو کسی مخصوص کاروائی سے مشروط کردے۔