دوشنبه, اکتوبر 14, 2024
Homeآرٹیکلزسائنس و مذہب میں گستاخ کیلئے سزاوجزا کے قوانین، ...

سائنس و مذہب میں گستاخ کیلئے سزاوجزا کے قوانین، تحریر: ایس کے آزاد

سائنس اپنے گستاخ کو نوبل انعام اور مذہب اپنے گستاخ کو موت دیتا ہے۔

یہ جملہ سائنس اور مذہب کے مابین ایک گہرے تضاد کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں دونوں کے علمی و فکری رویے اور ان کے ساتھ مختلف خیالات و عقائد کو سنبھالنے کے طریقے کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ سائنس اور مذہب میں اس فرق کی جڑیں انسانی تاریخ، فکر، اور علم کے تصور میں پیوستہ ہیں۔

*سائنس اور آزادیٔ فکر*
سائنس کی دنیا میں اختلافات کو فروغ دینے اور نئی دریافتوں کو تسلیم کرنے کی روایت عام ہے۔ کسی سائنسدان کی جانب سے موجودہ نظریات کی تردید یا اختلاف کو بغاوت کے طور پر نہیں بلکہ ایک علمی پیشرفت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی نئی تحقیق یا دریافت سائنسی شواہد پر مبنی ہو اور سابقہ نظریات کو بہتر طریقے سے واضح کرے، تو یہ سائنس کی ترقی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر، البرٹ آئن سٹائن نے نیوٹن کے کلاسیکی قوانین کو چیلنج کیا اور نظریۂ اضافیت پیش کیا، جس کے نتیجے میں ان کی دریافتوں کو سراہا گیا اور انہیں نوبل انعام دیا گیا۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ سائنس میں “گستاخی” علمی بنیادوں پر نہ صرف قبول ہوتی ہے بلکہ اس کا انعام بھی دیا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کو اپنی تحقیق کی بنیاد پر نوبل انعام، فزکس، کیمسٹری، یا طب میں پیش کی جانے والی تحقیق کے نتائج کی بنا پر دیا جاتا ہے۔

*مذہب اور گستاخی کا تصور*
دوسری جانب، مذہب میں گستاخی ایک حساس اور شدید موضوع ہے۔ زیادہ تر مذاہب میں مقدس ہستیوں، الہامی کتب، یا دینی شخصیات کی توہین کو ناقابل معافی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ مذہبی قوانین میں گستاخی کی سزا اکثر انتہائی سخت ہوتی ہے، جو بعض صورتوں میں موت تک پہنچ سکتی ہے۔

اسلامی تاریخ میں سلمان رشدی کی مثال لی جا سکتی ہے، جنہوں نے اپنی کتاب “شیطانی آیات” میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں متنازع خیالات پیش کیے، جس کے نتیجے میں انہیں فتویٰ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں جو مقدس شخصیات یا کتب کے خلاف گستاخی کو برداشت نہیں کرتے۔

*سائنس اور مذہب کے رویے کا تقابل*
سائنس میں نئے خیالات اور مفروضات کو پرکھنے کے لیے تجربات اور تحقیق کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی نئی تحقیق پرانی تھیوری کو غلط ثابت کرتی ہے، تو پرانی تھیوری کو ترک کر دیا جاتا ہے اور نئی کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہ علمی ترقی اور ارتقاء کا حصہ ہے۔

مذہب، دوسری طرف، عام طور پر حتمی سچائیوں اور عقائد پر مبنی ہوتا ہے، جو وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے۔ ان عقائد کو چیلنج کرنا یا ان کے خلاف بات کرنا اکثر گستاخی سمجھا جاتا ہے، اور یہ بات مخصوص قوانین یا مذہبی تنظیموں کے ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ بیان ایک بہت پیچیدہ اور حساس مسئلے کو نمایاں کرتا ہے۔ جہاں سائنس اپنے بنیادی اصولوں کے تحت اختلاف رائے کو ترقی کی راہ سمجھتا ہے، وہاں مذہب میں عقائد اور اصولوں کی حفاظت کو سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ سائنس میں اختلاف کو نوبل انعام جیسے انعامات ملتے ہیں، جبکہ مذہب میں گستاخی کی سزا انتہائی سخت ہو سکتی ہے۔ یہ دونوں نقطہ نظر اپنے اپنے دائرے میں جواز رکھتے ہیں، لیکن ان کا موازنہ کرتے وقت اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ سائنس اور مذہب دو مختلف دائرے ہیں، جن کے قوانین اور اصول بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز