برصغیر ہند میں برطانیہ نے تقریبا دوسو سال تک حکمرانی کی ۔اس دو سو سال کی حکمرانی میں برصغیر میں کئی یوروپی انتظامیہ کی تشکیل کے ساتھ ساتھ برصغیر کےآس پاس کے علاقے کو چھوڑنے کیلئے طویل ترین ریلوے لائن اور اپنی ممخصوص تعلیمی نظام بھی متعارف کروایا۔ انگریز اب تک ہندوستان میں ان چیزوں کی شراکت داری کا کریڈٹ اس، بات پر لیتے چلا آ رہے ہے ۔ آج تک جب بھی کئی بین القوامی سیمینار میں گفتگو ہوتی ہے تو انگریز برصغیر کے اقوام کو اپنے ان کارناموں کو گنوانا نہیں بھولتے۔ حال ہی میں جب انگلینڈ کے ایک تعلیمی ادارے میں گفتگو میں جب یہ کہا گیا کہ انگلینڈ کی برصغیر میں جانے سے پہلے برصغیر بنیادی ڈھانچے ،تعلیمی اور معاشی طور پر تباہ تھا ۔ جس پر انہوں نے یعنی انگریز نے پیسہ اور وقت لگا کر برصغیر کو بہتر بنایا۔ لیکن شاید ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ یہ بات اپنے نوآبادیاتی عوام کے سامنے نہیں بلکہ آزاد ہندوستان کے سامنے کررہے ہیں ۔کیونکہ غلام ہندوستانیوں کے آباو اجداد تو نوآبادیاتی دوڑ میں جی حضوری کے علاوہ کچھ کہہ نہیں سکتے تھے ۔ جب انگریز متکلم کے بعد ڈاکٹر ششی تھرور کی باری آئی تو انہیں نے نا صرف انگریز کی معاشی اصلاحات کو مسترد کی بلکہ برصغیر میں بنگال قحط کا ذمہ دار بھی قابض برطانوی ریاست کو ٹھرایا ۔اور اس قحط میں مرنے والے چالیس لاکھ لوگوں کے موت کا ذمہ دار قابض انگلینڈ پر ڈالی۔جس پر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ویسے بھی بونے بنگالیوں کی زندگی کم حیثیت رکھتا ہے مضبوط یونانیوں سے۔اس کے ساتھ ساتھ جناب نے اسکاٹ لینڈ جو اس وقت انگلینڈ کی نوآبادیاتی ریاست تھی انہوں نے بھی برصغیر میں معاشی، نسلی تعصب، لوٹ مار مذہبی تعصب کے لیے قابض برطانیہ کا ساتھ دیا۔ جو تعلیمی نظام قابض برطانیہ نے برصغیر میں متعارف کیا تھا وہ برصغیر میں مختلف اقوام کے ساتھ پیار و محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ تیس کروڑ غلاموں کے ساتھ کچھ پڑے لکھے غلاموں کی ضرورت بھی تھی تاکہ قابض برطانوی ریاستی مشینری نظام چلتا رہے۔اور آخر میں ریلوے نظام برصغیر کی عوام کے لئے نہیں بلکہ قابض ریاست کے اپنے فوجی اور تجارتی مقاصد کے لئے بنایا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غلام قوم میں چاہئے انسانی تباہ کاریاں ہو یا قدرتی ہو وہ قابض ریاست کی وجہ سے ہوتی ہیں۔اور نوآبادیاتی نظام میں قابض کے ساتھ دوسرے مظلوم اقوام بھی شریک جرم ہوسکتے ہیں جس طرح برصغیر میں برطانیہ کے ساتھ اسکاٹش. تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو آج تک قابض ریاستوں نے نوآبادیاتی راستوں میں سوائے بحرانوں کے کچھ نہیں دیا۔اور یہ بحران نوآبادیاتی ریاستیں تب تک دوچار رہتے ہیں جب تک یہ ریاستی قابضین سے آزادی حاصل نہیں کر لیتے ۔ آگر آج کے دور میں مقبوضہ بلوچستان کی حالات کو دیکھا جائے تو کالا پنجابی وہی برطانوی پالیسیز کو اپنایا ہوا ہے ۔بلوچستان میں گیس دریافت ہوتی ہے تو اس کا فائدہ پنجاب کو ملتا ہے۔ اگر کوئی تعلیمی نظام ہے تو وہ بھی ویسے ہی ہے جیسے برطانیہ نے برصغیر میں متعارف کیا تھا ۔کیونکہ برطانیہ کو ان پڑھ غلاموں کے ساتھ کچھ پڑھے لکھے غلاموں کی اشد ضرورت تھی تاکہ ان کے ذریعے قابض اپنے ریاستی نظام کو چلا سکے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ جیسے 1857 میں برطانیہ کے خلاف جنگ آزادی کی ناکام کوششوں کے بعد قابض برطانیہ نے اجتمائی سزاؤں کے ذریعے ہر اس فرد کو عبرتناک سزائیں دی جو 1857 جنگ کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا آج قابض پاکستان بھی اجتماعی سزاؤں کے ذریعے بلوچ قوم کو تحریک آزادی سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اور جہاں تک عام بحرانوں کی بات ہے تو بلوچستان ڈیڈھ سو سالوں سے بحرانوں سے دوچار ہے ۔لیکن آخر یہ بحران ختم ہوتے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔کبھی بلوچ نوجوان تعلیم کیلئے طویل لانگ مارچ کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں تو کبھی یونیورسٹیوں کے لئے۔ کبھی سڑکوں کے لئے تو کبھی روزگار کے لئے کبھی ریاستی فورس پولیس ایف سی کے ناانصافیوں کے خلاف تو کبھی ریاستی اداروں کے خلاف آج تقریب ستر سال ہونے کے باوجود ان بحرانوں سے جان چھڑانا مشکل نظر آ رہا ہے ۔ کیونکہ پچھلے ستر سالوں سے بلوچ پنجابی نوآبادیات کا شکار ہے وہی برطانوی نوآبادیاتی دور ہے اگر کچھ بدلا ہے تو سفید انگریز کی جگہ کالا پنجابی جو گورے انگریز سے زیادہ غیر مہذب اور وحشی ہے۔ میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں بلوچستان کبھی بھی ان بحرانوں سے جان چھڑا نہیں پائے گا جب تک بنگلہ دیش کی طرح قابض پاکستان سے آزادی حاصل نہیں کرلیتا۔جس کی لئے شاید بھاری قیمت ادا کرنی پڑے لیکن وہ قیمت آزادی اور خودمختار بلوچستان سے کم نہ ہو، ورنہ بلوچ ستر سالوں سے جن بحرانوں کا شکار ہیں اگلے ستر سال بھی انہی بحرانوں کا شکار ہوگا بس فرق اتنا ہوگا کہ وہ ہمارے آنے والی جنریشن یا اگلے نسل کو برداشت کرنا پڑیگا۔ لہزا ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف منظم سیاسی ومسلح مزاحمتی جدوجہد کے زریعئے قومی آزادی ہے۔