بلوچ گلزمین پر قبضہ کرنے کے بعد اور زمین زادوں کو غلام رکھنے کے علاوہ قابضین کا جو پہلا پالیسی ہوتا ہے کہ کس طرح اپنی مقبوضہ ریاست کے باشندوں کو ان کی قومی تشخص، تاریخ، زبان، ثقافت سے دور رکھا جائے؟ اس کی سب سے بڑی مثال یہاں دی جاتی ہے کہ گزشتہ ستر سالوں سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد ہم اب بھی اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ پنجابی ہم سے زیادہ بہتر اور تعلیم یافتہ ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی بد تہذیب قوم ہے تو وہ پنجابی ہے یہ ہم کہہ نہیں رہے ہیں پنجاب کی زمین چیخ چیخ کر خود وہاں پہ سماجی برائیاں اس کی گواہی دے رہا ہے اور اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو خود پنجابیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سوائے طاقتوروں کے سامنے سجدہ ریزاں ہونے اور ان کی نمک حلالی اور دلالی کرنے کے علاوہ پنجابی تاریخ میں اور کچھ نہیں رکھا ہے ـ قابض پاکستان اور ایران نے ہماری تاریخ کو اس طرح مسخ کرنے کی کوشش کی ہے بلوچ، جاہل، وحشی اور ڈاکو تھے لیکن بلوچ تاریخ عظیم کارناموں سے بھری پڑی ہے تفصیلا پڑھنے کیلئے اس کا جواب تاریخ کے طالبعلم خود بہتر بتا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ بلوچوں کے زبان کو کبھی دراوڑوں کی زبان، کبھی فارسی سے نکلا ہوا زبان تو کبھی آریائی زبان کہا گیا ہے ـ حالانکہ انسکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں ایک باب میں یہ ظاہر کیا گیا ہے بلوچی دنیا کے 100 قدیم ترین زبانوں میں شمار ہوتا ہے یعنی دنیا میں چھ ہزار سے زیادہ زبانوں میں 100 زبانوں کو دنیا کی قدیم ترین زبان قرار دیا گیا ہے اور ان سو زبانوں میں بلوچی زبان بھی شامل ہے۔ پنجابی زبان تو کل کی زبان ہے اور فارسی کو ساڑھے پندرہ سو سال یا دو ہزار سال کا عرصہ ہوا ہوگا ـ
سامراج کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ اقوام کو بے شعوری کی اندھی دنیا میں رکھے جس سے وہ سر اٹھانے کی کوشش یا جرات ہی نہ کرسکیں۔
الجزائری انقلابی مصنف فرانز فینن لکھتے ہیں کہ فرانسیسی استعمار نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے اس وقت اُن کے ریڈیو نشریات کو بند رکھا گیا۔
قبضہ گیروں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہا ہے کہ اپنے مقبوضہ جات کے غلاموں کو جس قدر ممکن ہوسکے انہیں بے شعوری کے اندھیروں میں رکھا جائے تاکہ انہیں غلام ہونے کا احساس نہ ہو اور وہ اپنی مادر وطن کی آزادی کو فراموش کر جائیں ـ غلامی کا احساس شروعات میں صرف چند لوگوں کو ہوتا ہے وہی جنگ کی بنیاد رکھ کر پورے غلام سماج کو ہلا دیتے ہیں خوابیدہ غلام ذہنوں میں ایسی چنگاری ڈالتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سلگتے رہتے ہیں ـ جس کی مثال ستر سال کی پاکستانی غلامی ہے جو کہ ہمارے نامور بلوچ شہدا اور سرکردہ رہنماؤں نے اکیسوی صدی کی شروعات میں اس طرح رکھا کہ وہی چنگاری اب ایک لاوا بن چکا ہے ـ
بلوچ ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ریاست کے وہ کون سے حربے ہیں جو بلوچ کو اسکی آزادی کیلئے شعوری بیداری سے دور کر رہی ہے۔
ریاستی اثراندازی کا جائزہ ہم بہت سے پہلوؤں سے لیں سکتے ہیں۔ قابضین کا جو سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے وہ مذہب ہے وہ مذہب کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرکے مقبوضہ قوموں پر مسلط کرتا ہے قابض پاکستان بلوچستان کی قبضہ سے لے کر آج تک بلوچ قوم کو ایک مذہبی انتہا پسند دکھانا چاہتا ہے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے پاکستان ہر وہ کوشش کی تاکہ یہ ثابت کرے بلوچ قوم کی یہ تحریک آزادی نہیں بلکہ مذہبی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن بلوچ سرشت میں مذہبی جنونیت شامل ہی نہیں اس لیئے یہاں بھی دشمن کو منہ کی کھانی پڑی ـ
لیکن ہمیشہ بلوچ قوم دوست تنظیموں نے مذہبی جنونیت کو بلوچستان کے اندر پنپنے نہیں دیا کیونکہ بلوچ اپنی پیدائش کے وقت ہی مذہب سے مناسب فاصلہ اختیار کر رکھا ہے بلوچ قوم ہر مذہب کی قدر کرتا
لیکن انہوں نے کبھی بھی مذہب کو اپنے اندر جذب ہونے نہیں دیا اسی لیئے سامراجی ہھتکنڈے یہاں ناکام رہے جو کہ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتے تھے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اس وقت معاشی طور دیوالیہ ہوچکا ہے بس اس کا اعلان کرنا باقی ہے پاکستان اس وقت بلوچستان میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ اس وقت سامراجی پاکستان کی کشتی ڈوب رہی ہے اور اگر بلوچستان پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پاکستان تباہ ہو جائے گا نہ صرف بلوچستان آزاد ہوگا پاکستان کی تباہی سے بلکہ تمام مقبوضہ ریاستیں اس غیر فطری ریاست سے بھی آزاد ہوجائیں گے ـ
سوال یہ ہے کہ پاکستان کیسے بلوچستان میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ بلوچستان ایک آکیسجن سلنڈر کے طور پر پاکستان کے لیئے کام کر رہا ہے جب آکیسجن کا پائپ معدنی و آبی وسائل پاکستان کے منہ سے نکال دیا جائے تو مریض کی سانسیں ہمیشہ کیلئے خودبخود بند ہوجائینگی ـ