25 جنوری 2014 کو ایک مقامی چراوہے نے بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کی اطلاح حکام کو دیا تو سیکورٹی فورسز نے فورا اس علاقے کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔یہ اطلاع لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے تشویشناک تھی کیونکہ بلوچستان سے ہزاروں افراد جبری لاپتہ ہیں اور 2009 سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کو دوران حراست ماورائے آئین قتل کرکے ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینکنے اور دفنانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس لیے لاپتہ افراد کے لواحقین نے توتک سے برآمد ہونے والی لاشوں تک رسائی کی کوشش کی تاکہ وہ اس پر اطمینان حاصل کرسکیں کہ وہ لاشیں ان کے لاپتہ پیاروں کی تو نہیں ہیں۔ وہاں پر موجود سیکورٹی فورسز نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو اس جگہ کا معائنہ کرنے سے بزور طاقت روکا ۔وہاں جانے والے لوگوں پر ہوائی فائرنگ کرکے انہیں منتشر کردیا تاکہ توتک سے برآمد ہونے والی اجتماعی قبروں کی حقیقت عام لوگوں کو معلوم نہ ہوسکے۔
یکم فروری 2014 کو میں نے تنظیمی سطح پر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اسلام آباد میں توتک سے برآمد ہونے والی اجتماعی قبروں کے حوالے سے پریس کانفرنس کی تو سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے میرے پریس کانفرنس پر سانحہ توتک کا سوموٹو نوٹس لےکر سیکرٹری داخلہ بلوچستان اور ڈپٹی کمشنر خضدار وحید شاہ کو نوٹسز جاری کیے کہ وہ سپریم کورٹ میں سانحہ توتک کی اگلی سماعت میں پیش ہوکر واقعے کے حوالے سے اپنا رپورٹ پیش کریں۔
4 فروری 2014 کو سپریم کورٹ میں سانحہ توتک پر اگلی سماعت کے دوران ڈی سی خضدار نے پیش ہوکر رپورٹ جمع کی اور کہا کہ توتک سے 13 مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں جن میں سے دو کی شناخت ضلع آواران کے رہاشیوں قادر بخش ولد بیان اور نصیراحمد ولد بیان کے ناموں سے ہوچکی ہیں۔ جنہیں قانونی کارروائی کے بعد ان کے لواحقین کے حوالے کردیا گیا ہے۔ سیکرٙری داخلہ بلوچستان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ حکومت بلوچستان نے سانحہ توتک کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور محمد مسکان زئی کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنایا ہے جو ایک ماہ میں اس واقعے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرئے گی اور صوبائی حکومت اس رپورٹ کی روشنی میں سانحہ میں ملوث کرداروں کے خلاف کاروائی کرے گی۔
4 فروری 2014 کو سپریم کورٹ میں سانحہ توتک پر سماعت کے دوران میں نے تنظیمی سطح پر اپنا موقف پیش کرکے کہا کہ ڈی سی خضدار وحید شاہ توتک کے اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والی لاشوں کی تعداد کے حوالے سے غلط بیانی کررہا ہے۔میں نےسپریم کورٹ میں ڈی سی خضدار کے بیان کے اخباری کٹنگ بھی جمع کیے جہاں پر سانحہ توتک کے حوالے سے پہلی دن جو اس نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ توتک کے اجتماعی قبروں سے 25 لاشیں نکالی گئی ہیں اور کھدائی جاری ہے۔ وہاں موجود دیگر لاشوں کو بھی نکالا جائے گا میں نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ اگلے دن سانحہ توتک کے حوالے سے صحافیوں کو پریس بریفنگ کے دوران ڈی سی خضدار اپنے پہلے بیان سے مکر گیا اور کہا کہ توتک سے صرف 13 مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔
میں نے دوران سماعت سپریم کورٹ کو یہ بھی آگاہ کیا کہ توتک کی جس جگہ سے اجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں اس جگہ کو فورسز نے اپنے گھیرے میں لیا ہے اور وہاں پر لاپتہ افراد کے لواحقین، اہل علاقہ اور صحافیوں کو جانے نہیں دیا جا رہا اس لیے ہمیں خدشہ ہے کہ توتک سے برآمد ہونے ولے لاشوں کی اصل تعداد اور سانحہ توتک کے اصل حقائق کو عوام اور میڈیا سے چھپایا جارہا ہے۔اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سیکرٹری داخلہ بلوچستان کو حکم دیا کہ جسٹس نور محمد مسکان زئی کی سربراہی میں جو کمیشن بنایا گیا ہے حکومت بلوچستان یہ فوری طور پر بندوبست کرے کہ کمیشن توتک میں موجود اجتماعی قبروں کا وزٹ کرے اور کمیشن وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مرکزی رہنما ملک ظہور احمد شاہوانی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے تاکہ توتک واقعے کے اصل حقائق غیر جانبدار طریقے سے سپریم کورٹ کے سامنے آئیں۔ ساتھ ہی ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ بھی حکم دیا کہ اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والی لاشوں کے ڈی این اے ٹسٹ کروانے کے ساتھ ساتھ ان کا پوسٹ مارٹم ، ان کا وجہ قتل اور شناخت معلوم کیا جائے۔
12 فروری 2014 کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سانحہ توتک کے تحقیقات کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن کے سربراہ نور محمد مسکان زئی کو وقوعہ کا معائنہ کروایا تو ہمیں وہاں نہیں لےجایا گیا جب میں نے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا کہ ہمیں کمیشن کے ساتھ کیوں نہیں لے جایا گیا تو سیکرٹری داخلہ بلوچستان نے سیکورٹی کا بہانہ بنایا کہ ہمیں وہاں لے جانے سے ہماری جان کو خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔
جسٹس نور محمد مسکان زئی کی سربراہی میں بنے والے جوڈیشل کمیشن نے بعد میں اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ جگہ سے تین سو کے قریب گولیوں کے خول ملے جن کے ذریعے مقتولین کو قتل کردیا گیا تھا۔ جو لاشیں وہاں سے اٹھائی گئیں ان پر چونا ڈال دیا گیا تھا تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ سانحہ توتک کے تانے بانے شفیق مینگل سے ملتے ہیں کیونکہ اس ایریا میں شفیق مینگل کے مسلح کیمپس موجود ہونے کے حوالے سے ٹھوس شوائد ملے ہیں۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ سانحہ توتک میں شفیق مینگل کو شامل تفتیش کیا جائے اس رپورٹ کے آنے کے بعد شفیق مینگل کچھ عرصے کے لیے روپوش ہوئے اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ اس دوراں شفیق مینگل افغانستان چلا گیا تھا۔اس دوران شفیق مینگل نے کچھ بیانات میں جاری کیے تھے کہ اگر انہیں شامل تفتیش کیاگیا اور انہیں تنگ کیاگیا تو وہ سانحہ توتک میں ملوث اصل کرداروں کو بےنقاب کرے گا۔ اس کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ سانحہ توتک میں ملوث اصل کردار ریاستی ادارے ہیں اس کے ان بیانات کے آنے کے بعد صوبائی حکومت نے نہ شفیق مینگل کو شامل تفتیش کیا اور نہ ان کے خلاف قانونی کاروائی کی۔
شفیق مینگل کے حوالے سے بلوچ سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ڈیتھ سکواڈ کے جتنے بھی گروہ سرگرم عمل ہیں ان سب کی سربراہی کررہا ہے اور ان گروہوں کو ریاستی اداروں کا بھرپور تعاون حاصل ہے ۔ یہ گروہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو جبری لاپتہ کرنے اور انہیں ٹارگٹ کلنگ میں ریاستی اداروں کی معاونت بھی کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں کہ توتک کے اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والی لاشوں کی اصل تعداد کتنی ہے؟ حکومت کے مطابق توتک میں اجتماعی قبروں کی تعداد 4 ہے ان کا کہنا ہے کہ پہلے دن اجتماعی قبروں سے 11 لاشیں ملیں دوسرے دن 2 لاشیں ملی اور 30 مارچ 2014 کو توتک سے مزید 4 لاشیں ملیں۔ یعنی حکومت کا کہنا ہے کہ توتک کے اجتماعی قبروں سے ٹوٹل 17 لاشیں ملی ہے، جس دن کمیشن اجتماعی قبروں کا معائنہ کرنے توتک گیا تھا تو اسی دن ڈان اخبار کا صحافی سحر بلوچ بھی وہاں جانے میں کامیاب ہوئی تھیں ، سحر بلوچ کے مطابق توتک میں اجتماعی قبروں کی تعداد 11 ہے اور کھدائی صرف 4 اجتماعی قبروں کی گئی ہے ان چیزوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے توتک میں اجتماعی قبروں کی تعداد 4 نہیں بلکہ زیادہ تھی اور وہاں سے برآمد ہونے والے لاشوں تعداد حکومت اور کمیشن کی بتائی گئی تعداد سے کئی زیادہ ہے۔
ہمیں افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے سانحہ توتک پر سوموٹو نوٹس لینے کی باوجود بھی اس انسانی المیے پر انصاف کے عمل کو مکمل نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے سانحہ توتک پر 3 سماعت کرنے کے بعد اس کیس کو مسنگ پرسنز کیس کے ساتھ یکجا کیا ۔پھر سپریم کورٹ نے 2018 میں مسنگ پرسنز کے کیسز لاپتہ افراد کمیشن کے حوالے کیا تو اس کے بعد سانحہ توتک کے کیس پر سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہوئی۔ حالانکہ ملکی قوانین کے مطابق سپریم کورٹ کی یہ آئینی زمہ داری بنتی تھی کہ وہ سانحہ توتک کیس کو منتقی انجام تک پہنچاتی، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملکی آئین کے مطابق اب یہ موجودہ چیف جسٹس کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ سانحہ توتک کیس پر دوبارہ سماعت شروع کرے اور توتک سے اجتماعی قبروں سے برآمد شدہ لاشوں کا ڈی این اے ٹسٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ صوبائی حکومت سے طلب کرے۔مقتولین اور ان کے قاتلوں کی شناخت کو یقینی بنائے، سانحہ توتک کے اصل حقائق کو سامنے لائے اور اس واقعے کے اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرے۔