Homeخبریںسانحہ ڈنُّک کو دس دن گزر گئے، بلوچستان کے مختلف علاقوں میں...

سانحہ ڈنُّک کو دس دن گزر گئے، بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا نا تھمنے والا سلسلہ تاحال جاری

 

حب/دالبندین/مند/نصیر آباد (ہمگام نیوز)سانحہ ڈنک تربت کے دس روز مکمل ہونے کے بعد بھی بلوچستان بھر میں عوام صدا بہ احتجاج، دالبندین پولیس نے مظاہرین کو پریس کلب جانے سے روک لیا۔عوامی مطالبوں میں برمش واقعے کے تمام کرداروں کو بـے نقاب کرنے اور برمش کو انصاف دینے اور بلوچستان بھرمیں اسلحہ کلچر کی پالیسی کوختم کرنے کامطالبہ سر فہرست رہا۔

تربت کے علاقے ڈنک میں ایک گھر پر ڈکیتی کاواقعہ پیش آیا جہاں ایک خاتون ملک ناز کو شہید کرکے انکی چارسالہ بچی برمش کو زخمی کردیاگیا۔ آج واقعہ کو دس روز گزرگئے لیکن عوام کیجانب سےاحتجاجی مظاہروں کاسلسلہ نہ تھم سکا۔ واقعہ کیخلاف آج بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے عوام سراپا احتجاج رہے۔ آج ہفتہ کے روز ضلع تربت کے علاقے تحصیل مند میں سول سوسائٹی اور نوجوانوں کیجانب سے ایک ریلی نکالی گئی۔ شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے رکھے تھے جن پر برمش کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے اور برمش کو انصاف دینے کے ساتھ ساتھ ریاستی سرپرستی میں قائم مسلح جتھوں کوختم کرنے کے لیے بھی مختلف نعرے درج تھے۔

مظاہرین نے شدید نعرہ بازی کرتےہوئے بلوچستان میں اسلحہ کلچر کوختم کرنے اور عوام کی تحفظ یقینی بنانے کیلئے شدید نعرے بازی کی۔ یادرہے تربت کا علاقہ مند وفاقی وزیر دفاع اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنماء زبیدہ جلال کا آبائی علاقہ بھی ہے اور یہ علاقہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے بالکل متصل ہے،جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں بھی برمش یکجہتی کمیٹی کیجانب سے مین بازار سے لیکر پریس کلب تک ایک عظیم الشان ریلی کا انعقاد کیاگیا۔ ریلی میں خواتین ونوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی شرکاء نے منشیات فروشی،اسلحہ کلچر اور برمش کو انصاف دینے کیلئے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

شرکاء کیجانب سے مین بازار میں واقعہ کیخلاف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔ حب ریلی لسبیلہ پریس کلب حب سے نکالی گئی جو عدالت روڑ سے ہوتے ہوئے کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ پر آگئی اور گڈانی اسٹاپ سے مُڑ کر بلدیہ ریسٹ ہاؤس پر آکر جلسے کی شکل اختیار کرلی جہاں مقررین نے مظاہرین سے خطاب کیا۔

اسی طرح بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں بھی برمش یکجہتی کمیٹی کیجانب سےایک ریلی کا انعقاد کیاگیا۔ مقررین نے ڈنک واقعہ کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگر بلوچستان کے عوام کو مزید کھلونا بنایا گیا تو یہ خاموشی اور یہ پرامن احتجاج مزید شدت اختیار کرسکتےہیں۔

دوسری جانب بلوچستان کے علاقے دالبندین میں بھی سول سوسائٹی کیجانب سے مظاہرے کا انعقاد کیاگیا۔ جب مظاہرین نے پریس کلب کارخ کیا تو پولیس کیجانب سے مظاہرین کو روک لیاگیا۔ سوشل میڈیا میں ریلی کے شرکاء کو روکنے کی شدید مذمت کی جارہی ہے جبکہ اس واقعے کیخلاف بلوچستان بھرمیں عوامی غصے کی لہرنے شدت اختیار کرلی ہے اور مخلتف علاقوں میں ریلیاں اور مظاہرے کیے جارہےہیں۔

Exit mobile version