سلسلہ وار مضمون گذشتہ سے پیوستہ (چوتھی قسط)
چلیے انضمام کے متعلق بات ہو جائے انضمام بلوچ سیاسی اساطیر میں سے ایک اسطورہ ہے۔ انضمام بلوچ سیاست کی خوش فہم توھم ہے۔ انضمام ایک مابعدالجدیدی شرک ءُ پال ہے جو بلوچوں کو ملی ہے۔
انضمام کے پس پردہ جو خیال کار فرماہے وہ ہے اتحاد کا۔ بلوچ اگر ایک ہوں تو تحریک بہتر پنپ سکتی ہے۔ بلوچوں میں ایک بیڈ فیت یا پچھتاوا ہے جس کے باقاعدہ جواز انہیں عہدی کہانیوں، گھریلو جھگڑوں، خانہ جنگیوں، بیر گیری کے مسائل، خان اور سرداروں کی مسلسل ظلم اور دھوکہ دھڑیوں، لوٹ مار، غیر مستقل سیاسی سماج اور ریاست اور چاکر جیسے بے مروت سرداروں کا ثمرہ بلوچوں نے یہ نکالا کہ اس کا حل ایکتا میں ہے۔
براسے شہ براس ءَ زار بیت گڑا صاحبی عقلے روت گار بیت۔ اسی کو لے کر بہت بار بلوچ سیاسی بیان باز اور مورخ جب ماضی کی خرابیوں پہ نظر دوڑاتے ہیں تو انہیں انہی جیسے اقوال کے بے ریائی نظر آتی ہے کہ اگر بلوچ ایک ہوتے تو انگریز نہ آتے، اگر بلوچ ایک ہوتے تو پاکستان کبھی یہ قبضے کی جسارت نہ کرتے وغیرہ۔ انضمام کی پیچھے ان خیالات کا بہت گہرا اثر ہے۔ اگر یہ اس اسباب نہیں ہیں تو انضمام کا بیانیہ اسی بیڈ فیت کی بطن سے ابھرتا ہے۔ جو آج کل مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
دوسرے، انضمام کے وہ محرکات ہیں جو موجود حالت میں جواز فراہم کرتی ہیں۔ جیسے کراچی اور کوئٹہ گروپ کا ایک مقام پہ آنا، مکران اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا انکے ساتھ ملنااور اتنے کثیر العلاقائی گروہ کے عجیب الخلق اختلاف اور سب کا مختلف خیال کہ وہ کیوں یہ تنظیم بنا رہے ہیں۔ ان بنیادی اختلافات سے دو موزوں گروہ کا ایک عجیب ہی خیال پہ تفریق ہونا کہ ہم سردار زادوں کو مانتے ہیں اور تم نہیں مانتے اس لیے ہم آپ کے مخالف ہیں۔
٭ اسی انٹی سرداریت پہ بغیر مباحثات کے تنقید کرنے کی روایت ابھی تک چند تنظیموں میں موجود ہے۔ اور ان اختلافات کوخاطر میں نہ لا کر دوسرے مقام پہ خود کو صحیح کہنے والے ایک اور جگہ پہ کھڑے مخالفین کو آوازیں کس رہے ہیں کہ تم لوگ بے وقوف ہو جو سرداریت کے مخالف ہو۔
کوئی بے وقوف نہیں سرداریت اور اجارہ داری لوگوں کے سر پہ پڑی ہے۔عوام کا خوف اور غصہ جائز ہے اور بلوچوں کو خاص اب خود کو عاجز جان کے یوں پیش ہونا ہوگا کہ جن کے خاندان انگریز اور پاکستان کے کاسہ لیس رہے، جن لوگوں کے خاندان افضلیت رکھتے ہیں، جو پاور الیٹ اور سماجی اشرافیہ سے ہیں چاہے وہ حکومتوں میں رہے ہوں کہ نہ ہوں، ان پہ جب بھی خاندانی نام کے حوالے سے تنقید ہو تو انہیں نادان بن کے یہ کہنے کے بجائے کہ آپ ہمارا عمل دیکھیے بلکہ انہیں، پیشتر ان سب کے، خود کو نچلے طبقے کے غم و الم دیکھنے کی صلاحیت کے متعلق سوچ و بچار کرنا ہوگا۔ کیوںکہ حاکم تو انکے خانوادے بھی رہے ہیں اگر ہم ایک سفاک حاکمیت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، تو یہ سفاکیت اور اجارہ داریت کو پنپنے سے روکنے کی سب سے زیادہ جن لوگوں کو آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور سماجی نابرابری کے حقائق کو سامنے لانے کے جن کو سب سے پہلے کٹہرے پہ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، وہ وہی سردارزادے، میر، بڑے خاندانی ناموں والے افراد ہیں۔ پہلے وہ اپنی سفائی پیش کریں اور کھلے بندوں مان تو لیں کہ وہ نظام درست نہیں تھی۔ اس نظام میں ظلم ایک لازمہ تھا کیونکہ لوگ بلاوجہ ان اجارہ داریت کے مخالف نہیں ہیں کچھ تو ہوگا جس نے انہیں اتنا سخت گیر کیا ہوگا۔
پر سرداریت غلط اس لیے ہے کہ اس کی بنیاد میں اجارہ داریت رچ بسی ہے۔ سو اگر تنقید کرنا ہی ہے تو تنظیم کو اپنی پاکیزگی پہ تنقید کرنی ہوگی کہ وہ نقاد تنظیمیں خود کسی کی کٹ پتلیاں تو نہیں ہیں۔ کیا وہ نیک نیتی سے تنقید کر رہے ہیں یا پھر محض ٹرولنگ کر کے سامنے والے کی مٹی پلید کرنے کی خاطر صرف گپ لگا رہے ہیں۔ یعنی اصل میں وہ خود بھی شاید ناصح و صالح نہیں۔
آزادانہ اتحاد اور کٹ پتلی ہونے میں فرق ہے۔ یہی اجارہ داری کا خوف ہی بی ایس او میں “بے جھنڈہ مت” کو جنم دیتی ہے۔ یہ کہ جیسا ہم پہلے بیان کر چکے تھے کہ سرداریت سے اختلاف اصل میں موجودہ اجارہ داریت سے اختلاف ہے اور جنہیں سرداریت سے مسئلہ ہے انہیں اپنی تنظیم میں معراج محمد خان جیسے جھوٹے اناپرستوں کے پیروکاروں سے بھی مسئلہ ہونا چاہیے تھا۔ انہیں اجارہ داری سمجھنی چاہیئے تھی۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ انٹی سردار کو سرداریت یا سماجی اجارہ داریت سے نہیں، انہیں مکران کے گچکیّت سے نہیں بلکہ محض چند سیاسی بزرگوں سے مسئلہ تھا۔ اگر وہی جاگیرداریت کے حامی سرخ پی پی پی کے ہوں، جن کا سربراہ ایک اناپرست دل سے آمریت کے خواب دیکھنے والا ذوالفقار علی بن شاہنواز علی بھٹو ہوں، تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ بی ایس او کے انٹی سرداریت کے نعرہ بلند کرنے والے بالائی لیڈران خود ان خانوادوں سے تھے جن کے خاندان تب بھی اور آج بھی اس سماجی نابرابری سے مستفید ہوتی رہی ہے۔ امان اللہ اور ڈاکٹر تاج نے گچکیت سے کبھی روگردانی نہیں کی۔ ڈاکٹر مالک آج بھی بے شرمی کی حد تک گر کےکہتا ہے کے ڈاکٹر اللہ نذر اس سے کمتر ہے کیونکہ اس کا خاندان لوہاروں کا ہے۔ اخترمینگل طاہر بزنجو، فدا رند، ایوب جتک، وغیرہ کے برابری کا نعرہ صرف ظاہری تھا ورنہ حلقوں کے مباحث میں کوئی برابر کبھی نہیں تھا۔ فدا بلوچ تو خاص اپنی انا اور ہٹ دھرمی کے مشہور رہا ہے۔ فدا کی انانیت اگر تنظیم میں نہیں تو سماج میں کئی مواقع پہ اختلاف و فساد کا باعث رہی ہے۔ نسل پرستانہ طنز، اور آگے کس نے کیسے بڑھنا ہے وغیرہ ان سب میں وہ بہت ہی جانبدار سماج سے رونما ہونے والی تحریک تھی۔
بی ایس او کو جو برابری کا پرچار کرنے والی جماعت کہتے ہیں یا تو وہ خود اس نا برابری میں ایلیٹ رہے ہیں یا انہیں سکھایا گیا تھا۔ بی ایس او کی ستر اسی کی دہائی کے مواد کا جائز مطالعہ اس حقیقت کی آپ وضاحت ہے۔ جنہیں آج کل سید ہاشمی ریفرنس لائبریری عہدیداران نے اپنے محجوب کتب خانوں کی زینت بارکھی ہیں جو خود مر ہی رہے ہیں ساتھ میں اس قومی ذخیرہ دھیمک چٹوانے میں تلے ہوئے ہیں۔
اس سارے صورت حال کو مدِ نظر رکھ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا سردار اور انٹی سردار اختلاف بے بنیاد تھی دونوں اطراف تنقید اور خود تنقیدیت کی فقدان کا نتیجہ تھی۔ جس کے سبب 70 کے الیکشن میں جونہی ان پہ واضح ہوتا ہے کہ سیاست برابری،سویتی اور بلوچ طلبہ کے نعرے پہ قائم ہونی چاہیئے اور اس سیاست کا مرکز بلوچ رہے تو 73 میں دونوں تنظیموں نے خود ایک ہی مقام پہ پایا۔ بی ایس او کے مورخین اور بیان بازوں کا ماننا ہے کہ بی ایس او کا ہر عمل اچھوتے انداز میں ان کی اپنی ایجاد ہے۔ پر انضمام اس نئی ایکاکی خیال ابھرتا ہی تب ہے جب یہ دونوں اپنے لیڈران نیپ کو چنتے ہیں۔ انہیں اپنا آپ اس لئے بھی شاید ایک لگتا ہے کہ ان کے ناصح جیلوں اور پہاڑوں پہ ایک ہی ہوتے ہیں۔ یہ تیسرا سبب تھا انضمام کے سوال جنم لینے کا۔