دنیا میں ہر شئے ہر کام ہر فیصلے اور ہر ایک بات کے دو پہلو ضرور ہوتے ہونگے ،ایک سطحی جو ہر کسی کو دکھتا ہے ہر کوئی اسکے بارے میں جاننے اور سمجھنے کا دعویٰ کرتاہے اور ہر کوئی اس کو محسوس بھی کرسکتا ہے یعنی سرسری جو شئے دکھے یا جو کچھ سنائی دے اس پہ من و عن یقین باندھنا سطحیت کی بنیادی تعارف ہوسکتی ہے۔

ایک پہلو سطحیت سے کافی گہرا اور پرمعنی ہوتا ہے یعنی کسی شئے یا عمل کا دقیق پہلو جو ہر کسی کو دکھتا یا محسوس نہیں ہوسکتا اور ہر کوئی اسکے بارے علم رکھنے کا دعویٰ تو ہرگز نہیں کرسکتا یعنی چیزیں جس طرح دکھتی اور جیسے بیان کی جاتی ہیں وہ دراصل اس طرح بالکل بھی نہیں ہوتے یا اس سے کہیں زیادہ گہرا گنجلک اور کثیرالجہت ہوتے ہیں، بہت سارے لوگ لہو اور پسینے کی مقدار کو نتائج پر نتھی کرتے ہیں جوکہ انتہا کی طفلانہ روش بات ہے۔

ان پُٹ اور آؤٹ پُٹ کی بنیادی کلیے پر بات کریں تو لازمی نہیں ہے کہ زیادہ محنت زیادہ افرادی قوت اور زیادہ توانائی خرچنے سے پیداوار یا نتائج بھی بہتر، قرین قیاس یا مثبت آجائیں، اسی لیئے محض اس بات پر رائے قائم کرنا کہ اِن پُٹ بہت زیادہ تھی سو نتائج یا آؤٹ پُٹ بہرصورت اچھے ہی آئیں گے سطحی ذہنیت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

اگر بلوچ قومی تحریک آزادی کی ہی بات کرلیں، جتنے مسنگ پرسنز ہیں اور جتنی قربانیوں کی تعداد ہے تو نتائج بھی اسی طرح خاطر خواہ ہیں یا نہیں؟ یا تامل ایلم ٹائیگر کی مثال لے لیں، کردوں کی تحریک آزادی کی مثال لے لیں کرد تو پھر بھی لڑ رہے ہیں موجود ہیں لیکن تامل ایلم ٹائیگرز اپنے ہی غلط انداز فکر و تباہ کن پالیسیوں کے بھینٹ چڑھ کر تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔قربانیوں، توانائیوں اور محنت کا انکا اِن پُٹ بھی کم نہیں تھا۔

سطحیت پہ جانے والے لوگوں کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ اس سطح سے نیچے اس سے آگے پیچھے اور پرے کیا کیا کچھ کار فرما ہے اور اسکے دور رس نتائج کا طویل اور قلیل المدتی تناظر میں کس قسم کی اثرات کا وقوع پذیر ہونا ممکن ہے۔

اور سطحیت کے برعکس دقیق نظر رکھنے والے لوگوں کے لیے سطحی طور پر دکھنے اور محسوس ہونے والے ماحول کا کوئی اہمیت نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہر شئے ہر عمل اور فیصلے کی باریکیوں کو پرکھنے کی جستجو میں ہوتا ہے، کسی شئے یا عمل کی گہرائیوں میں اترنے والے لوگ ممکنات کے پھٹارے سے وہ نتائج لے کر آنا چاہتے ہیں جو کسی مقصدیتی پراسس کی نقصانات کو کم اور فوائد کو بیشتر کرسکیں اور کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے کسی عمل، فیصلے یا شئے کے حوالے سے مسقبل میں وقوع پذیر ہونے والے ممکنہ نتائج کے بارے میں متفکر رہتا ہے۔

مثلاً بلوچ قومی تحریک میں اندرونی و بیرونی حوالے سے بہت ساری مادی و مالی عوامل کی ضرورت ہوسکتی ہے ،ہمسایہ ممالک سے، عالمی قوتوں سے اور میڈیا ھائوسز سمیت دیگر عالمی و انسانی حقوق اور جمہوریت پسند اداروں سے بھی، مادی و مالی امداد سمیت اخلاقی مدد و حمایت کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور ہماری آزادی پسند سیاسی پارٹیاں اسکا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ فلاں طاقت ہمیں مدد کرے، فلاں ہمسایہ ہماری تحریک آزادی کی اخلاقی حمایت میں سامنے آئے، اب غور کریں اگر وہ امداد مل بھی جائے تو وہ اخلاقی یا مادی و مالی امداد کتنی مشروط ہے؟

سطحیت پسند، جلد باز اور عامیانہ فکر و نظر والے لوگوں کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ پیسہ آرہا ہے، ہتھیار مل رہاہے، سستانے کے لیے پرامن زمین مل رہی ہے اور جد و جہد کچھ وقت کے لیے تیزی بھی پکڑ چکی ہے، کیا کچھ گروی رکھا گیا ہے، کیا کچھ مشروط ہے یہ چیز انکا دردِ سر ہے ہی نہیں۔

لیکن دقیق نظر رکھنے والا بندہ اس بات پر سوچتا ہے ۔مثلاً کوئی ملک، کوئی ہمسایہ، کوئی میڈیا ھائوس یا پھر کوئی انسانی حقوق و جمہوریت پسند ادارہ ہماری تحریک آزادی کی حمایت میں سامنے آرہی ہے تو کیوں آرہی ہے؟ اسکے پیچھے کیا سوچ کارفرما ہے؟ وہ ہم سے کیا چاہتی ہے؟ خطے اور عالمی منظرنامے میں سیاسی حالات کیسے بدل رہے ہیں اور یہ ملنے والی امداد و حمایت کب تک اور کیوں برقرار رہ سکتی ہے وہ محض کڑکتی نوٹوں کی گڑیاں اور چمکتی بندوقوں کی نلیاں دیکھ کر خوش نہیں ہوتا وہ ممکنات پر ذہن لڑاتا ہے اور اپنی ایک رائے قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اس رائے کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ ملنے امداد و حمایت لینی ہے یا اس سے دستبردار ہونا ہے۔

یہ دونوں (سطحی سوچ اور دقیق سوچ) سمندر کے دو کناروں کے مانند کبھی آپس میں نہیں ملتے اور دونوں کے نزدیک دوسرا قبیل سرے سے ہی غلط رجحانات رکھتا ہے ۔یہ سب ذہنی استعداد و وسعت کی دین ہے جو چیزوں کو بہتر انداز میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوششوں میں جو علمی اور تجزیاتی کسوٹی استعمال کرتے ہیں اور اپنی یا دوسروں کی ماضی کی تجربات سے جو نکات نکال لیتے ہیں وہ کسی بھی شئے عمل سانحے یا پھر واقعے کی کثیر الجہتی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ان تمام نتائج کو ایک ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس عمل شئے یا واقعے سے اثر پذیر ہوسکتے ہوں، لیکن سطحیت پسند حلقوں کے سامنے یہ سب کچھ محض علمی و فلسفیانی جگالی اور وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ بھی نہیں، کیونکہ وہ ہر شئے کو سیاہ و سفید کے علاوہ دیکھنے کہ قائل نہیں۔

یعنی وہی کلاسیکل بیانیہ کہ راجی آجوئی کے لیئے ہمیں امداد و وسائل درکار ہیں۔ راجی آجوئی کی تحریک کے لیے قربانی چاہئیے۔ لہو بہانا قربانیوں کی صف میں سب سے عظیم تر قربانی ہے۔ اور جس نے اپنا لہو بہایا وہ بلا کسی شک و شبہ کے سب سے عظیم ہے۔ اور جتنا زیادہ لہو بہایا جائیگا تحریک کی اتنی آبیاری ہوتی رہیگی، سو لہو کا دھار نہیں رکنا چاہئے۔ اس سے آگے وہ ذہنی طور پر بانجھ اور عقلی حوالے سے ماؤف ہونے کی فخریہ اعلان کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ سطحیت پسند سقوطِ علم کا بھرپور آئینہ دار ہوتا ہے، وہ علمی و منطقی دلائل کو جھوتے کی نوک پر رکھتا ہے اور جذبات کی حدت اتنی تیز کہ وہ عقلی و منطقی دلائل کو سننے کا رودار بھی نہیں ہوتا۔

گوکہ اسکے پاس اپنے تئیں دلائل کے انبار تو ہوتے ہونگے لیکن اختتام ہمیشہ ہزیان بکنے اور بدزبانی پر ہی موقوف ہوتا ہے۔اسکی بنیادی وجوہات میں کچھ یہی ہیں کہ مجموعی اعتبار سے ہمارے اندر موجود روایتی تساہل پسندی ہمیں دقیق اور فلسفیانہ طرز فکر کی طرف جانے سے روکے رکھتا ہے کہ کون یہ بارِ گراں بلا وجہ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا رہے ۔لہو کی دھار اور کٹتی سروں کی خمار میں بدمست یہ لوگ نہ جاننے کہ روادر ہیں نہ کچھ سننے کے لیے تیار یعنی بنیادی مقصد اس قربانی کا متقاضی تھا بھی یا نہیں وہ اسکا درد سر ہے ہی نہیں۔

وہ پوچھتا ہے کہ محض نام و نمود کی خاطر یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے بلا کوئی کسی کیونکر خود کش حملہ کروائے گا، لیکن چونکہ ملا کی دوڑ مسجد تک تو لہذا ان لوگوں کی تساہل پسندی انکو علمی فلسفیانہ بنیادوں پر کسی بھی عمل کی کانٹ چانٹ سے پرے ہی رکھتا ہے۔

سطحیت جتنا بدنام ہے لیکن ابتداء وہی ہے کیونکہ ابتدا تو ہمیشہ سطح سے ہی کرنی پڑے گی کیونکہ یہیں سے تختہ مشق کا آغاز ہونا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس علمی اور فکری سطحیت کو مزید علمی تجزئیے اور تجربے سے دقیق اور فلسفیانہ انداز فکر پر منتقل کرنا بنیادی شرط ہے اس سے یہی ہوگا کہ کسی بھی ممکنہ سیاسی، حربی اور سفارتی پیش رفت کے تناظر میں انسان کے پاس چیزوں کو دیکھنے، سمجھنے، پرکھنے اور ان پر فیصلہ لینے کے لیے گونا گوں یعنی کئی ایک طرح کے رستے کھل جاتے ہیں، اگر شروع سے آخر تک چالیس چالیس سالوں کی لمبی تجرباتی مشاہدوں سے سیکھنے کے بجائے پھر سے ہر چیز کو سیاہ سفید میں دیکھنا ہو تو پھر سفر تو لمبی ہوگی ہی پر عقلی و فکری وسعت یقینا نصیب نہیں ہوسکتی۔

اب ان سطحیت پسند ذہنی کم کجالوں کو کیسے باور کروایا جائے کہ ہر تنقیدی جملے کا مطلب تم پر یا تمھارے قبیل پر حملہ آور ہونا نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تنقیدی اغراض و مقاصد یہ بھی ہوتے ہیں کہ کسی شئے عمل یا فکری و علمی گفتگو میں موجود سقم کو دور کیا جاسکے۔ بیکار کی سطحی پُرامیدی و ناامیدی کی نابالغ پن کی تحلیلی بنیادوں پر تجزیہ کی جاسکے اور اجتماعی عمل میں موجود کوتاہیوں کو روکا جائے تاکہ نقصانات کا احتمال کم سے کمتر ہوسکے۔

اسکے لیے لازمی ہے کہ انسان اپنی معروض کو سمجھے اور اسکی لوازمات و ضروریات میں زمان و مکان کی اہمیت کو اولیت دے۔ اپنے لوگوں کی نفسیات کو سمجھے اور اپنی حریف کی انداز فکر اور طرز عمل کو سمجھے ۔اب فرانز فینن یا سارتر اور کاسترو اور چی گویرا یا پھر ہوچی من اور ماؤزے تنگ، انکی ڈیکالونائزیشن کے لئے کی جانے والی فکری و عملی جد و جہد یقیناً قابل تقلید تو ہے ہی لیکن سوال پھر قیاس پر آجاتا ہے،سوال پھر تشکیک پر آجاتا ہے وہاں ہونے والی تجرباتی عوامل کو یا ان تمام مندرج بالا مفکر رہنماؤں کی تعلیم و تجربات کو من و عن اپنانے اور اپنی زمینی حقائق اور زمان و مکان کی موجودہ حقیقتوں سے چشمِ اغماض برت کر نکل جانے سے کیا کامیابی مل سکتی ہے۔

بلوچستان کی نہ صرف معروضی حقائق ان تمام سے الگ ہیں بلکہ بلوچوں کے سامنے مدمقابل حریف اسکی نفسیات اور اسکے اخلاقی قاعدے بھی ان تمام کالونائزرز سے الگ ہیں اور اسکے ساتھ آج کی حقیقت اور مادی و مالی وسائل کی بے پناہ موجودگی بھی بہت ساری عوامل کے تبدیلی کے لئے واضح بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

لیکن سطحیت پسند کی سقوطِ علم اور دقیقیت سے فرار کی نفسیات ( کہنا تو نہیں چاہیے لیکن )اسکو بھاؤلا کتا بنا دیتا ہے اور پھر ہر فکری و علمی تنقید کا جواب شائستگی سے دینے کے بجائے وہ بدزبانی و دشنام طرازی پر اتر آتا ہے اسکی بنیادی وجہ ہی وہی تساہل پسندی کا رجحان ہے جو ہم کو مجموعی اعتبار سے بحیثیت قوم لاحق ہے، ہم کٹتی سروں اور بہتی لہو کی دھار جتنا تیز ہوتے دیکھتے ہیں تو بس یقین کرلیتے ہیں کہ عمل مضبوط ترہوگئی۔

کیا واقعی ڈیکالونائزیشن کی جاں گُداز جد و جہد کی بنیادیں اتنے ہی سادہ ہیں؟