سوشلزم کے لفظی طور پر بہت سے معنی ہیں ۔ مارکسزم میں سوشلزم کا بہت ہی واضح مطلب اور مفہوم ہے جس کہ تحت حقیقی کمیونزم سے پہلے کا مرحلہ سوشلزم ہے۔ لیکن سوشلزم کو سمجھنے کے لیے اس کی سیاسی تاریخ کو جاننا بھی انتہائی ضروری ہے۔ عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ سوشلزم اور کمیونزم کارل مارکس کی تخلیق ہے مگر شاہد کم لوگ ہی اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ کارل مارکس سے پہلے سوشلزم کی سوچ ، Ludwig Feuerbach ، Charles Fourier، اور Henri de Saint-Simon جیسے لوگوں نے متعارف کیا اور بعد میں کارل مارکس نے ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر سوشلزم اور کمیونزم کی نظریہ کو جدید شکل دیا۔ مارکس کی سوشلزم صرف کارل مارکس کا مارکسٹ نظریات کے گرد نہیں گھومتا ،۱۸۶۴ میں یورپ کے تمام نظریات کے ماننے والے جو سماجی تبدیلی اور مزدوروں کی حقوق کے لیے جدوجہد کر رئے تھے کو یکجا کرنے کے لیے فرسٹ ا نٹرنیشنل نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کا پہلا کانفرنس جنیوا میں منعقد ہوا۔ پہلی اجلاس میں ہی کارل مارکس اور میخائیل باکونین کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آئے ، اس کے بعد ۱۸۸۹ میں سیکنڈ ا نٹر نیشنل کی بنیاد رکھی گئی جس کے رکن مشہور انقلابی ولادیمیر لینن بھی تھے۔ یہ سیکنڈ ا نٹر نیشنل کے دوران ہی تھا جہاں پر مارکس کے ماننے والوں اور ادوآرد برنشتاین Eduard Bernstein( جو کہ خود بھی مارکس اور اینگل سے قربت رکھتے تھے) کی نظریات میں کھلا تضاد سامنے آیا ، جہاں برنشتاین ریاست میں آئینی تبدیلی اور ریفارم کے ذزیعے سماجی بہتری لانا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ مارکس نے جب کمیو نسٹ مینوفیسٹو تحریر کی تو اس وقت ان کی سوچ نابالغ تھی۔ سیکنڈ ا نٹر نیشنل میں اس تضاد نے سوشلزم لانے والوں کو دو واضح حصوں میں تقسیم کردیا جس میں دوسرا گروپ سوشل ڈیموکریٹ تھا جو انقلاب کے بجائے ارتقائی سوشلزم (evolutionary socialism) اور ریفارمیزم کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ اس تقسیم کے بعد شوشل ڈیموکریٹ نے جرمنی، سویڈن، ناروے سمیت دوسرے ملکوں میں تبدیلی لانے کی جدوجہد شروع کی دوسری طرف انقلابی سوشلزم ( revolutionary socialism) کے ماننے والوں نے خونی انقلا ب لانے کی جدوجہد شروع کردی جن میں لینن قا بل ذکر ہے۔ لینن نے کہا کہ سوشلزم کا مقصد اشتراکیت ہے جبکہ مارکس کا قول ہے کہ جموریت سوشلزم کا راستہ ہے ۔مارکس کے قول کو اپنا پروگرام بناتے ہوئے لینن نے کہا کہ جموریت سوشلزم کے لیے ناگزیر ہے جبکہ گربا چوف نے کہا کہ زیادہ سوشلزم کا مطلب زیادہ جمہوریت ،کھلاپن اور اجتماعیت پسندی ہے۔Charles E. Wilsonنے کہا کہ جمہوریت کھلا پن اور اجتماعیت پسندی کا جتنا نام سوشلسٹ اور کمیونسٹ نے لیکر اسکے الٹ ڈکٹیٹرشپ قائم کیا کسی اور نظریہ اور سوچ میں اسکی نظیر نہیں ملتی ہے۔ ریگن نے کہا کہ سوشلزم دو جگہ کام کرسکتا ہے ایک جنم میں دوسرا جنت میں جنت کی انھیں ضرورت نہیں اور جنم میں وہ پہلے سے موجود ہیں ، ہینرو نے کہا کہ سوشلزم کچھ بھی نہیں ہے ماسوائے اس نظریہ کے کہ نوکر کہتا ہے کہ وہ اپنے مالک سے زیادہ دین دار ہے ، رچرڈ جوان نے کہا کہ سوشلزم ایک مذہب ہے کہ دوسرا اپنا مذہب چھوڑکر اس میں داخل ہوتے ہیں ، اپنے دین کو چھوڑ کر اس سوشلزم کی دین کو قبول کرتے ہیں ۔مارکس اور اینگلز نے کمیونزم کو کہا کہ جہاں پوری دنیامحنت کشوں کے کنٹرول میں ہوگی اور ریاست کا خاتمہ ہوگا او رکمیونٹی سسٹم ہوگا جس میں ہر ایک سے اسکی محنت کے مطابق کام لیا جائیگا ،اور ہر ایک کو اسکی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا ۔سوشلزم میں اخلاق ، مذہب کو اہمیت نہیں دیاگیا اور سوشلسٹ نظریہ میں لوگوں سے بڑے بڑے وعدے کئے گئے کہ جمہوریت ،برابری ،بھائی چارے پنچایت اور ،خوشحالی لائی جائیگی اور ہر ایک فرد اپنے بڑے خاندان کے ساتھ خوشحال زندگی گزار یں گے ۔کیا روس ،چین ،کیوبا،مشرقی اور سنٹرل یورپ میں اپنے یہ وعدے پورے کئے ،کیا اس نے لوگوں کو برابری دی ،تو جواب نفی میں ہے ،اس نے اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ روس ،کیوبا،چین ،سنٹرل اور مشرقی یورپ کے سارے سوشلسٹ ڈکٹیٹر بن کر ابھرے۔پولینڈ اور روس میں کھانے کیلئے لوگ لائنوں میں لگ گئے ،ایک سروے سوشلسٹ مشرقی جرمنی ،رومانیہ اور بلغاریہ کے ۲۲ شہروں میں کیا گیا تو انکی حالت برابری کے حوالے مغرب کے مارکیٹ سرمایہ دار ممالک سے بہت زیادہ خراب تر تھی۔سوشلسٹ کا دوسرا وعدہ پنچایت اور بڑے خاندان کی خوشحالی کا تھا تو روس میں غریب لوگ اور بڑے خاندان والے لوگ اپنے بچوں کی دودھ ،اور کھانے کی چیزوں کیے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑے رئے اور پھر انھیں دوکاندار کہتا کہ دودھ نہیں ہے ۔ سوشلزم نے عوامی خوشحالی کے بجائے ان ممالک میں عوامی تنگ دستی ،غربت ،اور افلاس دیا ۔ مارکس کی سوشلزم اور کمیونزم دونوں ناکام ہوئے کیونکہ دونوں کی جڑیں خیال پرستی اورتصورپرستی پرقائم تھیں ،دونوں خیالی،ناقابل حصول ،فطرت اور انسانی عظمت ،وقار سے انکاری ہیں ۔کیونکہ مارکس ،لینن ،کا جمہوریت کا سلوگن نعرہ کسی ایک بھی سوشلسٹ ملک میں نافذ نہیں ہوا بلکہ سب کے سب ڈکٹیٹربن کر ابھرے ،مارکس اور انگلز کا نظریہ کہ ریاستی طاقت کمیون کو منتقل ہوگی اور ریاست کا وجود ختم ہو گا جب ۱۹۱۷ میں روس کا انقلاب آیا کیونکر اس کو لاگو نہیں کیا گیا کیونکہ یہ سوچ خیالی اور ناقابل حصول تھا اور پھر اسٹالن سب سے بڑا ڈکٹیٹر بن گیا باقی سارے سوشلسٹ ممالک جمہوریت کے بجائے ڈکٹیٹر شپ کے تحت چلائے گئے ، انقلابی سوشلزم بیسویں صدی کا سب سے بڑ ا جھوٹ اور ناکام نظام ہے ،جس نے خوشحالی ،ترقی ،برابری،اور سیکوریٹی ،جمہوریت کا جو وعدہ کیا اسکے بدلے میں صرف غربت،بدبختی،بدنصیبی ،جبر ،استبداد د برابری کو اس حال میں دیا کیا گیا کہ لوگ بدنصیبی اور بدبختی میں برابرہوئے اور دنیا کی تاریخ میں بد ترین نسل کشی کی گی۔ جمہوریت کی جگہ اسٹالنزم جیسے ڈکٹیٹر کی حکومتیں یورپ میں پولینڈ،رومانیہ،ہنگری،بلغاریہ ،یوگوسلوایہ میں قائم ہوئیں ۔روس میں بالشویک انقلاب کے بعد کوشش ہوئی کہ کمیونزم کو دنیا میں رائج کیا جائے روس نے سارے کمیونسٹ بلاک کو مالی ،ملٹری،جنگی اخلاقی مدد دی ،بہت سے ممالک میں سوشلسٹ انقلاب آئے مگر وہ لوگوں سے کیا گیا وعدہ وفا کرنے کے بجائے ان پر بی ایل ایف اور بی آر اے کی طرح بوجھ بن گئے ۔اب صرف چین،ویت نام،لاؤس،کیوبا ،اورشمالی کوریا میں سوشلزم ہے باقی سارے ملکوں میں یہ نظام نا کام ہوا ۔ Richard Pipesکے بقول مارکسزم جو کمیونزم کا نظریاتی اور خیالی بنیاد ہے جس نے بڑے بڑے وعدے کر کے خود اپنے اندر اپنی تباہی کے بیج بوئے کیونکہ ان میں سے وہ ایک بھی پورا نہ کرسکے ۔روس میں لینن کے انقلاب میں وعدوں اور نعروں کو عملی جامہ نہ پہنانے کے حوالے ایک لیڈر نے کہا کہ147 لینن ایک کلاکار ہے جو انسانوں کی کشیدہ کاری کرچکا ہے جس طرح باقی کلاکار ماربل اورسونا چاندی پر کام کرتے ہیں ، مگر انسان تو پتھر سے زیادہ سخت اور لوہا اور آہن سے کم ملائم اور نرم ہے، اسی لیے کوئی بھی نمایاں کارنامہ اور عمدہ کام دیکھنے کو نہیں ملا کلاکار مکمل ناکام ہوچکا ہے ، وہ وعدہ اور کام اس کی قوت اور اختیار کے مقابلے میں بڑا تھا۔ سارے کمیونسٹ اور سوشلسٹ اپنے سلوگن اور نعرے کے الٹ گئے اور سارے کے سارے آمر بن کر لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے لگے ۔لینن،اسٹالن،ماوُ،کاسترو،پول پوٹ، سمیت کسی نے اپنے نظریہ کے تحت کام نہیں کیا بلکہ سب جمہوریت کی آڑمیں آمر بن گئے اپنے قوم اور ملک کو فائدے کے بجائے نقصان سے دوچار کیا ۔\’Khmer Rougeکمیونسٹ پارٹی کمبوڈیا کے صدر پول پوٹ نے ۳ ۱۹۶ میں گوریلاجنگ شروع کیا اور کمیونزم کا پرچار کرنے لگا کمبوڈیا کے دارلحکومت Phnom Penhپر پول پوٹ کے گوریلا دستہ نے۱۹۷۵ میں قبضہ کیا اور ملک میں انقلاب برپا کیا ،انھوں نے کیلنڈر کو زیرو میں ری سیٹ کیا ،تمام شہری لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ د یہاتوں اور گاؤں میں زرعت پر کام کرہیں ۔اس نے کہا کہ وہ لوگوں کے ذہن اور دماغ کو تبدیل کریگا کیونکہ تمام کمیونسٹ کا نظریہ یہی تھا کہ سماج کو مکمل تبدیل کریں گے ۔ذاتی کاروبار ،تجارت سب کو ختم کیا گیا شہری نظام کو درہم برہم کیا جانے لگا اس میں پول پوٹ نے ڈکٹیٹرشپ قائم کی اور خفیہ ٹارچر سل بنا کر ہزارں لوگوں کو اس میں قتل کیا گیا اپنے مخالفین کا صفایا کیا گیا کچھ شہادتوں کے مطابق ان تمام مردوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا جو کہ چشمے لگاتے تھے کیونکہ پول پوٹ سمجھتا تھا کہ تمام چشمے والے مرد اور عمر دراز لوگ دانشور ہیں ۔ دانشور تنقید کرتے ہیں اس تنقید کی خوف سے سب کو قتل کیا گیا ،۔ہزاروں کی تعداد میں لوگ قحط غربت ،بھوک سے مر گئے ،وہاں لوگوں کی انصاف کو نا انصافی ،خوشحالی کو بھوک ،غربت،قحط میں تبدیل کیا گیا اور پول پوٹ کی سوشلزم انقلاب کی پاگل پن نے کمبوڈین قوم کو بہتری کے بجائے نسل کشی دیا جہاں بیس ہزار کے قریب اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں اور تیس لاکھ لوگوں کا یعنی آبادی کے ۲۵ فیصد انسانوں کو قتل کیا گیا ۔ ما ؤ جس نے کہا کہ تاریخ بنانے میں لوگ اور لوگ صرف لوگ ہی محرک طاقت ہے لوگوں کی وجہ سے انقلاب برپا ہوتے ہیں تاریخ لوگوں کی وجہ سے بنائی جاتی ہے اس نے یہ بھی کہا کہ عوام سے سیکھو اور پھر عوام کو سیکھاؤ۔ ماؤ کے جنگی حکمت عملی اور اسکے طریقہ کار پر کسی حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن اسکی سیاسی پالیسی اور معاشی پالیسیاں مکمل طورپر ناکام ہوئے ۔ماؤ نے کہا کہ سینکڑوں پھول اورخیالات رائے پھلنے اور سرسبز ہونے دو ، آرٹس اور سائنس میں ترقی ،سرفرازی،سربلندی کا دارمدار مناقشہ اور مقابلہ میں ہے ، جس نے ۱۹۵۶ میں ۱۰۰ پھول کمپین کے نام سے دانشوروں اور عام لوگوں کو تنقید کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہماری حکومت ، خامی ، کچاپن ،نظریات وغیرہ پر تنقید کریں لیکن اس کا مقصد صرف مخالفیں کی نشاندہی کرنا تھا جن کو بعد میں قتل کیا گیا۔ ماو کی Great Leapبھی ناکام ہوا جو ۱۹۵۸سے ۱۹۶۱تک جاری تھا جس میں کہا گیا کہ چین کو بیابانی ،زرعی ملک سے سوشلسٹ سماج میں تبدیل کریں گے اور اسکے لیے صنعت کاری کی کوشش تیز ہوئی لیکن اس تصوری پالیسی کی وجہ سے قحط آیا جس میں کروڑ کے قریب لوگ بھوک سے مرگئے اسکی یہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوا ،ماؤ نے خوشحالی کے بجائے بھی چین میں بھوک ،غربت،دی ۔ ماؤ نے بھی باقی کمیونسٹ لیڈروں کی طرح اپنے آپ کو انقلاب کا محافظ سمجھتا رہا طاقت اور پاور سے خود کو الگ نہیں کیا ۔ جب ماؤ کی Great Leap نے چین کو برباد کیا اور کمیونسٹ پارٹی میں ان کی پالیسی کی وجہ سے مخالفت ہونے لگی تب اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اور خود کو دوبارہ جتانے کے لیے اس نے کلچر انقلاب کا نعرہ ۱۹۶۵سے ۱۹۶۸تک دیا کیونکہ اسکی پوزیشن ۱۹۵۰ والی نہیں تھی ،اسے خوف تھا کہ پارٹی میں دوسرے لوگ آکر اسکی جگہ لیں گے ،اسکی پوزیشن پارٹی اور ملک میں کمزور ہوگی ،اپنے اختیارات کو دوبارہ نافذ کرنے کی کلچر انقلاب ایک کوشش تھی۔Lin Piao کی تقریر سے کلچر انقلاب کا آغاز ہوا،سکولوں کے طلباُکو زوردیا گیا کہ دوبارہ انقلاب کی طرف آئیں ،انکی حوصلہ افزائی کی گئی کہ کمیونسٹ پارٹی کے اندر جو لبرل تھے انکے اوپر تنقید کریں Red Guards نے کچھ لوگوں کو ٹاسک دیا کہ تعلیم یافتہ اور ماؤکے خلاف ہونے والے سب لوگوں کے اوپر تنقیدکا سلسلہ شروع کریں،جس کسی پر ماؤ اور لین پاو کو شک تھا کہ وہ اس سے الگ را ئے رکھتے ہیں انکے اوپر تنقید کا سلسلہ شروع کیا گیاLiu Shao-chiکو اسکی بہتر پالیسی کی بنا اور ماؤ سے الگ را ئے رکھنے کی پاداشت میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ماؤ خود کی شخصیت بنانے کے چکر میں یہ سب کچھ کرتے ر ئے ،کہا گیا کہ کسان ،مزدور،اور تعلیم یافتہ لوگ ایک ساتھ کام کر یں،کوئی کسی سے کم تر نہیں ہے ،ریڈگارڈز نے کہا کہ ا حترام اور عزت کوئی چیز نہیں ہے ،لوگوں کو بے عزت کرنا انکے تنقید کا محور تھا ،ریڈگارڈز کی اس عمل نے چین کو ہل چل اور کھلبلی میں ڈال دیا،سکول اور کالج بند ہوئے انکی معیشت تباہ ہوئی ،آخر میں اس کھلبلی کے ماحول میں ریڈ گارڈ دوسرے ریڈگارڈ کو مارنے لگے بداعتمادی کا ماحول پیداہوا،اور تنقید کرنے والے ماؤکے ہاتھ سے نکل گئے اور ہر ایک دوسرے کے خلاف ہونے لگا ، �آخر میں مانا گیا کہ کلچر انقلاب ناکام ہوا ہے اور سارا سسٹم تباہ ہورہا ہے اور کلچر انقلاب ہاتھ سے نکل کر ایک اور رخ اختیار کرچکا ہے ۔ کلچر انقلاب میں جنرل لین باؤ سمیت گینگ آف فور ( چار کا ٹولہ) کا بہت بڑا کردار تھا جس میں Zhang Chunqiao،Yao Wenyuan،Wang Hongwen سمیت ماؤ کی آخری بیوی Jiang Qing شامل تھے۔چار کے ٹولہ کو ماؤ کی انتقال کے بعد غداری کے جرم میں گرفتار کیا گیا، کلچر انقلاب کو ختم کو کیا گیا اور ان پر کیس چلایا گیا۔ چین کو ایک طاقت بنانے میں Li Xiannian نے کردار ادا کیا جس نے ماؤ کے تمام خیالی معاشی منصوبوں کو ختم کرتے ہوئے چین کی معیشت کی ازسرنوتشکیل کی جس کی وجہ سے آج چین دنیا کا ایک معاشی طاقت بن چکا ہے۔ کیوبا کی سوشلسٹ انقلاب نے صحت اور تعلیم کے حوالے کامیابی حاصل کی ہے جس کی تعریف اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی کرتا ہے لیکن سوشلسٹ انقلاب نے معاشی حوالے سے کیوباکو بہت نقصان دیا ہے اور معاشی بربادی سارے ملک میں کرپشن کی بنیاد بن چکی ہے۔شمالی کوریا اور جنوبی کوریا ایک ساتھ تھے پھر ایک کمیونسٹ بلاک میں گیا ایک سرمایہ دار بلاک میں شامل ہوا ۔ شمالی کوریا میں سوشلزم ہے اور اسکی معیشت تباہ حال ہے ،معاشی بدانتظامی،وسائل کی غلط تقسیم اور ڈکٹیٹر شپ نے ملک کو تباہ کیا ہوا ہے ، ۲۲ میلین کی آبادی میں ۳ میلین لوگ قحط سالی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نازی جرمنی سے مختلف نہیں ہیں kim کو کوئی امداد فرہم کرتا تو وہ پاکستان کی طرح اپنی فوج پر انھیں خرچ کرتے،kimکی ڈکٹیٹر شپ کی و جہ سے ۲۰ لاکھ سیاسی لوگ قیدکئے گئے ۔ٹارچر ،تشدد اور لوگوں کی رائے کو دبانا معمول سا بن گیا۔جبکہ اس کے برعکس جنوبی کوریا جس کی معیشت ۱۹۶۰ کے دور میں افریقہ اور ایشا کے ممالک کی طرح تھی لیکن اب اسکی معیشت اور صنعت ہائی ٹیک صنعت میں شا مل ہوچکا ہے دنیا کی ٹریلین ڈالرکی معاشی کلب میں داخل ہوکر دنیا کی ۲۰ بڑی معاشی ممالک میں شامل ہے ۔جب کمیونزم اور سوشلزم آزاد ممالک میں کامیاب نہیں ہوسکا تو بلوچ قوم جو غلام ہے ،جس پر پاکستان اور ایران قابض ہوکر اسے زندگی کے ہر میدان میں پسماندگی ،غربت،بھوک ،افلاس ،غربت،کا شکار کر چکے ہیں اور ساتھ ساتھ زندگی کے ہر میدان میں بلوچ قوم کا استحصال کرکے بلوچ قومی مڈی اور وسائل کو لوٹ کر بلوچ قوم کو سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ہمیشہ کے لیے غلام بنانے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنی نیشنلزم ، قومی پہچان، اور بلوچ قومی ریاست کی تشکیل پر توجہ دینے کے بجائے سوشلزم پر وقت ضائع کررہے ہیں۔ ریاست کی طرف سے ایک پروپیگنڈہ تواتر کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ بلوچ قبائلی ہیں بے تعلیم ہیں ،اور انکی زبان اور علاقوں میں فرق ہے مذہبی کارڈ کو بھی بہت استعمال کیا جارہا ہے ،بلوچ ہیروز ،تاریخ ،قصہ کہانی اور یاداشت ،کلچر ،کو متنا زعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ،ہم بلوچ بھی باقی ماندہ احساس کمتری کے شکار لوگوں کی طرح اپنی تاریخ ،کلچر ،ہیروز کو فراموش کرنے لگے او ر نصیر خان کی جگہ غوری،حمل جیئند کی جگہ غزنوی ،رحم علی مری کی جگہ اقبال ،مہراب خان کی جگہ ٹیپوسلطان،،اسلام اور بلوچ کی تاریخ میں سہیل بن عدی اور عبدل رحمان بن سمرا ،حارث بن مہرہ کی جگہ محمد بن قاسم ،کو ہیرو مانے لگے حالانکہ اسلام سنٹرل ایشا اور جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے بلوچستان میں آیا بلوچ ہی حضرت عمر کے دور میں ۱۸ ہجری میں مسلمان ہوئے تھے جبکہ سندھ اور پنجاب میں اس وقت اسلام پہنچا جس وقت اسپین اور افریقہ میں پہنچ چکا تھا ،۷۱۱میں محمد بن قاسم نے اسلام سندھ میں تلوار کی زور پر قائم کیا اسے بہت سے لوگ قابض سمجھتے ہیں سندھ کے بعد اسلام پنجاب پہنچا اور آج اسلام کا ٹھکیدار یہ بن چکا ہے کہ صرف دہ سو سال پہلے پنچاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت تھی اور آج کے پاکستانی پنچابی ان سکھوں کی اولاد ہیں لیکن اب وہ خود کو اسلام کا غازیِ مردسمجھ کر ہمیں آئی ایس آئی کا اسلام سکھا رہا ہے اور ہماری تاریخ کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بلوچ پنجابی کے اسلام کے محتاج نہیں بلکہ وہ ہمیشہ سے بلوچ اور مسلمان ہوکر بھی دوسرے مذاہب کا احترام اور تحفظ کرتے آرہے ہیں ہندوستان کی تقسیم میں ہزاروں لوگ مارئے گئے لیکن بلوچستان میں ایک بھی اقلیت کو نقصان نہیں ہوا یہ بلوچ قوم کی سیکولرسوچ کوظاہر کرتا ہے ۔پاکستان نے بہت کوشش کی کہ مذہب کے نام پر اپنی شیطانی حربہ کو فرشتہ بن کر عملی جامہ پہناتے ہوے ،چند چورروں اور ڈاکووں اور سماج میں گرے ہوئے دلالوں کو مذہب کا نام دیکر استعمال کرے اور اب تک کچھ لوگوں کو مذہب کے نام پر بلوچ قوم کے خلاف استعمال کر رہا ہے لیکن اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ۔اب وہ سوشلزم اور کمیونزم کے مردہ اور ناکا م اور آزاد ممالک کے لیے ناقابل حصول اور خیالی نظریہ کو محکوم بلوچ کی قومی سیاست میں رائج کرنے کی کوشش کررہا ہے جس میں لاہوری سوشلسٹ ایک بڑا کردار ادا کر رئے ہیں ۔ بی این ایم ،بی ایس او،بی ایل ایف اس قابض کے مفادات کو تحفظ دینے والے مردہ گھوڑے یعنی ستر کے سوشلزم میں روح پھونک کر دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کررئے ہیں بلوچ قوم کی قربانی ،شہادت،تکالیف،اذیت جو صرف اور صرف بلوچ قومی آزادی کے لیے ہیں ان کو قومی تحریک مضبو ط کرنے کے بجائے سوشلزم پر صرف کررہے ہیں جو آگے چل کر قومی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگی۔ایسی سیاست اور جہد کا کیا فائدہ جو آپ کو آپکے بنیادی مقصد سے ہی بھٹکا کر راہ سے بے راہ کر دے بی ایل ایف اور بی این ایم سوشلسٹ ممالک کی طرح جہد کے دوران بھی اسی طرح ڈکٹیٹر بن چکے ہیں ،اور اپنے مخالفین کو مار رہے ہیں ،اختلافات رائے کو برداشت نہیں کر رہے ہیں ۔اور جو کوئی لکھتا ہے ماؤ کی کلچر انقلاب کی طرح انھیں گالی سے نوازا جارہا ہے اور بلوچ روایات ،اقدار،سماج میں موجود احساسات کو ناکام کلچر انقلاب کی طرح ملیا میٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کسی بھی جہد میں تنقید اور لکھنے میں پابندی نہیں تھی اور ہر کامیاب جہد میں تنقیدہوا ہے لیکن ہمارا تنقیدی عمل زیادہ تر کلچر انقلاب کی طرح ہوچکا ہے اور اس میں کسی حد تک کچھ زانتکار اور لکھاری صحیح معنوں میں تنقید کر رہے ہیں باقی میرے جسے بہت سے لوگوں کی تنقید مکمل ماؤ کی کلچر انقلاب کا پرتو ہے۔کیونکہ سوشلزم اور کمیو نزم ہماری سر شت اور جبلت میں ۷۰ اور ۸۸ کی ناکامی کے بعد بھی اب تک موجود ہے ۔ کوئی مانے یا نامانے یہ حقیقت ہے کہ ہماری تحریروں میں کلچر انقلاب کی واضح جھلک موجود ہے۔ حالا نکہ ماؤ جو اپنے سماج کو مکمل تبدیل کرنے کا عزم کرچکے تھا وہ بھی اس حد تک نہیں گیا کہ کسی کو گالی دیتا ، یہاں تو ہم نے اپنی ماوں اور بہنوں کو بھی نہیں بخشا، کسی کو پٹھان، کسی کو تاجک کسی کو پنجگوری کسی کو چرسی تو میری طرح کسی کو لاڈلا کہا جاتا ہے شکر یہ اس دوست کا کے جس نے ہمیں تنقید کے اصول سے توڑا آشنا کیا ورنہ ہم بھی کردار کشی کو تنقید سمجھ رہے تھے ،حا لانکہ کردار کشی کرنا کب سے تنقید ہوچکی ہے ؟ یہ کہاں کا تنقید ہے ؟ یہ تنقید اگر اس لیول میں گیا تو یہ کلچر انقلاب سے بھی بدتر ہوگا ،اسے چین کا مضبوط کمیونسٹ پارٹی کنٹرول نہ کرسکا تو ہماری جہد میں وہ کیسے قابو میں آسکتا ہے؟ جب تنقید کی بنیاد تخریبی ہوتی ہے تو ہمیں کمیونزم، ماؤازم جیسے نظریات ملتے ہیں جو قوموں پر بربادی لاتی ہے جبکہ تنقید تعمیری ہونے کی صورت میں انسانی سوچ نئی تخلیق کرتی ہے جس طرح یورپ کی دور روشن خیالی(Age of Enlightenment) کے سبب تنقید نے معاشرے کی ازسرنو تعمیر کی جہاں نئے نئے ایجادات کئے گئے جیسے کہ بھاپ کا انجن، ٹیلی گراف، ٹیلی اسکوپ، ترمامیٹر، آبدوز وغیرہ۔ ،کانٹ نے کہا کہ روشن خیالی ایسا عمل ہے جس نے ہمیں ہماری خامی ،ناپختگی، نابالغی اور ادھوراپن کا احساس دیا ۔کانٹ نے تنقید اور پڑھنے کے بارے میں کچھ اصول بیان کئے ہیں کہ ہم سب نا پختگی اور نابا لغی کے حالت میں ہیں اور ہم میں سمجھ ،بوجھ اور فہم کی کمی ہے ، یہ کمی کسی کتاب اور تحر یر سے پورا کیا جاسکتا ہے ، کتاب اور کوئی تحریر ہماری سمجھ ا ور بوجھ اور ادراک وفہم میں کمی کی جگہ لے سکتا ہے۔ناپختگی اور نابالغی اور ادھوراپن سے نکلنے کے لیے انسان کو جا ننے کی ہمت ہونا چاہئے ،اسے جاننے کی جرات پیدا کرنا چاہیے ،مخالف رائے کو ہر حال میں اسے برداشت کر نے کا سکت ہونا چائیے ۔روشن خیالی میں تامس ھابز،ڈیودہیوم ،عمانویل کانٹ جسکا قد چھوٹا مگر خیالات بڑے تھے عقل اور آزادی اسکی سوچ کا محور تھا ،گوٹفریڈویلہم لائبینز،جان لوک،شارل دو مونتسکیو،ژاں ژاک روسو جسکی تحریروں سے فرانس کا انقلاب برپا ہوا،اس نے سائنس اور آرٹس کے اخلاقیات پر اثر کے حوالے سے بھی تحریر کی ہے ۔معاہدہ عمرانی بھی لکھا ،اس نے کہا کہ انسان فطری طور پر نیک اور آزاد پیدا ہوا مگر معاشرہ اسے بدی میں مبتلا کرتا ہے،انسان آزاد پیدا ہوا مگر ہر طرف زنجیروں میں جھکڑا ہوا ہے۔ اسپینوزا جس نے کہا کہ خدا اور فطرت کے قوانین ا یک جیسے ہیں اخلاقیات اسکی ہم تصنیف ہے سب نے لکھا اور تنقید کی مگر انکی تنقید اور ماو کی کلچر انقلاب کی تنقید میں زمین و آسمان کا فرق تھا جہاں پر تنقید سوچ اور فکر پر ہوتی تھی ناکہ زات پر، Age of Enlightenment میں تامس ھوبز اپنی کتا ب لویاٹان میں کہتے ہیں کہ انسان اجل سے ہی فسادی ، جنگ کرنے والے ہے اسی لیے اس کو کنڑول کرنے کے لیے ایک ایسے بادشاہ اور ریاست کی ضرورت ہے جس میں لوگوں کو قانون کے طاقت کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے جبکہ اس سوچ کو روسو چیلنج کرتے ہوے سادہ سا سوال اٹھاتا ہے کہ اگر انسان اجل سے ہی فسادی اور ناشر ہے تو ایک وقت تھا جب چھوٹے چھوٹے کمیونیٹی وجود رکھتے تھے تب ان کی وجود باہمی گفت شنید سے ہوا ہوگا جس کے بعد ان چھوٹے علاقوں کے ترقی کرتے ہوے بڑھے ریاست تشکیل دیے ہونگے، اگر انسان کی فطرت ہی فسادی و ناشر ہے تو اس نے کس طرح مل بیٹھ کر انسانی معاشرے کی پہلی بستی، گاوں یا کمیونیٹی تشکیل دی ہوگی؟ اس دلیل میں نا طنز تھا نا ذات پر حملہ مگر اس دلیل نے تامس ھوبز کی سوچ پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا جو ۲۵۰ سال کے بعد بھی موجود ہے اور اسی طرز کے دلیل اور تحریر قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہیں دوسری طرف ماو کا تنقید سبوتاژی مہم تھا جو ناکام ہوکر اپنی منطقی انجام کو پہنچا جبکہ روشن خیالی کی بحث تعمیری اور اصلاحی تھا جس نے پوری دنیا تبدیل کردی اور دنیا کے لیے ترقی ، ایجادات ،انقلاب ،آزادی ،برابری ،انصاف ،خوشحالی کا دروازا کھولا اور انکی تحریر نے مذہبی بالادستی ،بادشاہت،ڈکٹیٹرشپ،اور یورپ کی اندھیرے اور تاریکی کو جمہوریت ،برابری ،جوابدئی اور روشنی میں تبدیل کیا جبکہ ہماری تحریروں میں وزن ڈالنے کے لیے اور ہر ایک مکاتب فکر اپنے دوستوں سے داد وصول کرنے اور کوئی اپنی ذاتی غصہ نکالنے کے لیے میرے جسے کم علم اپنی افلاطونیت دیکھانے کے لیے، کچھ لوگ اپنے غلط عمل قومی جہد کے منفی عمل پر تنیقد کو روکھنے کے لیے زیادہ تر روس ،کیوبا،شمالی کوریا اور کمبوڈیا جیسی سماج سے اثر لیکر پالسی ،پروگرام ،خیال ،سوچ،واقعات کے بجائے کردار کشی ،گالی گلوچ،ذاتی حملہ،اور تنقید کو قومی تحریک کی اصلاحی کرنے سے زیادہ چند شخصیات تک محدود کیا ہوا ہے زیادہ تر لوگ روشن خیالی کے اصلاحی کے بجائے سوشلزم طرز اور اسی فطرت کے مطابق بحث کو آگئے لیے جا رئے ہیں اور ماو کی پالسی کہ اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کی واضح جلک زیادہ تر ہماری بحث، تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ بلوچ اقدار کو روندنے کے بجائے اس کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی تنقید کی جا سکتی ہے ،کیونکہ خوبصورتی کی کمی کو اخلاق پورا کر سکتا ہے مگر اخلاق کی کمی کو خوبصورتی پورا نہیں کرسکتا ہے ۔چین سے اثر لیے ہوئے اس طرح کے بحث جس میں روایات ، اقدار کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بد اخلاقی اور پوتاری جسے بحث سے فائدے کم نقصان زیادہ ہوگا ۔بحث بلوچ قومی تحریک کے لیے بے حد ضروری ہے لیکن اس بحث کے سمت کا تعین بھی ضروری ہے ۔کیونکہ یہ حقیقت قوم اور لوگوں خاص کر تعلیم یافتہ لوگوں کو مانناہوگا کہ بی ایل ایف ،بی ایل اے ،بی ار اے قومی فوج ہیں تو انکے عمل قومی ہونا چا ہییے اور بی این ایم ،بی ایس ،او ،بی ار پی،بی ایس ایف ،اگر قومی پارٹی ہیں تو انکے عمل قومی ہونے چا ہیے اور اگر کسی ایک کا عمل غلط ہوگا تو اس سے پوری جہد کو نقصان اٹھانا ہوگا اور آج کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ بی ایل ایف ،بی ار اے اور یو بی اے کا سرمچاری رنگ ،ذائقہ،اور خوشبوبی ایل اے سے مختلف ہے، ،بی ار اے کا سوئی گیس اور بجلی پر اسکا حملہ قابل تعریف ہے مگر مکران میں قومی فوج سے کینگ فوج میں تبدیلی سوالیہ نشان ہے بی ایل ایف اور یو بی اے جو اپنی طاقت اپنے قوم اور لوگوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں قومی طاقت دشمن پر کم اپنے لوگوں کے خلاف زیادہ استعمال کر رہے ہیں اگر ان پر تنقید نہ کیا جائے اور تامل اور باقی ماندہ ناکام تحریکوں کی طرح سب کچھ دیکھا جائے کہ ان پارٹیوں کے چند لوگ ناراض ہونگے تو یہ قومی جہد کے ساتھ غداری کے مترادف عمل کے زمرے میں آتا ہے لیکن تنقید اگر ہوگی تو اعتدال پسندی کی طرح انکے اصلاح اور جہد کی بہتری کے لیے ہو ۔تو اس سے قوم اور تحریک کا فائدہ ہوگا۔بی این ایم ،بی ایل ایف ،یو بی اے اور بی ایس او جو قومی نیشنلزم کے جہد کو کمیونزم اور سوشلزم سے آمیز کر رے ہیں کیا وہ اسکے لیے کوئی دلیل دے سکتے ہیں اور اپنی پروگرام کو واضع انداز میں بیان کر سکیں گے ۔کیا سوشلزم اور کمیونزم کے نعرے کے ساتھ بی ایل ایف ،بی این ایم ،اور بی ایس او قوم کو آگئے کے بجائے پیچھے کی طرف نہیں لیے جا رہے ہیں اور یہ قوم کو ایک فردوس زیریں اور مثالی دنیا نہیں دیکھا رے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے ؟ ۔بی این ایم ،بی ایل ایف اور بی ایس او کی سوشلزم اور قوم پرستی کے درمیان ۱۲ سال کی جہد کے بعد بحث حضرت یوسف اور ذولیخا کی کہانی کی طرح ہے ،رات بھر کہانی سنتے رئے اور کہانی سنے والے نے صبح ہوتے ہوئے کہا کہ ذولیخا مرد تھا یا عورت تھی ؟ ،بی این ایم ،بی ایل ایف اور بی ایس او ۱۲ سال سے جہد کر رہے ہیں اور انھیں اپنی منزل اور گول کا پتہ نہیں اور مقصد تک پہنچنے کے لیے اسباب اور وسیلہ کا علم نہیں اور قومی آزادی حاصل کرنے کے لیے ان کے مشیر پنجابی سوشلسٹ ہیں۔ بی ایل ایف کی کمیونزم اور سوشلزم کا سلوگن بلوچ قوم کی ۶۶ سالوں سے جاری قومی اور قوم پرستی کی جہد پر ایک طرح کی چھاپہ مار حملہ کی مانند ہے ،بلوچ قومی جہد یوسف عزیز مگسی کی ۱۹۲۰ میں قائم انجمن ،اتحادِ بلوچستان اور خان مہراب خان کی نیشنلزم کی جہد کا تسلسل ہے ،اب اسے بی ایل ایف اور بی این ایم اپنی بے مقصد اور ابہا می پالسی سے گڈمڈ کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔بے مقصد اور واضح پروگرام نہ ہونے کے حوالے سے A. P. J. Abdul Kalam نے کہا کہ اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے آپ کو single-minded ہوکر اپنے مقصد پر سارا لگن لگانا ہوگا ہنری فوڈ نے بھی کہا کہ مقصد کے حصول میں مشکلات آئینگے ،جب آپ اپنی آ نکھیں اپنے مقصد اور ٹارگٹ سے ہٹاہیں گے تو مشکلات اور رکاوٹ ، وحشت انگیز و ڈراونا چیز بن کر آپ کا پیچھا زندگی بھر نہیں چھوڑیں گے۔جو لوگ ایک ہی مقصد کے لیے جہد کرتے ہیں انکے لیے وحشت اور ڈراونے والی چیزیں نہیں ہوگی جنکی سوچ بی این ایم ،بی ایل ایف اور بی ایس او کی طرح سوشلزم اور کمیونزم اور سماجی اصلاح جیسے چیزوں کے لیے منتشر ہے وہ اس جہد میں آگے مزید کنفیوز ہونگے اور قومی سوچ فکر اور ایک ایجنڈا یعنی قوم پرستی کے نظریہ کے تحت قومی ریاست کے تشکیل کے پروگرام کو بھی کنفیوز کرنے کی کوشش کرہیں گے۔اسی لیے وہ اس بنیادی قومی آزادی کے مسلے پر کھل کر بحث کریں اور یہاں اتفاق رائے قائم کریں تاکہ قومی پروگرام میں میں غلط ملط اور بے تر تیبی کو دور کیا جاسکے ۔ بلوچ بھی فیصلہ کریں کہ اگر آزاد بھی ہوئے تو سوشلسٹ ملک بن کرکمبوڈیا ،کیوبا ،شمالی کوریا یا کمیونسٹ دور کے سنٹرل یورپ کے ممالک کی طرح بھوک پیاس قحط ،غربت،میں رہنا ہے یا کہ جدید قوموں کی طرح خوشحال ہونا ہے اور سوشلزم کے تحت اگر قومی آزادی کا حصول ممکن ہے اور بلوچ آزاد ہو سکتے ہیں تو ہمیں قومی مفاد اور غلامی سے نجات کے لیے یہ نظام بھی قبول ہے ،کیا کیوبا ،شمالی کوریا اور چین بلوچ جہد کو آزادی دلا سکتے ہیں اور بی ایل ایف ،بی این ایم ،بی یس او اور یو بی اے اسکی وضاحت قوم کے سامنے کر سکتے ہیں کہ وہ بلوچ قومی مفادات کس طرح سوشلزم کا پرچار کرکے حاصل کر سکتے ہیں یا کہ وہ اپنی واضح پالسی دیکر قوم کو اس کنفیوزن سے نکال کر اصل معاملہ او ر منسائے دعوی پر بحث کرکے قوم کے سامنے جہد کے لیے اپنی پوزیشن واضح کرکے اپنی اپنی غلطیوں کو مان کر ، ذات، گروہ پرستی وغیرہ سے نکل کر تنظیمی اصلاح لاتے ہوئے اپنی طاقت قوت بلوچ قوم کے بجائے دشمن پر لگائیں گے ، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ و ہ صحیح ہیں ، ان کی سوشلزم قوم کی مفاد اور آزادی حاصل کرنے کا بہتریں راستہ ہے تو سیاسی لوگوں کی طرح دلیل دیکر اس کو ثابت کریں وگرنہ پوتاری کے ذریعے سیاست اور قومی جہد میں غلط اور صحیح کا فیصلہ ممکن ہی نہیں۔