تحریر: صغیر بلوچ خارانی

ہمگام آرٹیکل

موجودہ دور میں اگر بلوچ قوم کی قومی زبوں حالی و محرومی کی بنیادی وجوہات تلاش کیا جائے تو بلاشبہ، بے شمار وجوہات سامنے آئیں گے۔ تاہم، تمام وجوہات میں سب سے اہم، بنیادی اور بڑی وجہ مصنوعی پنجابی ریاست اور اس کے قابض عسکری ادارے ہیں۔ جنہوں نے قدیم و جدید نو آبادیاتی ہتھکنڈوں کے تحت بلوچ قوم کو یرغمال بناکر تمام حقوق، مواقع اور مراعات سے بری طرح محروم کردیا ہے، حقوق کیا، انسانیت کی ڈیفینیشن سے بلوچ کو خارج کردیا ہے۔ پنجاپی ریاست اور اس کے فوجی اداروں نے بلوچستان کو بتدریج ملٹرائز کرکے ایک بڑے کیمپ نما قید خانے میں مبتلا کردیا ہے اور تمام اداروں اور دستیاب زرائع کو بلوچ قومی مفادات کے خلاف استعمال کررہا ہے تاکہ بلوچ معدوم ہوسکے، بلوچ کی ساحل و سائل کی نیلامی، لوٹ مار اور ترسیل میں آسانی رہے اور بلوچستان کی اہم جغرافیائی اور تزویراتی پوزیشن کے ذریعے دنیا کو ہر ممکنہ طریقے سے بلیک میل کیا جاسکے، اپنے لیئے مواقع پیدا کیا جائے اور اپنی طاقت و اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔

 یہ ایک معروضی حقیقت ہے کہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر کوئی حیثیت نہیں، اگر بلوچستان آزاد ہو جائے، تو پاکستان دم توڑ کر اپنی موت خود مرے گی، اس لیئے، پنجاپی فوج بلوچستان پر قابض ہے اور عالمی قوتوں کے سامنے مقبوضہ بلوچستان کو خود ایک سیاسی، جغرافیائی، تزویراتی اور معاشی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔اس میں کوئی دوہرائے نہیں کہ تمام آزاد اور مہذب سماج میں ہر ادارے کا قیام ایک خاص مقصد کیلئے ہوتا ہے اور وہ ادارے اپنے قانونی اختیارات کے تحت اپنی زمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں، کبھی ایک دوسرے کی اختیارات یا دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرتے، اس لیئے، ایسے سماج مجموعی طور پر مہذب ٹھہرتے ہیں، مضبوط رہتے ہیں اور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ تاہم، اس کے برعکس، جب پنجاپی ریاست یا مقبوضہ بلوچستان پر نظر ڈالی جائے، تو یہاں پنجاپی فوج کا تمام تر اداروں پر قبضہ اور اثر و نفوز نظر آتی ہے۔ وہ تمام اداروں پر بتدریج مکاری سے اپنی اختیار قائم دائم کرکے اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کیلئے براہ راست یا بلاواسطہ چلاتے ہیں۔

ایک کہاوت مشہور ہے کہ” ہر ریاست کا ایک فوج ہوتا ہے جبکہ پاکستانی فوج وہ واحد فوج ہے جس کا اپنا ہی ایک ریاست ہے۔” There is a state above the state اگر بلوچستان کے بڑے سے بڑے جامعات کی بات کی جائے تو تمام تر جامعات میں براہ راست پنجاپی فوج کی موجودگی، پالیسیوں میں من مانی انتظامی سرگرمیوں میں عمل دخل اور اثرورسوخ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جامعہ بلوچستان جو پورے بلوچستان میں سب سے بڑا جامعہ ہے، خضدار یونیورسٹی، تُربَت یونیورسٹی، یہاں تک بلوچستان کے کالجوں اور اسکولوں میں ان کی اثرو رسوخ ان کے کارندوں، ایجنٹوں اور ہم خیال سول افراد کی مدد اور ہم کاری سے قائم ہے۔ اب یہاں چند سوال ابھرتے ہیں کہ آخرکار ایک قبضہ گیر فوج بلوچستان کے تمام تر جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں اپنے کارندوں، کاسہ لیسوں کو مسلسل تعینات، بھرتی یا ایکٹو کیوں کرتا رہتا ہے؟ اس کا تعلیمی اداروں میں دلچسپی اور تعلقات کے پیچھے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟ پاکستانی فوج تعلیمی ادارے کیوں تشکیل دیتا ہے جیسے کہ کیڈٹ کالجز، ایف سی اسکول، آرمی پبلک اسکولز وغیرہ؟ اور سول تعلیمی اداروں میں بحرانی کیفیت پیدا کرنے کی سازشیں اور کوششیں کیوں کرتے ہیں؟

 بلوچستان اس وقت پاکستان کا ایک مقبوضہ خطہ ہے اور اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ جب بھی کسی قبضہ گیر ریاست نے کسی مظلوم قوم کو غلام بناکر اس کی سرزمین کو اپنی کالونی بنایا ہے تو اس میں معاشی استحصال اہم محرک رہا ہے۔ اس کے علاوہ، اس مظلوم قوم کو اپنے تعلیم، نصاب، میڈیا، مذہب اور دوسرے پروپیگنڈوں کے زریعے ذہن سازی کیا جاتا رہا ہے، کنٹرول کیا گیا ہے تاکہ تنقیدی سوچ، شعور، بغاوت اور مزاحمت کے دریچے بند رہے اور ان کے مذموم عزائم کا حصول ممکن رہے۔ اس لیئے، وہ درپردہ اور رازداری سے سیاسی اور معاشی طاقت کی بناء اداروں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور انھیں قابل تسخیر بناکر ارتقاء پذیر رہتے ہیں۔

اب اسی پالیسی پر عمل درامد کرتے ہوئے یہ پنجاپی ریاست اور اس کے عسکری ادارے ایک طرف “پاکستانیت” اور “فوج دوستی اور وفاداری” کے تصوراتی نظریہ اور بیانیہ کو تمام طلبا و طالبات اور عوام کے زہن میں پھیلانے کیلئے چُستی اور تسلسل سے کارفرما ہیں۔ اس لیئے، وہ تعلیمی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں اور ذہنوں پر چوکیداری کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ جو حقیقی اقوام ہیں جیسے کہ بلوچ، پشتون یا سندھی، ان میں قومی سوچ و فکر اور جذبہ و احساس ابھر نہ سکے مزید پاکستانیت جیسے تصوراتی اور من گھڑت نظریہ کی عمارت خاک میں نہ مِل جائے۔ دوسری طرف، ان ہی اداروں کا اپنے کارندوں اور کاسہ لیس کے ذریعے معاشی استحصال کرتے ہیں، ان کی بجٹ خرد برد کرتے ہیں اور بحرانی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ حکومت بلوچستان، وفاق اور ایچ ای سی معاشی بحران کو ختم کرنے کیلئے کوئی اختیار، پالیسی رکھتا ہے اور نہ کوئی سکت و استعداد، اس لیئے، یہ فوج کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں کہ اس کے اپنے پیدا کردہ مسائل کے حل کیلئے لوگ اس کی طرف نظریں جمائیں، ان سے حل کیلئے امیدیں لگائیں، ان سے حل کیلئے اپیل کریں اور فوج ڈرامائی انداز میں عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ عوامی ہمدردی، اعتماد اور وفاداری بٹورا جائے یعنی یہ ایک طرف لوٹ مار کرتے ہیں، تعلیمی اداروں میں مصنوعی مسائل پیدا کرتے ہیں اور سول اداروں کی عدم استعداد سے فائدا اٹھاکر لوگوں کو مجبور کرتے ہیں تاکہ وہ فوج کو ایک طاقتور، مسیحا اور مشکل کُشا ادارے کے طور پر مان کر اس کی طرف رجوع کریں اور مسائل کے حل کیلئے ان سے گڑ گڑا کر ہاتھ جوڑے رکھیں ایسی صورتحال کو قابض فوج غنمیت مان کر جاہل عوام کے سامنے اپنا بونا قد بڑھانے کی ناکامِ سعی کرتا ہے اور مسائل کے شکار اداروں پر مزید قبضہ جمانے اور تسلط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور خود کو ایک عوام دوست، خیر خواہ اور اصلاحی متبادل ادارہ منواتا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو ایک پالیسی کے تحت قبضہ گیر پنجاپی فوج کی جانب سے تشکیل دیا گیا ہے اور چالاکی سے کاربند ہے۔

یہ اب اچھنبے کی بات ہے کہ وہ ریاستی فوج جِس سے خود اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں پوری نہیں ہوتی، بلکہ ایک غیر فوجی کردار میں ہمیشہ ملوث آتا آرہا ہے، ایک بڑی کاروباری قوت بن گئی ہے، فوجی سرگرمیوں سے زیادہ کاروباری سرگرمیوں میں دلچسپی لیتا ہے، استحصالی فوجی فاؤنڈیشن اور ویلفیئر ٹرسٹ کے زریعے ہاؤسنگ اسکیم، شاپنگ مال، فرٹیلائزر، سیمنٹ صنعت سے لیکر بچوں کی ڈائی پر اور مونگ پھلی بیچنے تک جیسے دھندوں میں غرق ہے، بھلا وہ اپنی زمہ داریاں اور ہمارے تعلیمی اداروں کو کیسے سنبھال سکتا ہے؟ وہ کیسے ہمارے مسائل حل کرسکتا ہے جو اپنے کیئے سے خود ہزاروں مسائل میں گرفتار ہیں؟ ان کی کند زہنی، بدعنوانی اور گندی حرکتوں سے تو پورے پاکستان کا بیڑا غرق ہوا ہے، تو بھلا اس سے تعلیمی مسائل کے حل کیلئے کیونکر امید اور آس باندھا جائے؟ وہ کیڈٹ یا فوجی جسے اپنی پوری فوجی کیرئیر کے دوران صرف مارنے اور استحصال کی تکنیک سکھائے جاتے ہیں، وہ خاک تعلیمی ادارے میں طلبا کو تعلیمی ماحول فراہم کرسکتا ہے؟ کیا وہ خاک تعلیمی اداروں کو بحران سے نکال سکتا ہے؟

جب ان کی کندزہنی اور گندگیوں سے پاکستان کا ہر شعبہ ہائے زندگی کا بیڑا غرق ہے، تو ان سے کسی اچھے کی امید رکھنا احمقانہ ہے۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سول ادارے سماجی مسائل حل نہیں کرتے اور فوج سے مسائل کے حل کی امید رکھنا بیوقوفی ہے، تو عوام کیلئے متبادل راہ عمل کیا رہے گا؟ عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے کہاں جائیں؟

اس کا جواب سیدھا سادہ اور واضح ہے۔ عوام سیاسی تعلیم و شعور حاصل کریں، منظم و متحرک رہیں اور بلوچ تحریک سے جڑ کر سیاسی و مسلح مزاحمت کریں اور ایک بھرپور عوامی طاقت بنائیں، یہی صحیح راستہ ہے۔ یہی نجات دے سکتی ہے۔ اسی طرز عمل سے عوامی طاقت کی بنیاد بن جاتی ہے، ایک طوفانی طاقت کی ابھار ہوسکتی ہے جو سیاسی اور عسکری اشرافیہ کو بہا کر تباہ کرسکتا ہے۔ اس لیئے، یہی چند قابض اشرافیہ عوامی طاقت سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں اور ان کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، سیاسی معاملات میں عوام کی دلچسپی کو قتل کردیتے ہیں اور خود قابض رہتے ہیں اور اس کا عوام میں کیا نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ جمود، بحران، مسائل، مایوسی وغیرہ۔

المختصر، بلوچ قوم اور خصوصاً خاران کے عوام کو واضح طور پر بتانا چاہتوں گا کہ آج پورے بلوچستان میں قومی آزادی کی تحریک اپنی متعین راستے پر گامزن عظیم منزل کی جانب محوِسفر ہے جس کو اس ڈگر تک پہنچانے میں کئی باشعور اور باکردار بلوچ فرزندوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور پنجاپی ریاست کے نظام کو منہدم کرنے اور قابض پنجابی فوج کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کی حتی الامکان کوشش کیا ہے جو کہ اب تک شان اور سربلندی سے جاری ہے۔ اب بلوچ عوام کو پنجاپی فوج سے ہمدردی کی توقع کرنا چھوڑ دینا چائیے۔ یقیناً مزید اس فوج سے أمیدیں وابستہ کرنا محض احمقوں کی جنت میں رہنے کی مترادف ہے۔ ہر زی شعور بلوچ پیر و جْوان مرد و عورت کو یہ بات واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کے دور میں بلوچ قوم کا سب سے بڑا دشمن پنجابی ریاست اور ان کے عسکری ادارے ہیں، یہ کسی بھی لحاظ سے ہماری زخموں کا مداوا نہیں کرسکتے بلکہ یہ ان زخموں کو ناسور کی شکل دینے کا کام کرتے ہیں۔ اس لیئے، ان سے ہمدردی کا طلب کرنا اور آس لگانا اپنی عزت و آبرو خاک میں ملانے، بلوچ قومی جہد کو نقصان پہنچانے اور پنجابی ریاست میں اپنی غلامی کو دائمی رکھنے کی مترادف ہے۔ اس لیئے، سیاسی شعور حاصل کریں، اپنے حقوق کیلئے سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار کریں، قومی تحریک سے جڑیں یقیناً، اُن قوموں کا مقدر تب تک نہیں بدلے گا جب تک وہ خود اس کو نہ بدلیں۔