شنبه, سپتمبر 28, 2024
Homeآرٹیکلزشہدائے بلوچستان قبرستان کی اہمیت اور پاکستانی اداروں کے عزائم |تحریر:...

شہدائے بلوچستان قبرستان کی اہمیت اور پاکستانی اداروں کے عزائم |تحریر: پروفیسر نصیر خان مری|

شہدائے بلوچستان قبرستان کی اہمیت اور پاکستانی اداروں کے عزائم

تحریر: پروفیسر نصیر خان مری

ہمگام تحریر:

 1970 کی دہائی میں جب مری بلوچوں کو آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں قابض پاکستانی سرکار کی جانب سے شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑا مری بلوچ آبادیوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں سے حملے روز کے معمول بنا دیے گئے، ہزاروں کی تعداد میں جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنے والے مری بلوچوں نے نواب خیر بخش مری کی قیادت میں افغانستان لشکر گاہ (ہلمند) نیمروز، قلات اور کندھار کا رخ کیا ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت آٹھ ہزار سے زائد مری بلوچ نواب خیربخش مری کی قیادت میں مہاجرین کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے۔

دو دہائیوں تک مری اور دیگر کچھ بلوچ افراد افغانستان میں جلاوطنی کے بعد بلوچستان شریف لائے تو ان کے مشکلات اور بھی بڑھ گئے کیونکہ آزادی کی جدوجہد ہی مشکلات کا مجموعہ ہے۔ جب افغانستان میں سویت یونین کا شیرازہ بکھرگیا اور پاکستانی حمایت یافتہ مجاہدین نے کابل پر قبضہ کرنے کی تیاریاں شروع کیں تو نواب خیربخش مری نے اپنے قبائل کے آٹھ ہزار سے زائد مری بلوچوں کو لے کر بحالت مجبوری میں اپنے مقبوضہ وطن بلوچستان کی جانب رخت سفر باندہ لیا۔

1992 کو بلوچ رہبر مرحوم نواب مری نے اپنے مقبوضہ وطن کوئٹہ ہزار گنجی کوہ چلتن کے دامن میں مری بلوچوں کیلئے ایک جگہ جو کہ نیو کاہان کے نام سے مشہور ہے کا انتخاب کیا۔ مری بلوچوں نے وطن واپس آکر یہ نہیں کہا کہ سویت یونین ٹوٹ گیا اب بلوچستان کی آزادی کا سپنا بھی ٹوٹ گیا۔ انہوں نے وسائل کی کمی، بھوک افلاس، اور تنگ دستی کے باوجود نا امیدی کو اپنے قریب بھٹکنے نہیں دی۔ مریوں نے یہ نہی کہا کہ اب کوئی بیرونی کمک نہیں تو آزادی کی مانگ کو خیرباد کہا جائے۔

وہ اس کاروان آزادی میں الفت کے پروانوں کی طرح بن گئے جو کٹنے مرنے کو تیار تھے لیکن جھکنے کو کھبی بھی نہیں۔ قابض ریاست نے آزادی کے ان سپوتوں کو خوف مراعات، لالچ سب کچھ آفر کی لیکن انہیں خریدنے میں ناکام رہے۔

آزاد بلوچستان کے وفادار اور وطن سے جنونی حد تک عشق میں مبتلا ان آزادی کے کاروان میں شریک مری بلوچوں نے نیو کاہان ہزار گنجی میں اپنی مدد آپ کے تحت اپنے رہائش کیلئے مٹی سے بنائے گئے کچھے مکانات تعمیر کیئے۔

کسمہ پرسی کے حالت میں کسی کی چمچہ گیری جی حضوری اور اپنے ضمیر کو دو ٹکے کے لیے گروی رکھنے کی بجائے انہوں نے دن رات محنت مزدوری کرکے اپنے اور بچوں کے پیٹ پال کر انہیں تعلیم دی، ان کے اساتذہ نے بنا معاوضہ کے بچوں کو پرائمری تک کی تعلیم دی۔

مقامی مری بلوچوں نے 1993٫1994٫1995 کو اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا شروع کردیا تو اس وقت قابض پاکستان کے مختلف ریاستی ادارے کیو ڈی اے ( کوئٹہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ) ایف سی اور پولیس وقتاَ فوقتاً آکر مری بلوچوں کو ہراساں کرتے رہے، انہیں علاقہ خالی کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔قابض قوت کا موقف رہا کہ یہ علاقہ پاکستانی سرکار کی ملکیت ہے یہ کہ وہ مستقل قریب میں اس زمین کو ضبط کرکے سرکاری تحویل میں لینگے ۔سرکار کے مختلف اداروں
کیو ڈی اے ، ایف سی اور پولیس کی جانب سے دھمکیوں کا یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔

دھونس دھمکیوں، مار پیٹ، زد وکوب کئے جانے کے باوجود پاکستان اور اس کے حمایت یافتہ مجاہدین کی ظلم و بریت سے بے بس ولاچار مری بلوچوں نے شدید سردیوں اور گرمیوں میں بغیر کسی سہولت کے محنت مزدوری کرکے کسی بھی طرح اپنے دن رات گزارے۔

1996 کو پاکستانی ایجنسیوں نے مری بلوچوں کو ایک بار پھر جبری طور پر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا، 1996 سے لے کر 2002 تک بے بس مری بلوچوں کے گھروں پر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے جارحیت کرتے ہوئے چھاپے مارے اور جبری گمشدگی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ کوئٹہ شہر میں کہیں بھی کوئی دھماکہ یا فوج و دیگر اداروں پر حملے ہوتے تو چند گھنٹوں کے اندر اندر مری بلوچوں کے گھروں میں چھاپے پڑتے، لوگ اغوا کئے جاتے کئی سال لوگ غائب رہتے اور بہت سے تشدد کے دوران شہید کئے جاتے۔ 1996

کو نیو کاہان میں ایک فوجی جارحیت کے دوران 150 مری بلوچوں کو جبری طور پر اغوا کیا گیا جن میں بہت سے افراد کو چند سالوں کے غیر انسانی تشدد کے بعد زندگی بھر کیلئے اپائج بنا کے نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا۔

2000 کے بعد مری بلوچوں کیلئے نیو کاہان ہزار گنجی اور کوئٹہ کے علاقے تنگ کر دیے گئے اس دوران ایک اور فوجی آپریشن میں 250 سے زائد مری بلوچوں کو نیو کاہان ہزار گنجی سے جبری طور پر اغوا کیا گیا، جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ جن میں سے اکثر لوگ ابھی تک پاکستانی فوج کے ازیت خانوں میں بند ہیں اسی دوران مری بلوچوں کے سرخیل لیڈر نواب خیربخش مری کو بظاہر جسٹس نواز مری قتل کیس میں گرفتار کرکے اٹھارہ ماہ تک پابند سلاسل کردیا گیا تھا لیکن جیل میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی متواتر یہ دباو ڈالتے رہے کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ مری علاقے میں تیل و گیس اور دیگر معدنیات نکالنے کے لیے ایک وسیع معاہدہ کرے جس سے اس کے بیٹوں اور قبیلے کو اربوں روپے دیئے جائیں گے۔

نواب مری نے قابض پاکستان کے تمام آفر ٹھکرا دیے۔ بدلے میں ریاست نے اس دوران کیو، ڈی، اے۔پولیس اور اب ایف سی کی جانب سے لینڈ مافیا کو ساتھ ملا کرایک بار پھر مری بلوچوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا، آئے روز پاکستان کے مختلف ادارے کیو،ڈی،اے۔ایف،سی اور پولیس کی جانب سے مری بلوچوں کو علاقہ خالی کرنے کی دھمکیاں دی گئی بلڈوزر لاکر مقامی مری بلوچوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ اگر نیو کاہان خالی نہیں کیا گیا تو ان کے گھر بچوں سمیت مسمار کر دیے جاہیں گے۔ اور چھاپوں کا سلسلہ روز کا معمول بن چکا ہے۔ جس کے دوران بہت سے مری بلوچوں کو جبری طور پر اغوا کیا گیا جو کہ تاحال فوج کے کوئٹہ چھاونی میں قائم قلی کیمپ کے ازیت خانوں میں قید ہیں۔

2005 سے لیکر 2010 تک کے دوران نیو کاہان کو مکمل ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا چاروں اطراف سے فوجی چوکیوں کا جال بچھایا گیا اور لوگوں کو تنگ کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا، مری بلوچوں کو ٹارگٹ کلنگ کے زریعے شہید کیا گیا اور بہت سوں کو جبری طور پر اغوا کیا گیا، کیو،ڈی،اے کا قبضہ بھی اسی دوران جاری رہا، اور پاکستان کے فوجی دہشت گردی بھی اپنے زوروں سے جاری تھی۔

2006 کو نیو کاہان میں “شہیدوں کے نام سے ایک قبرستان آباد کیا گیا جہاں بلوچ سرزمین کی آزادی کیلئے جنگ کرنے والے بلوچ شہیدوں کو اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا،
کیو، ڈی، اے اور ایف سی کئی مرتبہ شہیدوں کے مزاروں کو گراتی رہی تاکہ اس زمین پر مختلف حیلے بہانوں سے اپنا تسلط جما سکے مگر متواتر مری بلوچوں کی کوششوں سے ایف سی اور کیو، ڈی، اے کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اسی لیے مری بلوچوں کو مزید دباؤ میں ڈالنے کیلئے ظلم کو مزید تیز کیا گیا تاکہ بلوچوں کے سرزمین پر قبضہ کرکے ان کے حوصلوں کو شکست دیا جا سکے مگر بلوچ پرعزم رہے اور آخری وقت تک اپنے قومی شہداء کے قبرستان کا دفاع کرتے رہے۔

2016 سے لیکر اب تک کیو،ڈی،اے اور ایف سی اپنے تمام حربوں کی ناکامی کے بعد اب ایک بار پھر نیوکاہان میں بندوق کی زور پر دراندازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیٹرول پمپ، مارکیٹ، ٹرانسپورٹ اڈا بنانے کے بہانے مقامی لوگوں کے زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور اس کھیل میں مقامی انتظامیہ، ریاستی حمایت یافتہ غنڈے اور پارلیمانی پارٹیوں سے وابستہ کچھ زرخرید مہرے اس گھناونے کھیل میں براہِ راست ملوث ہیں جنہوں نے گزشتہ روز آکر بلوچ قومی آزادی تحریک کے سرخیل بلوچ لیڈر نواب خیربخش مری (مرحوم) اور باقی شہداء کے قبروں کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی۔ اس اثنا میں مقامی مری بلوچوں کی مزاحمت نے ان کی اس کوشش کو پسپا کردیا۔

مری بلوچوں کا کہناہے کہ وہ کسی بھی صورت اپنے سرخیل لیڈر نواب خیربخش مری اور شہدائے بلوچستان کے قبرستان کو مسمار کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے چاہے اس دوران انہی مار دیا جائے۔ نیوکاہان موجودہ بلوچ تحریک میں غیرمعمولی پس منظر رکھتا ہے۔ اسے نیا کاہان اس لیے کہا گیا کیونکہ یہاں بابا مری افغانستان سے واپسی پر مری بلوچوں کے نجی اور تحریکی مسائل بابت جرگے اور سرکلز کیا کرتے تھے۔ مری جرگہ ہال کا قیام ان قومی کوششوں کو آگے بڑھانے کی دوسری کاوش ہے۔

نیوکاہان کو مری بلوچوں کا مضبوط قلعہ بھی کہا جاتا ہے جس کی تحفظ کی خاطر مری سمیت ہر بلوچ آخری حد تک جانے کو تیار ہے۔ ریاست ان کے گماشتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے کیونکہ نیوکاہان میں نہ صرف بابا مری کا قبر مبارک اور ان کی اہلیہ مادر آف بلوچ نیش کی قبر ہے بلکہ سینکڑوں دیگر بلوچ آزادی کے متوالے بلوچ سپوت بابا مری ک پہلوں میں آسود خاک ہیں، اور ہزاروں دیگر بلوچ شہدا کے یاد گار قائم کئے گئے ہیں جن کا دفاع کرنا ہر بلوچ مرد و زن کا قومی فرض ہے اور اپنی عظیم شہدا کے قبروں کی بے حرمتی پر دشمن کو مزاحمت اور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز