دنیا میں بے شمار جان نثار گزرے ہیں جنہوں نے اپنی وژن اور طویل المدتی جدوجہد سے تاریخ رقم کی ہے اپنی کمٹمنٹ، بےلوث قربانی اور جدوجہد سے مورخین کو لب کشائی کرنے پر بھی مجبور کیا ہے۔آج میں کاہان کے تین عظیم کرداروں کا ذکر کرنا چاہوں گا جنہوں نے وطن کی خاطر، لوٹ کھسوٹ، غلامی اور جبر کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔شہید شعیب شہوانی،شہید محمد دین مری اور شہید عاصم کرد نے پنجابی نوآبادکار اور اس کے باجگزاروں کے خلاف اپنے آخری لہو کے قطرے تک بہادری سے لڑتے رہےـ بالآخر،بلوچ قومی تاریخ کے پنوں میں سرخرو رہے۔
کاہان کے سپوتوں نے ہمیشہ وطن کے دفاع کے لیے اور غلامی و لوٹ کھسوٹ کے خلاف جدوجہد کی،جوکہ انگریز سے لے کر آج اس نوآبادکار پنجابی ریاست کے خلاف بھی مسلسل جاری ہے۔ اس غیر فطری ریاست نے بلوچستان میں کئی بار بے گناہ بلوچ آبادیوں پر بمباری کرکے بلوچوں کے گھروں کو جلایا اور بے گناہ اور نہتے بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکی ہے۔کاہان نے ہمیشہ اپنے حقیقی بیٹوں کو اپنے سینے میں جگہ دے کر مزاحمت کی علامت رہا ہے۔ بابا نواب خیر بخش مری، شہید بالاچ مری، شہید سگار بلا مری، شہید چاکر بولانی، شہید عاصم کرد اور شعیب شاہوانی جیسے بہت سے بلوچ نوجوانوں نے اپنی مادر وطن کے لیے قربانیاں دی ہیں۔
شہید محمد دین مری عرف چاکر بولانی
آپ نے 2014 میں بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے شمولیت اختیار کی۔ آپ نے کئی سالوں تک بولان کے بلند و خوبصورت پہاڑوں میں دشمن کے خلاف جنگ لڑی اور تنظیمی ڈسپلن اور قانون کے تحت اپنی قومی جدوجہد میں شاندار کردار ادا کیا۔ آپ ایک گوریلا کمانڈر تھے۔ آپ نے ہمیشہ دشمن کے خلاف گوریلا جنگی حکمت عملی اپنائی اور ہر وقت اپنے دشمنوں پر نظر رکھی اور دشمن پر ایسے وار کیے کہ دشمن سر اٹھانے کے قابل نہ رہا۔
آپ ایک تعلیم یافتہ اور قابل سرمچار تھے۔ آپ شہید فدائی درویش اور شہید گل حمد کے بھائی اور شہید محمد گل آپ کے چچا زاد بیٹے تھے۔ آپ کے خاندان نے ہمیشہ بلوچ قوم کے لیے عظیم قربانیاں دیں۔ آپ نے قومی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ بولان میں تربیت حاصل کی۔ آپ پختہ فکر کے وارث تھے، جو نہ کبھی رکا اور نہ کبھی دشمنوں کے سامنے جھکا۔ آپ نے قومی جدوجہد کے لیے ہر قدم پر قربانی دی۔
آپ نے بولان، کاہان، کوہ ڈونگان اور ہرنائی میں اپنی مادر وطن کی آزادی کی جدوجہد کی۔ آپ ہمیشہ دشمن کے خلاف جنگ میں پچھلے مورچوں میں نہیں بیٹھتے تھے اور ہمیشہ بہادر جنگجوؤں کی طرح آگے بڑھتے تھے اور دشمن کو پسپا کرنے پر مجبور کرتے تھے۔
آپ اپنی قومی جدوجہد میں ہر کام خلوص اور ایمانداری سے کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی یہ کہتے تھے کہ اپنی قوم کو کبھی دھوکہ مت دو، دشمن کے سامنے سر مت جھکاؤ، سرینڈر مت کرو، کیونکہ ہماری قوم کی امیدیں آپ نوجوانوں سے وابستہ ہیں کہ ہمارے بہادر بیٹے ایک دن ہمارے وطن کو آزاد کرائیں گے۔
شہید شعیب شاہوانی عرف ریاض بلوچ
آپ نے 2023 میں بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے اپنی قومی جدوجہد کا آغاز کیا۔ آپ نے ہر جگہ، ہر قدم پر وطن سے محبت اور آزادی کے اس طویل سفر میں اپنے آپ کو ہر محاذ پر ایک قابل سرمچار کی طرح اپنے مشن کو سر انجام دیا۔
آپ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھے اور اپنی قوم کے ہر درد سے واقف تھے۔ آپ ہمیشہ اپنے سے زیادہ اپنی مادر وطن بلوچستان اور وطن کے سرمچاروں کو اہمیت دیتے تھے کہ وہ وطن کے لیے ہر محاذ پر قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
آپ بہت خوش مزاج ساتھی تھے جو اپنے دوستوں کے ساتھ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے اور دوستوں کو کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ میدان جنگ میں آپ ہمیشہ اپنا مورچہ اچھی طرح سنبھالتے تھے کہ آپ کی وجہ سے دوستوں کو کسی بھی طرح کا نقصان نہ پہنچے اور آپ کا مشن اچھی طرح کامیاب ہو اور دشمن کو بری طرح شکست ہو۔
آپ ہر وقت یہ کہتے تھے کہ موت تو ایک دن آئے گی، لیکن اپنے وطن پر مر مٹنے کی موت ایک خوبصورت موت ہے جو آپ کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ جب وہ وقت آئے گا تو ہنستے ہنستے اپنے وطن کے دشمنوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہونا پسند کریں گے اور غلامی کی یہ زندگی اب جینا پسند نہیں کیونکہ آپ کی مائیں اور بہنیں ہر وقت اس ناپاک ریاست کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہی ہیں اور اپنے لاپتہ پیاروں کے لیے روتے روتے بے ہوش ہو جاتی ہیں۔ اگر آج بھی ہم نے اس دشمن کے خلاف قدم نہ اٹھایا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
آپ شہری گوریلا بھی رہ چکے تھے اور آپ نے کوہ ڈونگان اور کاہان میں اپنی قومی جنگ کے فرائض سر انجام دیے۔ آپ نے اپنے خون کے قطروں سے آزادی کی راہ نمائی کی اور بلوچ قوم کو اس راستے پر چلنے کی ہمت بخشی۔
شہید عاصم کرد عرف نذیر بلوچ
آپ نے 2023 میں بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے آزاد بلوچستان کی جنگ میں حصہ لیا اور قومی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ خوشی سے شامل ہوئے۔ آپ نے اپنے وطن کے شہیدوں کے نقش قدم پر چلنے کا راستہ چنا، جو بہت مشکل اور کٹھن راستوں سے گزرتا ہے۔ وہاں کبھی بھوک، کبھی پیاس، کبھی زخم، کبھی دشمن پر گوریلا وار، کبھی دشمن کا حملہ، کبھی اپنے وطن کے دوستوں کا غم اور کبھی اپنے شہید ساتھیوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلنا پڑتا ہے، تو کبھی دشمن کی تباہی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔
آپ مزاج میں ایک درویش سے کم نہیں تھے، جو ہر وقت اپنے وطن کے نام پر مٹنے اور مٹانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ آپ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ نے کبھی اپنے گھر کی غربت کے بارے میں نہیں سوچا اور اپنے وطن کی حفاظت کے لیے ہر محاذ پر ڈٹے رہے۔ آپ نے قوم کو یہ سوچ دی کہ کبھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے مت سوچو، کیونکہ آپ کا وطن غلام ہے۔ دشمن نے آپ سے جینے کا ہنر بھی چھین لیا ہے، جو انسان کی زندگی کے اہم اسباب ہیں۔ اپنی قوم کی تباہی کا منظر دیکھنا ناقابل قبول ہے اور اگر ہم حقائق کو بھی بھول جائیں تو یہ ہمارے لیے عیب ہے۔ ہمارے شہیدوں اور وطن کے بیٹوں نے اپنے وطن کے لیے قربانیاں دی ہیں، اس لیے ہم بھی دشمن کو یاد دلائیں گے کہ آپ ہمارے دشمن ہیں، ہمدرد نہیں۔
آپ شہری گوریلا بھی رہے اور آپ نے کوہ ڈونگان، کاہان اور دیگر محاذوں پر جنگ لڑی۔ آپ ایک مخلص اور ایماندار سرمچار تھے۔ آپ نے اپنے ہم خیال ساتھیوں شہید چاکر بولانی اور شہید شعیب شاہوانی کے ساتھ کاہان میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کے ساتھ جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔