تحریر: گنجیں بلوچ
بلوچستان کی آجوئی جنگ میں ہزاروں گھر بے گھر ہوئے نوجوان لاپتہ کئے گئے اور انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں اس کے علاؤہ چادر و چار دیواری کی تقدس کی پامالیاں بھی انہی میں شامل ہیں اس کے باوجود آزاد بلوچستان کی بحالی کی جدو جہد رکی نہیں بلکہ اس سے تحریک آزادی کو مزید ایندھن مہیا ہوئی۔ دشمن کی ہر نئے حربے کو بلوچ سپوتوں نے اپنے خون سے ناکام بنایا بلوچستان کی انہی سپوتوں میں ایک نام چیئرمین واجہ سہراب مری بلوچ کی بھی ہے واجہ سہراب بلوچ متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرمین تھے وہ ایک انتہائی مخلص ایماندار کارکن تھے مختلف ریلیوں اور احتجاجی سرگرمیوں میں شریک رہے اس کے علاؤہ سرزمین نے جس محاذ پر بھی پکارا، اس بلوچ سپوت نے کمر تان کر دشمن کا مقابلہ جوان مردی سے کیا جس وقت پاکستانی فورسز نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو جب اغواہ کیا گیا تو ڈاکٹر کی بازیابی کے لیے مسلسل 14 روز تک کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھے رہے جس سے ریاست کو مجبوراً ڈاکٹر اللہ نذر کو منظر عام پر لانا پڑا بلوچ آزادی کی تحریک میں شہید شال نے اپنے لہو سے آبیاری کی جس کی بدولت بلوچ طلبہ آج بھی جدو جہد میں اپنے حصے کی قربانی دے رہے ہیں انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی جدو جہد قومی بقاء کیلئے اولین حیثیت رکھتی ہے، 5فروری 2009 کا دن ہماری لئے ایک غمگین اور درد ناک خبر لے ائیٔ کہ چئیر مین سہراب مری ایک خفیہ مشن کے دوران ہم سے جدا ہوئے ان جیسے نڈر اور بہادر فرزند کی جدائی نے بلوچ نوجوانوں کو متحدہ ہونے اور دشمن کے خلاف کمربستہ ہونے کی درس دیتی ہے ۔