تحریر :بلوچ خان شہید عویز بلوچ گلزمین کی دفاع میں شہادت جیسے اعلی مقام کو پہنچے، وہ ایک لاثانی کوہ زاد ہے جس نے گمنامی میں بلوچ گلزمین کی دفاع کے لیے جواں سالی کی عمر میں بلوچ قومی جہد کا حصہ بنے اور کچھ ہی سالوں میں اپنے جفاکش و مخلصانہ طرز جدوجہد کی وجہ سے اپنے فکری و عملی سنگتوں کے درمیان ایک بے مثال تاریخ رقم کی۔ شہید عویز بلوچ آزادی پسند تنظیم کے پلیٹ فارم سے اپنی ہر قومی ذمہ داری بخیر و خوبی اور احسن طریقے سے سرانجام دیتے رہے ، اسی دوران شہید عویز نے قومی جدوجہد میں بہت سے محاذوں میں حصہ لیا جس میں آخری مشن کیلئے وہ تربت چلے گئے۔ بقول اُنکے دوستوں کے شہید عویز رات کو کیچ کے جنگلوں میں سوتا اور فجر کی آزان کے وقت اُٹھ کر اپنے ہمراہ سنگت سے پوچھتا بتا آج کہاں کس مشن کو سرانجام دینا ہے؟ ایک دفعہ وہ دشمن کے خلاف کاروائی کرکے آدھے راستے پر آیا اور وہاں پر ان کو دشمن اہلکار کے مورچہ زن ملے شہید نے وہاں سے بھاگنے کی بجائے انہیں وہی دندان شکن جواب دیا اور دوسرے سنگت کے اسرار پر وہاں سے وہ کامیابی کے ساتھ نکلے ۔

شہید ایک نڈر کوہ زاد تھا جو مادر گلزمین کے محبت میں ہروقت مہر ومحبت سے سرشار تھا۔ شہید عویز اپنے قوم اور سرزمین بلوچستان کو قابض پنجابی دشمن ریاست سے آذاد کرانا چاہتا تھا۔وہ ایک آزاد ریاست بلوچستان میں صحت مند معاشرے کے لیے شب و روز جدوجہد کررہا تھا۔ شہید عویز اپنے ایک دوسرے سنگت کے ہمراہ تربت میں ایک راستے سے تنظیمی مشن کیلئے جا رہے تھے کہ اُسی راستے پر ریاست نے پہلے سے ناکہ بندی کر رکھا تھا جب شہید اور اس کے سنگت کی دشمن سے دو بدو جنگ شروع ہوئی،جہاں ایک گولی شہید کے ہاتھ پر اُسی وقت آکر لگی لیکن شہید کے حوصلے کوہ چلتن سے بھی بلند تھے شہید نے زخمی ہونے کے باوجود ظالم دشمن کے سامنے ڈٹ کر بڑی دیدہ دلیری اور جرات مندی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس بہادری و جوانمردی سے آخر تک لڑ کر انھوں نے جام شہادت نوش کی ۔

شہید عویز اُس عظیم خاندان سے وابستہ بلوچ فرزند ہیں جس خاندان کے تیرہ سے زائد فرزند بلوچ سرزمین کی دفاع میں جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔ شہید کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شہید اسلم شہسوار، شہید حکیم شہسوار، شہید رفیق شہسوار، شہید حیات شہسوار جیسے بے مثال بلوچ فرزندوں نے بلوچ وطن کی حفاظت کیلئے اپنی زندگی کو قربان کرگئے . بلوچ کے دشمن ریاست پاکستانی فوج نے شہید عویز کو ہم سے جسمانی طور پر تو جدا کردیا مگر شہید کی سوچ جذبہ اور قوم کے ساتھ محبت کے جزبہ کو آج تک ہر بلوچ کے دل و دماغ سے ختم نہ کرسکا ،جس کی جڑیں انتہائی حد تک سب کے دلوں میں پیوستہ ہوچکے ہے ۔ شہید عویز قومی مفادات کے تحفظ میں رضاکارانہ طور دشمن سے بہادری کے ساتھ لڑ کر مادر وطن بلوچستان کے گود میں ہمیشہ کیلئے دفن ہوگئے مگر آج بھی وہ نظریاتی طور پر اپنے فکری دوستوں کے ہمراہ موجود ہیں۔ بقول سقراط ہمارے نظریات و خیالات زیادہ قمیتی ہے، ہماری زندگی ہر گز نہیں!