آج 21 دسمبر میں لمّہِ وطن شہید بانک کریمہ کی شہادت کی پہلی برسی ہے میں شہید بانک کریمہ کی روح سے معافی چاہتی ہوں کہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ میں کچھ لکھوں ، مگر پھر بھی کوشش کرونگی ، مگر ہر وقت اسکی نام سنتی ہوں یا کہ لیتی ہوں تو سب سے پہلے مجھے وہ نظم یاد آجاتی ہے کہ شہید نے خود ایک جلسہ میں خطاب کرنے سے پہلے بی ایس او کی سُرخ جھنڈا کو لہرا کر کہا کہ
کبھی وہ دن بھی آئیگا
کہ جب آذاد ہونگے ہم
شہیدوں کے مزاروں پر
لگیں گے ہر برس میلے
کہ اپنا یہ زمین ہوگا
یہ اپنی آسمان ہوگی
دنیا میں قومون کی تاریخ پہ اگر کوئی نظر ڈالیں کہ تاریخیں ہر وقت بہادر اور حوصلہ مند انسانوں پہ ناز کرتے ہیں ، چاہے وہ خواتین ہو یاکہ مرد جس طرح کے لیلٰی خالد اور کرد تحریک سے وابستہ رکھنے والی پی کے کے سکینہ قوم کیلئے ثابت قدم رہے ، اُسی طرح شہید بانک کریمہ بلوچ مرد حضرات کے صفحوں میں کھڑا ہوکر جدوجہد کر رہی تھی ، شہید بانک کریمہ ایک روشن چراغ کی مانند تھی ، بلوچ قوم کیلئے ایک چمکتی ہوئی ستارہ تھی ، وہ جہدِ مسلسل کی علامت تھی، اُسکی سنہری آنکھوں میں کبھی مایوسی نہیں دیکھی ، کھٹن زدہ حالات کی سامنا کرنے کے باوجود وہ سوچ سمجھ کر بڑی اطمینان کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھی۔ وہ حقوق کیلئے بولنے سے قاصر نہ تھی ، اُسے صرف اپنی مظلوم قوم کی دُکھ ، درد اور پریشانی محسوس نہیں ہوئی ، بلکہ دنیا کی ہر جگہ مظلوم و محکوم قومیں بستے ہیں انکے درد اور تکالیف کو محسوس کرتی ، اُس نے اپنی زندگی میں بڑی محلوں میں رہنے کی خواش نہیں رکھی ، بلکہ بلوچستان کی آذادی کیلئے وہ خواہشمند تھی ، وہ اپنی سرزمین کو آذاد کرنا چاہتی تھی ، ہر وقت سماج میں رہ کر بہروں کو اپنی آواز سُنانا چاہتی تھی ، انکو نیند سے جگا کر ، انھیں شعوری میدان میں اُترنے کیلئے آگاہ کرتی رہی ، انکو جینے کی سلیقہ کے ساتھ ساتھ انکو بولنا بھی سکھائی ، کہ اُٹھ جائیں اپنے مظلوم قوم کیلئے آواز اُٹھائیں ، منزل پانے کیلئے جدوجہد کرکے اپنی قوم کو غلامی کی زنجیروں سے آذاد کرائیں ، اُس نے کئی نظریاتی ساتھیوں کو اپنی آنکھوں سے بچھڑتے ہوئے دیکھا ، اس نے کئی بار بلوچ شہدا کی مسخ شدہ لاشیں اُٹھائی مگر وہ کمزور نہیں ہوئی ، بلکہ وہ مضبوط ہوکر دشمن کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ثابت قدم رہی ، دشمن نے مختلف سازشیں کی تاکہ وہ اپنی موقف سے پیچھے ہٹ کر خاموشی کا راستہ اختیار کریں ، مگر اسکے دل میں مظلوم قوم بستی تھی قوم کی درد اور بے بسی کو اپنی سینے میں رکھ کر دشمن کو یقین دلائی کہ جتنا سازشیں کرسکتے ہو کرو ، اپنا پورا طاقت استعمال کرو جب تک سانسیں ہیں تو میں اپنی قوم کیلئے جدوجہد کرتی رہونگی ، جب وہ اپنی سرزمین سے جلاوطن ہو کر کینیڈا چلی گئی دشمن نے یہ سوچا کہ میں بلوچ قوم پہ ظلم و جبر کرکے قوم کی تذلیل کرونگا شاید ابھی سرزمین بلوچستان میں کوئی ایسا شیرزال نہیں ہے کہ وہ اپنی قوم کیلئے آواز اُٹھائیں ، مگر دشمن یہ نہیں جانتی کہ وہ باہر بیٹھ کر میری ظلم و جبر ، کالے کارناموں کی نشاندہی کرکے دنیا کو آگاہ کرتی رہیگی، کہ بلوچ قوم پر ریاستی سطح پر مظالم ڈھائی جا رہی ہے پاکستانی ریاست نے سرزمین بلوچستان کو قبضہ کرکے بلوچ قوم کے نوجوانوں کو شعور ، تعلیم سے دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے دانشور اور طلباء کواُٹھاکر ٹارچر سیلوں میں بند کرکے انکو اذیتیں دے رہا ہے ، اور اسکے باہر جانے کے ساتھ ساتھ دشمن پہ پہاڑ ٹوٹ پڑی کہ کریمہ کی صورت میں بلوچ قوم کی سینکڑوں تعداد بیٹیوں نے اپنی آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ جدوجہد کرنا شروع کی ، ایک لمّہ کریمہ نے ہزاروں بلوچ بیٹیوں کو جینا سکھائی ، کہ آج ہر بیٹی کریمہ نظر آتی ہے اسکی آواز ابھی بھی بلوچستان کی چاروں طرف گھونج رہی ہے ، بھلے ہی وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا ہے ، مگر وہ ہمارے دل میں زندہ ہے ، ہمارے سانسوں میں وہ بستی ہے ، اسکی روح سے بلوچ قوم کی ہم آہنگی ہوئی ، جب تک دنیا ہے وہ بلوچ قوم کی تاریخ میں زندہ ہوکر جدوجہد کی ایک مثال بن کر ہمیشہ زندہ رہیگی۔