اگر پوری دنیا میں رہنے والے مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی زندگی میں ان کی فکری سوچ اور طرز زندگی و سیاسی محور کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے انسانوں کو مذہب کے ماننے والے نمائندوں نے انھیں خدا کا خوف یا جنت کے لالچ کے عیوض مختلف درم دیوی، رام و رحمن کے نام پر ان کے سامنے طرح طرح کے آئیڈیالوجیز کو نجات کا زریعہ بنا کے پیش کیا،اور ان کو باور کرایا گیا کہ صرف یہی راستہ ان کیلئے منزل کی جانب کامیابی کی ضمانت رہیگی۔بعض کو معاشی و سماجی آزادی کی فکر سے تعلق رکھنے والے عالمگیر نظریہ اشتراکیت و سرمایہ دارانہ نظام کے فکری زنجیروں میں مربوط کیا گیا، جہاں سے مظلوم قومیتوں کو ان کے قومی حقوق کے حصول کسی طرح بھی خاص و ممطئن کن انداز میں داد رسی یا بر آوری شفاف انداز میں حاصل ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھی۔ اسی سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ پاکستان جیسی طفیلی سامراجی ریاست نے عالمی سامراج برطانیہ کی مکمل کمک و سرپرستی میں بلوچ قومی ریاست کے ایک حصے پر بزور بندوق قبضہ کیا۔ جس نے شروع دن سے لے کر آج تک ہمارے وطن و قوم کی ہر طرح سے تمام شعبوں کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
قوم کے حقیقی فرزندوں نے ظلم و ناانصافیوں اور احساس محرومی کے شکار مظلوم ومحکوم بلوچ جیسے قوم کی غیرت مند تعلیم یافتہ نوجوان فرزندوں میں انسان کے فطری قوم دوستی کی نظریہ سے متاثر ہونا لازمی سی بات ہوگی۔
قوموں کے حقوق کی ضمانت میں نیشنل ازم ہی وہ صاف و شفاف پاک جذبہ ہے جو عمومی طور پر ہر انسان خصوصی طور پر محکوم و مظلوم اقوام جسے اپنی قومی نجات کیلئے اس فکر کو مکمل طریقے سے اپنے راہ نجات کا موثر ذریعہ سمجھ کر آخری فتح تک کی مکمل عزم اور قومی فخر کے ساتھ اس پر اپنا سب کچھ دل و جان سے قربان کرنے کو ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔
بلوچ قوم دوستی کے اسی فکر سے جڑے ایک ایسے ہی فرزند جن کا تعلق بنیادی طور پروم پنجگور سے تھا جوکہ اپنے ہی وطن میں قوم کی لاچارگی کو دیکھ کر قوم دوستی کے پاک جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا میں جتنی بھی جنگیں لڑی جاچکی ہیں بالآخر نیشنل ازم ہی سب پر حاوی ہوکر وہ جنگ جیت چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں سابق سویت یونین،یوگوسلاویہ و سلطنت عثمانیہ ہیں۔ قوم دوستی وہ نظریہ ہے جس کا جذبہ انسان کی رگ وخون اور فطری احساسات میں بھی شامل ہے۔
ایسے ہی بلوچ قوم کے نڈر فرزند شہید نورا عرف پیرک ولد شیردل جن کی تاریخ پیدائش 1992 ہے جو کہ زمانہ طالب علمی سے ہی قوم دوستی و وطن دوستی کے انسانی فطرت کے حقیقی جذبہ کے آئیڈیالوجی سے متاثر ہو کر بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے سیاسی تربیت حاصل کرکے اپنی قومی جدوجہد شروع کی تھی۔
شہید نورا پرائمری سے لے کر جماعت ہشتم تک کی تعلیم پنجگور پروم سے حاصل کی ۔اس کے بعد ہائی اسکول میں داخلہ لینے کیلئے خدابادان پنجگور گئے۔ 2006 سے 2007 کے ایام میں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے کوئٹہ کے سائنس کالج میں زیر تعلیم رہے۔اس کے بعد وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے پنجاب لاہور کے ‘کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی’ سے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کرنے گئے۔جہاں انھیں پنجابی کی قومی خصلت و علت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔
پنجاب میں رہ کر اپنے قوم کی استحصال اور بلوچ کی دشمن پنجاب کی ترقی اور اپنے وطن کی محرومی دیکھ کر وہ یہ سب کچھ اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرکے قابض پنجاب و مظلوم بلوچستان کا موازنہ کیا،جہاں انھیں اس درمیان زمین و آسمان کا فرق نظر آیا۔اور اسی نقطے نے اس غیرت مند جوان کو آرام سے نہ بیٹھنے دیا۔ اس تفاوت و موازنہ سے ان کے اندر قومی عصبیت مزید مضبوط تر ہوگئی۔
2009 ،10 کے دنوں میں وہ بی ایس او آزاد کے صدر بھی رہے۔اور لاہور ہی میں اپنے قوم کے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں توانا جذبے کے ساتھ پیش پیش رہے۔ ان ہی دنوں انہیں پاکستان کے خفیہ ادارہ آئی ایس آئی نے سچ کی آواز کو دبانے اور دوسرے بلوچ طلبہ میں خوف وہراس پھیلانے کیلئے ان کو جبری اغوا کر کے اذیت ناک غیر انسانی انداز میں ٹارچر کرنے کے بعد انہیں بالآخر رہا کرنے پر مجبور ہوئے، لیکن پنجابی بدمعاش ومکار ریاست کا ٹارچر نے ان کے عزم مصمم ارادوں کو قوم دوستی کے نظریہ میں مزید توانائی بخشنے کا سبب بنا ۔ شہید نورا اپنے قوم کی دفاع کی خاطر کمر بستہ ہوئے۔ شاطر و مکار دشمن نے انھیں مشروط طور اس نقطے پر رہائی دے کر سخت دباؤ ڈالا کہ اس کے بعد آپ اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر اس طرح سے اقبالی طور یہ پریس کانفرنس کریں کہ ہمارے چیئرمین ذاکر مجید بلوچ پہاڑوں میں گوریلا جنگ لڑنے میں مصروف اور ان کا افغانستان آنا جانا رہتا ہے، تاکہ انھیں نقصان دینے کیلئے ان کے پاس ثبوت مہیا ہوجائے۔
اس کے اگلے دن ہی وہ وہاں سے نکل کر کراچی چلے گئے جہاں بعد میں وہ تربت کی طرف محو سفر ہو ئے اورانہوں نے قوم کی دفاع اور دشمن پنجابی فوج سے انتقام لینے کیلئے ڈائریکٹ پہاڑوں کی طرف رخ اختیار کیا۔
شہید نورا قوم دوستی کے پاک جذبے کے ساتھ ایک توانا قوت تھا۔ وہ متحدہ آزاد بلوچستان کے نظریے پر کاربند ایک گوریلا آزادی پسند گمنام و دلیر سپاہی تھا۔اور وہ اپنے وطن کی آزادی کے خواب آنکھوں میں سجھائے محاذ پر دشمن کے ساتھ برسر پیکار تھے،جو کہ بالآخر26 اپریل کے خون آشامی دن دشمن کے ساتھ دوبدو مقابلہ کرکے خون ریز جھڑپ میں وطن کا قرض ادا کرکے اپنے فکری ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوکر بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے اس امید کے ساتھ امر ہوگئے کہ میرے بعد دوسرے قوم دوست فرزند قومی آزادی کے پرچم کو ہاتھ میں لے کر کامیابی کی منزل تک خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے۔
بلوچ وطن کے اس نڈر سپاہی نورا کا تعارف قمبر چاکر کی توسط سے اس وقت میرے ساتھ ہوا جب بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کا پہلا احتجاج اسلام آباد میں ہوا، اس وقت نورا ایک نوعمر نوجوان تھا، اسی دوران وہ گلزمین کا ایک بیباک اور نڈر نظریاتی سیاسی سپاہی تھا، نورا سے میا پہلی بار رابطہ وہیں سے ہوا۔ اس نے بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو کامیاب بنانے کے لئے ہر ممکن طور پر جدوجہد کی، اس نے منظم طور پر کئی بار احتجاج ریکارڈ کرایا ۔سوشل میڈیا میں تصویریں اور رپورٹ پوسٹ کرتا رہا۔مجھے اس نوجوان پر مکمل اعتماد تھا کہ نورا ضرور ایک روز ‘پیرک’ کے روپ میں نمودار ہوکر قوم کی دفاع کیلئے بالاچ کے راستے کو اپنا لیگا۔
میرا اس نوجوان سے اس احتجاج کے بعد مکمل رابطہ رہا۔ ایک روز دوپہر کے وقت مجھے ایک نامعلوم کال موصول ہوئی۔ شہید نورا کا کہنا تھا کہ مجھے آئی ایس آئی کے کارندے اٹھا کر لے گئے ہیں اور بہت تشدد کے بعد مجھے اس بات پر مجبور کیا گیا کہ کل آپ نے لاہور پریس کلب میں یہ بتانا ہے کہ ذاکر مجید پہاڑوں میں ہے اور وہ افغانستان آتے جاتے ہیں وہ مسنگ نہیں ہیں۔
اب واجہ میں کیا کروں ؟ جس کے فورا بعد وہ اپنا ضروری سامان کمرے سے اٹھا کر رکشے کے ذریعے بس اسٹیشن پہنچے تھے۔ دوسرے دن پریس کلب کی بجائے وہ کراچی پہنچ چکا تھا وہاں سے کمبر چاکر کے ہاں سے تربت منتقل ہوا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد کمبر چاکر بھی اغواہ ہوگئے، وقت گزرنے کے ساتھ انہیں مختلف تجاویز پیش کئے گئے ، دوبارہ تعلیم شروع کرنا وغیرہ وغیرہ لیکن وطن کے اس سچے سپاہی نے قومی ولولہ اور وطنی جذبہ کے ساتھ دشمن سے برسرپیکار رہ کر حالات کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا۔
اس نے وطن اور بلوچ گلزمین زمین سے وفاداری کا عزم کرکے اسی دن انہوں نے اپنے بہادر ساتھیوں کے ساتھ اپنا خون گلزمین پر نچھاور کردیا۔بلوچ تاریخ میں وہ کمبر چاکر کی طرح امر ہو گیا، اور وہ خود مادر وطن کا قرض ادا کرکے ہم سب کیلئے وطن کی نگہبانی اور قومی نجات حاصل کرنے کی ذمہ داری چھوڑ کر پوری قوم کو ایک بڑی آزمائش میں ڈال گیا۔