لندن ( ہمگام رپورٹ ) ایک نئی رپورٹ کے مطابق امریکی کاپی رائٹ قانون کا غلط استعمال کرکے صحافیوں کو تیل کی صنعت کی طاقتور لابیوں پر لکھے گئے تنقیدی مضامین کو عارضی طور پرانٹرنیٹ سے ہٹانے پر مجبور کیا گیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کے مطابق کم از کم پانچ ایسے مضامین جعلی کاپی رائٹ دعوؤں کا شکار ہوئے ہیں جن میں سے ایک جنوبی افریقی اخبار میل اینڈ گارڈین کا ہے۔
ایسے دعوے، صحافیوں کی خبروں یا مضامین کی ملکیت کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور یہ دعوے پراسرار افراد کی طرف سے امریکہ کے ڈیجٹل میلینئم کاپی رائٹس (ڈی ایم سی اے) کے تحت گئے ہیں، جس کا مقصد کاپی رائٹ رکھنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
صرف گذشتہ ماہ ایک تحقیقاتی نیوز ادارے ڈائریو رومبی کے خلاف کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کے تین الگ الگ دعوے کیے گئے تھے۔
جن مضامین پر کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کا دعوی کیا گیا یہ ایکوٹیریل گنی کے صدر کے بیٹے گیبریل مباگا اوبیانگ لیما اور ان کے قریبی ساتھی، کیمرون کے تاجر اور وکیل این جے ایوک کے بارے میں ہیں۔
او سی سی آر پی نے بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ڈی ایم سی اے کے عمل کو اکثر ’نامعلوم فریقین‘ کے ذریعہ غلط استعمال کیا جاتا ہے جو تنقیدی خبروں کو نشانہ بنانے کے لیے پچھلی تاریخوں میں جعلی مضامین تیار کرتے ہیں۔
امریکی قانون کے تحت، کوئی بھی آن لائن مصنف اگر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا لکھا گیا مواد چوری ہو گیا ہے تو وہ اس مواد کو باضابطہ قانونی عمل کو شروع کر کے اسے ہوسٹ کرنے والے ویب سرورز سے ’ہٹانے‘ کی کوشش کر سکتا ہے۔
تاہم سرور پرووائڈر کے لحاظ سے یہ عمل مختلف ہوتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ مواد کو ہفتوں تک ویب سے ہٹا دیا جائے جب کہ حقیقی مصنف اپنی بات اور اصل مواد کو ثابت کرتا ہے۔
او سی سی آر پی کو ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے، تاہم تمام کہانیاں این جے آیوک پر تنقیدی تھیں۔
این جے آیوک جنھیں نجوک آیوک ای یونگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، افریقی قانونی فرم سنچورین لا گروپ کے سی ای او اور افریقی انرجی چیمبر (اے ای سی) کے بانی ہیں۔ وہ افریقہ میں تیل کی صنعت کے بھی ایک بڑے حمایتی ہیں۔
صحافیوں کے دو مضامین کے مطابق آیوک کا گیبریل مباگا لیما سے قریبی تعلق ہے۔ گیبریل مباگا لیما افریقی ملک ایکوٹریل گنی کی حالیہ کابینہ میں تبدیلی سے قبل تک وزارت کان کنن اینڈ ہائیڈروکاربن کے وزیر تھے۔
آیوک نے سینچورین لا گروپ اور اے ای سی سے پریس ریلیز جاری کی ہیں جو ان کی تیل لابنگ سرگرمیوں پر تنقید اور ان کے اوبیانگ لیما کے ساتھ قریبی تعلقات پر سوال اٹھانے والے صحافیوں پر ایک عوامی حملہ ہے۔
آیوک پر لکھی جانے والی رپورٹوں کو نشانہ بنانے کے لیے پہلا مشہور جھوٹا کاپی رائٹ کا دعویٰ 2019 میں جنوبی افریقہ کے میل اینڈ گارڈین اخبار (ایم اینڈ جی) میں ’تیل کے معاہدے میں نامزد ایس اے دھوکے باز‘ کے عنوان سے ایک مضمون کی اشاعت کے بعد کیا گیا تھا۔
اس خبر میں جنوبی افریقہ اور جنوبی سوڈان کے درمیان سینکڑوں ملین ڈالر کے تیل کے معاہدے میں مسٹر ایوک کے کردار کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس خبر میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایوک کو 2007 میں امریکہ میں دھوکہ دہی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے کیمرون کے دوستوں کے لیے ویزا حاصل کرنے کے لیے ایک کانگریس مین کی سٹیشنری اور دستخطی سٹیمپ کو غیر قانونی طور پر استعمال کرنے کے جرم کا اعتراف کیا تھا۔
یہ خبر شائع ہونے کے بعد میل اینڈ گارڈین کے ویب سرور لینوڈ سے ایک ’این سمسن‘ نامی شخص نے رابطہ کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس تحریر کا اصل مصنف ہے۔ لینوڈ نے اس شکایت کے جواب میں صبح تک کے لیے اس اخبار کی پوری ویب سائٹ کو ہی ہٹا دیا تھا۔
میل اینڈ گارڈین نے اس شکایت کنندہ کے حوالے سے جب چھان بین کی تو یہ بات سامنے آئی کے شکایت کنندہ کی جانب سے امریکہ کا دیا جانے والا ایڈریس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور اس مبینہ مصنف کے بارے میں آن لائن کوئی اور تفصیلات نہیں تھیں۔
میل اینڈ گارڈین اخبار نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’سمسن‘ اور اس کا مضمون جعلی تھا لیکن لینوڈ سرور پروائیڈر نے اخبار کو مجبور کیا کہ وہ ایوک کے بارے میں اپنا مضمون ہٹا دے اس سے پہلے کہ وہ اخبار کی باقی ویب سائٹ کو بحال کریں۔
مضمون کو ہٹانے سے متعلق لکھتے ہوئے میل اینڈ گارڈین نے اسے ’سینسرشپ حملہ‘ قرار دیا۔
اسی طرح گذشتہ نومبر میں اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق سربراہی اجلاس کوپ 27 کے دوران، برطانیہ میں قائم کلائمیٹ ہوم نیوز نے مسٹر ایوک کے بارے میں مضمون شائع کیے جس میں اقوام متحدہ کی دو ایجنسیوں کے ساتھ شراکت داری کرنے سے متعلق خبر تھی۔ اور جس میں کہا گیا تھا کہ ’اقوام متحدہ نے سزا یافتہ دھوکہ باز کو افریقی گیس معاہدے کے لیے لابنگ کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔‘
ان مضامین میں افریقی انرجی چیمبر اور اقوام متحدہ کی فلیگ شپ ٹیم انرجی افریقہ پرائیویٹ انوسٹمنٹس کے معاہدے بارے میں ذکر تھا اور اس میں ایوک لیمبا کے امریکہ میں کیے گئے فراڈ کا حوالہ دیا گیا تھا۔
ان مظامین کی اشاعت کے بعد اقوام متحدہ نے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔
ان مضامین کی اشاعت کے دو ہفتوں بعد کلائیمٹ ہوم نیوز کے سرور اے ڈبیو ایس کو اس متعلق دو کاپی رائٹس کے دعوے موصول ہوئے۔ ان میں سے ایک شکایت ’تھامس لی پیریس‘ نامی شخص جبکہ دوسری شکایت ’مارکس اے ویبرے‘ نامی شخص نے کی تھی۔ او سی سی آر پی دونوں شکایت کنندہ کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے میں ناکام رہا ہے اور ان کی جانب سے دیے گئے ای میل ایڈریسز پر سے بھی کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
اے ڈبلیو ایس نے کلائمیٹ ہوم کو بتایا کہ اسے کلائمیٹ ہوم نیوز کے خلاف کارروائی کرنا پڑ سکتی ہے جب تک کہ وہ اس بات کی تصدیق نہ کر سکے کہ اس معاملے کو کامیابی سے حل کر لیا گیا ہے۔
کلائمیٹ ہوم کی ایڈیٹر میگن ڈاربی نے اے ڈبلیو ایس کو کئے گئے جھوٹے دعوؤں کو حل کرتے ہوئے مضامین کو ہٹا دیا۔ اور کلائمیٹ ہوم کو ان مضامین کو دوبارہ بحال کرنے میں کئی ہفتے لگے۔
ہوم کلائمیٹ کی ایڈیٹر ڈاربی نے او سی سی آر پی کو بتایا کہ ’ یہ جھوٹے دعوے آزاد صحافت کو دبانے کے مکروہ حربے محسوس ہوتے ہیں۔‘
اس سال کے شروع میں، نامعلوم افراد نے آزاد تحقیقاتی ادارے ڈائرو رومبے کے تحریر کردہ مضامین کے خلاف تین شکایات درج کروائیں تھیں۔ اس میں سے دو مضامین کلاؤڈ فیئر سرور پر جبکہ ایک گوگل پر تھا۔
ان افراد نے او سی سی آر پی کے اشتراک سے شائع ہونے والے دو مضامین کو نشانہ بنایا تھا جن میں آیوک اور ان کے اوبینگ لیما کے ساتھ تعلقات پر تنقید کی گئی تھی۔
تینوں شکایتیں جنوبی افریقہ سے درج کروائی گئی تھیں۔ او سی سی آر پی کا کہنا ہے کہ وہ مبینہ شکایت کنندگان ’لاوینو سیکورا‘ اور ’مارک ای بیلے‘ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ کہ کیا وہ دونوں افراد حقیقت میں موجود تھے کیونکہ ان کی جانب سے فراہم کردہ ای میل ایڈریسز سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
ان افراد کی شکایت کے بعد گوگل نے دوسرے مضمون کو اپنی سرچ کے نتائج سے ہٹا دیا تھا۔ تاہم ڈائرو رومبے نے نام نہاد ’جوابی نوٹس‘ دائر کرنے کے بعد اس مضمون کو بحال کروایا تھا۔
ڈائرو رومبے کے ایڈیٹر ڈیلفن موکاچے موساکو کا کہنا تھا کہ ’ ڈائرو رومبے جیسے فنڈز کے بغیر ایک چھوٹے سے ادارے کے لیے کاپی رائٹس کی یہ شکایات ہمارے کام کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ شکایت کنندہ کا ایک ہی مشن ہے، اور وہ انٹرنیٹ سے آیوک اور لیما کے بارے میں تمام منفی معلومات کو ختم کرنا ہے۔‘
جب بی بی سی نے ایوک سے رابطہ کیا تو انھوں نے بدعنوانی کے الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ وہ، اے ای سی اور سینچورین لا گروپ جعلی کاپی رائٹس کے دعوؤں سمیت او سی سی آر پی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
بی بی سی نے گیبریل مباگا اوبیانگ لیما سے بھی رابطے کیا لیکن انھوں نے اس مضمون کی اشاعت تک کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
او سی سی آر پی نے کاپی رائٹس کی جعلی شکایت پر تبصرہ کرنے کے لیے اے ڈبلیو ایس، گوگل اور کلاؤڈ فلیر سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔