کل میں اپنے چھوٹے بچوں کو لیکر خضدار چلا گیا تاکہ بچوں کو عید کی شاپنگ کرا سکوں. الالصبح ہم ویگن اسٹاپ پر پہنچے. ڈرائیور کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا. اور ویگن کی روانگی کا انتظار کرنے لگے. تھوڑی دیر بعد ویگن روانہ ہوئی اور نورگامہ سے ہوتے ہوئے کھوچو پھر سنی باغبانی گھٹ سے سواریاں اٹھا اٹھا کر اپنے منزل کی جانب بڑھنے لگی. زہری ایک کم آبادی والا وسیع علاقہ ہے. چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا زہری اپنے اندر مہر و رنجش کی ہزاروں داستانیں سموئے رکھا ہے. دنیا سے کٹا ہوا ایک چھوٹا سا خطہ، جہاں پسماندہ زہنیت، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والی سوچ، آزادی ترقی انسانی وقار جیسے عظیم فلسفے سے بیگانگی، ذاتی محدودیت ہماری رگوں میں شامل ہے. ویگن میں سوار ہونے والا ہر شخص دوسرے کا واقف کار نکلتا ہے۔ کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کو شجرہ نسب سے جانتے ہیں. ہر کوئی اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے دوسرے شخص کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گیا.
ویگن حسب معمول اپنی رفتار سے آگے بڑھتی رہی جیسے ہی بدوکشت چڑھائی سے گزری سب خاموش ہو گئے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگ رہا ہو۔ اب سامنے گرماپ کراس تھا. گرم آپ پہاڑی کی اوٹ میں چھپا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ لیکن ثناءاللہ زرکزئی اور زیب زرکزئی کے کارندوں کی پناہ گاہ ہے۔ جہاں چور ڈکیت اغواء کار دندناتے پھرتے ہیں. گرم آپ سے بخیر خوشی گزرے۔ خاموشی بدستور قائم رہی۔ انجیرہ کراس آیا چوکی پر موجود ایف سے اہلکار نے ایک نظر پوری گاڑی میں گھمائی پھر جانے کا اشارہ کیا. ویگن کے اندر سکوت کا راج تب ختم ہوا جب ہم نے آڑچنو کراس کو عبور کیا. دائیں ہاتھ پر لیویز چوکی تھی اور ساتھ میں تربوز بیچنے والے کی جھگی. جیسے ہی ویگن لیویز چوکی کو عبور کر کے اترائی شروع کی سامنے جیوا سے آنے والی سڑک پر میری نظر پڑی. یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے شھید صدام اپنے دیگر دو دوستوں کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہوئے دشمن سے مڈ بھیڑ کے دوران خود کو بارود سے اڑا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا تھا. تین سال پہلے اسی کراس پر انجیرہ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچوں کو دشمن نے اپنے ظلم کا شکار بنایا تھا.
میں انہی خیالوں میں گم سوچنے لگا آج میں زندہ ہوں. میری بغل میں میرے دو معصوم بچے اپنے عید کی شاپنگ کرنے نکلے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی خوشی دیدنی تھی. وہ سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے لیے ان کا سارا جہان ان کا والد ہے. دو معصوم بچوں کو کیا معلوم کہ والد کا سایہ چھن جانے سے انسان خوشیوں کے لیے کتنا ترستا ہو گا. انہیں کیا معلوم کہ شھید صدام کی بیٹی درین جب ہوش سمبھالے گی تو اس پر کیا بیتے گی جب اسے یہ معلوم ہو گا کہ باپ کا پیار کیا ہوتا ہے. شھید شعیب کا بیٹا اپنے والد کو اس عید پر نہیں دیکھے گا تو کیا محسوس کرے گا. شھید صاحب خان کا بیٹا عید پر اپنے والد کی کمی محسوس کرتے ہوئے سوچے گا اتنی تنگ دستی میں بھی میرا والد مجھے عید پر نئے کپڑوں میں دیکھ کر خوش ہوتا تھا.
خیالات کا سلسلہ جاری تھا کہ توتک کراس آیا اجتماعی قبروں میں مدفون بلوچ کسی کے باپ کسی کے بھائی کسی کے بیٹے کسی گھر کے واحد کفیل ہونگے۔ جنھیں دشمن نے مختلف علاقوں سے اغواء کر کے انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا۔ اذیتیں دینے کے بعد شکست خوردہ دشمن نے انھیں رات کے اندھیرے میں شھید کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کیا. ان کے بچوں پر کیا گزرتا ہوگا. انھیں اس عید کی خوشیاں ملیں گی یا گزشتہ عیدین کی طرح غم و الم میں سال بھر کی طرح ایک درد ناک دن ہو کر گزرے گا. شھید امیر الملک کا والد اپنے توتک سے دور ہو کر کیسے جیتا ہو گا. توتک سے اغواء ہونے والے نوجوانوں کی مائیں ہر روز ان کا راستہ تکتے ہوں گے. کیا شھید رسول بخش کے بچے ابھی تک اپنے والد کے راستے پر اپنی نگاہیں بچھائے ہوئے ہیں۔ یا درد برداشت کرتے کرتے اب بڑے بھی ہو چکے. عید پر نئے کپڑے جوتے خریدنا درکنار افطاری و سحری پیٹ بھر کے کرتے ہیں کہ نہیں. انہی سوچوں میں گم خضدار سنی کا علاقہ پہنچ گیا. سڑک کے دائیں بائیں شھید حاجی رمضان زہری کے ہاتھ سے لگائے گئے درخت اب بھی اس کے آنے کے لئے اپنی شاخیں جھکائے کھڑے تھے. جہاں اکثر شام کے وقت وہ دونوں ہاتھ کمر سے ٹکائے کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر تازہ ہوا میں آزاد وطن کی خوشبو سونگھا کرتے تھے. جہاں وہ اپنے باغ میں چہچہاتے پرندوں کو دیکھ کر انصاف پر مبنی سماج کے خواب بُنتے تھے.
ان تمام لوگوں کو جو دشمن کے ظلم کا شکار بنے کس چیز کی کمی تھی. گھر بار مال دولت بیوی بچے والدین کا پیار سب کچھ میسر تھا. کس بات پر دشمن نے انھیں ان کے بچوں سے چھینا. قربانی کسے کہتے ہیں. ہزاروں سالوں سے اس فلسفے پر کار بند لوگ ہر دور میں اپنے حصے کا لہو نچھاور کر کے انسانیت کو کیسے جلا بخشتے ہیں. کیا انھیں اپنے بچوں سے پیار نہیں ہوتا. کیا انھیں اپنی زندگی پیاری نہیں ہوتی.
سنی سے ہوتے ہوئے شہر کو پہنچا چمروک سے گاڑی اترائی اتری پورے شہر پر نظر ایسے بڑی کہ خیالوں پر قبضہ کرتا سمیع حئی منیر سمیت تمام شہدا لہو میں نہائے مسکراتے ان گلیوں میں گھوم رہے تھے۔ نہ کوئی رنج نہ غم نہ دُکھ تکلیف کم عمر آسودہ نوجوان کیسے کر گزرتے ہیں. ہر لمحہ اپنی جان تک نچھاور کر جاتے ہیں۔ اور اُف نہیں کرتے. کیا ان کے قریب زندگی عزیز شئے نہیں.
گاڑی سامنے سے تیز آتی موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے ایک لمحے کے لیے رُکی ۔اتنے میں بے ساختہ میں نے اپنے بچوں کو زور سے باھوں میں پکڑ کر خود سے جوڑے رکھا. میں اپنے چھوٹے بچے کو ماتھے پر بوسا دے کر چھو رہا تھا جسے چوٹ کوئی نہیں آیا تھا۔ مگر گھبراہٹ کی وجہ سے رونے لگی تھی. میں اسے گود میں رکھ کر خاموش بیٹھ گیا.
سوچوں میں گم میرے کانوں میں ایک آواز گونجی ……….. یہ احساس کیسے پیدا ہوا کہ گاڑی کے بریک سے پہلے ہی بچوں پر جھپٹ پڑے؟؟؟؟
میں نے مُڑ کر دیکھا کوئی نہیں تھا۔ تب جانا یہ سوال میرے من میں یوں ہی ابھرا.
میں نے جھٹ سے جواب دیا ظاہر سی بات ہے میرے بچے ہیں انکا احساس مجھے نہیں تو اور کسے ہوگا۔
میں مسکرا کر اپنے جواب سے مطمئن ہوا کہ وہی آواز پھر سے مجھے سنائی دی…….. تو یہ جو اپنے جان سے گزر جاتے ہیں ان میں بھی یہ احساس ہی تھا۔ جو وہ ہر مشکل سے مسکرا کر گزرے یہی احساس ہی تو ہے جو انہیں اس مقام تک لا کھڑا کر دیا کہ ہنستے مسکراتے اپنے آنگن کو چھوڑ دیا. دو تلوار چوک سے آگے گزرے یہ دیکھو سمیع کے قدموں کے نشان کدھر کو جا رہے ہیں……. شھید اشرف کسی دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے نکلا ہے…….. وہ دیکھو شھید سراج گرگناڑی اور اس کا بھائی اپنی گاڑی میں دفتر جا رہے ہیں…….. سوچو وہ کون تھے کیوں مرے سب توتک کی ایک قبر میں شھید نعیم کیسے پرسکون نیند سو رہا ہے……. وہاں بھی دیکھو عرفان صدام کھڑا ملے گا درین کو باھوں میں لیے ۔کس کس کو دیکھ پاؤ گے. یہ نیچے دیکھو خضدار کی سر زمین نظر آ رہی ہے۔ یہاں شہیدوں کا بہتا لہو. غور سے دیکھو احساس اس میں ایک باپ سے گہرا ہے. ایک ماں کی ممتا میں دیکھو کیسے پر سکون ہزاروں شہید خضدار کی کوکھ میں دفن ہیں
سنو!!!
کسی نے ایسے آواز دی میں چونک کر یہاں وہاں دیکھنے لگا تمام مسافر اپنے گپوں میں لگے تھے۔
پھر آواز آئی یہاں ادھر خود کے اندر جھانکو جواب ملے گا تمہیں کہ کس کی خاطر کن کی خاطر کس لیے دیوانہ وار لوگ قربان ہوتے رہے۔ کس لیے کن کی خاطر بھٹکتے رہے. کن کی خوشی کے لیے کن کے آنسو پونچنے کے لیے لہو کے راہوں پر بھی مسکراتے چلے. دیکھو انہیں نہ اپنی فکر نہ اپنا خیال کس کے کل کے لیے مٹتے رہے۔ غور سے دیکھو ان تمام کی آنکھوں میں…….. دیکھ سکتے ہو؟
نہیں تم دیکھ نہیں سکتے۔ تم وہ دیکھ سکتے ہو جو تمھاری ذات تک ہیں۔ تم وہ محسوس کر سکتے ہو جو تمہارے اپنوں پر گزرے۔ تمھارا خون وہاں کھول اٹھتا ہے جہاں تمھارے گھر کی بات ہو۔ جہاں تمھارے اکیلے کے عزت کی بات ہو. جہاں تمھارے ایک ٹکڑا زمین کا مسئلہ ہو۔ وہاں سلاح بند ہوتے ہو۔ تب ہی اپنے ذاتی ملکیت کے لیے بھی مرنے سے ڈرتے ہو کہ کیونکہ پیچھے تم گھر میں ماں باپ بھائی بہن بیوی بچے خاندان کو چھوڑ آئے ہو۔ مگر اب بھی لوٹنا چاہتے ہو
دیکھو ان چھینٹوں کو منظور کے لہو کے جو عید قریب مارا گیا.
اب پوچھو خود سے اگر پوچھ نہیں سکتے تو سنو!! یہ وہ ہیں جو اپنی زندگی خود نہیں جیتے. یہ وہ ہیں جن کا احساس آنگن کی چار دیواری میں نہیں مرتا. ان میں سے ہر ایک کو اپنی دنیا میں مگن رہنے کا ہنر بھی آتا تھا. مگر تمھارے آنے والی نسلوں کی خاطر انہوں نے اپنے آج کو فنا کرنے پر نکل پڑے.
توتک کی اجتماعی قبروں سے جو نکلے تھے وہ زندانوں میں اذیت سہہ کر گمنام گپت اندھیرے کوٹھڑیوں سے خاک کی تہہ تک اس خاک کی آجوئی کے لیے محو سفر رہے. صدام ابھی جوان تھا۔ درین سے اسے ملنا تھا۔ بہت پیار کرنا تھا۔ شعیب کو اپنے کندھوں پر بچپن سے ہی بوجھ ملے تھے. سنی کے باغوں میں کسی بڑز جگہ کھڑا آزاد وطن کی خوشبو کو جو محسوس کر رہا تھا۔ وہ حاجی رمضان اسی خوشبو میں تحلیل ہوکر ہر سو بہار بکھیر دیا۔ دیکھو پہلو میں شھید ہارون ملے گا۔ ان سب نے اپنی اپنی دنیا سے نکل کر ایک قوم وطن کا سوچ رکھا……. ایسی ہزار عیدیں ایک مسکان کے ساتھ قربان کر دیئے تاکہ آنے والی نسل اس غلام سماج میں عید نہ منائے۔ ان کے لیے ان کی کامیابی ان کی خوشی انکا امر ہونا تھا. جو وہ ڈٹے رہے اس غلیظ بدنما داغ غلامی کے خلاف……….
گاڑی رک گئی میں چند لمحوں تک سکتے میں رہ گیا۔ پھر کلینر کی آواز نے مجھے گاڑی سے اترنے میں مدد دی۔ میں گاڑی سے اترتے ہی بے ساختہ اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔ ابھی چلا ہی تھا کہ پھر سے اسی آواز کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا میں نے خود کو سامنے کھڑا پایا۔ اس نے مسکرا کر مجھ سے کہا دیکھو اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر کیسے چل رہے ہو. ایسے ہی انگلی پکڑ کر چلنا ہے وطن کی بچوں کو لیکر شاید تم سوچو وہ تمہارے نہیں یقین مانو ایک بار وطن کا بیٹا بنو سب اپنے ہی ہونگے.
میں اس کے سامنے خاموش کھڑا تھا۔ میں خود سے ہی کچھ بول نہ پا رہا تھا سامنے سے پھر سے ہلکی سی مسکان کے ساتھ وہ بول پڑا۔ اچھا جا رہے ہو عید کی تیاری کرنے تو جاؤ بس آنکھیں زمین کی طرف کرنا لہو ابھی بھی اس میں تازہ ہے. سامنے سے گزرتے لوگوں کی آنکھوں سے آنکھیں مت ملانا کہ اپنے اس بزگی کا بہت مشکل سوال کرتے ہیں. چلو جاؤ وہاں دکانوں پر چادر بھی لٹکے ہیں کئی عرصے سے کہ جب سے بہنوں کی چادر کو درندوں سے چھینا ہے …………. تھوڑی خاموشی کہ بعد سامنے کھڑا وہ مجھ سے یہ کہہ کر چل پڑا کہ اب میں ساتھ نہیں آتا اب میں لوٹ جاتا ہوں……..
وہ لوٹتے قدموں سے چلا جا رہا تھا میں نے اسے آواز دی کون ہو تم میرے جیسے ہو تو میرے ساتھ کیوں نہیں؟؟؟؟؟
وہ وہیں رک کر پیچھے مڑا اور مسکرا کر بولا میں ضمیر ہوں یہاں روز مجھے اتار کر لاکھوں لوگ نکل پڑتے ہیں………..