جسم ئٹی کمزور فکر ئٹ تکڑئی اوڑا ختم
پند خواری سگ و سینہ سنگتی اوڑا ختم
“عشق اندھا ہوتا ہے “اس جملے کو سن کر کئ عام لوگوں کے ذہن میں فوراً ایک ہی بات آجاتی ہے کہ کسی حسینہ کے ذلف میں کسی حسن پرست کا ایسی مبتلا ہونا کہ اس سے حاصل کرنے کیلئے وہ دردر کے ٹھوکریں کھانے کے باوجود بھی ہار نہیں مانتا ہے نہ اس سے اپنے صحت کا خیال رہتا ہے نہ کھائے پینے کا یہاں تک وہ اپنے جان کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے اگر اس سے حاصل کرنے میں ناکام رہا تو وہ اپنے ذہنی توازن تک کھو بیٹھتا ہے آگر عام طور پر دیکھا جائے ہمیں خاص طور پر لیلی و مجنوں یا شرین و فرہاد جیسے عاشقوں کی قصے سننے کو ملتے ہیں اگر اس بات کوئی سوچ فکر والا آدمی سنے تو اس کے ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ کس چیز کے عشق میں اندھا ہوگیا یعنی کیا کسی حسینہ کے عشق میں؟ یا کوئی فرزند اپنے سرزمین جیسے عظیم عشق میں مبتلا ہوا ہے ؟ اس کے ذہن میں دو جواب ہی آئینگے گر کسی حسینہ کے عشق میں مبتلا ہوا یا تو اس سے حاصل کریگا یا ناکام ہوکر زندگی بھر اس کے یاد میں مبتلا ہوکر پاگل ہوگا۔
اگر سرزمین کی عشق حقیقی میں مبتلا ہوا ہے تو اس کا واپس آنا بہت ہی مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوگا یا تو وہ مریگا یا اپنی خون کی آخری قطرے تک دشمن کے ساتھ لڑیگا۔اس کی عشق میں جب وہ پاگل ہوگا تو سرزمین اس پر فخر کرنے لگے گا اور دشمن کے نیندیں حرام ہونے لگیں گے اگر تاریخ میں دیکھا جائے بہت سے بہادر اپنے زمین کے عشق میں طاقتور دشمن کے سات آخری سانس تک لڑے ہیں اور اس کے چنگل سے آزادی حاصل کی ہیں ۔
دنیا کے تاریخ میں دیکھا جائے بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے جس پر پوری دنیا کے نظرے ٹکی ہوئی ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اس سرزمین نے ایسے بلوچ فرزند پیدا کیا ہے جس کی حفاظت کرنے کے لیے اپنے گھر ماں باپ اور تمام عیش و عشرت ترک کر کے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوکر جان کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں جس کے ہزاروں فرزند اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہیں ان کے قصے سن کر تمھیں لیلی و مجنوں اور شریں و فرہاد تو کیا دنیا کے بڑے بڑے بہادروں کے قصے یقیناً بھول ہی جانا پڑےگا یہ وہ سرزمین ہے جس نے کبھی بزدل پیدا ہی نہیں کیا۔ اس کے ہزاروں نڈر اور بہادر جان باز سپاہی اس پر قربان ہوگئے ہیں۔
آج میں بلوچستان کی ایک ایسے فرزند پر قلم اٹھا کر لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں جس کو میں نے زندگی میں کبھی دیکھا نہیں ہوں اس کے سرزمینی محبت کے داستانیں سن کر میں اس عظیم الشان فرزند کا مرید ہی بن گیا ہوں جس کو آج پوری دنیا فرزند ء وطن (شہید صدام نوید عرف کےڈی) کے نام جانتاہے.اےعظیم الشان محافظ وطن آپ کے داستان کو اپنے ٹھوٹی پھوٹی الفاظ میں اچھی طرح سے شاید بیان نہیں کر سکوں اس کے کیلئے آپ سے میں معذرت خواہ ہوں۔
جب بلوچستان کے کونے کونے میں دشمن اپنے ناپاک پالیسیوں کے تحت بلوچ نسل کشی کرکے خون کے ھولی کھیل رہے ہوتے ہیں اور لوگوں میں خوف ہراث پیلانے کیلئے ہزاروں فرزند زندانوں میں بند کردیے جاتے ہیں اور مسخ شدہ لاشیں گرانا تو اس کے روزانہ کے معمول بن جاتا ہے۔لوگوں میں اتنا خوف پھیل جاتا ہے یہاں تک لوگ اپنے سرزمین کے نام لینے سے بھی کتراتنے لگ جاتے ہیں۔راسکوہ کے پہاڑی سلسلوں میں لوگ ڈر اور خوف کے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اس وقت کے ڈی اپنے پڑھائی میں مصروف ہوتے ہے اور اس ظلم اور جبر کو بہت نزدیک سے دیکھ رہے تھے اور یہ ظلم اس برداشت نہیں ہو پارہا تھا کیونکہ وہ آزاد خیال اور نظریاتی طالب علم تھے اس وقت سے اس کے دل اپنے لوگوں اور وطن کے محبت سے سرشار تھے تو اس وقت سینکڑوں کے تعداد میں لوگ بندوق اٹھا کر دشمن کے مقابلے کیلئے پہاڑوں کے رخ راوانہ ہوتے ہیں اس میں سے ایک شہزادہ راسکوہ شہید صدام نوید عرف کےڈی بھی ہوتا ہے اپنے پڑھائی اور آرام والی زندگی چھوڑ کر کم عمری میں وطن کی حفاظت کے لیے نکل جاتا ہے۔
جو بذاتِ خود دشمن کے زندانوں میں بند ہوتا ہے دوران ء قید اس سے طرح طرح کے آفر پیش کیئے جاتے ہیں کہ آپ آکر ہمارے لیے کام کرے اس وقت بہادروں کی طرح دشمن سے یہی کہتا ہے میں اپنے قوم کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا اس جواب سے دشمن کی طرف اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔لیکن پھر بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتا ہے جب زندان سے آزاد ہوتا تو کے ڈی اپنے گھر بار چھوڑ کر وطن کے حفاظت کے خاطر پہاڑوں کی طرف راوانہ ہو جاتا ہے جب پہلی مرتبہ محاظ پر پہنچتا ہے اس کے لاغراور کمزور جسم کو دیکھ کر لازماً بلوچستان کے پہاڑ فخر سے مسکرارہے ہونگے ان کے فرزند اس بالاد کے ساتھ بھی دشمن سے مقابلہ کرنے نکلا ہے لیکن ان کو کیا پتا تھا اس کے لاغر جسم میں راسکوہ جیسے بلند فکر اور نظریہ رکھتاہے جب کے ڈی پہلی مرتبہ کیمپ پہنچتے ہے پہلی ملاقات میں سارے تنظیمی ساتھی اس کے مرید بنتے ہیں اور وہ اپنے کاموں میں ایسے مشغول ہوجاتا ہے وطن کی عشق میں ایسے مگن رہتا ہے اس کو اپنے صحت کا بھی خیال نہیں رہتا ہے بیماری کے حالت میں بھی اپنے کاموں میں مصروف رہتا ہے وہ ہفتوں تک اپنے کیمپ میں نہیں آتا کیونکہ وہ ہر وقت کسی نا کسی کام میں مصروف ہوتے ہیں اور مختلف محاذوں پر جان کے پرواہ کئے بغیر دشمن کے ساتھ دلیری سے مقابلہ کرتے ہے اور تنظیم میں نامور گویلا جنگجو میں شمار ہوتا ہے بے شمار دکھ درد برداشت کر کے بھی اس سرزمین عشق میں ایسے مست مگن رہتا ہے اس سے سالوں بھیت جاتے ہیں اس کے ذہن میں صرف وطن عزیز بلوچستان ہی ہوتا اور لبوں پر ہمیشہ ایک ہی جملہ ہوتا ہے “اللّٰہ خیر کنت” اور اس دوران جنگی محاذ پر آٹھ سال گزار کر پھر مجید برگیڈ میں اپنے نام دے کر فدائی کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے لازماً شہزادہ کے اس عظیم قربان کا سن راسکوہ سے لے کر بولان تک ہر پہاڑ ؤ درہ غم میں مبتلا ہوۓ ہونگے کیونکہ ان کو پتہ تھا آج کے بعد ہمارے فرزند ہم سے جسمانی طور پر الگ ہوگا۔
لیکن اس فرزند کے اس فیصلے پر وہ بلوچستان کے پہاڑ ایک دوسرے کے ساتھ چہ میگوئیاں کرکے ایک دوسرے کو تسلی دے رہے ہونگے راسکوہ کی پہاڑ فخر سے کہتا ہوگا آج میرا شہزادہ وطن کیلئے اپنے جان دینے کیلئے تیار ہے اور اس اثناء میں اس کے آنکھوں سے آنسوں بھی جاری ہونگے اور صدام جان بھی اس وقت اپنے عقابی نگاہیں پہاڑوں اور اپنے ساتھیوں پر لگا کر یہ کہتا ہوگا آج کے بعد شاید میں واپس نہیں آؤں لیکن آپ لوگ اپنے وطن کی حفاظت کرنے میں کوئی کمی نہیں لانا اور اس سے طرح ہنس کر کہتا ہوگا آج میں اپنے حصے کا شمع جلانے کیلئے دشمن کو سبق سکھانے جارہاہوں آپ سب اپنے باری کا انتظار کرتے رہنا یقیناً یہ باتیں سن کر اس کے دوستوں کے آنکھوں سے آنسوں جاری ہوتے ہونگے 29 جنوری کو شہزادہ راسکوہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے آخری جنگ کیلئے راوانہ ہوجاتا اور مچھ میں دشمن پر حملہ آور ہوتا ہے دشمن کے ناک میں دم کر کے بہت دیر تک بہادری سے لڑ کر اپنے جان وطن کیلئے قربان کر دیتا ہے اور جب یہ خبر خاران میں پہنچتے ہیں وہاں سے صرف ایک ہی نعرہ لگتا ہے صدام جان تیرا خون رنگ لائیگا اس عظیم سپوت کی جسد خاکی کو آبائی گاؤں میں لایا جاتا مرد عورت بوڑھے بچے سب اس کو خوش آمدید کرنے کیلئے گھروں سے نکلتے ہیں کیونکہ ان کا فرزند آٹھ سال بعد واپس لوٹا ہے سارے اس کے دیدار کے لیے ترس رہے تھے جب جسد خاکی کو لایا جاتا ہے سارے عورت اس پر پھول نچھاور کرنے لگتے ہیں اور اس سے دن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدام کے جانے کے بعد لوگوں میں کتنا شعور آیا ہے یہ وہی علاقے تھا جس میں لوگ بلوچستان کے نام کے نام لینے سے بھی کتراتنے لگ جاتے لیکن آج سب کے دل میں وہ خوف ختم ہوجاتا ہے یقیناً جب لوگ اس کی ماہ کو دیکھ رہے ہونگے جب وہ اپنی معصوم فرزند کے چہرے کو بوسہ دے کر آخری دیدار کر رہے تھے اور یہ لمحہ لوگوں کے دلوں کو چیرتا ہوگا۔
اے یہ آخری رخصتی کیا رخصتی ہوگی جب اس کی ماہ لبوں پر بکھری ہوئی مسکراہٹ لے کر ہاتھ ہلا کر اس کو سلام کررہے ہونگے اور صدام کے سر فخر سے بلند ہوتا ہوگا اپنے ماہ کے اس دلیرانہ رخصتی پر۔
اس گمنام سپاہی کو بلوچستان کی سرزمین میں سپردِ خاک کرنے کیلئے ہزاروں لوگ جنازہ میں شریک ہوتے ہیں اور اسی طرح کے ڈی کو راسکوہ کی زمین میں سپردِ خاک کر دیا جاتاہے۔بیشک عشق اندھا ہوتا ہے اور اس بات کی اندازہ یہاں سے لگا سکتے ہیں کس طرح کے نوجوان اپنے وطن کی عشق میں کیا کیا قربان نہیں کرتے؟