کہتے ہیں کہ غلام قوم کی نفسیات اس کے خواہشات کا مظہر ہوتا هے کیونکہ خواہشات کی نوعیت ہی آپ کے سوچ کی عکاسی کرتا ہے کوئی بهی باشعور شخص اگر ہمارے چهوٹی چهوٹی خواہشات اور ہمارے ،خوش ہوکر فخر کرنے یا توقعات صدمے مایوسی کے وجوہات پر باریک بینی سے غور کرے تو ہمارے پورےسماج پر غلامانہ نفسیات کا چاپ بہت گہرا نظر آئے گا میں آج مجموعی حوالے سے اسی پست سوچ پر اپنی ناقص رائے کا اظہار کروں گا جس سے خود نکلنے اوراپنے لوگوں کو نکالنے کی جدوجہد میں ہم مصروف عمل ہیں ویسے تو ہمارا پورا سیاسی منظر نامہ جو اس وقت نظر آرہا هے اسی سوچ کا مظہر ہے لیکن کئی کئی اس کا بد ترین مظاہرہ کیا جاتا ہے جو ایسے حالات میں کسی بهی باشعور اور باضمیر بلوچ کےلئے ندامت کا باعث ہی بنتے ہیں میں دو مثال آج کے حالات اور حقائق کے تناظر میں آپ لوگوں کے سامنے اپنے ناقص رائے کے مطابق رکهوں گا غور کرنا آپ کا کام ہے.
ویسے تو پنجابی ریاست کی بلوچ گل زمین پر وسائل کے لوٹ مار کو لیکر دیکها جائے تو ماہانہ یہ لوٹ مار اربوں ڈالر میں بنتا ہے لیکن اگر ہم صرف ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس کا حقیقی تخمینہ لگائیں تو وه بهی ماہانہ اربوں ڈالر کے حساب سے سامنے آئے گا اسکے باوجود اسی لوٹ مار کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح کی قتل و غارت گری،ظلم و جبر،دهوکہ دہی فریب ، غیر انسانی سلوک کیا جارہا هے وه الگ سے…
بدقسمتی دیکهیں ایسے حالات کا سامنا کرنے کے باوجود ہم سوچتے کیا ہیں اور وه باتیں کیا ہیں جن پر خوش ہوکر ہم فخر کرتے ہیں یا جن سے ہم کو دکھ درد کا احساس گهیر لیتا ہے ہم مایوس ہوجاتے ہیں کیونکہ یہی سب کچھ ہمارے رویوں کو جنم دیتے ہیں اور یہی رویے ہمارے آس پاس کے ماحول پر اثرات مرتب کرتے ہیں اور انہی کے بل بوتے پر ہمارے فیصلے ہوتے ہیں جس نقطے کی میں نشاندہی کرنے جارہا ہوں وه یہ ہے کہ کهربوں ڈالر کے قیمتی وسائل کے مالک بلوچ قوم میں ایک عام بلوچ کے سوچ کا کیا کہنا جب ہمارے لیڈر براہمداغ بگٹی صرف دس کروڑ ڈالرکے مالک ہونے کا عوامی سطح پرجس انداز سے فخریہ اظہار کرتے ہیں.وه بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے انفرادیت اور ذاتی میراث کی حد تک شاہد اس اظہار کےلئے گنجائش ہو (قطع نظر اسکے کہ آپ کے ذاتی میراث میں آمدن کے ذرئعے کیا ہیں جاگیرداری، صنعت کاری،کاروباری یا قومی وسائل) اب عام بلوچ سے گلہ کیا وه کہتے ہیں کہ چهوٹوں میں عکس بڑوں کا
آپ کو ایسے بدترین حالات کا سامنا ہو جہاں روزانہ کی بنیاد پر دس کروڑ ڈالر سے زائد کے آپ کے قیمتی قومی وسائل لوٹے جارہے ہوں اور اسکے ساتھ ہی ساتھ آپ کے مصعوم لوگوں کو قتل کیا جارہا ہو آپ اور آپکے لوگوں کے گهربار، مصعوم بچے ،مال مویشی محفوظ نہ ہوں ہتکہ قوم جلاوطنی جیسے عذاب سے گذررہا ہو تو لازمی طور پر ایسے میں حقیقی قومی جذبہ تقاضا کرتا ہے آپ اور آپ کے عوام کا دکھ درد تکلیف اورخوشی وآسودگی کے ایک ہوجانےکا
قومی جغرافیہ قومی اقتداراعلی گنوا کربحثت مقبوضہ قوم کهربوں ڈالرکے قومی وسائل جبرا لوٹا کر ہزاروں نوجوانوں کے لاشیں اٹهاکر لاکهوں ماوں اور بہنوں کو بین کرتا دیکھ کر ہمارے لئے خوشی اور فخر کےلئے ره کیا جاتا هے ؟؟؟؟
دس کروڑ ڈالر ؟؟؟ تو کیا یہ اظہار آج خود ثابت نہیں کررہا هے کہ ہمارے خواہشات ہی ہمارے سوچ کا مظہر ہیں؟؟؟کیااجتماعی قومی سوچ سے بے نیاز یہ انفرادیت تیرا میرا کا چکر غلامانہ نفسیات کے جس سطح کی نشاندہی کررہا هے وه لمحہ فکریہ نہیں؟ ؟؟
بلکل انہی حالات میں دوسری طرف بی این ایم کے دوستوں کے طرف سے گومازی میں ایک جلسہ عام کو لیکر جس فخریہ انداز میں کامیابی کا اظہار کیا جارہا هے وه بهی اسی غلامانہ نفسیات کی گہرائی کی نشاندہی کرتا هے یہاں بهی فکر مند کرنے والا نقطہ یہی هےکہ کیا حقیقی قومی جذبہ مجموعی حالات کراچی سے لیکر کرمان تک اور کوئٹہ سے لیکر ڈیرہ غازی خان تک سے بے نیاز هو کر صرف مکران کے ایک دور دراز گاوں میں ایک عوامی جلسہ پر فخر کرنے کی اجازت دیتے ہیں ؟؟ قطع نظر اس کے کہ جلسے میں عوامی شمولیت کی نوعیت کیا هے پہلے سے آس پاس کے علاقوں سے BNP اورNP طرز پر لوگوں کو گاڑیوں میں بهر کر لانا یا عوام کا شعوری حوالے سے از خود شمولیت کرکے کسی بهی حالات میں اپنے ردعمل کا اظہار کرنا اب اگر مجموعی حوالے سے شعور و احساس کو لیکر ہم اجتماعی کردار کا جائزه لیں تو آج تک کوئی ایک بهی واقعہ ایسا پیش نہیں آیا کہ کسی بهی ریاستی آپریشن یا چهاپے کی صورت میں فوجی یلغار کو کسی بھی سطح پر عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا هو کسی بهی دور دراز گاوں یا شہر میں پچاس ،سو یا دوسو افراد نے ریاستی یلغارکے سامنے روکاوٹ بنکر انکا راستہ روکا هو حالانکہ یہ بهی سننے میں نہیں آیا کہ ہمارے سرمچاروں نے قابض دشمن ریاست کے ہاتهوں آج تک کسی ایک قصبے گاوں یاگهر کو لوٹنے جلنے یا برباد سے بچایا هو کیونکہ حقیقت یہ هے کہ ان حالات میں ہم نے وه طاقت ہی حاصل نہیں کی جو ایسا کر سکے ماضی قریب میں تو ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا حالانکہ مشکے میں فوج کی تعداد بهی بڑهائی گئی هے لیکن مشرف دور کے آخر میں دو تین مرتبہ ڈاکٹر اللہ نذر کے اپنے گهرو گاوں پرحملہ کیا گیا مگر عین اس وقت کوئی مسلح اور نہ ہی عوامی ردعمل سامنے آسکا کیونکہ ہم نے اس زاویے پر کام ہی نہیں کیا اس وضاحت کا مقصد بهی یہی هے کہ ہم سمجھ سکیں کہ ہمارااصل مقصد تو بہت بڑا هے لیکن جس سمت پر ہم گامزن ہیں اس کی منزل ہمارا اصل منزل نہیں ہمارا حقیقی هدف کام کرنے کے حوالے سے کئی گناہ مشکل اور پیچیدہ هے مگر بدقسمتی سے ہم نے اس وقت جن هداف پر کام کررهے ہیں وه ہمارا حقیقی هدف نہیں ہے یعنی دس کروڑ ڈالر اور عوامی جلسے نمود و نمائش اور بڑهک بازی آپ سوچیں بلوچ قوم اور بلوچ جغرافیہ کی موجوده حالات قابض ایران قابض پاکستان انکے فوجی طاقت اور ہمارا بے سرو سامانی قبائلی ڈهانچہ کو لیکران سے نجات حاصل کرنے کا مشکل ترین هدف لیکن دوسری طرف ہمارا سوچ ہمارے خواہشات ہمارے خوش هوکر فخر کرنے کی وجوہات و انداز ہمارے دکھ ، صدمے و مایوسی کی اسباب وجوہات کیا ہیں
جب ہم کوئٹہ،کراچی، چابہار سستان،قلات،سبی،ڈیرہ غازی خان کے غم سے بے نیاز گومازی کے چند سو افراد کے چند لمحوں کے نعروں پر خوش ہو کرفخر کرینگے (قطع نظر اجتماع کے منظم هونےکے اسباب و وجوہات اور نعروں کے لگوانے یا لگانے سے ) اور کهربوں ڈالر کے وسائل کو لوٹتا دیکھ کر انفرادی ملکیت صرف دس کروڑ ڈالرپر خوش هو فخر کرینگے تو لازمی طور پر هدف کہاں اس پر حقیقی سمت اور معنوں میں کام کہاں اور ہم کہاں.
اب کوئی سمجهے یا نہ سمجھے لیکن یہ ایک حقیقت بن چکا هے کہ فریب جتنا بهی خوبصورت هو (حالانکہ اس وقت تک ہمارے ہاں فریب بدصورت ہی رهاهے) هو سکتا هے کہ کروڑوں کی اجتماع کی صورت میں هو اور کهربوں ڈالر سے مزین هو لیکن هو فریب جس میں قوم کے مبتلا هونے کا خدشہ هو اس فریب کا پرده هر صورت چاک کیا جائے گا اور اس کے حوصلہ شکنی کی هر ممکن کوشیش کی جائے گی حقیقت جتنا تکلیف دے هو اس کے ساتھ ہمگام ره کر اسکا ساتھ دیا جائے گا.