ہر شام نحیف ہو کر آفتاب روانی سے سرخی مائل شفق پہ غروب ہوتا ہے۔ مجھے کم سے کم یہ نہیں پتہ کہ یہ سرخی مائل خون زدہ شفق آفتاب کی جائے پنا ہے یا غروب آفتاب افق پہ قناعت طاری کرتے کرتے اسے سرخی مائل بنا دیتا ہے۔ البتہ جب سے میں نے پہاڑوں میدانوں اور صحراؤں میں سورج ڈوبتا دیکھا تو مجھے یقیں ہوتا گیا کہ گلاب و گواڑخ کی سرخی ہو یا شفق کی لالی اس میں گلزمین کے بہادر سپوتوں کا خون ضرور شامل ہے۔ مجھے یقین کے اس گٹھن زدہ غلام سماج میں رنگ انقلاب صرف اس سر زمین کے شہدا کے خون سے ممکن ہے۔

    غروب آفتاب کے وقت عموما میرے جیسے لوگ کسی نہ کسی یاد یا پھر کسی نہ کسی غم کا سرا کس کر الجھ جاتے ہیں۔یہ الجھن میرے لئے عام سی کیفیت ہے۔ اس کیفیت سے بچنے کے لئے میں کسی نہ کسی دوست کے ساتھ بیٹھ کر یہ لمحات گزار نے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن جب ہم بے گھر دوست آپس میں بیٹھتے ہیں تو کہانی ہی وہی شروع کرتے ہیں جہاں سے آغاز دکھ ہوتا ہے۔

   کبھی کبھی کرب کی کیفیت میں شدت اس قدر ہوتی ہیکہ جزبات کو بیان کرنے کے لئے الفاظ ہی نہیں ملتے اور جب الفاظ ختم ہو جاتے تو جزبات آنسو بن کر آنکھوں سے چھلک جاتی ہیں۔

کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پہ کئی تصاویر اور ویڈیوز زیر بحث ہیں جہاں خواتین کی اک بڑی تعداد تین گمنام قبروں کی کھدائی کررہے ہیں اور ان میں بے گور و کفن بلوچ فرزندوں کی جسد خاکی صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ جسد خاکی ان جوان سپوتوں کی ہیں جو اس آزادی کے جد و جہد کو دوام بخشنے کی کوشش میں شہید ہوئے جنہیں دشمن ریاستی فورسز رات کی تاریخی میں ان گڑوں دفن کرگئے۔

بلاشبہ ہم اک جنگ سے جھڑے ہیں اور جنگ سے منسلک کردار کسی افسانہ غم کے کردار ہوتے ہیں۔ آزادی کے نام پہ لکھی گئی اس افسانہ کو رواں رکھنے کے لئے ہمارے جہد کار کرادر کا روپ دھار کر اس روانی کی قیمت خون دیکر چکاتے ہیں

ہمارا کوئی بھی کردار کل کے لئے نہیں جیتا ہے۔ وہ اپنا آج آپکے کل کی تکالیف کم کرنے کے قربان کرتا ہے۔

یہ جنگ اپنے کردار خود چنتا ہے۔ پھر انہی کرداروں کو تاریخ کے سانچوں میں ڈال کر لوگوں کے حوالے کرتا ہے۔

 جنگی کردار اصل میں فرضی اور رشتے عارضی ہوتے ہیں۔ یہ فرضی اور عارضی اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ جنگی کردار بدلتے رہتے ہیں۔ اک کردار کی جگہ دوسرا لیتا رہتا ہے۔ کل کے کرادر شاید آج کے جنگ میں موجود نہ ہو اور آج کا کردار کل کے جنگ کے لئے بچا نہ ہو۔اس لئے حالت جنگ میں کسی کردار کی اصل شناخت نہیں ہوتا۔ نام نہیں ہوتا۔ نصب نہیں ہوتا۔ جنگی محاذ نظریاتی اصول پر قائم ہوتا ہے اور کرادر اس جنگ کے ایندھن بن جاتے ہیں۔ اس اصول کو اپنا کر اک جنگجو خود کو ختم کر کے اک جنگی کردار بن جاتا یے۔ پھر نسبتیں کرداروں سے بن جاتے ہیں۔محاز جنگ پر آج کسی سے ملے پھر شاید اگلی ملاقات بھرسوں بعد ہو یا پھر کبھی بھی نہ ہو۔

  یہ تین قبریں علی اور اسکے ساتھیوں کی تھیں۔علی بھی اک ایسا ہی جنگی کردار ہے جو اب تاریخ بن چکا یے۔علی سے جب میں پہلی دفعہ کوئی اک دہائی پہلے ملا وہ ملاقات میں حسب عادت بھول گیا۔ لیکن جب دوسری دفعہ ہم پھر سے ملے مجھے علی بھی اس افسانہ درد کا اک عام سے کردار لگا۔ وہی گھر، اسکول مدرسے اور دوستوں کی باتیں یا پھر تنظیمی سرگرمیاں اور جزبہ جنگ۔

علی مجھے اس رات سے ہمیشہ کے لئے یاد رہا جب اک قیامت خیز سرد رات کو ہم آگ جلا کر آگ کی حرارت سے سانسوں کی روانی روان رکھنے میں مگن تھے تو علی نے ہاتھ زور زور سے ملتے ہوئے بول دیا کہ آخری گولی زندگی کے نام اور باقی گولیاں دشمن کے نام۔ اس جملے پہ ہم سب زور سے ہنس دئیے۔ ہماری مشترکہ ہنسی خون جمانے والی سردی کو کچھ لمحوں کے لئے بہا کر لے گیا اور کہساروں نے اسکی گونج اپنے کوکھ میں بسا لی۔

اسکے بعد علی جب سے ملا، اک نئے ڈھنگ سے ملا۔ میں ہمیشہ سمجتا تھا کہ ہم تمام جہد کار اک رزمیہ افسانہ کے خالی اوراق ہیں جنہیں ہم اپنے عمل سے لکھے جارہے ہیں۔ لیکن علی جب سے ملا مجھے محسوس ہونے لگا کہ علی اک ذندہ کردار ہے۔ اسکی ہنسی، اسکا مزاج اسکے اصول سب کے سب اسکے اپنے طے کردہ تھے۔ علی عملی طور پر جنگ ساختہ تھا۔ اس نے چھوٹی سے عمر میں جنگ کو نئے اصول اور ضابطے دئیے۔ دلیری شحاعت یا پھر بہادری جیسے عام سے الفاظ علی کے کردار کا احاطہ نہیں کرپاتے۔ علی صحیح معنوں میں پہاڑی شہزادہ تھا۔

  آج کی ڈھلتی شام زرد نحیف ڈھوبتے سورج کو دیکھ کر مجھے علی کی یاد نے جھکڑ لیا۔ علی بظاہر اک معصوم سے چہرا ، اک ہنستا مسکراتا انسان، اک دلیر جنگجو اک بے باک نڈر سرمچار، ان سب باتوں سے پرے علی کی آنکھیں اور ان میں بسا انتہا کی درد جسے آج تک نہ کوئی سمجھ پایا اور نہ ہی علی نے کبھی اس درد کو لفظوں میں پرویا۔

کئی دفعہ دل ہی دل میں سوچتا گیا کہ علی سے پوچھ لو کہ اسکول جانے کی عمر میں جیل کی مشقتیں کیوں اور کالج جانے کی عمر میں پہاڑوں کا انتخاب کیسے ؟؟ لیکن علی کی کردار ہمیشہ ان سوالوں کا عملی جواب دیتا تھا۔ اس کی وطن سے محبت، اسکی زمہ داریوں کا احساس، اور نظریاتی پختگی اور اس میں رچی بسی قربان کا احساس ہمیشہ علی کو یکتا کرتے رہے۔ علی کا شمار عمر کے اعتبار سے موجودہ نسل کے ان جوان لڑکوں میں تھا جو قیمتی موبائل، نئے کپڑے مہنگے جوتے اور آرام دہ طرز زندگی کے خواہاں ہیں جو اچھے تعلیم اور اچھی نوکریوں کے خواب آنکھوں میں سجا کر اک بہتریں مستقبل کا سوچ رکھتے ہیں۔ علی اک پہاڑی شہزادہ جسے کبھی اچھے کھانے اور پوشاک کی طلب نہ رہا۔جس نے اپنے عمر کے بہترین ایام جیل میں بتائے اور عمر کا بقایا حصہ پہاڑوں کی نظر کیا۔

یقینا علی اگر گزشتہ صدی پیدا ہوتا تو موجودہ نسل کے لئے حمل یا پھر قمبر جیسا کردار بن جاتا۔ اگر اسی صدی کے اوائل میں پیدا ہوتا تو چی گویرا یا بھگت سنگھ بن جاتا۔میں ان تمام ساتھیوں سمیت اس عہد کا گواہ ہوں کہ مزاحمتی تاریخ میں علی اک مکمل مزاحمتی کردار ہے جس کی جنگی صلاحتیں اور نظریاتی پختگی علی جو اک مزاحمتی باب بناتے ہیں۔

علی کے شہادت پہ کم سے کم مجھے شفق رقت آمیز دکھا۔ میں نے پہاڑ لرزتے اور سوگوار دیکھے۔ مجھے ہوائیں ماتم کرتی محسوس ہوئیں۔ میں نے تھرتھراتے زمین کے آنسوں دیکھے۔

آخری معرکہ میں علی کے بندوق سے، علی کے ہاتھ سے، جب علی ہی کے لئے آخری گولی علی کے اپنا نام چلا تو اک نئی کہانی وجود پانے لگا۔

علی وہ بچہ جس نے اپنے شہادت سے پندرہ سال قبل اپنا گاؤں اپنا گھر اپنا اسکول اپنے لوگ اپنے ہمسائے اپنے دوست چھوڑے تھے، امر ہو کر گاؤں جانے کا ضرور سوچ چکا ہوگا۔

 علی کی بے پنا چاہت میں گاؤں کے لوگ کم و بیش تین دن تین رات روڑ بلاک کر کے بیٹے رہے کہ انہیں علی اور اسکے ساتھیوں کی لاشیں چائیے۔

لاش نہ ملنے پہ گاؤں کی مائیں بیٹے بیٹیاں قبرستان آگئے علی کا جنازہ پڑہنے۔ علی اور اسکے ساتھیوں کی علامتی قبر بنے۔ قبروں پہ قطبہ لگے۔ یہ علامتی قبروں یہ خطبے علی اور اس کے ساتھیوں کے ذندہ کردار کے اعزاز اور اعتراف تھے۔ علامتی قبروں کے بعد علی اور اسکے ساتھیوں کی اصل قبریں بھی خواتین نے ڈھونڈ نکالے۔ اور پھر سے انہیں دفنا گیا۔

علی ازادی کے کارواں کا اک امر کردار ہے جس نے اور کردار جنمے، علی اک نا ختم ہونے والے مزاحمتی سوچ ہے جو کہیں نہ کہیں کسی گاوں کے کچھے گھر کے ادھیرے صحن میں لالٹین کی روشنی میں کتابیں پکڑے پروان چڑ رہا ہوگا کیونکہ جنگ کردار بدلتا رہتا یے۔ جنگ اپنے کردار چنتا رہتا ہے۔ آج کا سورج اپنے آب و تاب سے چمکنے کے بعد ڈوب ہی جاتا ہے تاکہ کل کا سورج طلوع ہو جائے۔