تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھنے سے آزادی کی تحریکوں کی لمبی فہرست سامنے آتی ہے جو اپنے زمین کے مالک بننے کے لیے کھڑی مشکلوں کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک آزاد سماج میں سانس لینے کے قابل بنے ہیں الجزائر سے لیکر ویت نام و کوسوو وغیرہ تک تمام اقوام انتہائی کٹھن پر تشدد حالات سے گزر کر مہذب قوموں کے صفوں میں آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان بنانے کے قابل بنے جب تک آپ کسی کے غلام رہیں گے اس وقت تک کوئی فرد یا طاقت آپکو غلام کی نظر سے دیکھے گا اور دنیا کے بے رحم قوانین میں کسی غلام کی کوئی حیثیت نہیں اسکی قومی پہچان تہذیب ثقافت تاریخ ادب سیاست سبھی استعمار کے رنگ زدہ ہوتے ہیں اور اس قوم کی حیثیت کا تعین قبضہ گیر سے اسکی وفاداری کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ وہ استعمار کا کتنا وفادار ہوتا ہے استعمار جس طرح چائے اس غلام قوم کی تاریخ ،ثقافت وجغرافیہ سے جو کھلواڑ کرنا چاہیے کر سکتاہے اور اسکے خلاف اٹھنے یا اپنے ثقافت تہذیب کے حق میں آواز اٹھانے والے کردار بے وفا قرار دیکر سولی پر چڑھائے جاتے ہیں کیونکہ استعمار کی استعماریت یا پہچان جبر ہی پر قائم رہتی ہے اگر وہ غلام کی زمین تہذیب ثقافت کی قدر کرے تو اسکی استعماریت قائم نہیں رہ سکتی استعماریت کی بنیاد ہی لوٹ کھسوٹ پر و غلام قوم کے ساتھ ظلم و جبر و اس کے ساتھ متشددانہ رویہ پر قائم رہتا ہے جو اسکی حکمرانی کو برقرار رکھتا ہے استعمار کا غلام کے ساتھ رشتہ ظلم و جبر کا ہوتا ہے اور اسی رشتے کی وجہ سے وہ تعلق برقرار رہتا ہے اور غلام نفسیاتی طور اس حد تک گر جاتا ہے کہ اسکی زندگی کا مقصد آقا کی خوشنودی ہوتا ہے اور غلام کی حالت چڑیا گھر کے اس جانور کی ہوتی ہے جو سرکس میں اچھل کود کر کے گوشت کا ایک ٹکرا حاصل کر پاتا ہے آقا و غلام کا یہ رشتہ اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک غلام وآقا کی وفاداری کرتا رہتا ہے جب غلام کو اپنے حقوق اپنے تہذیب ثقافت تاریخ جغرافیہ و اپنی حیثیت کا احساس ہوتا ہے تو اسی دن سے غلام و استعمار کا رشتہ تشدد کا رخ اختیار کرتا ہے اور یہی تشدد کا رشتہ غلام کو زندہ رکھنے کا سبب بنتا ہے کیونکہ زندہ تو وہ غلامی میں بھی رہتا ہے لیکن تشدد کے ساتھ زندہ رہنے میں غلام کی تہذیب ثقافت و تاریخ زندہ رہتے ہیں اور ایک قومی شکل میں سامنے آتے ہیں غلام اگر وفاداری کا دامن تھام کر استعمار کے ساتھ چلے تو اسکی موت اس دن سے شروع ہوگی جب وہ وفاداری کو اپنا نصب العین سمجھے گا کیونکہ اسطرح اسکی تاریخی سیاسی ثقافتی موت سامنے آئے گی جس طرح آبارجنیز و ریڈ انڈینز قومیں آہستہ آہستہ تاریخ کی بے رحم صفوں کا حصہ بن گئے اگر غلام و آقا کا متشددانہ رشتہ زندہ رہے گا تو اس میں جیت ہر حال غلام کی ہی ہوگی چاہے وہ جتنا ہی کمزور ہی کیوں نہ ہو. فینن کہتا ہے استعمار کی شکست خاموشی سے عمل میں نہیں آتی اس لئے یہ افراد کو متاثر کرتی ہے ، ان میں بنیادی تبدیلیاں لاتی ہے یہ ان تماشائیوں کو جو اپنی لامعنویت کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہے بامعنی اداکاروں میں تبدیل کرتی ہے اور وہ تاریخ عالی شان روشنی کی چمک دمک میں نمایاں رہتے ہیں اور اس سے انسانی وجود کا وہ فطری آہنگ پیدا ہوتا ہے جسے نئے لوگ بروئے کار لاتے ہیں اس کے ساتھ ہی ایک نئی زبان و ایک نئی انسانیت وجود میں آتی ہے استعمارکی شکست نئے انسانوں کی حقیقی تخلیق ہوتی ہے ’’ فینن کے خیال کا سرچشمہ انسانی آزادی ہے وہ ایک غلام کو آزاد سماج میں سانس لینے کا درس دیتا ہے اگر غلام قوم غلامی کو قبول کرتا ہے تو اس قوم کی جغرافیہ ثقافت رسم و رواج قوانین تاریخ غلامی میں مسخ ہونے کے ساتھ موت سے دن بہ دن قریب تر ہوتے جائیں گے اور اپنے تاریخ کو دیکھ کر جس غلام کے دل میں آزادی کا حسین جذبہ پیدا ہوتا ہے تو اسی دن سے قابض کی موت شروع ہو جاتی ہے اور اسکی قربانیوں کے بدولت ایک نئے سماج کی تخلیق کاسب بنتی ہیں اور قابض کے ظلم و جبر سے چھٹکارہ لیکر ایک آزاد وطن کی تشکیل کرتے ہیں قابض کے ساتھ رشتہ تشدد کا ہوتا ہے اگر قابض کی قبضہ گیریت کو کسی بھی قوم کا ایک ہی فرد نہ مانے اور اسکے خلاف آواز بلند کرے وہ قوم موت سے زندگی کی طرف اپنا سفر جاری رکھے گا اور اس طرح قابض کے جبر تلے دبے لوگ آزادی کے لیے اپنی جان دینے کے لیے راضی ہوتے ہیں جب انھیں یہ شعور ہوگا کہ مالک ہم ہیں اور وہ ظالم ہے اور بزور طاقت ہم پر قابض ہے تو قابض کے ساتھ تشدد کا رشتہ دن بہ دن بڑھتا جائے گا اور قابض اپنی بڑی طاقت کے ساتھ کسی غلام قوم کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کر سکتا کہ وہ اس سرزمین اس سرزمین پر موجود لوگوں کی تاریخ ثقافت نفسیات سے باعلم نہیں ہوتا اور قابض کو غلام قوم کی حمایت حاصل نہیں ہوتی وہ اپنے حاکمیت کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی آبادی کے ساتھ ظلم و جبر کے رشتے کو اپناتا ہے اور وہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اپنی حاکمیت کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں پر جبر کرتا رہتا ہے اور جبر کے سائے تلے لوگ اس ظلم کے خلاف اٹھتے ہیں اور وہ اس ظلم و جبر کے خلاف ہم آواز ہو کر اسکے مدمقابل آتے ہیں اور رفتہ رفتہ انھیں یہ ا حساس ہوتا ہے کہ قابض منصوبہ بندی کے تحت ان کے وسائل کو لوٹ رہا ہوتا ہے اور قابض منصوبہ بندی کے ساتھ وہاں کی مقامی آبادی کا ہر طرح سے استحصال کررہا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب اس قوم کو مکمل نیست و نابود نہیں کیا جاتا گزشتہ ساٹھ سالوں سے قابض بلوچوں کے ساتھ یہی کھیل کھیل رہا ہے بلوچ وطن کی تقسیم تو انگریزوں کے دور سے شروع ہوئی تین ملکوں میں تقسیم کے بعد بھی سندھ پنجاب و جنوبی پختونخواہ کو بھی تقسیم کر کے بلوچ سرزمین کے کچھ حصوں کو شامل کیا گیا اور اسکے بعد سندھ پنجاب میں بلوچوں کی تاریخ زبان ثقافت کو منصوبے کے تحت ختم کر دیا گیا اور وہاں انھیں سرائیکی قوم کے نام پر بلوچوں سے جدا کیا گیا اور سندھ میں بلوچ مکمل سندھی کلچر و سندھی بن کر رہ گئے قابض منصوبہ بندی کے تحت بلوچ قوم کو علاقوں زبان مذہب کے نام پر ہر ممکن حد تک تقسیم کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیابی حاصل کرتا رہا قابض کی زندگی غلام قوم کی سیاسی ثقافتی موت پر چلتی ہے اور بلوچ وطن پر پاکستان نے اپنے تعلیمی نظام کے تحت بلوچ قوم بلوچ کلچر کے ساتھ کھیلواڑ کرتا رہا اور دنیا کے سامنے بلوچ قوم کے حقیقی شکل کو مسخ کرتا رہا اپنے گماشتوں کے ذریعے بلوچ کی حقیقی پہچان تاریخ ثقافت کو پنجابی کی مرحوم منت بنانے کی کوشش کی اور ان ساٹھ سالوں میں قابض نے بلوچ قوم کی ہر اس خاصیت جسکی بنا پر وہ بحیثیت قوم ایک دوسرے پر منحصر تھے کو آخری تک ختم کرنے کی کوشش کی علاقے قبیلوں مذہب کے نام پر تقسیم کرتا رہا سندھ و پنجاب میں بلوچستان سے دو گناہ زیادہ بلوچ آباد ہیں لیکن وہ نسلی و تاریخی حوالے سے بلوچ رہ گئے زبان ثقافت و مشترکہ مفاد سبھی بلوچ قوم کے نہیں رہے اور وہ مکمل طور قابض کے زبان تاریخ و ثقافت کو اپنی حقیقی پہچان بناتے گئے اور اس دوران قابض اپنے تعلیمی نظام کے تحت انھیں سدھا کر اپنے حقیقی پہچان و شناخت دی اور وہ اسی شناخت کو اپنی حقیقی شناخت سمجھنے لگے اور اس دوران قوم پرستی کی سیاست بلوچستان سے سندھ و پنجاب کے بلوچوں تک منتقل نہ ہو سکی اور نہ ہی ان میں یہ شعور پیدا ہو سکا کہ انکی حقیقی پہچان بلوچ وطن ہے جس میں قابض کامیاب ہوتا گیا اور یہ غلامانہ سماج کی نفسیات ہے جسے قابض آہستہ آہستہ اپنی نوآبادیات میں منتقل کرتا رہا ان ساٹھ سالوں میں ریاست نے بلوچ کلچر تاریخ زبان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا اور بلوچ وطن کے سینے میں ایٹمی دھماکے کرکے تباہ و برباد کردیا اور گوادر پروجیکٹ کے ذریعے اپنی بڑھتی آبادی کو بلوچستان منتقل کرنے کے اپنے نئے میگا منصوبوں پر عمل پھیرا ہے اور چین کی مدد سے اپنے ان پروجیکٹس پر بڑی تیزی کے ساتھ کام کررہا ہے اگر قابض کے یہ منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو پھر بلوچ قوم کی اجتماعی موت اٹل ہے بصورت دیگر اس بڑھتے سیلاب کو روکنا تشدد کی صورت میں سامنے آئے گا بلکہ ان پندرہ سالوں میں غلام و آقا کے بیچ تشدد بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے اگر تشدد کا راستہ ترک کرو گے تو اپنی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑے گا اور یہی تشدد ایک کی موت و دوسرے کی زندگی سے تعبیر ہوگی اور اس بیچ جن بلوچوں نے قوم پرستی کی آڑ میں ریاست کے بڑھتے ہوئے ان منصوبوں کا حصہ بن کر بلوچ نسل کشی میں حصہ دار رہے وہ مکمل طور ریاستی جبر و تشدد سے خوفزدہ ہو کر دشمن کی پالیسیوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ بن کر جہد آزادی کو کاونٹر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں اور ریاست اپنے ان بڑے منصوبوں کو بلوچ کی مدد و کمک کے بغیر تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا اس وجہ سے وہ مقامی آبادی خصوصا ان بلوچوں کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے جو قوم پرستی کے دعویدار ہیں انکی مدد و کمک کو لیکر بلوچ تحریک کے خلاف بیرون ممالک و وطن میں زبردست محاذآرائی کرتا رہا اور یہی صورتحال بلوچ وطن میں تاحال جاری ہے اب اس فرق کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ حقیقی و غیر حقیقی قوم پرستی و صحیح و واضح پالیسی کے ساتھ کون وطن کی آزادی کا دعویدار ہے اور حقیقی بنیاد پر جدوجہد کر رہا ہے اور قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر بلوچ جہد آزادی کے خلاف ریاستی ہر سازشش میں حصہ دار رہے اور غلام وطن کی آزادی کو کاونٹر کرنے کے لیے ریاست ہر ممکن کوشش کرتی رہتی ہے ریاست مختلف حربے و سازشیں کرکے آزادی پسندوں کے لیے مشکلیں پیدا کرتی رہتی ہیں اور ریاستی سازشیں شروع سے چلی آ رہی تھی اور اب ان میں مزید تیزی لائی گئی ہے اس وقت آزادی پسندوں کا ایک دوسرے سے علیحدہ رہ کر جہد کرنا منزل تک پہنچنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے اس بیچ دشمن و دشمن کی معاونت کرنے والوں سمیت ہر اس عمل پر مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جو مجموعی قومی مفاد کے حوالے سے ہو تاکہ اس بڑھتے سیلاب کو روکا جا سکے اور اس سیلاب کو روکنے کا عمل پر تشدد صورت اختیار کرے گا اور دو طرفہ تشدد کے بڑھنے کے ساتھ محکوم قوم میں بے چینی پیدا ہونے کے ساتھ خوف سر اٹھاتا ہے اور اس بے چینی و خوف سے قوم کو نکالنے کے لیے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بیچ اس خلا کو پر کرے جس سے قوم میں مایوسی یا خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح محکوم قوم کے بدلے یہ خوف کا سایہ ہر وقت قابض کے سر پر بھی منڈلاتا ہے اگر محکوم قوم جارحانہ رہے گا تو اس سے یہ خوف دن بہ دن کمتر ہوتا جائے گا کیونکہ محکوم قوم کا جارحانہ عمل قابض کو دفاعی پوزیشن پر لے جائیگی اور محکوم کی جیت جارحانہ عمل میں ہے جب تک وہ قابض کو دفاعی حالت میں رکھے گا وہ کامیابی کی طرف جائے گا بلوچ نے ان پندرہ سالوں میں جارحانہ رہا دشمن کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوتا رہا لیکن وقت و حالات کے بدلنے کے ساتھ اپنی حکمت عملی و طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائی گئی جس سے دشمن نے بلوچ آزادی پسندوں کے طریقہ کار کو سمجھ کر بلوچ آزادی پسندوں پر تواتر کے ساتھ حملہ آور ہوتا رہا اور بلوچ آزادی پسند نقصان اٹھاتے رہے اور اس دوران بلوچ کسی حد تک دفاعی پوزیشن پر چلے گئے جس سے تحریک کمزور دکھائی دینے لگا اور عوام کی امیدیں کمزور پڑ گئے اور اس دوران بھی دشمن کی سازشوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اگر سمجھ بھی رہے ہیں تو آپسی دوریاں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ شعوری یا لاشعوری ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور دشمن مکاری کے ساتھ اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہے ا ور آزادی پسندوں کی جانب سے دشمن کو تسلسل کے ساتھ موثر جواب بھی نہیں مل رہا ہے جس سے عوام میں ناامیدی و مایوسی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اس وقت اشتراک عمل اتحاد ہی اس حالت سے تحریک کو نکال سکتا ہے تحریکیں کمزور ہوتے ہیں ختم نہیں ہوتے کیونکہ تحریک کا دار و مدار ان تضادات پر ہوتا ہے جو قابض و محکوم کے بیچ ہوتے ہیں زبان ثقافت جغرافیہ رسم و رواج زمین جو کہ محکوم قوم کو قابض سے جدا کرتے ہیں انھیں تضادات کی بنیاد پر تحریک جنم لیتی ہے اور تحریک کی زندگی کاتعلق انھیں تضادات پر ہے جو قابض و محکوم کے بیچ ہوتے ہیں اور ان تضادات کا حل پر تشدد عمل کے ساتھ منطقی نتیجے تک جاری رہتا ہے اور یہ اٹل ہے کہ حکمت عملی و بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کمزور قوت طاقتور کو شکست سے دوچار کر سکتا ہے اور قابض کا و قت کے ساتھ بڑھتے جبر و تشدد کا موثر جواب قابض کے لیے مزید تباہی و بربادی کے دروازے کھول دیتا ہے آزادی کے لیے مکمل پختہ یقین کے ساتھ آزادی پسند جاری جہد میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کامیابی کی طرف جاسکتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ منظم منصوبہ بندی و ایک دوسرے پر اعتماد کرکے نئے حکمت عملی کے ساتھ دشمن کو شکست دے سکتے ہیں اور عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے عوام سے براہ راست اداروں کی تشکیل اور انھیں تصوراتی دنیا سے ہٹا کر آزادی کے لیے حقیقی صورتحال کو سامنے لا کر ہی انھیں اعتماد میں لیا جا سکتا ہے تاکہ وہ آنے والے کھٹن حالات کے لیے تیار رہ سکیں اور جہد آزادی کے سخت ترین حالات کا سامنا کرنے کے لیے مضبوط حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا تاکہ ان حالات میں سنبھلنے سنبھالنے وہ آنے والے حالات کا تدارک و منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی ہو اور جنگ عوام کی مدد و کمک سے جیتی جاتی ہے اور عوام ہی وہ اکائی ہے جس سے تحریک متحرک رہتی ہے اور عوام کا اعتماد وقت حاضر میں بحال کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے منزل کی طرف پیش قدمی کو تسلسل کے ساتھ برقرار رکھ کر اتحاد و یکجہتی کے ساتھ دشمن کے بڑھتے سیلاب کو روکنا ممکن ہو سکے گا.