کہتے ہیں انسان غلطی کا پتلا ہے اب اس مثال کے اعتبار سے دنیا کے سائنسدان تو اعلیٰ ترین پتلے ثابت ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے غلطیاں در غلطیاں کیئے ہیں ، ان میں بڑی اور عمدہ بات یہ تھی کہ انھوں نے اپنی غلطیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کی ہے نہ صرف غلطیاں قبول کی ہیں بلکہ اپنے غطلیوں پر کتابیں لکھی ہیں۔ان غلطیوں کو مد نظر رکھ کر ہمارے انسانوں کی بھلائی کے لئے کی ہیں تاکہ انسانیت کی آسودگی، ماحول اور کائنات کو پہنچنے والے نقصانات کو کم اور دستیاب وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کار لایا جاسکے۔ مہلک ترین بیماریوں کے علاج، نت نئے بیماریوں کے وجوہات کا کھوج لگانا،علاج دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ ان خطرات کی پیشگی روک تھام کی خاطر ادویات تیار کرنا ان کوششوں کا حصہ رہا ہیں۔ چاند پر کمندیں ڈال کر کراہ ارض پر بسنے والے انسانوں سے رابطہ سازی کو بہتر بنانا، اور خلائی مخلوقات سے آشنا ہونے کے لئے جدید ترین دوربین کی ایجاد، اور اعلیٰ کوالٹی کی ٹیکنالوجی اور دفاع کی خاطر جدید ہتھیاروں کی ایجادات بھی انہی پے در پے ناکام تجربات اور انتھک محنت کی بدولت سے حاصل ہوا۔ اگر نیوٹن سیب کے درخت کے نیچے نہ بیھٹتا تو کیا کشش ثقل کا پتہ چل پاتا؟ اگر ماضی میں ہر آنے والا سائنسدان پچھلے سائنسدان اور ماہرین کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان کی طرف سے پہلے سے جاری تجربات کو از سر نو شروع کرتے تو شاید آج سائنسدان بھی کراہ عرض پر بسنے والے سیاسی جماعتوں کی طرح الگ الگ پارٹیوں میں بٹ کر پریس کلبوں کے سامنے بینرز اور پلے کارڈ لئے روڈ بلاک کررہے ہوتے یا ٹائر جلاکر ایک دوسرے کے خلاف بہتان ترازی کررہے ہوتے۔ آج اگر انسان طب، دفاع، معیشت اور رابطہ کاری کے میدان میں خود کفیل ہیں تو اس کا سہرا ان بشر دوست اور علم دوست طبقے کی مرہون منت ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی گروہی چاہتوں سے بالاتر ہوکر اپنے آنے والے کل کے لئے اپنی زندگی اور وقت کو وقف کردیا۔ انہوں نے اپنی ہر تجربہ کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی، ، اپنی ہر چھوٹی سی چھوٹی کوتائیوں کی نشاندہی نیک نیتی سے کی، اپنے سے پہلے گزرے سائنسدان کی ادھوری چھوڑی ہوئی تحقیقی ورثہ کو جاری رکھ کر مزید آگے بڑھایا، لیبارٹریز میں موجود فارمولوں کا کھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہوئے انہیں وسائل، وقت دے دی تاکہ ایک بہتر ، کار آمد چیز دنیا کے لئے متعارف کی جاسکے۔ کام کو بہتر بنانے کی کوشش کی بجائے اگر سابقہ سائنسدان یا محقق، تخلیق و تحقیق کی بجائے پہلے جاری تحقیقات پر محض تنقید کرتے آج انسان پھترکے زمانے میں رہ رہا ہوتا۔ میرا ناقص مشاہدہ رہا ہے کہ ہم ایسے چیزوں ، موضوعات پر تنقید کرنے بیٹھ جاتے ہیں جس پر ہمیں عبورحاصل نہیں ہوتا یا ہماری معلومات انتہائی حد تک کمزور اور ناقص ہوتے ہیں۔ جب کسی کی معلومات کسی خاص موضوع بابت معزور ہوں تو انہیں بلوچ قومی نازک ترین معاملات پر لکھنے اور رائے دینے سے پہلے اپنی قلم کو غیرجانبداری کی پانی سے دھونا چاہیے تاکہ پارٹی و تنظیمی وابستگیوں کے باوجود ہم بلوچ قومی تحریک کے لئے شفا کا باعث بن سکیں، شہدا کے لہو کو رائیگاں ہونے سے بچا سکیں اور غازیوں کی انتھک محنت اور شہدا کے ورثا کی قربانیوں سے انصاف کرسکیں۔ تنقید برائے تنقیدکرنے والے اس عطائی ڈاکٹر کی طرح ہیں جو علاج کی تشخیص کئے بغیر دیسی ٹوٹکوں سے مریض کا اعلان تجویز کرتا ہے ان ٹوٹکوں کا متعلقہ مرض سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا لہذا وہ مریض کے لئے شفا کی بجائے وبال جان بن جاتا ہے۔ اسی طرح مریض شفا یاب ہونے کی بجائے دن بدن لاغر اور ان کی حالت غیر ہو جانے سے ایک دن مریض اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔ تنقید برائے تعمیر وہ شے ہے جس میں تمام امراض کا ماہر ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرتا ہے، رپورٹوں، تحقیق اور ٹیسٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے علاج شروع کردیتا ہے، پھر علاج کے دوران مسلسل مریض کی دیکھ بحال اور مقررہ وقت پر ادویات کے استعمال کو یقینی بنا یا جاتا ہے تاکہ دوا کا وقت اور مقدار میں توازن رہے۔ ڈاکٹر نہ صرف مریض کو ادویات سے ناغہ نہ کرنے کی سختی سے تلقین کرتا ہے بلکہ مریض کے لئے مضرصحت خوراک سے پرہیز کو بھی علاج کا حصہ بناتا ہے کہتے ہیں پرہیز علاج سے بہتر ہے لہذا اس ڈاکٹر کی ہرممکن کوشش مریض کو بچانا ہوتا ہے۔ اگر مریض ایسے اچھے ڈاکٹروں کی سربراہی میں زیر علاج رہے تو مرض چاہے کتنا ہی موزی کیوں نہ ہو وہ مقررہ مدت میں شفایاب ہوسکتا ہے۔ ہمارے اندر بھی قومی معاملات اور ان کی خرابی اور بگاڑ کو لیکر کوئی تو خامی ہے کہ ہم اپنے معاملات کو سلجھانے میں وقت لے رہے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی ذات ، پارٹی اور گروہی دائرے سے نکل کر کبھی سوچا ہے کہ ہم میں سے اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تو کیوں نہ میں اپنے حصے کی غلطی کو تسلیم کروں چاہے اس کے لئے میرا سر ہی قلم نہ ہو۔ میں اگر اپنی جان بچانے کے لئے اپنی غلطی اورغلط فیصلوں سے مکر جاوں تو پھر میری دیکھا دیکھی میں میرے ماتحت دوسرے کارکنان بھی اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے ہچکچائیں گے، وہ جوابدہ ہونے کی بجائے اپنی غلطیوں پر ڈٹ جائیں گے، پھر تو غلطیوں کو قبول نہ کرنے کا ایک رواج سا بن جائے گا۔ ہمارے اندر ایسے منفی رویے گھر کرجائیں گے کہ غلطیاں قبول کرنا اس شخص کی بزدلی ٹہرے گی۔ غلطی قبول کرنا کمزوری کی علامت گردانا جائے گا، غلطی کو قبول کرنا دوسرے فریق کی فتح سے تعبیر کیا جانے لگے گا، غلطی کو قبول کرنا سیاسی، عسکری شکست کے مترادف قرار دیا جانے لگے گا، یہ منفی رجحان ہمارے اندر پنپتے رہیں گے پھر ہم اس حد تک بے حس ہونگے کہ غلطی کو برا سمجھنے سے قاصر رہیں گے، ہم اتنے لاغرض ہوجائیں گے کہ غلط عمل کو درست جبکہ غلطی کو تسلیم کرنے عمل کو برائی تصور کرنے لگ جائیں گے۔ اپنے قائد اور تنظیم کے سامنے جوابدہ ہونے کو اپنی ذاتی ساکھ کی کمزوری سمجھنے لگیں گے۔ تنظیموں کے اندر جب جوابدہی سے فرار اور شتر بے محارجیسے رویے پنپنے شروع ہوجائیں گے تو پھر ہماری زندگی میں، ہمارے روز مرہ کے فیصلوں میں غلطیاں غالب ہونا شروع ہوجائیں گے، جب غلطیاں ہمارے فیصلوں میں غالب ہونا شروع ہوجائیں گے تو یہ ہمیں اچھے اور مشکل ترین فیصلے لینے میں روکیں گے جب حقیقت پر مبنی فیصلے لینے سے ہم محروم ہوجائیں گے تو پھر ہم حالات کے ہاتھوں بلیک میل ہونا شروع ہوجائیں گے پھر ہم ایک دوسرے کی غلطیوں پر اس لئے انگلی اٹھانے سے ڈر محسوس کرنے لگیں گے کہ اگر میں نے فلاں کی غلطی کی نشاندہی کی تو پھر وہ بھی میرے گزرے ہوئے کل کے غلطیوں پر انگلی اٹھائے گا لہذا ہم اس ڈر ، خوف، یاری دوستی، ذاتی سنگتی، خونی رشتوں کے جال میں دھنستے چلے جائیں گے، اسی طرح ہماری تحریک غلط فیصلوں، غلط پالیسیوں کی آماجگاہ بن جائے گی نتیجہ ہماری پستی اور ناکامی پر منتج ہوگا۔ غلط فیصلوں اور ناقص پالیسیوں سے چٹکارے کے لئے ہمیں سب سے پہلے خود سے سچ بولنا پڑیگا ، اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا پڑیگا کہ آیا میں ایک فیصلہ کررہا ہوں اس میں میری پارٹی، میری ذات اور میری گروہ سے ہٹ کر بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کو متحرک و توانا کرنے کے لئے کتنی ایندن شا مل ہے۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد سے کس حد تک پاک ہے۔ جس طرح ایک سائنسدان نیک نیتی سے کسی بھی چیز کو ایجاد کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہے، اپنا دن رات ایک کرتا ہے اور آخر کار وہ اپنی مقصد میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر ہم کیونکر واضح مقصد (آزادی) حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے؟ آزادی کے حصول کے لئے سب سے پہلے ہمیں نیک نیتی سے اپنے اعمال، کردار اور اب تک کی منفی و مثبت فیصلوں پر نظر دوڑانا چائیے اور جس طرح ایک سائنسدان اپنے پیش رو کی ادھورے ایجاد کو اسی نقطہ سے آگے بڑھاتا ہے، اسی مقصد کو سامنے رکھ کر مختلف آلات و ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ہر وقت مثبت نتائج کی کھوج میں لگا رہتا ہے اسی طرح ہمیں بھی پارٹی سیاست اور گروہی رجحانات سے نکل کر بحثیت بلوچ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹھانا چاہیے، کیونکہ ہم سب کا مقصد بلوچستان کی آزادی ہے اورآزادی کے حصول کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے تجربات، ہنر، ایمانداری، مخلصی ، قابلیت اور اوزاروں سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ ہماری پوری جدوجہد کا محور دشمن سے اپنے عوام کومحفوظ بنانا، ایک دوسرے کی مدد (مالی، سفارتی، سیاسی، فوجی، معاشی، افرادی) کرنی چاہیے کیونکہ اگر دشمن اپنی پوری مشنری ہماری تحریک کو ختم کرنے کے لئے حرکت میں لا سکتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے ؟ کہ ہم اپنی بکھری ہوئی قومی طاقت کو دشمن کے اس بربریت کے خلاف یکجا کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ جیسے کہ اوپر عرض کرچکا ہوں ہمیں سب سے پہلے اپنی ذات کو قربان کرنا پڑیگا، اس خیال اور رجحان کو دل سے نکالنا پڑیگا کہ اگر میں نہ رہا تو سورج نہیں نکلے گی یا اگر میں اپنے کیئے کی سزا پاتا ہوں، اپنی غلطی پر جوابدہ بنا دیا جاتا ہوں تو پھر سب کچھ ختم اور یہ تحریک ہی رک جائے گی ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ ہماری ہر مثبت اور جرات مندانہ فیصلہ ہماری تحریک کے لئے مثبت باب کی حیثیت رکھتی ہے اور ہمارا ہر منفی، کمزور، اور غلطیوں سے پُر فیصلے تحریک کے لئے نقصاندہ اور غلط نتائج لائے گی ۔کسی بھی تنظیم میں اگر کوئی مسئلہ چھوٹا یا بڑا بحران درپیش ہوتا ہے تو دوسرے تنظیموں کا قومی فرض بنتا ہے کہ اس مسئلے کو بخیر خوبی سلجھانے میں اپنا مخلصانہ کوششں کرے نہ جیب کترہ بن کر دست و گریبان دو لوگوں کے بیچ اپنا ذاتی مفاد سمیٹے۔ کچھ غلطیاں انسان سے ہو جاتی ہیں اور کچھ غلطیاں انسان کرتا ہے جو غلطیاں ہوجاتی ہیں ان سے انسان کچھ سیکھتا ہے اور جو غلطیاں انسان کرتا ہے وہ نہ صرف قابل سزا ہیں بلکہ کسی بھی قوم و ملک کے لئے تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ مختصراً عرض یہ ہے کہ ہماری سیاسی کارکنوں اور قائدین سے لیکر عسکری میدان میں چھوٹے سے بڑے ذمہ دارتک سب کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اگر ایک عام بلوچ ہمارے سرمچاروں اور کارکنوں کو دیکھے تو مسرت و تحفظ محسوس کرے نہ ہمارے بندوق بردارسرمچار کو دیکھ کر بے چینی محسوس کرے اور خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگے۔ عوام کی امنگوں کے مطابق چلیں گے تو عوام ہمارے لئے سمندر بن جائے گا جو نہ صرف ہمیں اپنے اندر جگہ دیگی بلکہ بیرونی حملہ آوروں اور دشمن کو بھی بے رحم موجوں میں لپیٹ کر منجدھار کی نظر کرکے اپنا قومی فرض نبھائےگی کیونکہ تحریکیں شروع تو کچھ لوگ کرتے ہیں لیکن ان تحریکوں کو منطقی انجام اور کامیابی سے ہمکنار کرنے والا طاقت صرف عوام کے پاس ہوتا ہے۔ دوسروں پر غصہ کرنے کا حق تو نہیں رکھتا بہرحال مجھے کبھی کبھار خود پہ غصہ ضرور آتا ہے جب میں غلام قوم کے افراد کو یہ دھائیاں دیتے سنتا ہوں کہ ریاست ہماری چادر و چاردیواری کو پائمال کیا ہے، ہمارے نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کردیا، مسخ شدہ لاشیں پھینک دی، ہماری ثقافت، تاریخ اور جغرافیہ پر قابض ہے اور ہماری قومی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ میں اس بد بخت قوم سے پوچھتا ہوں کہ تم نےاپنی چار دیواری کو کب اجتماعی نظروں سے دیکھا ہے؟ تمھاری نوجوان کب اکٹھے ہوئے تاکہ مل کر لاش پھینکنے والے کا راستہ روکے، تم نے کب اپنی قومی و اجتماعی طاقت کو سمیٹنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کی؟ تم نے کب اپنی حقیقی جغرافیہ کی نقشے کو سامنے رکھ کر جدوجہد شروع کی؟ تم نے کب ایک دوسرے کی بازوں کو مضبوط کیا جو تمھارے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے قابض کی کلائی کو مروڑ کر اپنی ساحل و سائل اور قومی ننگ و ناموس اور تشخص کا دفاع کرتے؟