تحریر۔ ۔ رزاق بلوچ
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ بلوچ مسئلے کا حل ایک آزاد ریاست کے علاوہ کچھ بھی نہیں، نہ ہی کوئی نیا عمرانی معاہدہ نہ ہی پاکستانی بند و بست اور موجودہ آئین کے تحت ہونے والی الیکشنز اور نہ ہی صوبائی خودمختاری جیسے لولی پاپ سے بلوچستان کے مسئلے کا کوئی دیرپا حل نکالا جاسکتا ہے۔
اس نقطے پر سو فیصدی ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں رونما ہونے والی کسی بھی سیاسی یا عسکری پیش بندی اور منصوبہ سازی سے بلوچ آزادی پسند حلقے کسی بھی طرح سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، قبضہ گیر قوتیں چاہے پاکستان ہو یا پھر ایران وہ بلوچ قومی قوت کو نیست و نابود کرنے اور بلوچ کی اجتماعی شناخت کو مٹانے کے لئے اپنے تئیں بہت سی خطرناک پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ بھیانک اور تکلیف دہ پہلو بلوچ قومی نسل کشی کی بتدریج بڑھتی ہوئی فضا ہے۔گو کہ اس بات کی جنگی و عسکری قوانین کے مطابقت ہونے تک ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے لیکن جو آثار و قرائن بتا رہے ہیں اس سے ہم بلوچ یقیناً اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ایران و پاکستان بوقت ضرورت بلوچ قومی نسل کشی کے لئے سروں کے انبار لگانے سے کسی بھی صورت میں نہیں ہچکچائیں گے، اسی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے واسطے ایران قدرے زیادہ اور پاکستان قدرے سست روی سے لیکن دنوں اپنے لئے گراؤنڈ تیار کررہے ہیں۔
نسل کشی کی سیاسی و علمی استعمال سے قطع نظر آج کوئی بھی اس حقیقت سے آنکھیں نہیں موند سکتا کہ پاکستان اور ایران دونوں ممالک بلوچ قومی نسل کشی کے در پے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ بتدریج بلوچ قوم کو قومی اور اجتماعی اعتبار سے اس قدر نیست و نابود کردیں یا ہوسکے تو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیں تاکہ ان کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے رستے میں کوئی خاص رکاوٹ کا سامنا نہ رہے، اگر دونوں ریاستوں کی بلوچ کے حوالے سے طرز عمل کو نظر میں رکھتے ہوئے دیکھا اور غور کیا جائے تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ پاکستان ابھی تک حفظِ ماتقدم کے تحت بلوچ نسل کشی یا بلوچ پر ہونے والی جبر کو کھلم کھلا تسلیم کرنے سے بوجوہ گریزاں ہے ۔
پاکستان اس بات کو کسی بھی طرح تسلیم کرنے سے خوفزدہ ہے کہ بلوچ کا پاکستان کے ساتھ ایک بنیادی نقطے پر کوئی مسئلہ موجود ہے، نہ صرف وہ اس بات کو اعلانیہ طور پر تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ اس معاملے میں کوئی عدالتی نظیر بھی قائم نہیں کرنا چاہتا ۔اگر ہم دیکھیں تو پاکستان نے اب تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کیا ہے، ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی ہیں لیکن آزادی پسند لوگوں کے حوالے سے ہم یہی دیکھتے ہیں کہ پاکستانی انتظامیہ (سول ملٹری) دونوں بلوچ آزادی کی مانگ کرنے والے گرفتار و اغوا شدگان میں کسی ایک کو بھی عدالت میں پیش نہیں کرتے، گو کہ عدالتیں پاکستانی مقتدرہ کی زر خرید اور اسی بلوچ دشمن بند و بست کا حصہ ہیں اگر کسی بلوچ کو ادھر پیش بھی کیا جائے تو عدالتی فیصلہ وہی ہوگا جو کہ پاکستانی فوج اور مقتدر قوتیں چاہیں گی۔
بسا اوقات یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عدالتی نظام میں موجود سقم کی وجہ سے لوگ عدالتی ٹرائل کے دوران چوٹ جاتے ہیں ،شاید اسی وجہ سے لوگوں کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا، یہ محض حقیقت کو چھپانے کا ایک بہانہ ہے، درحقیقت ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ بلوچ کے بنیادی مسئلے سے کسی حد تک خاموشی سے نمٹتے ہوئے اسکی بنیادی اساس کو متنازع بناکر اسے اندرونی مسئلے کے طور پر پیش کیا جائے اور اسے عالمی سطح پر کوئی توجہ حاصل نہ ہوپائے۔
آج تک کی جتنی بلوچ نسل کشی سے متعلق پاکستانی حربے ہیں وہ پاکستان میں نافذ آئینی حدود سے ماورا و باہر ہیں، اس میں پھر ڈیتھ اسکواڈز، مذہبی گروہوں سمیت خود پاکستانی ایجنسیوں نے مزید اضافہ کیا ہے، اسی لیئے وہ بلوچ مسئلے کو کبھی انڈین سازش سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی افغانستان کی بگڑتی صورتحال سے مدد لیتا ہے لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے ہر چند گریزپا ہے اور یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ بلوچ کا پاکستان کے ساتھ قومی یا اجتماعی بنیادوں پر قابض و مقبوض کا مسئلہ ہے۔
اگر ہم دوسری طرف ایرانی زیر دست بلوچستان کو دیکھیں تو وہاں ایرانی عدالتوں کے ذریعے بلوچوں کو ناکردہ گناہوں پر سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ عام بلوچ نوجوانوں کو نہ صرف سرعام پھانسی پہ چڑھایا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات انکی سیاسی عزائم کے حوالے سے بھی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ نقص امن کے باعث تھے، لوگوں میں بے چینی پھیلانے میں مصروف تھے، یا پھر ریاستی اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھے۔
شہید مالک ریکی اور ابھی کچھ عرصے پہلے کے زاہدان قتل عام اسکی واضح مثالیں ہیں اور آئے روز کی عام بلوچ نوجوانوں کی پھانسیوں کا معاملہ اس سے سوا ہے۔
ایران میں چونکہ سیاسی مزاحمت اس تیزی سے نہ پنپ سکی یا یوں کہہ لیجئے کہ پاکستانی زیر دست بلوچستان کی خوش قسمتی ہے کہ بہ نسبت ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کو تین یا چار دہائیوں کا وقت ملا اور اس دورانیے میں بلوچ نے اپنے اندر کسی حد تک سیاسی شعورپیدا کیا، سیاسی صف بندی، سیاسی پروگرام سیاسی روابط لٹریچر، تشہیری مہم و سرگرمیاں اور دیگر کئی جہتوں میں کام کرنے کا موقع پایا اور پھر ایران اور پاکستانی ریاستی ڈھانچوں نے بھی اس میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان چونکہ نوزائیدہ ملک تھا اسکے پاس کوئی مربوط نظام موجود نہیں تھا لیکن ایران بحیثیت ملک یا قوم صدیوں کی تاریخی فخر اور پس منظر کے ساتھ ساتھ ایک منظم انتظامی ڈھانچے کے ساتھ بلوچ جیسے سیاسی لحاظ سے ناتواں قوم پر ٹوٹ پڑا تو بلوچ کو اس لئے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر سیاسی یا ادارتی بنیادوں پر پنپنے کا کبھی موقع نہیں ملا، اور پھر ستم ظریفی یہ کہ جو سیاسی آزادی پاکستانی زیر دست بلوچستان میں بلوچ کو میسر رہا وہ ایرانی بلوچستان کے اندر قبضے کے شروعاتی دنوں میں نا ممکن بنا دیا گیا، اور جو ثقافتی قدغنیں ایران نے بلوچ پر لگائیں وہ کسی بھی قوم کے لیئے اپنے بنیادوں سے بیگانگی کے لیئے کافی ہیں، لیکن دوسری طرف اسے خوش قسمتی کہیں یا جبر لیکن پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر ہونے والے کسی بھی بڑی تزویراتی تبدیلی کے خلاف بلوچ قوم کی طرف سے نہ صرف سخت مزاحمت کی گئی بلکہ اس میں سب سے خوش قسمتی کی بات یہی تھی کہ پاکستان اپنی نئی بندوست اور غیر مربوط انتظامی و عسکری حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنے سے قاصر رہا جس میں بلوچستان میں آبادکاری نہ کرنا پاکستان کے لئے بہت بھاری اور بلوچ کے لئیے خوش قسمتی کا باعث رہا ہے، یہی چیز ایرانی و پاکستانی مقبوضہ بلوچ سرزمین کو سیاسی و زمینی حقائق کے حوالے ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔
اصولی طور پر تو متحدہ بلوچستان کی سرزمین کی واگزاری کے لئے ہونے والی جد جہد کا سیاسی طور پر قدرے بالغ نظر پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کو اساس اور مرکز ہونا چاہیے تھا جہاں بلوچستان کے دیگر مقبوضہ حصوں کے لئے سیاسی بنیادوں پرکام جاتا لیکن کیا کریں کہ بلوچ کو جہاں سیاسی بنیادیں میسر رہیں، جہاں بلوچ کو سیاسی ابھار اور فکر و نظر کی وسعت کے مواقع تھے اسی پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی عمل کی صورتحال خود اپنے اندر ہی سکڑ کر رہ گئی، اسکی وجوہات کثیر الجہتی ہیں جنہیں کسی اور وقت کے لیئے اٹھا رکھتے ہیں۔ اب اس بات کو تو چھوڑ ہی دیں کہ بلوچ دو دو محاذوں پر بیک وقت لڑنے کے قابل ہے کہ نہیں ہے، لڑنے جھگڑنے اور موقف کی تصحیح اور دو کشتیوں کی سواری کو ابھی ایک طرف رکھ کر بس اس بات پر غور کریں کہ ایک محاذ پر کیا کیا جارہا ہے اور اسکے جواب میں بلوچ کے پاس کیا کیا آپشنز ہیں یا وہ کونسی آپشنز کو استعمال کرسکتے ہیں یا کرنے کے قابل ہیں یا پھر ایک ہی محاذ پر بھی نیم دلی و نادلکشی کا سماں ہے کیونکہ جو تحریکی آبیاری کے بنیادی کاروان کے ساخت و پرداخت میں شامل تھے انکو ہمیشہ پالیسیوں کی نفاذ کے حوالے سے سگین چیلینجز کا سامنا رہا ہے۔
پاکستانی حالیہ الیکشن میں ماضی کی طرح جو کھیل کھیلا گیا وہ بلوچ کے لیئے یقینا ًحیرانی و پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ ایک تو بلوچ اپنے جملہ مسائل کا حل پاکستانی بندوبست میں وقوع پزیر ہونے والی ان الیکشنز پروسس میں نہیں دیکھتا۔ دوسری بات یہی کہ جس طرح پاکستانی الیکشن کی کنڈکٹ اور جمہوریت کا جو گھسا پھٹا ڈھکوسلہ ہے وہ بلوچ تو کیا خود پنجابی کے مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہے اور تیسری بات یہ کہ ڈی کالونائیزیشن کے عملی جد و جہد کے دوران جمہوری عمل ویسے بھی اپنی وقعت کھودیتی ہے لہذا آج بلوچ سرزمین پر جو سیاسی وعسکری کشمکش جاری ہے تو اس میں الیکشنز جمہوریت اور عوامی حق رائے دہی کو اگر اضافی شئے کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا اور اس پہ طرہ یہ کہ جمہوریت بھی پاکستانی برانڈڈ جو خود پاکستانی بندوبست پر یقینِ کامل رکھنےوالے لوگوں کے ہی مسائل کا سامان نہیں کرسکتا تو بلوچ پھر ایک الگ بات ہے۔
لیکن اس تمام زمینی حقائق کے باوجود، بلوچ سرزمین پر سرزد ہونے والی اور دشمن کی طرف سے رچائی گئی کسی بھی طرح کے سرگرمی سے بلوچ اپنے آپ کو لاتعلق نہیں کرسکتا۔ بلوچ سرزمین پر ہونے والی کسی بھی عمل میں بلوچ کے لیے دو ہی صورتیں نکل سکتی ہیں یا تو ایک عمل جو بلوچ اجتماعی مفادات کے موافق ہے یا تو مخالف ہے اور بلوچ کے لئے نقصان دہ ہے، چاہے وہ کام خود بلوچ کرلے یا پھر باہر سے آیا ہوا کوئی بھی درانداز و قبضہ گیر، اب بلوچ اپنے اجتماعی شعور میں یقینا ًاس درجے تک تو پہنچ چکا ہے کہ اسے پتہ ہو کہ دشمن یا دشمن کے پیداگیرمقامی کاسہ لیسوں کی طرف سے بلوچ سرزمین کو لے کر رچائی ہوئی کوئی بھی عمل اجتماعی نقصان کے علاوہ اور کچھ بھی سامان نہیں کرسکتا، بعض اوقات دوستوں کی نادانیاں بھی دشمن سے زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہیں اور بلوچ اپنے تحریکی عمل کے تسلسل میں کئی بار ایسے بارگراں اپنے کاندھوں پر اٹھا چکا ہے، موجودہ دور میں تحریک کے اندر بے یقینی کی صورتحال خود ہمارے اپنے دوستوں کے نادانیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ غیر سیاسی روش ہمارے صفوں میں بہت اندر تک سرایت کرچکی ہے کہ جو چیز ہمارے لئے معنی نہیں رکھتا تو اس پہ ہم کیوں اپنی قوت برباد کریں، یہی چیز پاکستانی الیکشنز کے حوالے سے بلوچ آزادی پسند حلقوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، کسی بھی سودے میں صرف فائدہ کا تخمینہ نہیں لگایا جاتا، سودے میں نقصان بھی ممکن ہے تو فائدے و نقصان دونوں کا تخمینہ لگانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ مسلسل اور ہر تبدیل ہوتی عنصر کے ساتھ فوائد و نقصان کے تخمینے کو تسلسل کے ساتھ لگایا جانا لازم ہے تاکہ تمھیں معلوم رہے کہ کونسی تبدیلی کس فریق کے پلڑے کو کتنا بھاری یا ہلکا کرچکا ہے کسے نقصان ہے اور کتنا نقصان ہے۔
بلوچستان میں پاکستان جو بھی کھیل کھیل رہا ہے وہ ہم بلوچوں کے لئے کسی بھی حوالے سے فائدے مند نہیں ہوسکتا، اگر اس پر کوئی شخص دوسری رائے رکھتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ نوآبادی اور ںوآبادیات کے تعلق کے درمیان موجود نفسیات کو سمجھے، لیکن ہم بحیثیت بلوچ سیاسی کارکن کسی رچائی ہوئی پاکستانی گھناؤنی عمل سے محض اس بنیاد پر لاتعلق نہیں رہ سکتے کہ وہ عمل ہمارے اجتماعی قومی مفادات کے برعکس ہے، مفاد ہو یا نقصان دونوں بلوچ قومی اجتماعی زندگی اور بقا کے لیئے ہونے والی جد و جہد اور پروسس کو متاثر کرتے ہیں، ہمارے لیئے بحیثیت سیاسی کارکن یہ جاننا ہمیشہ اہم ہونا چائیے کہ پاکستان اپنے مقامی حواریوں کے ساتھ ملکر بلوچ اجتماعی وجود کے حوالے سے کیا سوچ رہا ہے، کونسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں، ان پالیسیوں کے ممکنہ اثرات و اہداف کیا ہونگے اور ایسی بنائی جانے والی پالیسیاں بلوچ اجتماعی وجود کے حوالے سے کتنی مہلک اور جان گھسل ثابت ہو سکتے ہیں۔
الیکشن سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، لیکن پاکستان الیکشن کے ذریعے پچھلے ڈیڑھ دہائی سے جو کھیل ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے ہم اس سے خود کو لاتعلق محض اس بنیاد پر کرچکے ہیں کہ ہمیں الیکشن سے کیا لینا دینا، مالک آئے کہ مینگل آئے، ملک شاہ ہو کہ احسان شاہ، جمال رئیسانی ہوکہ نصیر مینگل، سرفراز بگٹی کو مسندِ اقتدار ملے یا ملا ہدایت الرحمان کو، جام کمال، بھوتانی، شازین و یارمحمد رند و ثنااللہ زہری تک، ہم یہی جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی آئے کسی کو بھی کرسی اور زمام اقتدار دیا جائے ہمارے لئیے سب ایک ہیں ،سب کا رویہ ایک ہے اور سب دشمن کے آلہ کار ہیں۔
ھور گواریت کہ منی نگن کپے
یا نہ گواریت کہ منی نگن کپے
(طوفانی بارش و سیلاب کی صورتحال ہو یا خوشگوار موسم بلوچ کیلئے سب یکساں ہیں)
لیکن پاکستانی نوآبادیات کے اس شطرنج کے بساط پر پڑے ہوئے مہروں کو جس طرح آگے پیچھے اوپر نیچے گھمایا جارہا ہے ۔جس طرح سے انکی پوزیشنیں بدلی جارہی ہیں اور جیسے ماضی کے پیادے گھوڑوں پر بٹھائے جارہے ہیں اور گھڑ سوار پیدلوں میں پھینکے جارہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ کچھ مہروں کو بساط سے باہر سرکایا گیا ہے، یہ سب کیوں کیا جارہا ہے، اسکے پیچھے کی محرکات کو بڑی باریک بینی سے نہ صرف سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس حوالے سے پالیسی اور لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی سیاسی عزائم کو سمجھنے کے لیے تمام بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنوں کی ذہنی تربیت نہایت اہم ہے، سیاسی شطرنج کی اس بساط پر کامیاب وہی ہوگا جو مخالف فریق کی چالوں کی پیش بینی اور بعد ازاں پیش بندی کرسکتا ہو۔اسٹراٹیجی کی ترتیب کاری بنیادی نقطہ ہے، چمکتی دھمکتی بندوقوں کی بیرلیں، بھاری بھرکم بوٹوں تلے نکلتی کڑکڑاہٹ سے گرجتی آوازیں اور دیدہ دلیری سے سروں کو ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے سامنے جانے والے نہ ماضی میں کم تھے نہ ہی آتے ہوئے لمحموں میں ایسے دیدہ دلیر و دلاور لوگوں کی کمیابی ہوگی۔
کثیرالجہات، زیرک، وسیع اور جہد و جہد کے تمام اغراض پر محیط اسٹراٹیجی کی ترتیب کاری ہی کامیابی کی آخری امید ہے۔پالیسیوں کے نفاذ کے بحرانی کیفیت پر پھر کبھی۔
٭٭٭