لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ہم رکاب اور قریب سمجھے جانے والے جمعیت علمائے اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن جو پاکستانی پارلیمنٹ کا رکن بھی ہیں کا گزشتہ کچھ عرصے سے متواتر مقبوضہ بلوچستان میں جاری تحریک آزادی کی پیش قدمیوں سے متعلق بیانات پاکستانی فوج کی بیانیے کی ناکامی اور بلوچ قوم کے خلاف انکی ننگی جارحیت کے اختتام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

پاکستانی فوج کا منظورِ نظر مذہبی شدت پسند رکنِ اسمبلی ( فضل الرحمن) کا پاکستانی اسمبلی میں تقریر کے دوران بلوچ تحریک آزادی کی مقبولیت کے بارے میں لب کشائی کرنا بلوچ قوم کی اخلاقی فتح اور دشمن کی نفسیاتی و اخلاقی شکست کے مترادف ہے مزید براں یہ تقریر مقبوضہ بلوچستان کے کٹھ پتلی وزرا کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنے کے لئے بھی کافی ہے جو پاکستانی فوج کے ایما پر چلنے والے میڈیا کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی خاطر پاکستان کی فوجی جرنیلوں کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کی قابض فوج نے شروع دن سے بلوچستان کی تحریک آزادی کو مٹی بھر عناصر کی شورش اور چند سرداروں کا مسئلہ کہہ کر دبانے کی حتیٰ الوسع کوششیں کی ہیں لیکن سچائی اور زمینی حقائق کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

پارٹی ترجمان نے مزید کہا کہ ہم ذرائع ابلاغ کی توسط سے عالمی برادری کے علم میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان گذشتہ سات دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے ، چین کی بلوچستان کے ساحلی علاقوں گوادر سمیت سی پیک کے نام پر جاری میگا استحصالی منصوبوں کی تکمیل کے لئے پاکستانی قابض فوج مقبوضہ بلوچستان کے طول و عرض میں بڑے پیمانے پر فوجی جارحیت میں مصروف عمل ہے۔ بلوچستان میں پاکستان کی زمینی اور فضائی افواج بلا تفریق بلوچ عوام کو نشانہ بنارہی ہیں فوجی جارحیت میں پاکستان کی فضائیہ بھی متحرک ہے، فضائی بمباریوں کی وجہ سے بلوچستان کے کئی علاقوں انسانی بحران جنم لے چکی ہے، لاکھوں کی تعداد میں بلوچوں کو اپنے آبائی علاقوں سے نکل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچ عوام کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاچکا ہے علاوہ ازیں پاکستان نے بلوچستان میں اپنی جنگی جنونیت میں شدت لانے کے لئے اربوں روپے مختص کئے ہوئے ہیں لیکن بلوچ قوم اپنی قومی ننگ و ناموس اور قومی شناخت کو بچانے اور اپنی سرزمین کی دفاع کے لئےقلیل وسائل کے باوجود سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔

یاد رہے کچھ ہفتے قبل مولانا فضل الرحمن نے پاکستانی نام نہاد قومی اسمبلی میں کی گئی اپنے تقریر کے دوران کہا کہ بلوچ آج اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ وہ اپنی آزادی کا اعلان کریں گے تو بلوچ عوام ان کی حمایت کرسکتے ہیں انہوں اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران بلوچستان میں ریاستی مظالم سے تنگ بلوچستان کی منظر کشی کرتے ہوئے یہ اقرار کیا کہ ’’بلوچستان کے پانچ سے سات اضلاع آج اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر وہ اپنی آزادی کا اعلان کریں تو اگلے دن اقوام متحدہ ان کی درخواست کو قبول کرلے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا۔

ایف بی ایم کے ترجمان نے مزید کہا گو کہ مولانا فضل الرحمن اپنی عملی کردار سے ہمیشہ پاکستانی قابض فوج اور آئی ایس آئی کے پسندیدہ شخصیت رہے ہیں، بلوچستان میں پاکستان کی اخلاقی ، اعصابی اور اب زمینی شکست کو تسلیم کررہے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کے لئے اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ بنگلہ دیش جیسی صورتحال سے گریز کرنے کے لئے بلوچستان سے اپنی غاصب افواج کے انخلا کا اعلان کرے۔ اور ہم اقوم متحدہ اور دیگر عالمی برادری سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ مقبوضہ بلوچستان میں حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اپنی خاموشی توڑیں کیونکہ اب غیر بلوچ اور پاکستانی فوج کے قریبی سمجھے جانے والے مذہبی جماعتیں بھی بلوچستان کی آزادی کو حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لہذا اقوام متحدہ کو بلوچستان میں مزید انسانی المیوں کو روکنے کے لئے فوری طور پر مداخلت کرتےہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے ۔

آزاد و خودمختار بلوچستان اس پورے خطے کی ترقی، خوشحالی اور امن و امان کے لئے قلیدی کردار کا حامل ملک ہے لہذا پاکستان کی شدت پسندی اور خطے میں اسکی منفی عزائم کی روک تھام کے لئے بلوچوں کی آزادی کو تسلیم کرنا بہترین حل اور اس خطے کو ممکنہ خون خرابہ اور بد امنی کی آگ سے بچانے کا نادر موقع بھی ہے۔

پارٹی ترجمان نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی برادری کی یہ اولین ذمہ داری ہونی چاہے کہ جیسے ایسٹ تیمور کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی اقوام متحدہ نے UNTAET (United Nations Transitional Administration in East Timor) ان کی آزادی اور ملک کی تعمیرِ نو اور حکومتی نظام کے قیام میں مدد دی اور دو ہزار دو میں ایسٹ تیمور آزاد ہوا۔

جس طرح نوے کی دہائی میں سربیا سے کوسوو کی آزادی کی تحریک چلی ، اور انیس سو نوے میں نیٹو کی مداخلت سے سربیا کی افواج کو پیچھے ہٹنا پڑا، اور پھر اقوام متحدہ نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے UNMIK (United Nations Mission in Kosovo) کا انتظامی کنٹرول سنبھالا اور وہاں انسانی المیے سے اس خطے کو بچایا گیا۔ مقبوضہ بلوچستان کے حالات بھی عالمی اداروں اور بالاخصوص اقوام متحدہ کے مداخلت کا تقاضا ہیں۔

جنوبی سوڈان بھی دو ہزار گیارا میں آزاد ہوا اور اقوام متحدہ نے متحرک کردار ادا کرتے ہوئے یہاں بھی کوسوو کی طرح UNMIK (United Nations Mission In South Sudan) کے تحت امن کے قیام اور ملکی استحکام کے لئے کردار ادا کیا اور جنوبی سوڈان کی آزادی سے چھ سال پہلے اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں کی موجودگی میں امن معاہدہ ہوا جس سے اس ملک کی آزادی کی راہیں مزید ہموار ہوگئیں۔

انیس سو نوے میں افریقہ کی قبضے سے نمیبیا آزاد ہوئی اور اقوام متحدہ کی مداخلت سے وہاں بھی UNTAG (United Nations Transition Assistance Group)کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس نے اقوام متحدہ کے قراردادوں کو نافذ کرتے ہوئے اس خطے کو خون خرابے سے بچالیا تھا اس کے علاوہ انیس سو ترانوے میں اریٹیریا کو ایتھوپیا سے آزادی ملی، اریٹیریا کی آزادی کے حصول میں اقوام متحدہ نے قابل ذکر کردار ادا کیا تھا ۔

بلوچستان کے حالات بھی اریٹیریا، جنوبی سوڈان، کوسوو، مشرقی تیمور سے مختلف نہیں ہیں بلکہ اس سے ابتر ہیں جہاں پاکستانی قابض افواج اور ان کی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے بلوچ عوام کے لئے زمین تنگ کررکھی ہے لہذا اقوام متحدہ ایک عالمی ذمہ دار تنظیم ہونے کے ناطے بلوچستان میں بھی مداخلت کرتے ہوئے UNMIB (United Nations Mission In Balochistan) کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی قابض افواج کو بلوچستان کی سرزمین سے نکل جانے پر مجبور کرے تاکہ بلوچستان کے عوام اپنی آزاد ریاست پر اپنی جائز کنٹرول کو پھر سے ممکن بنائیں جو ان کا قومی، بنیادی ، اخلاقی سیاسی اور تاریخی حق ہے۔