میرا دوست کہتا ہے ”موجودہ حالات و واقعات کو دیکھا جائے تو بہت کچھ لکھنے لائق اور ضروری ہیں ، میں نے ایک مولانا کی ایک کتاب پڑھی تھی جس میں وہ انمول موتی کے نام سے مختلف موضوعات کامختصراً احاطہ کرتا ہے۔ کیوں مختلف موضوعات کو پرو کر تم انمول موتی کے نام سے نہیں لکھتے؟“ میں سوچتا ہوں ” نہیں انمول تو کوئی قابلِ قبول شے ہی بن سکتی ہے، وہ شے جس کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ بہت ضروری و اہم ہے اور ہم سب اس خیال کو قبول کرتے ہیں ، لیکن فضول کیسا رہے گا؟ اس قابلِ قبول دائرے سے باہر کی شے فضول ہی کہلائی جاسکتی ہے ، ایک سنگتراش جب کسی چٹان کواپنے نظر سے دیکھتا ہے وہ اس میں کوئی شبیہہ ڈھونڈتا ہے پھر اس شبیہہ کو مورت کا شکل دینے کیلئے اس چٹان پر ضربیں لگا کر اسے توڑتا رہتا ہے ، وہ تب تک توڑتا رہتا ہے جب تک کہ وہ مورت چٹان کے اندر سے ابھر کر واضح نہیں ہوجاتی، وہ مورت انمول ہے اور وہ ٹوٹے اور بکھرے پتھر جو اس سے الگ کیئے گئے وہ فضول ہیں ، وہ فضول کیوں بن گئے؟کیونکہ سنگتراش جس زاویہ نظر سے اس پتھر میں مورت ڈھونڈ رہا تھا اس کیلئے اس مورت سے باہر کی چیزیں فضول ہیں ۔قابلِ قبول تصورات اور خیالات سے باہر کی باتیں فضول باتیں ہی ہوسکتی ہیں۔

٭__شخصیت سیاسی تحاریک میں اشخاص ہوتے ہیں ، کوئی شخص تحریک نہیں ہوتا۔ تحریک کے لغوی معنی جو بھی ہو لیکن جب سیاست میں ہم لفظ تحریک کو استعمال کرتے ہیں تو اسکا معنی ہی اجتماعی کوششوں کے بن جاتا ہے ۔ اجتماعیت ان تمام کمزوریوں سے مبرا ہوتی ہے جو انفرادی حوالے سے کسی شخص کو متاثر کر سکتی ہیں۔ یعنی یہ عارضی کیفیات جیسے کے ، محبت ، نفرت ، لالچ سے پاک ہوتا ہے لہٰذا اجتماعیت سے پیدا ہونے والے رجحانات کیفیات سے عاری خالص حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں۔ اسی لیئے تحریک اور اجتماعیت کو اہل دانش لازم و ملزوم ٹہراتے ہیں ، جب تک تحریک فرد سے بڑا رہے گا تو بہت سے انسانی کمزوریوں سے پاک چلتا رہے گا اور جلد یا بدیر منزل پر پڑاو ڈال دے گا لیکن جب شخصیات تحریک سے بڑی بن جائیں گی تو تحریک پر وہ تمام انسانی کمزوریاں غالب رہیں گی جو کسی فرد کا خاصہ ہوتے ہیں۔

بلوچ تحریک پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالیں تو تمام تحریکیں شخصیات سے جڑی ہیں، یعنی آغا عبدالکریم کی تحریک، بابو نوروز کی تحریک ، نواب خیربخش کی تحریک۔ ان سب تحاریک کا انجام جو ہوا اس پر بحث کی ضرورت نہیں لیکن موجودہ تحریک گوکہ اس کمزوری سے مبرا نہیں تھا لیکن اس میں اتنی گنجائش ضرور تھی کہ اس شخصیت پرستی سے نکلا جاتا ، اور اسی گنجائش نے تحریک میں نئے اشخاص پیدا کیئے جیسے کہ براہمدغ ، اللہ نظر ، غلام محمد وغیرہ لیکن بجائے اسکے کے اس گنجائش کو حقیقی اجتماعیت کی طرف لیجایا جاتا ، انہی اشخاص میں سے بیشتر جو اس تحریک سے پیدا ہوئے، اسی تحریک کی سیڑھیاں چڑھ کر تحریک سے بڑے ہوگئے ، ( کم از کم اپنے حلقہ اثر کیلئے) ۔

میں ایک بات واضح کرکے ایک مسئلے پر بحث کرنا چاہوں گا کہ آج بلوچ تحریک میں جتنے بھی نامور و قد آور اشخاص ہوں ان سب کی حیثیت اس تحریک کی وجہ سے ہے اس تحریک کے بغیر وہ مکمل طور پر محض اچھے یا برے عام انسان ہیں ۔ یہ تحریک ہے تو انکا تذکرہ ہے ورنہ سنگت حیربیار جیسے نوابزادے ، براہمدغ و مھران جیسے نواب ، اللہ نظر جیسے ایم بی بی ایس یہاں ہزاروں پڑے ہیں ، لیکن آج انہی اشخاص کے بارے میں ایسے تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ یہ اشخاص اور تحریک لازم و ملزوم ہیں اور جب بھی تحریک کیلئے کوئی مستقبل تصور کی جاتی ہے اسے انہی شخصیتوں سے ہی نتھی کی جاتی ہے اور کسی بھی صورت انکو قبول کرکے ہی تحریک کے بارے میں سوچنے کا رجحان رکھا اور پیدا کیا جاتا ہے ۔ میں اچھے اچھے فکری دوستوں کے ساتھ بار ہا بحث کے دوران یہ تاثر پاتا رہا ہوں کہ آج بلوچ تحریک میں جو بھی مسائل ہیں وہ گھما پھرا کر اُ ن ہی متنازعہ کرداروں کے ساتھ کسی سمجھوتے کے بعد منطقی انجام تک پہنچائے جائیں گے۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اگر ہم ایک بار اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ فلانہ شخص کا کردار و عمل اس تحریک کیلئے سود مند نہیں تو پھر گھوم پھر کر ہم تحریک کے بجائے اسے ہی ترجیح کیوں دیں ؟ یعنی ڈاکٹر اللہ نظر کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس نے گروہیت اور کالے دہن کو ایک شفاف تحریک میں گھول کر اسے زہریلا بنا دیا ، براہمدغ نے ایک انقلابی تحریک کا رخ موڑ کر اسے رجعت پسند رجحانات کی طرف دھکیل کر قبائلی جھگڑا بنادیا ، جاوید مینگل نے واضح موقف کے مالک تحریک کو توڑ مروڑ کر بی این پی کیلئے پارلیمنٹ کے راستے ہموار کرنے کی کوشش کی ، مھران مری نے تحریک کو موروثی جاگیر بنا دیا ، جیسا کے میں نے پہلے عرض کیا کہ ان تمام اشخاص کی حیثیت تحریک کے بغیر کسی بھی عام بلوچ کے برابر ہے لیکن ہم پھر بھی ان تمام وجوہات کے باوجود جب تحریک کا تصور کریں تو اس میں مذکورہ بالا اشخاص کو کیوں لازم سمجھ کر ، انکے منفی کردار کے باوجود انہیں حیثیت بخش کر کسی نتیجے کا سوچیں ۔ یقین کریں ایسے صورت میں کوئی بھی نتیجہ محض لین دین یا ساز باز ہی ہوگا ۔ یہ اشخاص تحریک سے ہیں تحریک ان سے نہیں ہے ۔

میں ایک مثال دینا چاہوں گا کہ بالفرض اللہ نظر تحریک کے پہلے دن سے لیکر آج تک جن بھی غلطیوں کا مرتکب ہوئے ہیں ، جو بھی مسئلے اور پیچیدگیاں اسکی وجہ سے پیدا ہوئے، وہ سب کو تسلیم کرکے قوم سے معافی مانگتا ہے اور مکمل صحیح اور شفاف راستے پر چلنے کا وعدہ کرتا ہے تو کیا پھر وہ قابل قبول ہونا چاہیئے؟ میرے اکثر ہمفکر بھی شاید نا صرف ہاں کہیں بلکہ اسے لیڈر بھی تسلیم کریں لیکن میں ایک سادہ سا سوال رکھوں گا کہ ایسا شخص جو چند مخصوص انفرادای اور گروہی مفادات کی خاطر تحریک کے مسائل کو اس حد تک پیچیدہ بنادیتا ہے تو اسکے نیت پر شک کیئے بغیر بھی دیکھیں تو بھی یہاں اسکے صلاحیتیوں پر بہت بڑا سوال آجاتا ہے اور اسکی نا اہلی ثابت ہونے کے باوجود ایسے نا اہل انسان کو کسی عام جہد کار سے زیادہ حیثیت کیوں ہو؟۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے بلوچ تحریک کے یہ منفی کردار جب دشمن کے جبر کا شکار ہوتے ہیں تو پھر ہم ان کے مجموعی کردار سے چشم پوشی کرکے دشمن کے جبر سے انکا منفی اعمال کو دھوکر انہیں سب کچھ سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں ۔ ایک بلوچ ہونے کے حیثیت سے جو بھی دشمن کے جبر کا شکار بنے اس سے ہمدردی ضرور رکھی جاسکتی ہے ، لیکن کیا جبر کی وجہ سے اسکا حقیقی کردار خوا ہ جو بھی ہو فراموش کیا جاسکتا ہے؟ کیا کسی کے مرنے سے اسکی وہ غلطیاں جنہوں نے تحریک کو داو پر لگا دیا دھل جاتی ہیں؟ چلو وہ دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوا، یہ بھی تسلیم کے وہ مخلص تھا لیکن پھر اسکے نا اہلیوں کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ میرے خیال میں جبر سے ہمدردی حاصل ہونی چاہیئے قیادت نہیں ، قیادت کی بنیاد اہلیت ہی رہے تو بہتر ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے اس تحریک سے پیدا ہونے والوں کو اسکے وجود سے ہی بڑا بنادیا ہے اور کسی صورت انہیں تحریک کے سر سے نیچے ہٹانے پر راضی نہیں ہیں۔

اس معاملے میں اکثر دشمن کے قوت کو مثال دیکر کہا جاتا ہے کہ قطع نظر ماضی کے اعمال کہ اگر تمام آزادی پسند ایک ہوجائیں تو بلوچ ایک قوت بن سکتی ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ بلوچ اتنی بڑی قوم ہے ، ہم قوت کیلئے اس قوم کی طرف کیوں نہیں دیکھتے ہیں ؟ کیا یہ تحریک اب بانجھ ہوچکی ہے کہ اور لوگ پیدا نا کرسکے اور ہمیں آزمائے ہوئے مہروں کو تب تک آزماتے رہنا چاہیئے جب تک کہ ہم یہ بازی ہار نہیں جاتے؟ یا دوبارہ عوام اور تحریک کی طرف رجوع کرنا چاہیئے جو حقیقی معنوں میں ایسے منفی کرداروں سے کئی گنا بہتر فرزند و دختر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ میرے خیال میں ایسے کرداروں کو محض پوجا کرنے والے ہی شخصیت پرست نہیں کہلائیں گے بلکہ مخالفت رکھنے کے باوجود ان منفی کرداروں کیلئے تحریک میں گنجائش پیدا کرنے والے بھی شخصیت پرست ہیں، بلکہ یہ محض شخصیت پرستی نہیں رجعت پسندی بھی ہیں۔

٭_نظریہ دانشوروں کے تشریحات کا مقروض ہوئے بغیر ہم سادگی سے نظریے کو سمجھیں تو کسی بھی” چیز“ کو دیکھنے کا مخصوص زاویہ” نظریہ“ کہلائے گا، اور اس ”چیز“ میں مختلف معاملات ، خیالات ، حالات و مسائل وغیرہ ہوسکتے ہیں۔دنیا میں ہر ذی فہم انسان اپنے زندگی کے معاملات کے تعین میں کوئی نا کوئی نظریہ ضرور رکھتا ہے ۔ کوئی سیاسی، سماجی یا مذہبی نظر رکھے گا اور اگر کوئی انسان ان کے بغیر ہی رہ رہا ہو تو وہ کم از کم معاملات کو ضرورت یا فطرت کے نظر سے ضرور دیکھتا ہے۔ یعنی افریقہ کے کسی الگ تھلگ جنگل کے کسی باسی کا تصور کریں جو مذہب ، ریاست اور سیاست کے قید سے آزاد سوچ رہا ہے ، وہ بھی اپنے معاملات کا تعین فطرت کے نظر سے کرے گا و اسکے صحیح اور غلط کا تعین وہیں سے ہوگا ، یعنی سردی میں کیا ہوتا ہے اور کیا کرنا چاہیے ، اسی طرح ، گرمی ، برسات ، خشک سالی اور آبادی سب اسکے فیصلوں اور معاملات کو دیکھنے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ اسی طرح اپنے فیصلوں کے سمت کا تعین کرتا ہے ۔ قوم پرست نظریہ آزاد اور غلام حیثیت میں مختلف تشریحات رکھنے کے باوجود ایک ہی ہے یعنی قوم کیلئے جو سب سے بہتر ہے وہ ہو ، غلام حیثیت میں قوم کی خوشحالی ، بقا اور ترقی کیلئے آزادی سب سے بہتر راہ ہے اسی طرح آزاد حیثیت میں اسی وقت کے قومی ضرورت کے تحت یہ معنی بدلتی رہتی ہے ۔ یعنی قوم کے بہتر مفادات کے حصول کیلئے فیصلے و عمل۔

محدود علم و تجربے کے باوجود مجھے اپنے اندر نظریاتی حوالے سے شدت کے ساتھ ایک مسئلہ سر اٹھاتا دِکھتا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ اہلِ علم کے پاس اس مسئلے کیلئے کوئی اصطلاح ہے یا نہیں؟ یا یہ مسئلہ ہے بھی یا نہیں لیکن میں اس مسئلے کو ” کثیر النظریات“ ہی کہوں گا۔ یعنی ایک وقت میں ایک سے زائد نظر یات رکھنا ۔ اگر خاص طور پر ہم سیاسی نظریات کی بات کریں تو ہر نظریہ کچھ مفادات کے حصول کے کوشش کا نام ہے جب ہم ایک معاملے کو مختلف نظر سے دیکھ کر، اسی ایک ہی معاملے سے ایک سے زائد مفادات کے حصول کا کوشش کرتے ہیں تو یہ نظریات ایسی اضداد بن جاتی ہیں جو ایک دوسرے کا نفی کرکے ناکامی تک پہنچاتی ہیں ۔میری کم دانست میں کبھی بھی کثیرالنظریات ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ کیا نظریہ بقا اور انسانیت ایک ساتھ چل پائیں گے؟ کیا جدت و رجعت ایک پٹڑی پر اترسکتے ہیں؟ مثال کے طور پر محاذ پر کھڑے ایک جہد کار پر لڑنے کی نوبت آتی ہے ، وہ اگر اس نوبت و حالت کو قومی نظر سے دیکھے تو زندگی کی پرواہ کیئے بغیر لڑے گا لیکن اسی نوبت و حالت کو وہ قومی نظر کے ساتھ ایک معمول کی زندگی اور اس سے جڑے خواہشات کی نظر سے بھی دیکھے گا تو وہ جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کرے گا ، اگر موقع نا بھی ملے تو بے دلی سے لڑے گا جس کا نتیجہ منفی ہی ہوگا یعنی ایک ہی صورتحال کو وہ ایک ہی وقت میں مختلف نظر وں سے دیکھتا ہے ، میں اسے کثیرالنظریات ہی کہوں گا۔

اب بلوچ تحریک کو دیکھیں ادنیٰ سے اعلیٰ سطح تک ، معمولی مسئلوں سے لیکر پیچیدہ مسئلو ں تک یہی کثیر النظریاتی مسئلہ ہمیں نظر آتا ہے۔ بلوچ قومی تحریک جو قوم پرست تحریک ہے یعنی ہر معاملے کو قومی نظر سے دیکھ کر فیصلے کرنے کا تقاضہ کرتا ہے لیکن یہ تقاضہ پورا نا ہونے کی وجہ سے پیچیدہ مسائل جنم دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔ جیسے کے اوپر بیان کیا گیاکہ ایک جہد کار معاملات کو قومی نظر سے دیکھ کر جدوجہد کا آغاز کرتا ہے لیکن جب وہ انہی معاملات کو قومی نظر کے ساتھ عمومی زندگی کے نظر سے بھی دیکھنا شروع کرتا ہے تو وہ پھر ایک جہد کار بننے کے ساتھ ساتھ ایک عام زندگی بھی ساتھ میں چاہنے لگتا ہے یوں دو اضداد کے بیچ پھنس کر وہ خلوص کے باوجود جہد اور عمومی زندگی کے بیچ میں معلق بن جاتا ہے اور بالآخر وہ دونوں میں ناکام ہوتے ہوئے انجام مایوسی ، سرینڈر ، خاموشی یا کنارہ کشی کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔ یہ ایک عمومی مسئلہ ہے جسے اس طویل جہد کے دوران بارہا دیکھا گیا ہے، اسی طرح آجکل خاص طور پر مکران میں دیکھیں کہ ایک بار جدوجہد کا حصہ ہونے کے بعد جب وہ مختلف غیر اخلاقی ذرائع سے ذاتی زندگیاں بناتے دیکھتا ہے تو پھر چاہے تحریک میں اسکی شمولیت خلوص اور قومی نظر کے تحت تھی لیکن وہ پھر معاملات کو ذاتی مفاد کے نظر سے بھی دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ ایسا شخص پھر ایک فوجی گاڈی کو مارنے کے بجائے منشیات کے ایک گاڈی کے لوٹنے کو ترجیح دیگاکیونکہ وہ اس میں اپنے ذاتی و قومی مفاد دونوں کو پورا ہوتے دیکھ رہا ہے لیکن اگر اسی صورتحال کو وہ صرف قومی نظر سے دیکھے گا تو اسے ایک فوجی گاڈی مارنے میں زیادہ دلچسپی ہوگی ۔ یہیں سے پھر وہ انہی اضداد کا شکار ہوکر ایسے ابتر صورتحال میں چلا جائیگا جو آجکل مکران میں بدرجہ اتم دکھ رہا ہے یعنی معاملات کو ذاتی مفاد کے نظر سے دیکھتے ہوئے آئے روز ایک تنظیم سے دوسرے تنظیم میں قلابازی ، حتیٰ کے آزادی پسند تنظیموں سے ڈیتھ اسکواڈوں میں دخول میں بھی اسی کا عمل دخل ہے ، یعنی کبھی نظریہ اور سوچ رخ واضح ہی نہیں رہا ہے ۔

یہیں سے تھوڑا اعلیٰ سطحی سیاسی معاملات پر نظر دوڑائیں تو کئی مثالیں ملیں گی کہ ہم ایک ہی معاملے کو قومی ، تنظیمی اور گروہی نظر سے دیکھ کر اسی طرح عمل کرتے ہیں اور نتیجہ قومی مفاد کے حق میں چاہتے ہیں ۔پیچیدہ مسائل کے بجائے بلوچ سیاست کے عمومی مسائل کو دیکھیں کہ ایک تنظیم میں قیادت کے چناو کے وقت معاملات کو محض ایک گروہ یا لابی کے مفاد کے نظر سے دیکھتے ہوئے کتنی بار اور کتنے لوگ تنظیموں سے کنارہ کش کرائے گئے ہیں یا تنظیموں کو توڑنے یا نئے تنظیموں کو بنانے کا موجب بنا گیا ہے اور ایسے واقعات بلوچ سیاست میں کتنی بار دہرائے گئے ہیں اور اگر بلوچ قومی مفاد کے نظر سے دیکھا جائے تو یہ کتنی سودمند ثابت ہوئیں ہیں ؟ اور اگر ہم تمام ایسے معاملات میں مطمع نظر قومی بناتے جو ہمارا کمٹمنٹ بھی ہے تو ایسے کتنے تقسیم روکے جاسکتے تھے ؟۔

تھوڑا مزید اعلیٰ سطح پر دیکھیں کے ہمارے تنظیم قومی معاملات ، مسائل اور فیصلوں میں کیا نظر رکھتے ہیں ؟ یعنی ہمارا کمٹنٹ قومی تحریک کو کامیاب کرنا ہے اور گروہوں کی تشکیل اسی مد میں ہوئی ہے ، اور تمام قومی معاملات کو چاہے کوئی بھی گروہ ہو اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے ، لیکن یہاں ایک ہی معاملے پر رجحان یہ ہے کہ میں ایسا عمل کروں کہ واضح طور پر میرے گروہ کا نام دِکھے ، گروہ کا پروپگینڈہ ہو اور لوگ اسے ایک مضبوط قوت سمجھیں ، یعنی کسی تنظیم کے آپ سالانہ سرگرمیوں کو نکال کر دیکھیں کہ انکا بیانیہ ، انکی سرگرمیاں اور ان سے جڑی حکمت عملیاں کس حد تک انکے تنظیم کی وکالت اور اسکا پروپگینڈہ کرتی ہیں اور کس حد تک قومی مقصد کا ، حیران کن حد تک آپ کو اس میں قومی مقصد آٹے میں نمک برابر ملے گا باقی جتنا قوم کا نام استعمال ہوتے نظر آئے گا وہ محض اس تنظیم کے سرگرمیوں کو جواز بخشنے کیلئے ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارا دعویٰ یا یقین یہ ہے کہ ہمارے اعمال و سرگرمیوں سے سے تحریک کو فائدہ ہونا چاہیئے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ جب طرز عمل کا سمت اور عمل کے نتیجے کی خواہش گروہی فوائد کیلئے ہے پھر اس سے قومی فائدہ کیسے حاصل کی جاسکتی ہے ؟ یعنی ایک ہی معاملے کو ایک سے زائد نظر سے دیکھنے کا رجحان ۔

اسی مسئلے کو اپنے روزمرہ کے مثالوں میں دیکھتا ہوں تو عجیب باتیں سننے کو ملتی ہیں، یعنی کئی بار میں نے بی ایس او اور بی این ایم کے بیانوں میں یہ پڑھا ہے کہ ایک مضبوط تنظیم ہی کامیابی کی ضمانت ہے اور کارکنوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ تنظیم کو مضبوط کرنے پر زور دیں، اسی طرح شہیدوں کی تنظیم کا دعویٰ ، مضبوط ادارہ ، تنظیم کے خلاف سازشیں وغیرہ جیسی باتیں آپ ان کے ہر بیان میں دیکھ سکتے ہیں ۔ یہاں میرا موضوعِ بحث تنظیم نہیں ہے لیکن میں صرف اس امر کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں آزادی کے اس جنگ میں جو بھی عمل اور ردعمل سے ہم درپیش ہوتے ہیں یہ گروہ ان تمام مسائل و چیلینجز کو اپنے گروہی نظر سے ہی دیکھتے ہوئے انکا حل کیا دیکھتے ہیں اور اپنے وجود کو تحریک کے کسوٹی پر کہاں فِٹ کرتے ہیں۔ اسی لیئے انکے وجود کا قومی تحریک کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ اگر محض تمام معاملات و مسائل کو قومی نظر سے دیکھا جاتا تو کیا اس مختصر سے افرادی قوت کیلئے اتنے زیادہ تنظیموں کی ضرورت پڑتی؟۔ اب اس گروہی نظر کے ہم اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ بہت سے بڑی خطاوں کو ہم روز دیکھنے کے باوجود محسوس نہیں کرتے ، بالفرض کہیں کوئی بلوچ شہید ہوتا ہے یا کہیں کوئی بڑا آپریشن یا حادثہ ہوجاتا ہے یا کسی نامور شہید کے برسی کا دن آتا ہے تو ان اعمال کے ردعمل میں ہمارے تنظیموں کا کردار کیا ہوتا ہے ؟ سب سے پہلے فوری طور پر یہ کوشش ہوگی کہ اس شہید کو اپنی ملکیت میں لیں ۔اگر آپریشن یاحادثہ ہوا ہے تو چار دکانیں بند کرسکتے ہیں یا نہیں لیکن فوراً روایت کو دہرا کر تنظیم کے نام سے ہڑتال کی کال دے دیں اور اگر کسی نامور شہید کی برسی آجائے تو اسکا مالک پارٹی جلسے کرے ۔ اسکے سوا مجھے آج تک کچھ نظر نہیں آیا ہے ، اور چاہے کوئی بھی تنظیم ہو یہ اعمال بار بار دہرانے سے نہیں ہچکچائے گا ۔

اسکی وجہ کیا ہے ؟ صرف یہ ہے کہ یہ سرگرمیاں کسی مخصوص گروہ کو زندگی فراہم کرتی ہیں اس لیئے دہرائی جاتی ہیں، لیکن میرے ذہن میں ایک سادہ سا سوال آتا ہے کہ آیا ان سرگرمیوں کا فائدہ قومی تحریک کو ہے؟ اگر یہ واقعی میں فائدہ مند ہیں توپھر آج سیاسی میدان میں ان اعمال کے حد درجہ دہرائے جانے کے باوجود ہم ابتری کے گہرائیوں میں کیوں جارہے ہیں؟ اور قومی تحریک کو کوئی فائدہ کیوں نہیں مل رہا ؟ اس کا مطلب قومی تحریک کو کوئی بھی فائدہ نہیں ، لیکن قومی تحریک کو فائدہ نا ہونے کے باوجود ان اعمال کو اتنی قوت ، وقت اور جانیں دیکر کیوں دہرائی جاتی ہیں؟ یقینا محض اپنے اپنے گروہ کو زندہ رکھنے کیلئے، یعنی جن معاملات پر ہماری نظر قومی ہونی چاہیئے تھی وہ گروہی ہے اور ہمارا طرز عمل بھی پھر اسی طرح ہے لیکن اسکے باوجود ہم اگر یہ توقع کریں کہ فائدہ قومی تحریک کو ہو تو یہ بالکل خام خیالی ہوگی ، ایسے طرز عمل کا نتیجہ وہی ہونا چاہیئے جو آج بلوچ آزادی پسند سیاست کا ہے ۔ کیا گروہ کی زندگی قومی تحریک کی زندگی ہے یا پھر قومی تحریک کی زندگی گروہ کی زندگی ہے ، میرے خیال میں آخرالذکر معنی رکھتا ہے ۔ یہاں ایک سوال میں اس پر بحث کیئے بغیر ضرور چھوڑوں گا کہ اگر ہم اپنے تمام مسائل و معاملات کو قومی نظر سے دیکھ کر اسی مطابق عمل کرتے تو آج ہماری سرگرمیاں کیا ہونی چاہئیں اور اگر ایسا ہوتا تو کیا ہماری حالت زار موجود ہ حالت سے مختلف ہوتا؟۔

ایک بلوچ جہد کار کے انفرادی سطح سے لیکربلوچ سیاست کے اعلیٰ سطح یعنی تنظیموں تک دیکھیں جو مسائل جنم لے رہے ہیں اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم معاملات کو خالص قومی نظر سے نا دیکھ رہے ہیں ، نا اسی مد میں فیصلے کررہے ہیں اور نا ہی عمل ۔ کہیں عمومی زندگی ، کہیں گروہی و انفرادی خواہشیں قومی نظریے کے ساتھ گڈ مڈ ہوکر نا صرف مسائل جنم دے رہے ہیں بلکہ کئی معاملات پر اس کی وجہ سے کنفیوژن بھی کئی ذہنوں میں موجود ہے ۔ اگر ہم معاملات کو خالصتاً قومی نظر سے دیکھیں تو ہم کسی بھی طرح کے کنفیوژن سے بھی نکل سکتے ہیں اور صورتحال کو سمجھنا آسان بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر تنقید تحریک کیلئے نقصان دہ ہے ، کیا واقعی ؟اگر چند مسائل و کوتاہیوں پر لِکھا جاتا ہے یا چھپی باتوں کو طشت ازبام کیا جاتا ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ان میں جھوٹ کچھ بھی ہوگا وہ کوئی تاثیر رکھے بغیر ہوا میں تحلیل ہوجائے گا جیسے کہ ریاستی پروپگینڈہ بلوچ سیاسی کارکنوں پر کوئی اثر ڈالے بغیر ختم ہوجاتا ہے لیکن جس بات میں حقیقت ہوگی جو ذمینی حالات سے جڑا ہوگا ، وہ قبول ہوگا اس پر باتیں ہونگی ، انگلیاں اٹھیں گی ہوسکتا ہے کہ کچھ ذمہ دار تنظیموں و شخصیات کو پھر اس سے نقصان ہو لیکن قومی تحریک کیلئے تو یہ ایک نیک شگون عمل ہی ہوگا کہ ایسے مسائل جو نادانستہ طور پر پیدا ہوئے ہیں یا دانستہ طور پر پیدا کیئے گئے ہیں وہ نہیں دہرائے جائیں گے یا ان پر قابو پایا جائے گا ، یعنی یہ تحریک کیلئے فائدہ ہے لیکن گروہوں و شخصیات کیلئے نقصان دہ ۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا گروہوں و شخصیات کا نقصان تحریک کا نقصان ہے ؟ میرے خیال میں نہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے اور خالص قومی نظر سے دیکھا جائے تو بہت سی چیزیں سمجھ آسکتی ہیں ۔ جیسے کہاں پنجابی یا مزدوروں کا قتل فائدہ مند ہے اور کہاں نقصان دہ ، کہاں ڈسپلن کیلئے اپنے صفوں کی چھانٹی یا آپسی جنگ فائدہ مند ہے کیسے نقصان دہ ، کونسی سیاسی سرگرمی فائدہ مند ہے کونسی نقصان دہ وغیرہ ، کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ چاہے کوئی بھی صورتحال ہو ، جیسا بھی مسئلہ اور جیسی بھی پیچیدگی ہو اسے صرف یہ سوچ کر دیکھیں کہ اس سے قومی تحریک کو کتنا فائدہ ہے ، کیا فائدہ ہے اور کتنا و کیا نقصان اور جہاں فائدہ نظر آئے اسی کے پیچھے چلیں چاہے پیچھے چلنے میں رکاوٹ ، آپکا وجود ہو ، آپکی تنظیم یا آپکالیڈر سب سے اختلاف رکھ کر اور چھوڑ کر چلیں۔

٭_تحریک کوئی بھی ترقی پسند تحریک ارتقاءکے آگے غیر فطری رکاوٹ کے خلاف تاریخ کے حرکت کا نام ہے اور اس حرکت کو روکنے کی کوشش ہمیشہ خون سے رنگا ہوتا ہے ، یعنی ہماری جدوجہد آزادی تاریخ کے ارتقائی سفر کے سامنے سے رکاوٹیں جو استعماریت کے صورت میں ہم پر مسلط ہیں، انہیں ہٹانے کا تاریخی فریضہ ہے ۔ تحریک اور جبر لازم و ملزوم ہیں ، آج ہم جس شدید ترین جبر کا شکار ہیں اسکا سبب تحریک ہے ۔ ایک دفعہ دوبارہ دہراوں یہ تحریک ہے اسی لیئے ہمیں جبر کا سامنا ہے یعنی یہ تحریک نا ہوتی تو ہم استحصال سے گذرتے لیکن جبر کا سامنا نہیں ہوتا مطلب یہ تحریک ریاستی جبر کے خلاف نہیں قبضے کے خلاف ہے ، لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے مجھے یہ تحریک بہت آہستگی کے ساتھ غیر محسوسانہ انداز میں اپنا رخ موڑتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اس رخ کے مڑ جانے کا پتہ مجھے ہمارا بیانیہ ، ہماری پالیسیاں اور ہماری سرگرمیاں دیتی ہیں جن کی ترتیب اور ہمارے جمعی کوششوں کا مطمع نظر جبر کے خلاف نظر آتا ہے ، ہماری سرگرمیاں اور ان سرگرمیوں کیلئے لائحہ عمل جبر سے نبرد آزما ہونے کیلئے نظر آتا ہے ۔ یعنی گذرتے وقت کے ساتھ مجھے یہ گمان سختی کے ساتھ گھیر رہا ہے کہ ہماری یہ تحریک اب آزادی کی تحریک سے اترتے ہوئے انسانی حقوق کی تحریک بنتی جارہی ہے ۔ جس میں نا صرف ہم اپنے حقوق بلکہ عالم انسان بشمولِ پنجابیوں کے حقوق کی بھی وکالت کرتے نظر آتے ہیں اور پنجابی بھی غیر فطری طور پر ہمارے ہمرکاب نظر آتے ہیں ۔

میں اتنے وقت سمجھتا رہا کہ ریاستی جبر سے تحریکیں دم نہیں توڑتی ہیں ، کیونکہ جیسے جیسے جبر بڑھتا ہے ویسے ویسے لوگوں کا غصہ بھی بڑھتا ہے ، لیکن اب مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ ظلم و جبر سے محض ڈرا کر تحریک سے دور نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے تحریک کا رخ موڑ ا بھی جاسکتا ہے جو لوگوں کو ڈرانے سے بھی زیادہ خطرنا ک ہے اور ہماری تحریک برجستہ طور آزادی کی تحریک سے اپنا رخ موڑ تا جارہا ہے۔

موجودہ دور کے تقاضوں کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں کہ موجودہ دور میں محض تحریک چلانا خاص طور پر آزادی کی تحریک چلانا آزادی کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ تحریک کے ساتھ آپ کو عالمی قوتوں کی اخلاقی ، سیاسی ، سفارتی ، عسکری یا مالی حمایت کی ضرورت پڑتی ہے لیکن ایک بات ذہن نشین ہو کہ عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے تحریک لازم ہے ، جب تحریک ہوگی تو حمایت کیلئے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ، جتنی مضبوط تحریک ہوگی حمایت حاصل کرنے کی امیدیں اتنے ہی قوی ہونگے ۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہ عالمی حمایت کا فسانہ ہمارے ذہنوں میں اتنا نقش کرکے اتاراگیا ہے کہ اب جز لازم تحریک سے زیادہ ہم اس حمایت کیلئے مرے جارہے ہیں ۔ اچھے خاصے تحریک کو کسی بھکاری کا کشکول بنادیا ہے ۔ ساری توجہ اس جانب مبذول ہے کہ کیسے عالمی حمایت حاصل کریں ، ہمارا بیانیہ ، بیرون ملک نمائیندوں کی بھتات اور اس میں روز افزوں اضافہ ، ہر انٹرویو اسی حمایت کے بھیک کے گرد چکریں کاٹ رہا ہے ۔ اب ذرا غور کریں کے بی ایس او کا کام ہی طلباءکی فکری تعلیم ہے اب اسے کیا ضرورت وہ بیرونی ملک نمائیندے بھیج کر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو اجاگر کرے یا مدد تلاش کرے، حقیقت یہ ہے کہ اب عالمی سفارت کاری ، آگاہی اور بیرون ملک سرگرمیاں محض جبر کے خوف سے پیدا ہونے والی تاویلیں ہیں ۔ جبر کی وجہ سے سختی کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا سیاسی زندگی قائم رکھنے کیلئے بیرون ملک سفارت کاری کا فلسفہ ایجاد ہوا اور آسان کام چنا گیا۔

گوکہ ہمارے درجن بھر سیاسی پارٹیوں و مسلح تنظیموں کے بیانات نوے فیصد وہی روایتی دہرائے ہوئے باتوں پر ہوتے ہیں لیکن میں عادت سے مجبور انہیں پورا پڑھتا رہتا ہوں کچھ وقت سے نوٹ کرنا شروع کیا کہ جو بھی بیان ہو ، کسی کا انٹرویو ہو ، کوئی پمفلٹ ہو ، بلوچستان پر لکھا کوئی آرٹیکل ہو ، لیڈروں کی میڈیا سے بات چیت ہو یا پھر قوم و دنیا کے سامنے اپنی بات رکھنے کا کوئی بھی موقع ہو وہ مکمل طور پر انہی دو بیانیوں کے گرد گھومتا ہے ، یعنی پہلی یہ کہ بلوچستا ن میں ایسے ایسے ظلم و جبر ہورہا ہے اور اسکے بعد دنیا سے مدد مانگنے کی آہیں شروع ہوجاتی ہیں اور کبھی کبھار تڑکے کیلئے بلوچستان پر قبضے کی تاریخ بیان کی جاتی ہے ۔ اب بات یہاں بیانیوںکے حد تک موقوف رہتی تو قباحت نہیں تھی ہماری سرگرمیاں اور ان سرگرمیوں کے حکمت عملیاں بلکہ ہماری عاقبت اندیشیوں کی آخری حد بھی یہیں رک رہی ہے ۔ مخلصی کے ساتھ چار بندوق اٹھانے والے سلامت رہیں، ورنہ اس تحریک کو کچلنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ خود ہی اپنی پٹڑی بدل کر نجانے کس منزل کی طرف رواں ہونے کو ہو ۔ اب لگتا ہے ہر چیز ہمیں شروع سے سمجھنی پڑے گی اور وہ بھی فلسفیانہ بگھیاریوں کے بجائے آسان اور حقیقی زبان میں ۔ یہ تحریک کس لیئے ہے اور تحریک کیسے کامیاب ہوگی ، دنیا کو آگاہ کرنے کا مقصد کیا ہے ، رابطوں کے ذرائع یعنی بیان ، پمفلٹ ، آرٹیکل وغیرہ کا مقصد کیا ہے۔ ویسے سوچیں ہر مہینے کے لحاظ سے درجن بھر تنظیموں کے کم از کم پانچ چھ درجن بیانات آرام سے آجاتے ہیں اور اس پر میگزینوں و پمفلٹوں اور لیڈروں کے انٹرویوں کی تعداد الگ ۔ کیا انسانی حقوق کی آہیں بھرنے اور مدد کی اپیلیں کرنے کے سوا کبھی قوم کو ان درجنوں بیانات میں کبھی کوئی پالیسی دی گئی ہے کہ قوم کیا کرے ؟ ( مسلح تنظیموں کی دھمکیاں زیر بحث نہیں) کوئی بھی قلیل مدتی یا طویل مدتی پالیسی ؟ کوئی بھی معاشی ، معاشرتی ، سیاسی پالیسی؟۔ آزادی کو چھوڑ روزمرہ پر غور کریں کہ قوم کو پالیسی دینے اور پھر ان پالیسیوں پر عمل کرنے و کروانے کی کوششیں کسی تنظیم کا کام ہوتی ہیں یا نہیں اور اسی کو تحریک کہتے ہیں یا جبر پر رونے اور مدد کے بھیک کو ؟

٭_ادارے میں اپنے انتہائی محدود سمجھ کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو مجھے معلوم پڑتا ہے کہ تمام سیاسی ، سماجی ، معاشی ، عسکری اداروں کے دو بنیادی مقصد ہوتے ہیں اول یہ کہ کوئی عمل کسی شخص یا مخصوص وقت تک محدود ہوئے بغیر مسلسل جمعی طور پر چلتا رہے اور دوئم یہ کہ اس عمل اور اس سے جڑے معاملات میں تنظیم ، ربط اور توازن پیدا کرکے اسے منتشر ہونے سے بچایا جائے ۔ میں سیاسی اداروں پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ سیاسی ادارے بنتے کیسے ہیں ؟ ذرا تخیل کے گھوڑے کو دوڑا کر قیاس کرتے ہیں کہ جب پہلی بار کسی سیاسی ادارے کی ضرورت پڑی ہوگی تو وہ کیسے ہوگی ، یعنی کسی مقصد کیلئے لوگ اکھٹے ہوئے ہونگے ، اس کیلئے ایک ساتھ کوشش کررہے ہونگے ، تو اس تسلسل کو چلائے رکھنے اور تعداد میں نظم پیدا کرنے کیلئے کوئی سادہ سا ڈھانچہ ترتیب دیکر ذمہ داریاں بانٹی گئیں ہونگی ، اور وہ جو بھی ڈھانچہ ہوگا یا ذمہ داریاں بانٹنے یا انہیں نبھانے کا طریقہ کار ہوگا وہ اپنے معروضی حالات اور تجربات کے بنیاد پر بنایا گیا ہوگا اور پھر یہ سلسلہ چلتا گیا ہوگا ، وقت کے ساتھ بہتری لائی جاتی ہوگی پھر اس نے ایسا پختہ شکل اختیار کیا ہوگا کہ آج سیاست میں اداروں کی حیثیت کو سب تسلیم کرتے ہیں ۔ بلوچ سیاست میں ادارے کس طرح اپنے اندرونی معاملات اور معروضی حالات کو پسِ پشت ڈال کر بیرونی ماڈلز کو اپنا کر ان پر چلا گیا اور اس کی وجہ سے کن کن مسائل نے جنم لیا ہے اس پر کافی کچھ لکھا گیا ہے۔

ہم موجودہ تحریک کے ابتدائی دور میں اداروں پر غور کریں کہ وہ کیسے بنے۔ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ موجودہ تحریک کی بنیاد ڈالتے وقت ہی ماضی کے غلطیوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اداروں کی ہیت اور سرگرمیوں کی نوعیت باہر سے درآمد نہیں کیا جاتا اور اپنے ماضی کے تجربات کے بنیاد پر اداروں کی تشکیل ہوتی لیکن وقت کے پہیئے کو پیچھے گھمایا نہیں جاسکتا اس لیئے میں مجبوراً اس بات کو تسلیم کرکے بحث کرتا ہوں کہ ابتداءمیں جس بھی شکل میں اداروں کی تشکیل ہوئی وہ مجبوری تھی، لیکن کیا اسکے بعد مسلح یا غیر مسلح تنظیموں کو اپنے حالات کے مطابق ترتیب دی گئی ؟ کیوں ترتیب نہیں دی گئی اس پر آگے بات کرتے ہیں پہلے اس امر پر غور کریں محدود افرادی قوت یا چند ہی ذمہ داروں کی وجہ سے اداروں کی تشکیل کی ذمہ داری کچھ لوگوں کے کندھوں پر آیا انہوں نے جیسے بھی ادارے تشکیل دیئے وہ بحث الگ لیکن ادارہ سازی کی بنیادی ضرورت ہی یہ تھی کہ یہ عمل ایک محدود مدت یا ایک مخصوص شخص یا اشخاص تک نا رہے بلکہ اس عمل کا تسلسل وقت و اشخاص کا محتاج ہوئے بغیر چلتا ہی رہے، لیکن یہاں اداروں کی حیثیت ایک ایک کرکے دیکھیں ان پر وہی تشکیل دینے والے گروہ یا اشخاص ہی قابض ہیں یا پھر ایک شخص یا گروہ سے کوئی ادارے کسی اور کے ہاتھوں میں آیا ہے تو وہ ارتقائی سیاسی عمل کے ذریعے نہیں بلکہ انتہائی بھونڈے غیر سیاسی پینتروں کی وجہ سے آیا ہے ۔

اسکا مطلب یہ کہ جو اادارہ سازی ہوئی تھی وہ قوم کیلئے نہیں ہوئی تھی بلکہ ان گروہوں یا اشخاص کیلئے ہوئے تھے ، بالکل اسی طرح جیسے ایک ڈکٹیٹر اختیار میں آنے کے بعد جواز حاصل کرنے کیلئے پارٹی بناتا ہے اور الیکشنیں بھی کرواتا ہے اور ہر بار خود ” جمہوری“ طریقے سے کامیاب ہوکر سربراہ رہتا ہے ۔ ہمارے موجود تمام لیڈروں کو مثال کے طور پر لیکر دیکھیں اور بتائیں کے کون مائی کا لال انکے زندگی میں انہیں سربراہی سے فارغ کرسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو اپنے معروضی حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا اور ایک جامد صورتحال پیدا کی گئی تاکہ ان اشخاص یا گروہوں کا ” اسٹیٹس کُو “ قائم رہے۔

موجودہ اداروں کے حیثیت پر بہت بحث ہوسکتی ہے لیکن حقیقت پسندی سے کام لیکر دیکھیں تو یہ ایک مکمل حقیقت ہے موجودہ ادارے بحثیت ادارے ناکام ہوچکے ہیں ، غیر عسکری ادارے اپنا تعمیر و تشکیل قومی تقاضوں کے مطابق کرسکے اور نا ہی کوئی ٹھوس پروگرام دے سکے ، عسکری ادارے قومی جذبے کے تحت شامل سرمچاروں کے بدولت ” چلتے کا نام گاڈی “ کرتے رہے لیکن اپنے ادارہ جاتی حیثیت سے لوگوں کو سنبھالنے اور بروئے کار لانے سے قاصر رہے ، یہی وجہ ہے جب جب سختی جذبے پر حاوی ہوتا ہے تو پھر کیڈر تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتے ہیں ۔ اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمیں اب نئے اداروں کی ضرورت ہے اور اپنے اردگر د میں اکثر اس ضرورت پر باتیں ، مباحث اور قیاسات سنتا رہتا ہوں ، حتیٰ کے کئی جگہوں پر براہمدغ و اللہ نظر کے پیروکاروں سے بھی میں نئے اداروں کی تشکیل یا پھر موجودہ اداروں کی تشکیل نو کے بابت سنتا رہتاہوں، معٰذرت کے ساتھ ایک دوست کے ساتھ ایک مباحثے کا ذکر کروں کہ جب ادارہ سازی اور اداروں کی تشکیل نو پر اسکی باتیں سن کر مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا کہ ایک طالبعلم کو محض ” میرا بہترین دوست“ مضمون یاد تھا ، استاد اسے کسی بھی موضوع پر مضمون لکھنے کا کہتا تو وہ گھوم پھر کر اسے اپنے بہترین دوست سے جوڑ کر پھر وہی اپنا رٹا ہوا مضمون لکھ دیتا ، ایک دن استاد کو غصہ آیا تو اس نے کہا کہ تم جہاز میں بیٹھے ہو ، اڑ رہے ہو اور دور دور تک تمہارا بہترین دوست نہیں ہے اب تم اس جہاز کے سفر پر اپنا مضمون لکھو ، تو وہ طالبعلم لکھتا ہے کہ میں جہاز میں بیٹھ گیا ، مجھے کھڑکی والی نشست ملی تھی جب جہاز اڑا تو میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو مجھ دور سے اپنے بہترین دوست کا گھر نظر آیا اور پھر وہ طالبعلم دوبارہ اپنا رٹا ہوا مضمون ” میرا بہترین دوست“ لکھنے لگا ، اب مجھے لگتا ہے کہ کہیں نا کہیں ہماری حالت بھی ایسی ہے کہ جب اداروں کی بات کرتے ہیں تو جتنا گھما پھر ا لیں پھر بھی جاکر ” میرے بہترین دوست “ کی طرح ، اپنے اسی روایتی آزمودہ ڈھانچوں و سیاست میں پھنستے ہیں ۔

جہاں تک ادارہ سازی کی بات ہے تو چاہے وہ ادارے بالکل نئے ہوں یا پھر موجودہ اداروں کی از سر نو تشکیل ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ معاملہ جاکر صفر پر ہی کھڑا ہوکر آگے بڑھے گا۔ یعنی ایک بار پھر سے آغاز ، جب ہم دوبارہ ایک آغاز کی بات کرتے ہیں تو یہاں بہت سے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں کہ پھر وہ آغاز کیسے ہوگا؟ چلو ہم کوئی بیرونی ماڈل نہیں لیتے ہیں اور اپنے معروضی حالات کے مطابق تشکیل کرتے ہیں تو پھر ہمارے پاس اس تشکیل کیلئے کیا پیمانے ہیں ؟ جہاں تک میری محدود سمجھ ہے تو مجھے ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ اس تشکیل کیلئے ہمارے تجربات ہونگے وہ تجربات جو ہم نے حقیقی عمل سے ، اپنے زمین سے ، اپنے مسئلوں سے ، اپنے لوگوں سے حاصل کی ہیں اور ان سب کو مدنظر رکھنے کے بعد کچھ ایسے سوال اٹھتے ہیں کہ جن پر شدید غور و فکر کی ضرورت ہے ۔

ہمارے موجود اداروں کی بنیادی خرابی اسکے بنیادی اینٹ سے ہی پڑی ہے پھر یہ اینٹ کیسے درست ہو یعنی کسی ادارے کی بنیاد کس پر ہوگی ، یا جس کو بھی وہ بنیاد بنایا گیا اسکے بنیاد بنانے کا پیمانہ کیا ہوگا ؟ جو بنیاد رکھے گا اسکا ہی پیمانہ کیا ہوگا ؟ادارہ سازی نیچے سے اوپر کی طرف ہو یا پھر روایتی طور پر اوپر سے نیچے کی طرف ؟ ۔ظاھری سرگرمیوں کے بے تحاشہ نقصان کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو پھر کیا ظاھری سرگرمیوں کو مکمل ختم کرنا چاہیئے یا اس نقصان کو فطری جان کر جاری رکھنا چاہیئے ؟۔ اس پر یقینا زیادہ کی رائے مخفی سرگرمیاں اور مخفی ساخت ہوگا لیکن پھر اس مخفی پن میں جمہوریت کی چاشنی کو کیسے برقرار رکھا جائے ؟ کیا جمہوریت ضروری ہے یا حفاظت؟ جمہوریت و حفاظت میں سے کس کو اہمیت دی جائے ؟۔

اسکے ساتھ ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ بلوچستان میں پرامن جمہوری جدوجہد اب ناممکن ہوچکا ہے، دشمن کسی بھی ظاہر شخص کو ہر گز سیاسی کام کرنے کیلئے زندہ نہیں چھوڑے گا تو پھر کیا غیر عسکری ادارے کی ضرورت ہے؟ یا ہرحال میں خانہ پری کرنے کی خاطر ”پر امن جمہوری جدوجہد “ بے تحاشہ سروں کے قیمت پر بلا فائدہ جاری رہنا چاہیئے؟۔ اسی سے جڑا یہ سوال بھی میرے ذہن میں آتا ہے کہ بلوچستان میں تحریک صرف مسلح محاذ سے بندوق کے زور پر ہی آگے بڑھ سکتا ہے اسکے علاوہ باقی تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں اور اس پر جتنا بھی بحث کیا جائے نتیجہ یہی نکلے گا پھر ایسی صورتحال میں غیر عسکری ادارے کو عسکری محاذ کا کمک کار بن کر اسکے کام کیلئے پوشیدہ طور پر آسانیاں پیدا کرنا اور لوگوں سے رابطہ بنانا ہونا چاہیئے یا پھر جدا حیثیت سے اپنا کام کرنا چاہیئے؟۔

میں یہ بات اس لیئے کررہا ہوں کہ گذشتہ تجربات پر غور کرکے دیکھیں تو یہ تحریک مسلح محاذ سے شروع ہوا اور اسی کے زور پر آگے بڑھ رہا ہے ، غیر عسکری ادارے اسی محاذ کے طفیل بنے ، بڑھے ، پلے اور عوام میں پذیرائی حاصل کی ۔ مسلح محاذ نا ہوتا تو غیر مسلح محاذ میں یہ سکت بالکل نہیں کہ وہ اس تحریک کا بارگراں اپنے کندھوںپر اٹھا سکے یا دو قدم چلا سکے اور غور کرکے دیکھیں تو غیر مسلح محاذ سے تحریک کو نا کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے اور نا ہی یہ قابلِ ذکر حد تک آگے بڑھا ہے ، جتنا تھوڑا بہت اگر کامیاب ہوا ہے تو وہ مسلح محاذ کے طفیل ہی ہوا ہے لیکن اسکے برعکس ظاھر ہونے کی وجہ سے غیر مسلح ہونے کے باوجود ہمارے سیاسی غیر عسکر محاذ نے مسلح محاذ سے کئی گنا زیادہ نقصان اٹھایا ہے ۔ اگر انتہائی سادہ زبان میں بیان کی جائے تو غیر عسکری اداروں سے ہمیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ملا ہے اور ساتھ میں مسلح محاذ غیر مسلح محاذ کا محتاج نہیں لیکن غیر مسلح محاذ مسلح محاذ کا محتاج ہے ، ایک اور بات کا اضافہ کروں کے اگر غیر مسلح محاذ کو مخفی رکھا جائے اور کھلے عام سرگرمیاں نہیں کی جائیں تو اسکے جو کام رہ جاتے ہیں وہ مسلح اداروں سے بھی ہوسکتے ہیں ، اس سود و زیاں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے ذہن میں غیر مسلح سیاسی اداروں کے وجود پر گہرے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں ، اور غیر عسکری اداروں کو مقدس قرار دیکر ان پر بے حد زور دینا مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں اس خواہش کو غیر عسکری اداروں کے اس فطرت سے جوڑوں جہاں نام و شہرت زیادہ نصیب ہوتی ہے۔

یہ کہنے کے باوجود یہ سوال اٹھتا ہے کہ بہت سے ضروری غیر عسکری سیاسی کام جیسے کے لٹریچر ، میڈیا ، سفارت کاری کیسے سر انجام دیئے جاسکیں گے؟ تو پھر اسکے جواب میں میرے ذہن میں ایک سادہ سا جواب آتا ہے کہ یہ تمام کام مسلح ادارے کے ذیل ہوسکتے ہیں تو پھر اس کیلئے جدا غیر عسکری اداروں کی کیا ضرورت؟۔ ہوسکتا ہے کہ پر امن جمہوری سیاسی اداروں کے عدم وجود پر میر ا ایقان متنازعہ لگے، اور آپ کے ذہن میں دوبارہ ادارے کے پرانی تقریریں گھومنے لگیں کہ آزادی خواہ ڈاکٹروں ، طلبہ ، خواتین ، کسانوں کی الگ الگ تنظیمیں پھر سب کا مل کر پارٹی بننا اور آزادی کے بعد اسی پارٹی کا گورنمنٹ بن جانا لیکن پھر تصوراتی اداروں کے خواب سے باہر نکل کر سوچیں کہ کیا بلوچستان کے حالات دیکھ آپ کو یہ ممکن لگتا ہے جہاں پرامن جمہوری جدوجہد کے پاداش میں پندرہ سالہ بالاچ وحید کی باہیں کاٹ کر اسکی لاش پھینکی جاتی ہے، اور اپنے مسلح جدوجہد کے اس واحد حقیقی دلیل کے اوپر غور کریں کہ ” پاکستان میں پر امن جمہوری جدوجہد ناممکن ہے اس لیئے بلوچ نے اسلحہ اٹھایا ہے“۔

میں یہاں کوئی حتمی رائے قائم کیئے بغیر موجودہ اداروں کی وقعت و حیثیت ، اداروں کی تشکیل نو کی ضرورت اور اس تشکیل نو سے منسلک پیچیدگیوں پر سوال اٹھانا چاہتا ہوں تاکہ معاملات واضح ہوں ۔

٭_اختتامیہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ تحریک مسائل سے دوچار ہے اور یہ مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں ، مزید پیچیدہ ہورہے ہیں۔ کوئی اس تحریک کو ناکام ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا ، کوئی شہیدوں کے خون کو ضائع ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا ۔ حل کی کوششیں ہوتی ہیں نئے طریقے ، حکمت عملیاں ترتیب دی جاتی ہیں لیکن پھر سے ناکام ہوکر نقصان اٹھاتے ہیں وجہ کیا ہے ؟۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم اپنے نظریات ، شخصیات ، اداروں اور تحریک کو جس نظر سے دیکھ رہے ہیں ، ہم اپنے مسئلو ں کو جس نظر سے دیکھ رہے ہیں ، اپنے ان مسئلوں کے حل کو جس نظر سے دیکھ رہے ہیں، اس حل کیلئے حکمت عملیوں کو جس نظر سے دیکھ رہے ہیں ، وہ نظر ہی غلط ہے ؟۔ شاید سنگتراش جس نظر سے چٹان کو دیکھ کر اس سے مورت بنا کر اس مورت کو انمول بنانے کی کوششوں میں فضول پتھروں کو نظر انداز کرکے کاٹ کر پھینک رہا ہے وہی فضولیات ہی اہم ہوں ، اگر اسی چٹان کو ہم کسی ماہر ارضیات کی نظر سے دیکھیں گے تو ہمیں نتیجے بالکل ہی مختلف ملیں گے ۔ وہی چٹان ماہر ارضیات کی نظر سے دیکھنے سے اہم بن جائے اور اس سے فضول قرار دیکر الگ کیئے گئے پتھروں میں اسے متحجر ” فوسلز“ مل جائیں ،جس سے زندگی کے راز معلوم ہوں جو اس مورت سے کئی گنا زیادہ انمول اور مقدس ہوں ۔ بات صرف دیکھنے کی نظر میں فرق سے ہے شاید ہمیں اس فرق کی اشد ضرورت ہے ، شاید پھر فضول باتیں ، فضول نا رہیں ۔