سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeآرٹیکلزفطری اور حادثاتی لیڈرشپ بلوچ ماضی حال اور مسقبل کے آئینہ میں...

فطری اور حادثاتی لیڈرشپ بلوچ ماضی حال اور مسقبل کے آئینہ میں تحریر رستم بلوچ

حادثاتی لیڈر اور قومی نیچرل ،فطری لیڈر میں فرق ہوتا ہے ،حادثاتی لیڈر بحران اور سیاسی افراتفری کے ماحول سے ابھر کر ہر چیز کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں انکی نیچر اور فطرت کنٹرول کرنے کا ہوتا ہے ۔انکی نیت ،عزم،اور ارادہ قومی پروگرام ،عوامی جزبات،احساسات،کو اسباب اور تدبیر بناکر اپنا ذاتی ٹارگٹ حاصل کرنا ہوتا ہے ۔یہ معصومیت،ایمانداری،قوم پرستی ،انقلابی،قومی آزادی کے چمپین ہونے کا نقاب لگا کر اپنا عزائم حاصل کرتے ہیں ،انکے نقاب کے پیچھے چھپی اصلیت اس وقت ظاہر ہوتی ہے کہ جب انھیں کوئی معمولی سا موقع اور اختیارات ملے ،اسی لیے کہتے ہیں کہ ہر انسان کو اگر آزمانہ چاہتے ہو تو اسے توڈا اختیارات اور موقع دو تو وہ شخص اپنی اصل حیثیت خود ظاہر کرے گا ۔یہ لیڈر شہرت ،نمود نمائش ،زاتی مفادات اور اپنی ذاتی قد وکاٹ قومی پروگرام کی آڑ میں آگئے لے جاتے ہیں ،انکی پہچان کے لیے بھی کچھ آثار مرض اور علامت مرض ہیں ،پہلے یہ اپنے نام کو ہر حال میں مقدم سمجھتے ہیں ،انکی کوشش ہوتی ہے کہ قومی پروگرام میں یہ جذب ہونے کے بجائے انکی الگ جداگانہ شناخت ہو سارے ادارے کو پروجیکٹ کرنے کے بجائے یہ اپنی ذات اور شخصیت کو نکارنے ، سنوارنے اور رنگ و روغن کرنے لگتے ہیں ،اور یہ آہستہ آہستہ اس طرح کی تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو سارا کام ہورہا ہے ، ادارہ اور قومی پراگرام کی چھت انکے کندھوں پر کھڑا ہے اگر اسے کچھ ہوا تو ادارہ اور قومی پروگرام کی چھت گرجائے گی ،دوسرا یہ لوگ صلاحیت ،قابلیت ،لیاقت،جوہر کے حامل افراد کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے انکو اپنے راستے کا کانٹا خیال کرتے ہوئے انھیں پروگرام سے کسی نہ کسی طرح دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ جو صلا حیت ا ہلیت ،قابلیت،اور جوہر کا حامل شخص ہو وہ چاپلوسی نہیں کرتا ہے اور اسکی سوچ قومی پروگرام کو مضبوط اور منظم کرنا ہوتا ہے ،جب ایسے شخص ا دارے قومی پروگرام کی مضبوطی چاہتا ہو تو ایسے لوگوں کے طریقہ سوچ فکر حادثاتی لیڈر کی سوچ ،فکر اور پروگرام سے متصادم ہونے لگتا ہے اسکے خلاف پھر اپنی لیڈری ،شہرت،نمود نمائش،مفادت،کی محل کو زمین بوس ہوتے دیکر وہ سازشوں کا جھال بھونے لگتے ہیں ،اسے پھر کسی نہ کسی طرح خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر اسکی کمنٹمنٹ کمزور ہے تو ایسے بہت سے ایماندار ،سچے ،خلوص کے حامل لوگ پھر مایوسی کا شکار ہوکر جہد کو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڈ دیتے ہیں کہ جو بعد میں قوم ،قومی پروگرام،مقصد،کے لیے تخویف بن جاتے ہیں ،پھر اس خوف اور بھلا سے جان چھڑانے کے لیے نئے رکشک اور فریاد رس کی تلاش شروع کی جاتی ہے اور حادثاتی لیڈر کا یہ سلسہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک تشخیص کرتے ہوئے مرض کی طے تک نہ جاتے ہوئے اصل وجوہات معلوم نہیں کئے جاتے ہیں ،کیونکہ تمام انسانوں کی نیچر ہے کہ وہ شہرت ،روب دبدہ،ذاتی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور اگر کوئی سٹم نظام ایسا نہ ہو کہ جو انکو روک سکے تو انسان اپنی فطرت کے مطابق اپنی ذاتی نمود نمائش اور شوشہ کی تشنگی کو تنظیم اور پروگرام کی جوس سے بجانے کی کوشش کریگا۔عموما ایسے لیڈر کی دوسری سب سے بڈی نشانی یہ ہوتی ہے انکی پر نکلتے ہی وہ دوسروں کو قابو کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں اور وہ لوگوں اور اپنے حمایتوں کو متاثر کرنے کے بجائے کنٹرول کرنے کے لیے ہر ہربہ استعمال کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں ،دھونس دھمکی سازش ،لالچ،بلیک میلنگ جسے ذریعے بھی عمل میں لاتے ہیں ،اور اسے حادثاتی لیڈروں کا معیاد اور سماں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ہے ،کیونکہ ایسے بناوٹی اور مصنوی لیڈر کی رنگ و روغن اور بناوٹ بہت جلدی اترنے لگکتا ہے ۔کیونکہ جھوٹ ،فریب ،دھوکہ،اور مصنوی طریقہ سے چہرے کی سرجری سے انکی شکل اور صورت کی پہچان ہو سکتا ہے مشکل ہولیکن انکا کردار الفاظ قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک لوگوں کی نظرون سے اوجھل نہیں ہو سکتا ہے ،جب ایسے لوگوں کی مکمل جانچ ہو اس وقت یہ لوگ قوم کا بہت زیادہ نقصان کر چکے ہونگے ،اسی لیے زیادہ تر لوگ علم کی روشنی میں تحقیق اور قول فعل عمل سے لیکر ہر چیز کا باریک بینی سے معائنہ کرکے لیڈر کا چناو کرتے ہیں جبکہ دوسرا نیچرل اور فطری لیڈر شپ ہوتا ہے اسکی سب سے بڈی خوبصورتی اسکی دور اندیشی ،ثابت قدمی،قول و فعل میں ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ،وہ ایک نسل سے دوسری نسل کے لیے سوچنے والا ہوتا ہے ۔وہ کرشماتی لیڈر ہوتا ہے بقول ایک دانشور کے کہ کرشمہ روح کی مہک اور خوشبو ہے اور ارنولڈ ایچ گلاسو نے کہا کہ اچھا لیڈر وہ ہے جو ناکامیابی اور الزام میں اپنے حصہ سے زیادہ لیتا ہے اورکریڈیٹ کے وقت اپنے حصہ سے کم لیتا ہے وہ ناکامی بھی تسلیم کرتا ہے اور دوش دوسروں کو دینے کے بجائے زیادہ خود لیتا ہے بینس کہتا ہے کہ لیڈر شپ کی سب سے بڈی خاصیت اور پیمانہ یہ ہے کہ وہ وژن کو حقیقت میں تبدیل کرتا ہے مارٹن لوتھر کنگ کہتا ہے کہ بہترن لیڈر مطابقت تلاش کرنے والا نہیں بلکہ مطابقت سانچے میں ڈالنے والا ہوتا ہے روزویلٹ نے کہا کہ لوگ ہمیشہ لیڈر اوربوس کے فرق کے بارے میں پوچھتے ہیں لیڈر رہنمائی اور رہبری کرتا ہے جبکہ بوس حکم چلاتا ہے وہ چلانے والا ہوتا ہے جنرل جورج ایس پیٹن نے لکھا ہے کہ لوگون کو کھبی بھی نہیں کہنا کہ کسے کام کرنا ہے انھین کہنا کہ کیا کرنا ہے وہ اپ کو اپنی کاریگری اور تیزفیمی سے خود حیران کرین گے اور اچھے لیڈر صلاحیت کی قدر کرتے ہوئے ایسی طرح باصلاحیت اور لائق اور قابل لوگون کو موقع دیکر انکی کاریگری اور تیزفیمی کو قوم اور وطن اور قومی کاز کی خاطر استعمال کرے گا آمریکی صدر آئزن ہاور نے کہا کہ تم لوگون کے سر کو چھوٹ لگانے سے لیڈر نہیں بن سکتے ہو وہ چڈھائی اور دھاوا ہے لیڈرشپ نہیں اامریکی دوسرے صدر ابریم لنکن نے کہا کہ تقریبا تمام لوگ بدبخت اور کم بخت ہوتے ہیں لیکن اگر اپ کسی کے کردار کو پرکھنا چاہتے ہیں تو ا نھیں اختیار دو وہ خود اپنی پوزیشن واضح کریں گے ۔لیڈرشپ کی کچھ وصف ،خصلت،اور خوبیان ہوتی ہیں و ہ وژن کو منتقل کرتاہے اور وژن کو عملی صورت میں تبدیل کرتا ہے ،وہ دور اندیش ہوتا ہے،وہ منتظم اور مدبر ہوتا ہے ،اسٹیٹ مین ہوتا ہے اسکی نظر دور تک دیکھتا ہے ،وہ مستعد لائق اور قابل ہوتا ہے،وہ ایماندار اور مخلص ہوتا ہے اسکی سوچ فکر کا محور اسکی مشن کی کامیابی ہوتا ہے ،وہ لوگون کواختیار و طاقت دیکر قابل و لائق بناتا ہے ،وہ لوگون میں روحانی تاثیر پیدا کرتا ہے ،وہ اپنے اعمال کردار اور کارکردگی سے مثال قائم کرتا ہے ،اور وہ تبدیلی لاتا ہے وہ قوم کی نا امیدی کو امید اور تکلیف مشکلات،مصائب کو ارام ،خوشحالی سکون میں تبدیل کرتا ہے اور قومی غلامی کو قومی آزادی میں تبدیل کرتا ہے تاریخ میں ایسے لیڈروں کو سیاسی مدبر ،کرشماتی ،اور وژنری لیڈر کہا جاتا ہے جو اپنے قوم کے رکشک ،محافظ سرپرست ،منتظم ملک بن جاتے ہیں اور یہ تاریخ مین اپنی قوم کی طرف آنے والی مست موجون کا رخ موڈ دیتے ہیں دنیا کی تاریخ میں ایسے لیڈر قوموں کی تاریخ پلٹنے والے ہوتے ہیں جسے کہ جارج واشنگٹن ،جیولیس نیرے رے ،جموکنیتا ،شنانا گوزماوُگاندھی ،ہوچی منہ نے اپنی قوم کو غلامی کی تاریک سیاہ رات سے نکال کر ایک نئی آزادی اور خوشحالی کی صبح دی ۔بلوچستان میں شروع سے خان عبد ا للا خان قاہار اور نصیر خان نوری جسے دو لیڈر آئے کہ جنھون نے قوم کی سرحدون کی صیح معنون میں دفاع کرتے ہوئے سسرزمین کی خاک سے وفا کرکے لیڈر شپ کے مرتبہ پر فائز ہونے کا شرف حاصل کر چکے ہیں ،پھر انگریز اسکے بعد پاکستان کی قبضہ کے دوران یہاں بہت سے لیڈر آئے دعوی لیڈری کا کیا ،بڈی بڈی باتین کی ،سادہ لوع قوم کو ورغلایا ،قربانی بھی مانگ لی لیڈرون نے اتنا پسینہ نہ بہایا کہ قوم کے فرزندون نے انکے نعرے کے لیے اتنا خون بہا یا لیکن قوم کے سپوتون کی خون ان لیڈرون نے اسلام آباد کی منڈیو ں میں سینٹ ،ناظم ،کونسلر کی سیٹ ،اور کلرک ،اور معمولی سی مراعات کی خاطر کوڈی اور خرمہرہ کے بہاوُ فروخت کیا ،جس میں ایوب جتک ،مالک ،حئی،ثنا،کہور ،یسین،خیرجان ،وغیرہ ایسی تقریریں ،دوعوی ا ور بھڑک بازی کیا کرتے تھے کہ بھگت سنگھ ،جیولیس فیوچک کی روح بھی کانپ اٹھتا تھاایسے لگتا تھا کہ یہ بلوچستان کو آزاد کروا لین گے مگر سب دیکھاوُ کے صرف سیاست دان تھے جو بعد میں ساست دان تو بن گئے لیکن لیڈر نہ بن سکے ،اندر سے کچھ اور عزائم رکھتے تھے اور دیکھاوُ کے لیے اپنی بھڑک بازی ،شوشہ ،نمود نمائش سے کچھ وقت کے لیے کچھ مخلص ایماندار لوگون کو اپنی جادوگیری کی سحر میں مبتلا تو کیا لیکن بعد میں اپنی اصل پوزیشن میں آگئے ،۔اپنی اصل پوزیشن میں آتے آتے قوم کی ۱۵ سال مالک اور حئی نے ضائع کئے ایک نسل انکی بھڑک بازی ،جھوٹ،فریب ،منافقت،دھوکہ،اور جادو کی لالٹین کی وجہ سے تباہ ہوا اور یہ لوگ خود قابض کی نمک حلالی کرتے کرتے سرزمین کی مٹھی پلید کرتے ہوئے بلوچ قوم کے نمک حرام بن گئے ،۲۰سال قوم کے خیرجان ،ایوب جتک ،نے اپنی دھوکہ فریب اور بھڑک بازی کی بانسری بجاتے بجاتے برباد کئے ،عطااللا مینگل ،غوث بخش بزنجو،گل خان نصیر،نے بھی ۱۵ سے ۲۰ سال قوم کے بے فائدہ جنجال میں ضائع کئے ،اس تمام دورانیہ میں قابض اپنی شیطانی حربوں کو عملی جامہ پناتے ہوئے قوم کا استصال کرتا رہا انکے تمام وسائل کی لوٹ مار وحشی درندے کی طرح کرتا رہا ۔اب جب نئی تحریک شروع ہوئی اسکا کریڈیٹ حیر بیار مری کو جاتا ہے کہ اس نے اس جدوجہد کی داغ بیل ڈلال دی ہے ،اسنے اس بار ماضی کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے جہد کا دائرہ اور احاطہ کوہلو کاہاں سے نکال کر اسے پورے بلوچستان میں پھیلایا اور حیر بیار مری نے اصل مدبر لیڈر کی طرح اختیارات اور پاور سب کو دیا ۔ قمبر ،ماسٹر سلیم اور ڈاکٹر نظر کو مکران میں مکمل اختیار دیا ،برہمدگ کو بھی اسی طرح اختیار دیا کہ وہ جہد کی خاطر کام کریں سیاسی حوالے سے بھی غلام ممد کی مکمل حمایت کی اسے بی این ایم کی لیڈر شپ کی حثیت سے مکمل سپورٹ کیا ۔ حیر بیار مری میں ایک چیز واضع ہے کہ وہ کنٹرول نہیں کرتا ہے بلکہ دوسرون کو موقع دیتا رہا کہ وہ قومی جہد کی خاطر کام کرین لیکن اس کے برعکس وہ لوگ لیڈر بنے کے بجائے بوس بن کر ابھرے سب کو کنٹرول کرنے لگے بی این ایم کو ڈاکٹر نے کنٹرول کیا ،غلام ممد کے ساتھ جو کچھ ہوا پھر اسکی شہادت کے بعد سارے بی این ایم پر مکمل کنٹرول کیا گیا ،پھر بی ایس او پھر قبضہ کیا گیا کیونکہ ڈاکٹر نظر کی نیچر کنٹرول کرنے کی ہے اور اسنے اپنے تمام اچھے اور اختلافات رکھنے والے لوگون کو نکالنا اور سائیڈ لائن کرنا شروع کیا اور چند چاپلوس لوگون تک خود کو مدود کیا ،جو لوگ جی حضوری کرتے تھے انکو آگئے لایا گیا جبکہ ماسٹر سلیم عصا ظفر دلیپ شکاری ،قمبر قاضی جسے لوگون کو انکی تنقید اور سوال کرنے کی وجہ سے باہر کیا گیا ،برہمدگ نے بھی بلکل اسی طرح قومی تحریک میں اپنی الگ ایک نظام بنانا شروع کیا جو لوگ اسکے ذات ا قدوس کے ساتھ بادشاہ اور شہزادون کی طرح مخلص تھے انھین عہدے اور اختیارات دینا شروع کیا جو مخالف اور تنقید کیا کر تھے ان سب کو ایک ایک کرکے سائیڈ لائن کیا گیا کیونکہ ان سب کی فطرت بوس والی تھی اور یہ سب لوگ بوس کی طرح کنٹرول کرکے اپنی سیاست چلانا چاہتے تھے اور آج تک بھی ایسی طرح بوس بن کر اپنے سب ممبران اور ورکروں کو آندھے ،بے زبان اوربہرے سمجھ کر حکم چلا رئے ہیں ،جو کوئی �آواز اٹھاتا ہے اسکی آواز بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،حیربیار باقی لیڈر شپ کی طرح کنٹرول کرنے کے بجائے متاثر کرنے والا ہے بقول ایک دوست کہ جو کوئی اس سے ایک بار ملتا ہے تو اسکے کردار عمل اور طریقہ سے ضرور متا ثر ہوتا ہے اس نے آج تک کسی کے ساتھ سختی نہیں کیا ہے اور اسنے زیادہ تر لوگون کو موقع اور اختیارات دیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتون کو بھروکار لاہین اسلئے اس کے ساتھ اس وقت سب سے زیادہ علمی ، سیاسی اور فکری دوست موجود ہیں ،دوسری طرف بی ایل ایف اور بی این ایم میں بھی کسی حد تک سیاسی اور تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں مگر وہ اپنی گروئی سوچ اور غیر زمداری کی وجہ سے بہتر نتیجہ نہیں دے پا رے ہیں اگر یہ اپنی سوچ ،فکر اور طریقہ کار میں تبدیلی لائین اور تنگ نظری سے نکلیں تو یہ قومی جہد کے لیے بہتر رزلٹ دے سکتے ہیں ،حیربیار نے قومی وژن کو حقیقت میں تبدیل کیا حلانکہ اس وقت سب پاکستانی نالی اور نلکے کی سیاست میں الجھے ہوئے تھے ،پاکستان کا قومی ترانہ ہم سب پڈ رے تھے ،جناح کو اپنا ہیرو سمجھ رہے تھے لیکن حیر بیار نے اس سیاسی منظر نامہ کو یکدم تبدیل کیا اور جہد کا رخ موڈ دیا ،قومی وژن کو حقیقت کا روپ دیا ،اسکی سوچ فکر کی وجہ سے قومی جہد کی بازگشت بلوچستان کے سنگلاغ چھٹانوں سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا ،برہمدگ ،ڈاکٹر نظر میں سیاست دان کی طرح پارٹی چلانے کا ہنر ہربہ اور صلاحیت ہے لیکن قومی حوالے سے ان میں سیاسی مدبری کا فقدان ہے ۔برہمدگ میں توڈا کچھ دور اندیشی ڈاکٹر نظر کی نسبت ہے لیکن پارٹی بازی اور گرویت کا دونوں شکار ہیں ، قومی ماملہ لیڈر کے بجائے سیاست دان بن کر ، چلا رے ہیں ،جبکہ ان کے برعکس حیر بیار مری قومی جہد کو مدبر لیڈر کی طرح آگئے لے جا رے ہیں ہان اس میں کمزوری ہوگی مگر وہ قومی مفادات اور قومی جہد میں تعین رخ اور منزل کی نسبت اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہے ،وہ ساز باز سیاست دان کے بجائے قومی لیڈر ہے کیونکہ غلام قوموں کی سیاست دان نہیں سیاسی مدبر اور طلسماتی شخصیت قوم آواز بن کر طبل جنگ بجاتی ہے پھر پوری قوم کی آواز انکی آواز کے ساتھ شامل ہوکر گونج اٹھتی ہے اور اس گونج سے قابض کی در و دیواریں ہل جاتی ہیں اور وہ اپنی قوم کو آزاد کرنے والے بن جاتے ہیں جسے کہ نکروما ،جس نے پیلے سیاہ فام آفریکی ملک گھانا کو قبضہ گیریت سے آزاد کرواکر باقیوں کے لیے راستہ ہموار کیا،امریکہ کے چار ہیروز جارج واشنگٹن ،تامس جعفرسن ،جاں آدم،بین جامن فرینکلن ،جنھوں نے اپنی مٹی کا قرض چھکا کر اپنی غلام قوم کو آزاد کرواکر دنیا کا سپرپاور بنا نے کے لیے بھی پیشگی تدبیر کاری کی ،سام نوجوما جس نے نمبیا کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلایا ،سام نو جوما دولت ،رتبہ اور شہرت کے لحاظ سے مسکین وغریب کے ساتھ ساتھ کم لیول کا تھا مگر قومی آزادی کی جہد میں اسکی ہمت ، جرت ثابت قدمی ،لگن ،جہدپر رخ بندی نے ایسے باقی دولت مندوں ،کی نسبت بہت زیادہ قوم کی نظروں میں اُنچا رکھا اور اسکی صحیح اور واضح سمت کے تعین نے نمبیا کو غلامی کی قہر و عزاب سے نکال کر آزادی کی شاہرہ پر کامزن کیا ، ،اسماعیل کمالی جس نے البانیہ کی ۵۰۰ سال کی تاریخی غلامی کے باب کو ختم کرکے ایسے آزاد قوموں کی صف میں شا مل کیا یہ سام نو جوما کی طرح غریب نہیں بلکہ اعلی حیثیت کے مالک اور اعلی طبقہ سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنی ذاتی محنت لگن فکر اور سوچ سے خود کو منوایا اور قوم کا لیڈر بن کر قومی کاروان کو منزل تک پنچایا ،یہ قابض کے شروع میں مختلف عہدوں میں رہا اور قابض کی نفسیات مکمل طور پر سمجھ کر پھر اسکے خلاف اسی انداز میں کام کرتا رہا ، ان لیڈران سے ایک چیز واضح ہے کہ قومی آزادی کی جہد اور انقلاب میں توڈا فرق ہے اور بہت سے جہد میں یہ گڈ مڈ کئے جاتے ہیں تو وہان جہد کا محور تبدیل ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہو جاتے ہیں قومی آزادی پوری قوم کے لیے لیا جاتا ہے اور یہ ایک قوم کا دوسری بالادست اور قابض قوم کے خلاف جنگ ،جہد ہوتا ہے جس میں غریب ،آمیر سردار ،نواب ،بزگر مزدور سب شامل ہوتے ہیں جیسا کہ کنیا ،گھیانا ،البانیہ ،آمریکہ ،ویتنام، انڈیا ،وغیرہ میں ہوا ،جہان تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی شمولیت تھی لیکن لیڈرشپ وہان قابلیت ،صلاحیت ،حکمت عملی ،جرت، ہنر ،دوراندیشی ،فکر ، کی بنیاد پر ابھر کر سامنے آئے ۔جبکہ انقلاب تبدیلی کا نام ہے جو کسی ملک کے اندر سے آتا ہے اور اس میں بنیادی وجہ بھوک ،غربت ،نا برابری ،اورملک کی معیشت کے زوال پزیر ہو جانے کی صورت میں یہ ا نقلاب آتا ہے ،بھوک کے ننگے بدن لوگ اشرافیہ کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کر کے یہ تبدیلی اور انقلاب لاتے ہیں جس کی بہترین مثال فرانس ،روس، چین، کیوبا، ایران ،مصر ،سنٹرل ایشا کی اورنج ،گرین ،انقلاب ہیں یہاں ایک طبقہ دوسرے طبقہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے ،ایک طبقہ دوسرے بالادست طبقہ کے خلاف اٹھتے ہیں جبکہ قومی آزادی کی تحریک اس سے یکسر مختلف ہوتا ہے ۔اب بلوچ قومی تحریک پوری قوم کے لیے لڑا جارہا ہے اور اس میں پوری قوم کی شمولیت لازمی ہے اور قوم میں سردار ،نواب ،امیر غریب ،تعلیم یافتہ ،بے تعلیم ،بھوکے ،اور خوشحال سب شامل ہوکر صرف اور صرف پنجابی قابض کے خلاف جہد کر رے ہیں ،یہان لیڈر البانیہ کی طرح اعلی ذات کے سردار ،نواب ،بھی ہوسکتا ہے ،اور نمبیا کی طرح غریب مسکین بھی قومی جہد میں لیڈر ہو سکتا ہے ،لیکن ایک چیز ضروری ہے کہ وہ مدبر لیڈر شپ کی کوالٹی اور معیار پر اترتا ہو کیا قومی لیڈرشپ کی خوبی اور خصوصیت جنکا زکر ہوا ایک بھی ڈاکٹر نظر اور برہمدگ میں ہے اگر ہے تو وہ بلکل قوم کا لیڈر بن کر پوری قوم کی رہنماہی کریں لیکن ان میں زیادہ لیڈر شپ کی کوالٹی ،کمال جوہر،اور خوبی حیر بیار مری میں ہیں ،اور لازمی بھی نہیں کہ قوم کے سارے لوگوں میں یہ کوالٹی ہوں اور وہ مدبر لیڈر بھی ہو کیونکہ قوم میں بہت کم لوگوں میں یہ لیڈری کے جوہر اور کوالٹی ہوتے ہیں کیونکہ سارے نمبیا میں صرف ایک نکلا ویت نام میں دو نکلے امریکہ میں چار لیڈر نکلے ،مشرقی تعمور میں صرف ایک لیڈر نکلا ،بلوچستان میں ایک یا دو قومی لیڈر ہی کافی ہیں باقی حادثاتی لیڈر تو بلوچستان میں پاکستانی قبضہ سے لیکر اب تک ۸۰ سے زیادہ آ ئے مگر وہ موسمی سیاست دان تھے اور موسم کے چلے جانے کے بعد سب برساتی مینڈک کی طرح بلوچستان کی سیاسی منظر نامہ سے غائب ہوئے ،اب بھی فصلی اورحادثاتی لیڈروں کی بلوچستان میں بھر مار ہے لیکن یہ بھی زیادہ دیر تک بلوچ سیاسی افق میں مصنوعی انداز میں نہیں چل سکتے ہیں ،زمران بھی سیاسی افق پر ایک حادثاتی لیڈر کی طرح نمودار ہوا ہے ،اس میں لیڈری اور سیاست دان دونون کی ہنر نہیں ہے اور یہ اپنی سرداری اور دوکانداری چلانے کے لیے لیڈر بنا ہوا ہے ،ہماری قومی المیہ بھی ہے کہ ہمین قومی لیڈرشپ بھی ورراثت میں ملتے ہیں جس طرح کے بادشاہون کے والی وارث انکے بچے بنتے ہیں اور انکی موت کے بعد بادشاہ بنتے ہیں جیسا کہ بابر کے بعد اسکا بیٹا ہمایون اسکا جانشین بن گیا شیر شاہ کا وارث اسکا بیٹا اسلام شاہ ہو تا ہے اکبر کا ولی عہد جہانگیر ہوتا ہے ،ایسی طرح بلوچستان کی قومی سیاست میں یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے کہ مہران نواب مری کا جانشین ہے گزین چنگیز نواب مری کے بیٹے تو اسکی سیاست کے وارث ،آختر ،جاوید ،عطاللا کی سیاست کا والی وارث ، نور الدین جاوید کا بیٹا تو وہ اسکا جانشین حاصل خان ،بزن بزنجو جیسا شرابی بے ہوش ،غوث بخش بزنجو کے جانشین ،عالی ،طلال،شازین ،نواب بگٹی کے والی وارث ،ہر ایک قومی جہد میں پند ،قربانی ،اپنی لگن ،صلاحیت ،قابلیت کی بنیاد پر لیڈر بنے کے بجائے شہزادون کی طرح وراثتی لیڈر بن چکے ہیں مہران جسے وراثتی لیڈر قوم اور جہد کو کسی منزل پر نہیں لے جا سکتے ہیں ۔یہ جانشین لیڈر آزاد عرب ممالک اور برونائی جسے ملک میں لیڈری کر سکتے ہیں جو خوشحال ہیں جہان تکلیف ،صلاحیت ، ہنر،حکمت عملی جسے چیزون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن بلوچ قوم جسے محکوم قوم کی لیڈر اور وہ بھی وراثتی ایک مزاق سے کم نہیں ہے ،بی این ایم ،بی ایل ایف ،بی ایس او جسے اداروں ااور کیڈر کے دعوی دار اور اداروں کا رٹا لکانے والوں کی حادثاتی ، مورثی اور وراثتی لیڈروں کے کمان میں جہد بھی تاریخ کے سیاہ باب میں ایک اور اضافہ سے کم تر نہیں ہوگا ،ہان قبائلیت اور وراثتی کو گڈمڈ نہ کیا جائے اس وقت ہم محکوم ہین اور نیشنلزم کے تحت قبائلی سردار اگر قومی سوچ رکھتا ہے وہ لیڈر بن سکتا ہے اور قوم کی بہترین رہشونی بھی کر سکتا ہے جس طرح کہ جموکنیتا نے کنیا میں کیا وہ قبائلی سردار بھی تھا اور قومی رہشون بھی تھا باقی بہت سے قومی تحریکون میں بھی ہوا ہے لیکن وہ اپنی قابلیت سکت،ہمت ،دلیری ،سے لیڈر بن گئے ،ہمارے لیڈروں کی طرح جانشینی سے لیڈر نہیں بنے ۔اب بلوچ قو می تحریک کو منزل تک ایک کرشماتی اور مدبر لیڈر لئے جاسکتا ہے اور قوم ،لوگ رہزن کو رہبر نہ مانے ورنہ ماضی کی طرح قوم کے مزید ۰ ۲ سال ضائع ہو سکتے ہیں اور اس دفع قومی شناخت کا مسلہ ہے اور قومی شناخت مکمل خطرے میں ہے اور اگر اس بار قوم یا کہ جہدکاروں
نے غلطی کی تو تاریخ کا بے رحم سیلاب بلوچ قوم کی وجود کو تہس نہس اور مسمار کر کے لے جائے گا

یہ بھی پڑھیں

فیچرز