شروع سے لیکر آج تک فلسطینی تحریک کو عالمی سطح پر معقول معاشی اور اخلاقی حمایت حاصل رہی ہے اسے عالمی میڈیا کی 75 فیصد کا توجہ بھی حاصل ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر کوئی معاشی اور اخلاقی سپورٹ حاصل ہے اور نا ہی عالمی میڈیا کی کوئی ایسی کوریج جہاں سنتےہی کسی کے کان کھڑے ہوجائیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں فلسطین کو لفٹ بلاک کی بھرپور حمایت حاصل تھی، اور اب بھی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے کی لفٹ بلاک میں جنوبی افریقہ کی اے این سی اور پی ایل او کو یکساں نمائندگی حاصل تھی۔ آج پرانے تعلقات کے بنیاد پر اے این سی کی ساؤتھ افریقہ عالمی عدالت میں فلسطین کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بی ایس او کی 1987 کونسل سیشن میں فلسطینی طلباء تنظیم کے نمائندے بھی شریک تھے جہاں بلوچستان یونیورسٹی کے جلسے میں بلوچ تحریک کی حمایت میں پی ایل او کی پیغام کو سنایا گیا۔ اس کونسل سیشن میں ایرانی زیرقبضہ بلوچستان سے کثیر تعداد میں بلوچ طلباء نمائندے بھی شامل تھے۔ مگر بدبختی سے تقسیم درتقسیم کی سیاست نے اس نوخیز طلباء تحریک کی نمو کو ختم کیا گیا۔

پھر اسی زمانے میں بلوچ قومی تحریک کی کچھ سیاسی نمائندے اور بعد میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس مخمصے میں سوچ رہے تھے کہ آیا پاکستان کی وفاقی سیٹ اپ میں کوئی حل ڈھونڈا جائے تاکہ صوبائی خودمختاری مل جائے اور پھر ایک جنریشن کی تعلیم یافتہ سیاسی قیادت حق خود ارادیت جیسے نظریہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر بنیاد بنا کر پاکستانی سیاست کے کرپشن کے جلوؤں میں ایسا دھنس گیا پھر واپس لوٹ آنے کا راستہ بھی بھول گئے۔ 1988 میں پاکستانی پارلیمنٹ میں جانےسے پہلے عوام کو یقین دلایا گیا کہ وہ جہدوجھد کے پارلیمانی راستے کو بھی آزمائیں گے، اگر کچھ نہ ہوا تو پھر واپس عوام کے پاس لوٹ آئیں گے! جبکہ فلسطینی عوام ایک باوقار سیاسی قیادت کے تحت اپنی جداگانہ تشخص آزاد فلسطین کی غیرمتزلزل مطالبے پر ہمیشہ ڈٹے رہے ہیں۔ مطالبے اور جھد کے لحاظ سے وہ آج تک اپنی پہلی والی پوزیشن یعنی مکمل فلسطینی جغرافیائی وجود کے کل کو لیکر دلجمعی کے ساتھ کھڑے قربانیاں دے رہے ہیں۔ فلسطینی قومی تحریک 9/11 سے پہلے مشترکہ طور پر مختلف سیاسی اور عسکری حربوں کو استعمال لاکر بہت کچھ حاصل کر چکا ہے۔ 6220 مربع کیلومیٹر پر مشتمل فلسطینی جغرافیہ کے وہ علاقے ہیں جن پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے قبضہ کر رکھا ہے، یعنی مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی۔ بین الاقوامی عدالت انصاف ICJ نے مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے کو “مقبوضہ فلسطینی علاقہ” کہا ہے اور یہ اصطلاح ICJ نے جولائی 2004 کی اپنی مشاورتی رائے میں قانونی تعریف کے طور پر استعمال کی تھی۔ مقبوضہ فلسطینی سرزمین کی اصطلاح اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے اکتوبر 1999 اور دسمبر 2012 کے درمیان فلسطینی قومی اتھارٹی کے زیر کنٹرول علاقوں کے لیے استعمال کی تھی.2012 سے اقوام متحدہ نے خصوصی طور پر ریاست فلسطین کا نام استعمال کرنا شروع کیا اور ریاست فلسطین کوغیر رکن مبصر ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یورپی یونین بھی “مقبوضہ فلسطینی سرزمین” کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی موجودہ ’’غیر رکن مبصر ریاست‘‘ کا اسٹیٹس پی ایل او کی وسیع نظر سیاسی قیادت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ مگر ایران کی حمایت یافتہ حماس کی انتہا پسندانہ اقدامات نے اوسلو معاہدے کی دھجیاں اڑا دیں اور نتیجہ 9/11 پر منتج ہوا۔

جبکہ 750,000 مربع کیلومیٹر پر مشتمل بلوچ سرزمین کی 6 سے 8 کروڑ آبادی کو دنیا اس لیئے گھاس نہیں ڈالتی کیوںکہ قومی تحریک کو انتشار اور مختلف بہاںوں اور نعروں نے منقسم اور مفلوج کر رکھا ہے۔ موجودہ تحریک کو آج تک ایک ایسی مشترکہ قومی قیادت نصیب نہیں ہونے دیا جا رہا ہے کیوں کہ تحریک کے کچھ شریک کاروں کی نظریں اجارہ داریت کے اجنڈے پر ہیں۔ بے دریغ نوجوانوں کے لاشوں کے گرجانے کا کوئی پروا نہیں، مگر جن منفی تنگ نظر کرداروں نے تحریک کو طبقاتی لائنوں پر محدود کرکے رکھ دیا ہے وہ مقدس گائے بنائے گئے ہیں۔ کوئی انکا نام تک لے نہیں سکتا، جیسا کہ میں انکے نام اس تحریر میں لا نہیں سکتا!

جغرافیہ اور آبادی کے لحاظ سے کروڑوں کی تعداد میں بلوچ قوم دنیا کے بڑے اقوام میں سے شمار ہوتا ہے، جبکہ دشمن کا کہنا ہے کہ بلوچ ایک چھوٹا قوم ہے، دشمن کی اس منفی نفسیاتی پروپیگنڈے کو ہم نے ناسمجھی میں قبول کیا ہے اور خود کو ایک کمزور اور چھوٹا قوم تصور کرتے ہیں۔ یار دوستوں کی تنظیمیں بھی اس چھوٹے قوم کے تصور کے پیمانہ پر تشکیل دئیے گئے ہیں۔ 6 سے 8 کروڑ کی آبادی اپنی تحریک کیلئے کتنا وسائل جمع کرسکتا ہے وہ ایک الگ بحث ہے۔

موجودہ دور کی تحریک کی طریقہ کار mode of struggle گوریلا مسلح مزاحمت کو چنا گیا۔ قوم کی مسلح قومی قوت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیاجائے، اس یقین کے ساتھ کہ دشمن جمہوری جھد اورجمہوری آواز کوخاطر میں نہیں لاتا اس لیے اس کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جائے جس کے ساتھ وہ ہمارے ساتھ پیش آ رہا ہے۔ وہ بندوق بردار ہے ہم غیرمسلح ہیں، اس لیے مسلح ہوکر مزاحمت کیاجائے۔ یہاں تک بات درست ہوئی۔ ہمارے لوگ مسلح ہوکر لڑ رہے ہیںمگر تحریک کی قومی قوت کی ارتکاز نہ ہوسکا۔

بلوچ قومی تحریک کا بنیادی فلسفہ یا نظریہ بلوچ قومی ریاست (متحدہ بلوچستان) کی گمشدہ حاکمیت کی بحالی ہے۔ تحریک کی قومی جغرافیہ کے وسعتوں کو پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان تک محدود کرنے سے تحریک اپنی strategic edge کھو گئی۔ ایک دوست نما ملک کے فرمائش پر قومی جغرافیہ کے آدھے حصے کو دشمن کے حق میں ڈراپ کیا گیا ہے۔ اب جب قومی تحریک کی فطری جغرافیائی وسعتوں کو محدود کروگےتو عالمی قوتوں کی سپورٹ کہاں سے آئے گی؟

جہاں قومی قوت کو مجتمع کرنے کی ضرورت پیش آئی وہاں قومی قوت کی ارتکاز کا تقاضہ فرض تھا کیونکہ نوجوانوں کی زندگیاں شامل ہیں، مگر یہ ارتکاز نہ ہوا۔ ارتکاز کی جگہ وہاں فرد کی ہوا کھڑا کرتے ہوئے “سیاسی ادارے” کی شرط رکھی گئی، باوجود اس بات کے کہ موجودہ تحریک کی بنیاد رکھنے والا کردار اعلیٰ ترین ادارے کا سربراہ تھا۔ اب جبکہ اس بہانے کی شرط کو پورا کرنے پر سیاسی ادارے کی تشکیل انجام پائی اور سیاسی اختیارات عین اس فرمائش کے تحت سیاسی ادارے کے پاس سونپے گئے مگر پھر بھی “فرد کی انا کا پہاڑ” ایک بہانہ بن گیا ۔تحریک کی قومی قوت کو مجتمع کرنے کا منصوبہ جسے 2007 کے آخری مہینوں میں دوستوں کے سامنے رکھا گیا، ابھی تک وہ پس پشت ڈالا گیا ہے۔ قومی قوت کی مجتمع ہونے کی صورت میں جو کچھ بچایا جا سکتا تھا اور جو کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا، اب اس کا ازالہ تو کوئی نہیں کرسکتا مگر پیچھے مڑا کر کچھ retrospective میں افسوس کیا جا سکتا ہے۔

یہ حقیقت ہمیں ماننا پڑے گا کہ موجودہ تحریک انسانی وسائل کی تقسیم کا شکار ہے ہماری قومی طاقت کی کامیابی کا راز متحدہ بلوچستان کی مشترکہ جدوجھد میں ہے، جس طرح 22 عرب ممالک کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 22 سیٹیں ہوتے ہوتے ہوئے اسرائیل اور ایران کے ریشہ دوانیوں کے سامنے بے بس ہیں۔ عین اسی طرح ہم کئی تنظیموں اور پارٹیوں میں تقسیم ہوکر کچھ کر نہیں کرسکتے۔ ہماری قومی قوت کی کامیابی کا راز مشترکہ قومی پالیسی اور مشترکہ قومی اپروچ میں ہے۔ جس دن ہمیں قومی سطح کی عقل آئی، ہم دشمنوں کو اپنے متحدہ سرزمین سے با آسانی نکال باہر کر سکتے ہیں۔