جب کوئی قوم دو استبدادی قوتوں کے درمیان گھر جائے، اور ان قوتوں کا مقصد اس قوم کی زمین، وسائل پر قابض ہوکر اس کے شناخت کو مٹانا ہو تو شناخت کے بطن سے شعور صورت پزیر ہوتا ہے اور مزاحمت ایک فطری ردعمل کے طور پر ابھر آتی ہے جو دشمن کے خلاف شناخت ہی کو اپنا مورچہ بنا نبرد آزما ہوجاتا ہے مگر اس کے برعکس اگر مزاحمت کی قیادت کا کچھ حصہ ایک دشمن کے خلاف دوسرے دشمن کی مدد حاصل کرتی ہے یا اُس کی توقع رکھتا ہے اور اس کے بدلے اپنی سرزمین، عوام یا قومی وقار کسی بھی چیز کو قربانی کر دیتی ہے (جیسے کہ قومی زمین سے دستبردار ہونا یا دشمن کو قابض کے بجائے دوست کہنا) تو یہ قدم آزادی کی طرف پیش رفت نہیں بلکہ غلامی کا ایک نیا باب کھولنے کی نوید سناتی ہے۔ ایسا فیصلہ نہ صرف سیاسی ناعاقبت اندیشی کی علامت ہے بلکہ ایسا کرنا اخلاقی طور پر بھی درست نہیں ہے بلکہ قوم پرستی کے دعوے کی یکسر نفی ہے۔
اکثر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ “ہم بیک وقت دو دشمنوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟ ہمیں فی الحال ایک دشمن سے نمٹنا چاہیے اور دوسری کی مدد لینی چاہیے”۔ قارئین خود فیصلہ کریں کہ یہ کس قدر احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔
جب 66 لاکھ بلوچ (پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں) چار بار زیر ہونے اور پھر سے اٹھ کھڑے ہونے کے بعد پانچویں بار اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے ایک ایٹمی ریاست کو سونا، تانبا، کوئلہ، گیس، اسٹریٹجک لوکیشن اور ڈیپ سی پورٹس کے ہوتے ہوئے بھی بھیک کا کٹورہ تھما چکے ہیں تو 40 لاکھ بلوچ (ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں) کیوں منظم ہوکر کرد، الحواز، آذری، لور اور دوسرے مظلوم اقوام کے ”نیچرل اتحادی“ ہوئے سْیاسی طور پر کمزور ، دنیا بھر کے معاشی دباؤ اور بدحالیوں سے دوچار، اسرائیل و امریکہ کے حکم پر اومان میں جوتے چاٹنے والے پراکسیوں کی بیساکھی پر کھڑے ایران کو گھٹنوں پر نہیں لاسکتے؟۔بطور قوم پرست ہمیں اپنے قوم سے زیادہ قابض پر کیوں بھروسہ ہے؟ کیا ایک قاتل سے جان بچانے کے لیے دوسرے قاتل کا میار لینا نجات دلا سکتا ہے؟ کیا دانشمندی کا یہی تقاضہ ہے؟۔ ہمیں قابضین میں فرق کرکے دنیا کے آگے خود کو ہرگز شیخ چلی پیش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم جدوجہد کے سب سے اعلی ترین طریقہ کار ”مسلح جدوجہد“ پر کاربند ہوکر بھی سْیاسْیات کے الف اور ب سے آشنا نہیں ہیں۔
جب دونوں قابضین بلوچ قوم کے ثقافت، شناخت اور زبان کو مٹانے پر تلی ہوئی ہیں، اس کے زمین اور وسائل پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں تو دونوں برابر کے مجرم کیوں نہیں؟ایک دوست اور دوسرا دشمن کس دلیل، منطق یا اخلاقیات کے بنیاد پر ہے؟ایک ہی کردار کے حامل دو الگ الگ شخصیات یا ریاستوں کے متعلق کس اصول کے تحت دو الگ الگ اخلاقی پیمانے کس طرح طے کیے جاسکتے ہیں؟ جب پاکستان بلوچوں کا قتل کرے تو وہ ”نسل کُشی“ ہے۔ جو درست ہے مگر جب وہی کام ایران کرے تو وہ دوست کس طرح ہوا؟ دونوں کا جوہر ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ طاقت کے زور پر کسی قوم کی خودمختاری، وقار اور انسانیت کو پامال کرنا۔
ایک تضاد آج بلوچ تحریک کی موجودہ صورتحال میں نمایاں نظر آتا ہے جس کا عملی اظہار یہ واقعہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران سے پاکستان اور ھندوستان کے گرج چمک کے درمیان کچھ یاروں نے خوشگوار موڑ میں ایک مرتبہ پھر ایران سے مدد کی اپیل کر ڈالی ، جہاں دوسری طرف جب حیربْیار مری اور ان کے رفقا نے ایران کے زیرقبضہ کردوں، الحوازیوں اور آزری قوم پرستوں سے روابط قائم کیے اور وہ اس عظم کا اعادہ کیا کہ وہ ایرانی رجیم کو توڑ کر اپنے ریاستوں کو اپنے ہاتھ میں لینا اپنے ہمسایہ مظلوم اقوام کی ”ملا رجیم مخالف“ آزادی پسند پارٹیوں کے ساتھ مل کر یقینی بنائیں گے اور ”ایران کے لیے جمہوری حل کا منصوبہ“ کیا تو یہ سفارت کاری، محض قومی مفادات کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ مارکس اور لینن کے مولائی شیدائیوں کے نظریاتی موقف “دنیا بھر کے مظلوموں، ایک ہوجاؤ“ کے نعرے کے عین مطابق بھی تھا مگر اس پر وہی مارکس اور لینن کے شیدائی ”مڈل کلاس“ ہی چراغ پا نظر آئے جو ایک طرف قابض ریاست سے سمجھوتے کو سیاسی حکمت عملی کہتے ہیں اور دوسری طرف کسی بلوچ سیاسی رہنما کی جانب سے ایران میں موجود مظلوموں سے ہمدردی کرنے پر نہ صرف بُرا مناتی ہیں بلکہ طنز، طعن، الزامات اور Character Assassination کا بازار گرم رکھتی ہیں۔ تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ معاملہ سْیاسی حکمت عملی سے کچھ زیادہ کا ہے (حالانکہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر بھی قابض سے مدد مانگنا بطور قوم پرست اصولوں کو منڈی میں بیچنے کے مترادف ہے) سوال یہ ہے کہ اگر کسی بلوچ رہنما کا ایرانی جبر کا شکار بلوچوں کے لیے عالمی فورمز پر آواز بلند کرنا آپ برداشت نہیں کرتے تو آپ کے اور قابض کے درمیان جو رشتہ ہے اس کو کیا نام دیا جائے؟ جب آپ اور ہم ڈاکٹر مالک کا چارج شیٹ اسی وجہ سے نال چکے ہوں کہ وہ قابض کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ان سے اٹھنا بیٹھنا مراعات لے قوم کی سودے بازی کرنا اس کے جرم ہیں تو آپ کے لئے پیمانہ مختلف کیوں ہو؟ Rules of the game کسی کے لئے بھی کیوں تبْدیل کیے جائیں؟ کیا یہ سْیاسی اخلاقات کے گراوٹ کا آخری حد نہیں کہ 2014 کے وقت ایک ”قومی آزادی کا دعویدار پارٹی“ ایک قابض قوت کے خلاف جاکر سلامی ہوجاتا ہے اور تمام قوم کو اس بات پر اکسانے لگتا ہے کہ آپ کا دشمن ہی آپ کا دوست ہے؟ اگر کوئی بھی سْیاسی شعور اور فہم رکھنے والا انسان اگر یاروں کے موقف اور طرزِ سْیاست پر غور کرے تو وہ بہ آسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اُن کے پاس سْیاسی اصول اور اخلاقیات حالتِ نزع میں نہیں بلکہ دم توڑ چکے ہیں۔
حقیقی قوم پرست اور آزادی کے علمبردار ہمیشہ اپنی طاقت کا سرچشمہ اپنے عوام کو سمجھتے ہیں، نہ کہ کسی بیرونی طاقت کو۔ تاریخ کی عظیم انقلابی تحریکوں نے اسی اصول کو اپنایا۔ الجزائر کی نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN)، ویتنام کے ہو چی منہ، جنوبی افریقہ کے منڈیلا، اور فلسطین کے جدوجہد کرنے والے گروہ سب نے یہ ثابت کیا کہ عوامی شعور، قربانی اور اصولی مزاحمت ہی وہ بنیاد ہے جس پر آزادی کی مضبوط دیوار کھڑی ہو سکتی ہے اور اس کے برعکس، جب کوئی قیادت کسی ایک ظالم قوت سے دوسرے کے خلاف اتحاد کرتی ہے اور اس کے بدلے اپنے ہی وطن کا کوئی حصہ یا اپنے ہی مظلوم قوم کی تقدیر گروی رکھتی ہے، تو یہ درحقیقت ترجیحاتی سیاست کا مظہر بن جاتا ہے۔ ایسا فیصلہ قومی وحدت کو کمزور کرتا ہے، اور قوم کے اندر اس احساس کو جنم دیتا ہے کہ کچھ کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے اور کچھ کو بچا لیا جائے۔ تو کن کو رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور کس گناہ کی سزا میں؟ انہیں کیوں نہ غلامی کے اسباب سے آگاہ کیا جائے؟ کیوں نہ مزاحمت کے راستے میں ساتھی شمار کیا جائے؟ بجائے اس کے کہ ہم قوم پرستی کا دعویدار ہوکر قوم کے دشمن کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں؟
ایک سوال ہمیں اپنی تحریکوں، اپنی قیادت اور اپنے اصولوں سے کرنا ہوگا: کیا ہم دوہرے معیار کے ساتھ ایمانداری سے قومی سیاست کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ظلم کے ہر چہرے کو پہچاننا، اس کے ہر روپ سے لڑنا، اور اپنے اصولوں پر ڈٹ جانا ہی اصل مزاحمت ہے چاہے اس کی وہ قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے جو حیربْیار مری جیسا رہنما 2008 کے بعد سے کر رہا ہے جہاں اس کے آگے ڈیڑھ فٹ کے لوگوں کو بھی کاندھا دے کر اتنا بلند کرنے کی ضرورت پڑی کہ وہ اپنا اوقات بھول کر بابا کو بھی فاشسٹ کہہ بیٹھے اور ان کا پارٹی ان کے سامنے اتنا بلیک میل نظر آیا کہ ان کے آگے کوئی چون و چرا نہیں کر پایا۔
خاموشی، مفاہمت، یا وقتی فائدے کے لیے اصولوں کی قربانی، وہ دلدل ہے جس میں کئی تحریکیں دفن ہو چکی ہیں۔ بلوچ قوم کو ان کے انجام سے سبق لینا ہوگا، تاکہ اس کی تحریک نہ صرف کامیاب ہو، بلکہ باوقار مستقل کا ضامن بھی بن سکے۔