“جیش العدل ” تنظیم ایک بلوچ مسلح گروپ ہے جو قابض ایرانی کی مخالف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایران میں بلوچوں کے قومی حقوق کی جنگ لڑ رہا ہیں ۔
’جیش العدل‘ گروپ 2012ء میں ابھرا اور اس میں بنیادی طور پر جنداللہ مسلح گروپ کے ارکان شامل ہیں، جو ایران کی جانب سے اس کے بیشتر ارکان کی گرفتاری کے بعد کمزور ہو گیا تھا۔
قابض ایران مخالف گروپ مشرقی ایران کے قبضہ ملک بلوچستان کی آزادی چاہتا ہے
یہ تنظیم خود کو ایران بالخصوص ایرانی قبضہ بلوچستان میں سنی حقوق کی محافظ کے طور پر بیان کرتی ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کو اطلاع دی ہے کہ مسلح افراد نے جنوب مشرقی ایران(مقبوضہ بلوچستان ) میں سکیورٹی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے دو الگ الگ حملوں میں کم از کم 5 ایرانی سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 10 دیگر کو زخمی کر دیا۔
رپورٹس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ “جیش العدل” گروپ کے بندوق برداروں کی طرف سے کیے گئے دو حملوں(جبکہ جیش العدل نے درجن بھر حملوں کا اعلان کیا تھا) میں رات کے وقت بلوچستان میں راسک اور چابہار (واضح رہے کہ ایران دو شہروں میں حملوں کی اطلاع دی جبکہ جیش العدل نے سرباز ، میرجاہ سمیت کئی علاقوں میں حملوں کی اطلاع دی ہے) میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹس میں یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم 15 (جبکہ جیش العدل نے اسے ایک جھوٹ قرار دیا ہے ) جنگجو مارے گئے۔
جنوری میں ایران نے پاکستان میں گروپ کے دو اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا، جس پر اسلام آباد کی جانب سے فوری فوجی ردعمل کا سامنا کیا گیا۔ پاکستان نے ایران میں موجود آزادی پسندوں کو نشانہ بنایا۔
سراوان میں قابض ایرانی بارڈر فورسز کی ہلاکت
15 اکتوبر 2013 کو اس گروہ کے ارکان نے سراوان کے علاقے میں سرحدی گشت پر اچانک حملہ کیا, اس گھات لگا کر حملے کے نتیجے میں ایرانی سرحدی فورسز کے 14 اہلکار ہلاک اور 7 زخمی ہوئے۔ اس گروپ کے آفیشل بلاگ پر شائع ہونے والے بیان میں اس کارروائی کی وجہ “بلوچ نوجوانوں کا دفاع” بتایا گیا ہے .
جیش العدل کی طرف سے انتقامی پھانسیاں
15 اکتوبر 2013 کو ایران کی عدلیہ نے 16 بلوچ قیدیوں کو پھانسی دی، اور زاہدان کے سرکاری وکیل اور انقلابی گارڈز نے ان افراد کو “جیش العدل، انصار اور دیگر مسلح گروہوں سے وابستہ قرار دیا۔ اور انہیں اس دن پھانسی دی گئی ان کی سزا پہلے ہی جاری اور منظور ہو چکی تھی لیکن عدالتی نظام نے سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا تاکہ ان کے ساتھ اسلامی طریقے سے سلوک کیا جا سکے۔
ایرانی حکام کی طرف سے انتقامی پھانسیوں نے انسانی حقوق کے محافظوں کی مذمت اور تنقید پر اکسایا۔ مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی ماہر سارہ لی واٹسن نے اس بارے میں کہا: “کون سا قانونی نظام اجازت دیتا ہے کہ سرحدی فورسز کے قتل کے بدلے میں 16 قیدیوں کو سزائے موت دی جائے، جبکہ ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا ـ
15 اکتوبر 2013 کو زابل شہر کے سرکاری وکیل “موسی نوری غلینو” کے قتل کی وجہ کو ان 16 افراد کی موت کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔
فروری 2013 میں جیش العدل نے ایران پاکستان سرحد(جعلی سرحد) کے قریب سے پانچ ایرانی سرحدی فورسز کے اہلکاروں کو اغوا کیا اور کچھ عرصے بعد ان کی ایک تصویر جاری کی۔ بعد ازاں سرحدی فورسز میں سے ایک کے قتل کی رپورٹ اور جیش العدل کی جانب سے چار دیگر سرحدی محافظوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں شائع کی گئیں۔ ان کی رہائی کے بدلے جیش العدل نے اس گروپ کے پچاس قیدی ارکان، ایران میں قید دو سو شہریوں اور پچاس خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا، جنہیں جیش العدل کے مطابق، ایرانی حکومت نے حراست میں لیا تھا۔
19 فروری 2012 کو جیش العدل گروپ نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی، جس میں اس نے ایران پاکستان سرحد(جعلی سرحد) پر 5 ایرانی بارڈر فورسز کے اہلکاروں کی تصاویر دکھائیں، جنہیں اس گروپ کے ارکان نے گرفتار کر لیا تھا ۔ اس گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے، اسماعیل احمدی مقدم نے جیکیگور کے علاقے میں کی ان کی موجودگی کا بتایا تھا اور پاکستان کی سرحدی فورسز سے ایران کے ساتھ اپنی مشترکہ سرحدوں کی نگرانی نہ کرنے کی شکایت کی ۔
جیش العدل نے بظاہر یہ کارروائی علی ناروی (اس گروہ کے ایک رکن کے بھائی) کی پھانسی کے جواب میں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جیش العدل کی اس کارروائی کی مذمت کی تھی۔ بان کی مون نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ دیگر گرفتار سرحدی فورسز کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ 11 فروری 2019 کو جیش العدل نے خاش زاہدان روڈ پر قابض ایرانی آرمی پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس اڈے سے فوجیوں کو لے جانے والی بس پر حملہ کیا، جس میں بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا گیا۔ آئی آر جی سی کے اعداد و شمار کے مطابق، اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 27 ہے اور 13 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ جیش العدل نے اس تعداد کو زیادہ بتایا تھا ۔
اس کے علاوہ 25 دسمبر 2023 بروز جمعہ صبح 2 بجے راسک میں پولیس فورس کے ہیڈ کوارٹر پر نے جیش العدل نے حملہ کر دیا تھا ۔ تسنیم خبر رساں ادارے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بلوچستان گورنریٹ کے ڈپٹی سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے افسر نے اس حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 11 اعلیٰ افسران اور سپاہیوں کے طور پر بتائی اور ریڈیو فردا نے حالوش سمیت مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا، انہوں نے بتایا کہ زخمیوں کی تعداد 7 تھی۔ اس نے اس گروہ کے دو ارکان کی موت اور ایک شخص کے زخمی ہونے کا اعلان کیا تھا ۔ اس حملے میں کم از کم 50 پولیس اہلکار اور راسک پولیس ہیڈ کوارٹر کا مکمل کنٹرول حاصل کیا گیا تھا۔
منگل 2 جولائی 2019 کو، ریاستہائے متحدہ کے محکمہ خارجہ نے بتایا کہ اس نے جیش العدل کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایران میں بلوچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ایران نے ہمیشہ بلوچوں کی تعداد کو کم ظاہر کیا ہے تاکہ ان کی قبضہ گیریت مزید مضبوط رہے ۔
اس گروہ کے ارکان کا تعلق بلوچ نسلی گروہ سے ہے جو کہ ہمیشہ ایرانی فوج اور دیگر تنصیبات پر حملے کرتے رہتے ہیں ۔
دوسری جانب جیش العدل پر الزام ہے کہ وہ ایک مذہبی شدت پسند گروپ ہے تاہم ایوب سربازی نے اپنے ایک انٹرویو اور ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران نے ہمیشہ ہم بلوچوں پر مذہب مسلط کر دیا ہے نہ مذہبی ہیں اور نہ ہمارے کسی مذہب سے کوئی مسئلہ ہے بلکہ ایران ہم پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ اسی طرح جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی نے کہا تھا کہ ہماری جنگ بھلے مذہبی بنیاد پر ہے لیکن ہم بلوچ قوم کے لیئے لڑ رہے ہیں کیونکہ ایران نے ہم مذہب مسلط کر رکھا ہے جبکہ ہم مذہبی شدت پسند نہیں ہیں ۔
اس کے علاوہ ایران نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ جیش العدل کے ارکان پاکستان سے آ کر ایران پر حملہ کرتے ہیں جبکہ جیش العدل اس بات کی نفی کی ہے ہمارا کوئی ارکان مشرقی بلوچستان میں موجود نہیں ہے ۔
دریں اثناء جیش العدل ایک بلوچ مسلح گروپ ہے جس کی بنیادی محور قابض ایرانی فوج اور دیگر تنصیبات پر حملے کرنا ہے جبکہ موجودہ جیش العدل کے ارکان اب مذہبی یا شیعہ سنی بنیاد پر نہیں بلکہ وہ ایک دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں کیونکہ پہلے جنداللہ کی طرح وہ مذہب کا کارڈ استعمال نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ صرف یہ سوچ کر جنگ لڑ رہے ہیں کہ ہم پر ایران نے قبضہ کر رکھا ہے ۔