پانچویں بار بلوچ قوم اپنے قابض دشمن کے خلاف ایک اور جنگ کی لپیٹ میں ہے. اس سے پہلے 1948 ، 58 ، 62 اور 74 میں بهی محدود وسائل اور محدود افرادی قوت کےساتھ بلوچ قوم نے قبضہ گیر دشمن کے خلاف جنگیں لڑ کر ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان اکهنڈ بهارت یا عظیم ہندوستان کا کبهی بهی حصہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ ایک آزاد و خود مختار ریاست تهی جس پر 27 مارچ 1948 میں پاکستان نے بزور قوت قبضہ کر لیا ہے.
جس کے خلاف ہر دہائی ڈیڑھ دہائی بعد بلوچ قوم اپنی مادر اے وطن اور قومی آزادی کی خاطر برسر پیکار رہی ہیں .
قابض دشمن نے پچهلے چار جنگوں کو قومی جنگ کے بجائے قبائلی سردار و نوابوں کا زاتی و مفاداتی جنگ قرار دے کر اندرونی و بیرونی سطح پر ناکام بنانے کی کوشش کی ہیں . اور دشمن اس میں ایک حد تک کامیاب بهی ہوئی.
اس کے بہت سے وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بهی تهی کہ گزشتہ جنگوں میں بلوچستان کی غیر قبائلی علاقہ ( مکران ) جو خود کو ہمیشہ پڑها لکها اور باشعور سمجهتا ہے کی ناصرف سیاسی و عسکری مدد حاصل نہیں تهی. بلکہ ایک حد تک مکران کے پڑهے لکهے لوگوں نے دشمن کی اس پروپیگنڈے کو ہمیشہ سچ ثابت کرنے کیلئے اپنا حصہ ڈالتے رہے.
74 سے پہلے کا زمانہ تو مجهے یاد نہیں اس لیے ان جنگوں کے بارے میں وثوق کے ساته کچھ نہیں کہہ سکتا .
لیکن 74 کا زمانہ مجهے اچهی طرح سے یاد ہے کہ مکران میں اس جنگ کو مینگل مری بغاوت کا نام دے کر سرکاری پروپیگنڈے کو درست ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی.
جی ہاں…ایک طرف ذوالفقار علی بهٹو نامی شخص جنرل ٹکا خان و موسی خان کے ذریعے بلوچ قوم پر آہن و آتش برسا رہی تهی. دوسری طرف مکران میں بی ایس او عوامی کے لیڈر کیڈر اپنے جیبوں پر بهٹو کا فوٹو والا مونو گرام لگا کر سرداری و قبائلی نظام کے مخالفت کے نام پر عاقلانہ یا جاہلانہ ( دانستہ یا غیر دانستہ ) طور پر دشمن کو فائده پہنچا رہے تهے.
پهر تین دہائیوں تک سیاسی حوالے سے بلوچستان دو حصوں میں تقسیم ہوکر ره گیا. ایک طرف قبائلی علاقہ جات کی لیڈر شپ سردار مینگل، نواب مری ، نواب بگٹی اور میرغوث بخش بزنجو ایک قومی سوچ اور نظریے کو لیکر بلوچستان میں سیاسی جد و جہد میں سرگرم رہے. جو بعد میں پختون لیڈر شپ کے ساتھ مل کر نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ ) کی شکل میں نمایاں رہے . ( نیپ حکومت کی خاتمہ اور بلوچ پختون لیڈر شپ کی دوریاں زیر بحث نہیں ) جبکہ ان کے مخالفین کچه وفاق پرست قبائلی سردار مسلم لیگ اور پی پی پی میں تهے اور مکران کے پڑهے لکهے لوگ خود اپنی پارٹی تو نہ بنا سکے لیکن بی ایس او کو تقسیم کرکے اسکے ایک حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے.
مکران کے قبائل مخالف و سردار مخالف پڑهے لکهے سرکرده رہنماوں میں سے امان الللہ گچکی، عبدالرحیم ظفر اور صابر بلوچ تو پی پی پی میں شمولیت کر گئے. لیکن دیگر بہت سے حضرات باہر ره کر بی ایس او عوامی کی رہنمائی کرتے رہے .
ستر کی اواخر میں جب نواب مری اور سردار مینگل نے جلاوطنی اختیار کرلی تو پارلیمانی سیاست کے میدان میں میر غوث بخش بزنجو تنہا ہو کر ره گئے. میدان کو خالی دیکھ کر مکران کے پڑهے لکهے باشعور لوگوں نے خونی انقلاب اور آزادی کے نعرے بلند کیئے اور بی ایس او کے انضمام کیلئے کوششیں تیز کر دیئے. بلآخر 84 میں بی ایس او کے دونوں دهڑے ایک ہو گئے اور قوم نے سکھ کا سانس لینا شروع کر دیا. لیکن بدقسمتی سے یہ انضمام صرف دو سال قائم رہا . اور 86 میں پهر سے توں توں میں میں شروع ہوگئ. اور یوں ہی 88 میں ثور انقلاب، جدلیات و مادیت، پرولتاری و بورژوا جیسے اجنبی نعرے جیتے گا بهائی جیتے گا ڈاکٹر مالک جیتے گا ” کے شور میں دب کر ره گئے.
88 سے لیکر آج تک پڑهے لکهے باشعوروں کے حصے میں اربوں کهربوں کے بینک بیلینس، بنگلے ، مہنگی گاڑیاں ، فلیٹ و پلاٹ اور دنیا بهر کی سیر و تفریح آئی. مڈل کلاس و متوسط طبقے کے ان منافقوں کا بلوچستان کے تمام نواب سرداروں کیساتھ تعلقات بهی انتہا ہی خوشگوار رہے. لیکن بیچارے بلوچ کا کندھا آج بهی ہلکا نہیں ہوا.
بلکہ کل وه اپنے بهائی اور عزیزوں سے اس لیے لڑتا جهگڑتا رہا کہ انہوں نے مالک و حئی کے بجائے کسی اور کو ووٹ دیا. اور آج وه ووٹ کے بجائے خون دے کر بهی دشمن اور اپنوں کی ظلم کا شکار ہیں. خدا جانے اس قوم کو متوسط طبقے کی منافقوں سے کب نجات مل جائیگی ؟
ووٹ دیکر بهی ظلم سہتا رہا خون دیکر بهی ظلم سہ رہی ہے.
دشمن کی مار بهی قوم کو پڑ رہی ہے. دوستوں کی مار بهی.
کچه عرصے سے تو مکران کے عوام اپنے نئے پڑهے لکهے آزادی پسندوں سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ انکے نظر میں دوست اور دشمن کی فرق مٹ چکی ہے. بلکہ آجکل تو اہلیان مکران دشمن سے کم اور دوستوں سے زیاده خوف زده ہیں.
مکران میں ایسا کوئی گهر نہیں بچا ہے جسکا کوئی فرزند شہید نہ ہوا ہو یا دشمن کے ہاتهوں نہ جلایا گیا ہو !
لیکن انھی گهر والوں اور انکے خاندان و رشتے داروں کو دشمن سے زیاده دوستوں کے ہاتهوں جانی و مالی نقصان اٹهانا پڑ رہا ہے
تعجب کی بات ہے کہ قوم اپنی دشمن سے زیاده دوستوں سے خوفزده ہیں.
جب کسی بلوچ مسلح تنظیم کی پالیسیز پر سوال اٹهایا جائے تو وه اپنی غلط پالیسیوں ، سیاه کرتوتوں اور ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے قوم کے شہیدوں کی قربانیوں کا سہارا لیکر خود کو بے گناه و پارسا بنا دیتی ہے.
کسی زاتی و سیاسی مخالف یا خاندانی دشمن کو قتل کرکے اس پر مخبر اور منشیات فروشی کی الزام لگانے پر اگر کوئی باز پرس کرے تو قوم کے شہداء و لاپتہ افراد کی دیوار کهڑی کرکے خود کو محفوظ بنا دیتی ہے.
یہ کہاں کی انصاف ہے کہ جس قوم کو تم اپنا قوت سمجھ کر دشمن سے لڑ رہے ہو اپنی ہر بدنامی و بدکاری کو قوم کے فرزندوں کی لہو سے دهوتے ہو. پهر اسی قوم کو مار کر اس پر ناقابل برداشت الزام لگاتے ہو ؟؟
جبکہ تحریک دشمن سرکاری ایجنٹ ، ڈیتھ اسکواڈ کے جانے مانے سر غنے اور منشیات مافیا کے تمام سمگلر آپ کے حملوں سے محفوظ ہیں.
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے اور دشمن کے تمام پالیسیز قوم کیلئے یکساں ہیں. دشمن کسی بهی بلوچ کو شہید کرکے کہتا ہے کہ اس نے فلاں مقام پر ایک بلوچ دہشت گرد کو مار دیا.
آپ بهی جس بلوچ کو مار دیتے ہو اس کو مخبر یا منشیات فروش قرار دیتے ہو.
مکران میں سینکڑوں بلوچوں کو فوج نے شہید کرکے صرف اتنا کہا ہے کہ مقابلے میں مارے گئے . آپ بهی قتل کرکے کہتے ہو کہ آپ سمجهانے گئے تهے لیکن مزاحمت یا حملے کی صورت میں مارا گیا.فوج کلبهوشن جیسے لوگوں کو ڈرا دهمکا کر یا اذیت دے کر اعترافی بیان اگلوا سکتا ہے. تو بلوچ قوم آپ کے شائع کرده ویڈیو کلپ کی اقرار نامے کو کیوں کر تسلیم کرے.
کیا ملزم یا مجرم کی سزا صرف موت ہے؟ جو بهی آپ کے زد میں آئے اسے کچھل دیتے ہو؟؟
اس لحاظ سے تو دشمن فوج بهی تم سے بہتر ہے جو درجنوں بلوچوں کو کئی ہفتے مہینے اور سالوں بعد بهی رہا کرکے چهوڑ دیتا ہے. لیکن آپ اٹهاکر لے جاتے ہو تو اس کی لاش پهینکتے ہو. اگر کوئی تمھارے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوتا تو آپ بے رحمی و بے دردی کے ساتھ اسے قتل کر دیتے ہو.
کیا کوئی گستاخ یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ کا تعلق کس ریاست کی متعین کردہ فورس سے ہے ؟ آپ کس آئین و قانون کے تحت اپنوں کو سزا دیتے ہو ؟ کیا آپ کوئی ہلاکو، چنگیز، تیمور ہٹلر قسم کے بادشاه ہو کہ کوئی تم سے کچھ بھی نہ پوچهے ؟؟
پچهلے ایک مہینے سے بی ایل ایف کے بہادر سپاہیوں نے منشیات سے لوڈ نو گاڑیاں ضبط کر لیے ہیں. جن میں سے تنظیم کے ترجمان نے صرف دو گاڑیوں کی زمہداری قبول کرلی ہے. کیا کوئی بهی بلوچ یہ پوچهنے کی جسارت کر سکتی ہے کہ یہ منشیات اور گاڑیاں کس علاقے میں عوامی اجتماع کے سامنے جلا دیئے گئے ہیں ؟؟
نہیں نا …..تو پهر تم کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ تم دربلی زامران کے معروف و معتبر شخصیت مرحوم حاجی عبدالرشید یلانزئی کے پوتے کو منشیات کے الزام میں قتل کرکے ایک پورے خاندان اور محفوظ علاقے کو تحریک دشمن بنا دے.
آپ جس منشیات کو پکڑ کر خود تجارت و کار وبار کرنے کے مرتکب ہو چکے ہو. اور منوں ٹنوں منشیات کی تجارت کرکے مال کماتے ہو ( اسی رقم سے بلوچ شہداء کے یتیموں اور غریب سرمچاروں کی امداد و کمک نا کرنا زیر بحث نہیں ) تو پل آباد تمپ کے رہائشی جان محمد کے اکلوتے بیٹے کو دو پھڑی ہیروئین بیچنے کی پاداش میں موت کی سزا کیوں دیتے ہو؟؟
پانچ دن پہلے ایف سی اور دشمن فوج کی طرح رات گیاره بجے پل آباد میں ایک بلوچ گهر میں گهس کر بڑی بے شرمی کے ساتھ چادر و چاردیواری اور بلوچی ننگ و غیرت کو تار تار کرکے دو تولہ افیون بیچنے والے شخص کو خواتین اور چهوٹے بچوں کے سامنے جس سفاکانہ و ظالمانہ انداز میں قتل کرکے فرعونیت کی جو مثال قائم کی گئی اس کی اجازت و اختیار کہاں سے حاصل کی گئی ہے ؟
لرزه طاری کرنے والے اس واقعے کی چشم دید گواه کے مطابق مقتول کی بیوی اپنے شوہر پر لپٹ کر اللہ اور قرآن کا واسطہ دیتی رہی اپنی اور اپنے چهوٹے چهوٹے معصوم بچوں کا واسطہ دیتی رہی. بلوچ ، بلوچی روایات اور قاتلوں کو ان کے ماں باپ بچوں کی قسمیں دلاتی رہی مگر خون کے پیاسے درندوں نے کمسن عورت کی لاج رکهنے کے بجائے ہاتهوں سے پکڑ کر گرا دی ہے اور شوہر کو بے دردی سے قتل کر دیا.
کیا یہی شناخت ہے ہماری آزادی پسند سرمچاروں کی ؟ کیا ایسے واقعات قوم میں تحریک کیلئے ہمدردیاں پیدا کر سکتی ہے ؟
دشمن کی قتل و غارت اور جلاو گهیراو اس حد تک بڑه گئی ہے کہ اس وقت پوری قوم کو اپنے سرمچاروں کے ساتھ شانہ بشانہ ہونا تها . لیکن یقین مانیئے کہ بی ایل ایف کے بے لگام و بے قابو سرمچاروں کی وجہ سے 90 فیصد مکران فوج سے زیاده اس تحریک سے متنفر ہو چکے ہیں.
شاید بی ایل ایف کو بی ایل اے کی پیش کرده دو نقاط اس لیے منظور نہیں کہ وه اپنے ان چور لٹیرے اور قاتلوں کو قابو نہیں کرسکتے. یا بی ایل ایف قیادت انہی چور منشیات فروش اور ٹیکس گیر مافیا سے مالی فوائد حاصل کر رہی ہے.
ورنہ وه دو نقاط میں کیا برائی ہے ؟
1:- قوم کی دی ہوئی طاقت قوم کے خلاف استعمال نہیں ہوگا
2:- کسی بهی ریاست کی پراکسی نہیں بننا۔
بہت ہوگیا قوم اپنی شہید فرزند اور لاپتہ افراد کی خاطر اور ایک مضبوط و منظم تحریک کی کامیابی کی خاطر بہت چهپاتی رہی. اب قوم کی بلڈ پریشر ہائی ہو چکی ہے قربانی کسی روم میں چهپنے والے کمانڈر اور کرائے کی دانشور درباری شاعروں نے نہیں دی ہے. بلکہ قوم کے اپنے پیاروں نے دی ہے.
اور تمام مسلح تنظیموں کو یہ طاقت بهی قوم نے عطا کی ہے
اگر یہ قوم کسی کو طاقت دے سکتی ہے اسے چهین بهی سکتی ہے. اس سے پہلے کہ قوم کا ہر گهر ، ہر خاندان اور قبیلہ بندوق اٹها کر دشمن کے بجائے آپ کے پیھچے لگے تو اپ کو چهپنے کیلیے کوئی پناه گاه بهی نہیں ملے گا. کیونکہ اس وقت جہاں ، جہاں قوم آپ کے ساتھ ہے. وہاں آپ کهلے عام نقل و حرکت کرنے میں آزاد ہیں اور جہاں آپ نے اپنے لوگوں کو تنگ کیا ہے. دشمن پیدا کیا ہے وہاں آپ کے پہنچنے سے پہلے دشمن پہنچ جاتی ہے.
دو ہزار سات آٹھ تک پورا مکران بلوچ سرمچاروں کا مضبوط قلعہ اور محفوظ پناه گاه ہوا کرتا تها. آج کی صورتحال کیسی ہے یہ مجهے کہنے کی ضرورت نہیں.
سبب کیا ہے ہم سے بہتر اپ خود جانتے ہونگے. اب یہ آپ کی مرضی کہ آپ اس نفرت و بیزاری کو بڑهانا چاہینگے یا آج سے اپنی تمام بلوچ دشمن تحریک دشمن اور سماج دشمن رویے اور پالیسیوں میں تبدیلی لا کر نفرت وبیزاری کی فضا کو ہمیشہ کیلیے ختم کر دینگے.
البتہ ایک بات اب صاف ظاہر ہے. کہ اب کسی گولیوں سے چهلنی لاش، غمزده ماں بہنوں اور جلائے گئے گهروں کی تصویریں اور جزباتی تحریریں عوامی ہمدردی حاصل نہیں کر سکتے. کیونکہ شہداء کرام، عظیم لاپتہ افراد اور بیوا، یتیم اور بے سہارے ماں باپ کا تعلق بهی اسی قوم سے ہے کہ جس کو آپ سے اور دشمن سے یکساں نقصان و تکلیف پہنچ رہی ہیں.
اس قوم کا تعلق کسی مسلح تنظیم سے نہیں بلکہ تمام تنظیموں کا تعلق اسی قوم سے ہے .