رات ایک بجے وردی میں ملبوس کچھ افراد ہمارے گھر کی چھت پر چڑھے تھے۔ میں ، میرا شوہراور دونوں بیٹے سورہے تھے۔ پہلے انہوں نے ہمارے گھر میں دستی بم پھینکا، پھر انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ پھر تھوڑی دیر بعد میرے دونوںبیٹوں کو زبردستی اٹھا کر لے گئے اور تھوڑی دور لے جاکر گولی مار کر قتل کرکے پھینک دیا۔
یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کے قلات کے علاقے شیشہ ڈغار کے رہائشی دو نوجوان بیٹوں اسماعیل اور عباس کی بوڑھی ماں کا جن کے دونوں بیٹوں کو فورسزنے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیکر دہشت گردقراردیکرقتل کردیا تھا۔
اس واقعہ کی ذمہ داری پاکستانی فوج نے قبول کی ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ضلع قلات میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 2 دہشت گرد مارے گئے۔
دعوے میں مزید کہا گیا کہ مارے گئے دہشت گردوں سے اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد ہوا ہےاور وہ سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر حملوں میں ملوث تھے۔
فوج کو اب بلوچستان میں کسی بھی شخص کو کسی بھی شبے میں حراست میں رکھنے کا قانونی اختیار دیدیا گیا ہے جو اس سے قبل مذکورہ قانون اسکے پاس نہیں تھی لیکن جبری گمشدگیوں ، ماورائے عدالت قتل سمیت جعلی انکائونٹر جیسے غیرانسانی و متشدانہ کارروائیوں کے الزامات کا سامنا تھا۔
بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں روز کا معمول بنتی جارہی ہیں۔اور ان کے الزامات پاکستانی فوج اور اس کے لے پالک علاقائی مسلح ملیشیا کے لوگ جسے مقامی افراد ڈیتھ اسکواڈ کہتے ہیںسمیت بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں پر لگتے رہے ہیں۔ لیکن وہ الزامات کو جھٹلانے کیلئے میڈیا وعوامی حلقوں میں کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔جس کی وجہ سے عوام میں عدم اعتماد کا تاثربڑھتا جارہا ہے۔
بعض دفعہ فوج ،ایف سی اور سی ٹی کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت بطور لاپتہ افراد کے ہونے کے بعد سیکورٹی فورسز پر جعلی و انتقامی کارروائیوں میں سیاسی وسماجی ،عام ومعصوم افرادسمیت لاپتہ افراد کو قتل کرنے کا معاملہ سنگین اختیار کرگیا ہے اور اس پر سیاسی و انسانی حقوق تنظیموں اورعوامی حلقوں میں نہ صرف تشویش پائی جارہی ہے بلکہ احتجاج بھی کیا جارہا ہے ۔
قلات کے شیشہ ڈغار کے دونوں رہائشی نو جوان دو بھائیوں محمد اسماعیل اور محمد عباس کے قتل کا واقعہ ایک ہفتہ قبل 7 ستمبر کوپیش آیاتھا۔
ان کی ماں اپنے بیٹوں کی لاشیں دیکھ کر چیخ رہی تھی لیکن ان کی فریاد سننے کے لیے وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔
یہ سوال ایک خنجر کی طرح اس مقتول بیٹوں کے ماں کے کلیجے میں پیوست تھی کہ ان کے بچوں کوآخرکیوں ماراگیا؟
محمد اسماعیل کی عمر 20 جبکہ محمد عباس کی عمر 17 سال تھی۔ دونوں بھائی اپنے زمینوں پر کھیتی باڑی کرکے محنت مزدوری سے بڑی مشکل سے اپنے گھر کا چولہا اور اپنے مفلوج والد عبدالنبی کی دوائیوں کا خرچہ نکالتے تھے۔
بڑا بیٹا اسماعیل مرگی کا مریض بھی تھا۔اس کے ماں کے مطابق اگر وہ دوائی نہ لیتا تو پورا دن مفلوج ہوکرپڑا رہتا تھا۔
مقتول نوجوانوں کے والدہ نے ایک علاقائی صحافی نیا زبلوچ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوںنے فورسز وردیوں میں ملبوس افراد کے پاؤں پکڑے اور کہا کہ میرے بیٹوں نے اگر کچھ کیا ہے تو انہیں پولیس اسٹیشن لے جائیں اور عدالت میں پیش کریں، اگر انہوںنے کچھ غلط کیا اور ثابت ہوا تو ان کو میرے سامنے مار دیں لیکن ظالم ان کے بیٹوں کو ماں کی جھولی سے اٹھا کر لے گئے اور تھوڑی دور لے جاکر مار کر پھینک دیا۔
اسماعیل اور عباس کی ماں کا کہنا تھا کہ جب انہیں لے جایاگیا تو تھوڑی دیر بعد انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی اور گھر سے تھوڑی دور ویرانے میں جا کر دیکھا تو ان کے دونوں لخت جگر گولیوں سے چھلنی پڑے تھے، اور سیکیورٹی فورسز انہیں مار کر لاوارث چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔
فورسز انہیں مار کر لاوارث چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ ان کی ماں اپنے بیٹوں کی لاشیں دیکھ کر چیخ رہی تھی، لیکن ان کی فریاد سننے کے لیے وہاں کوئی موجود نہیں تھا، نہ ہی کوئی ان ظالموں سے پوچھنے والا تھا کہ ان غریب بچوں کو بغیر کسی ثبوت کے کیوں مارا۔
حسب معمول آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز میڈیا میں بغیر کسی تصدیق کے مان لی جاتی ہے کہ اس نے قلات میں 2 دہشت گرد ہلاک کئے اور اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا لیکن میڈیا میں نہ کوئی نام بتائے گئے اور نہ ہی اسلحہ وگولہ بارود کی فوٹیجز بطور ثبوت پیش کئے گئے۔یعنی کسی قسم کی کوئی تفصیلات شائع کرنے کی جسارت تک نہیں کی گئی ۔
پاکستان بھر میں آئی ایس پی آر کے بیانات میں موجود دعوئوں کا نہ کوئی ثبوت مانگا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے بیان کو مسترد کیا جاتا ہے ۔وہ جو کہتا ہے وہ صحیفے کی طور پر مان لیا جاتا ہے ۔
جبکہ دوسری طرف نہ کوئی تحقیقاتی صحافی اصل حقائق جاننے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی متاثرہ خاندان کی شنوائی ہوتی ہے۔ اور نہ ہی قلات والا واقعہ پرکسی سیاسی ،سماجی و انسانی حقوق تنظیم نے لب کشائی کی ہے۔
نیاز بلوچ نامی ایک مقامی صحافی نے جرات کا مظاہرہ کرکے فورسز کے ظلم وجبر کے شکار مذکورہ خاندان کو تلاش کیا ۔اس کے گھرجاکر ان کی کہانی سنی اور انہیں ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ کیا اور فورسز کی بربریت وجعلی کارروائی کا پردہ پاش کیا۔
ویڈیو میںمتاثرہ خاندان کا بوسیدہ گھر اور غربت کا جیتا جاگتا تصویر دیکھا جاسکتا ہے کہ جہاں ایک کمرے میں ایک روتی و بلکتی بوڑھی ماں اور دماغ سے فالج زدہ اپنے شوہرکے ساتھ موجودہے ۔جو اپنا سینہ پھیٹ ر ہا ہے اور خدا سے فریاد کر رہی ہے کہ جس نے اس کے بے گناہ بیٹوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا ہے انہیں عبرت ناک سزادی جائے۔
اسماعیل اور عباس کے بہیما نہ قتل کے بعد اس کی بوڑھی ماں اور مفلوج والد اب بے آسر اہوکر اس دیار میں اکیلے رہ گئے ہیںجن کا کوئی سہارا نہیں ہے ۔
عدل وانصاف کے دعویدارانسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں فورسز کی بربرزم پر مکمل خاموش ہیں۔
بلوچستان وپاکستان کی وفاقی حکومتوں کی جانب سے فوج کو بلوچستان میں کسی شخص کوبھی حراست میں لینے و جبری گمشدہ کرنے کے قانونی اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں جس کے بعد پہلے سے بے لگام فوج نے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی میں تیز ی کردی ہے ۔
فوج کو دیئے گئے قانونی اختیارات پر بلوچستان کے سیاسی و سماجی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔اور اب جبری گمشدگیوں ، ماورائے عدالت قتل سمیت جعلی وانتقامی و کارروائیوں میں لاپتہ افراد و عام لوگوں کو قتل کرنے واقعات میں اضافہ ہو اہے جس سے خوف وہراس کا ایک تشویشناک ماحول جنم لے چکا ہے۔
بلوچستان میں میڈیا مکمل طور ریاستی اداروں کے کنٹرول میں ہے اور وہ انہیں جو بھی فیڈ کرتے ہیں وہ وہی پبلش کرتے ہیں۔انٹرنیشنل میڈیا کوخراب سیکورٹی صورتحال کے نام پر بلوچستان میں داخل ہونے کی ممانعت ہے ۔
مذکورہ واقعہ کی حقائق کو منظر عام پر لانے پر مقامی صحافی نیاز بلوچ کی زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔کیونکہ ریاستی ادارے اپنے کسی بھی ناقدین جن میںسیاسی و سماجی کارکنان،طلبا،اساتذہ ، صحافی و ادیب ودیگر شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افراد کو جبری گمشدگیوں ،ماورائے عدالت قتل جیسے کارروائیوں سمیت دھمکا نا اور ہراسمنٹ کاسامناہے۔