تحریر: گہرام بلوچؔ
ہمگام آرٹیکل
قلم ایک ایسا قلم جو پچپن میں آپ اسکولوں میں داخل ہو کر اٹھاتے ہیں جو پہلے آپ انپڑھ اور گوار ہو آپ کو زندگی کا سفر اچھی طرح سیکھاتا ہے
جو کہ آپ اسکول میں داخل ہونے کے بعد آپ کچھ دوست بناتے ہو جن کے ساتھ آپ مستی اور پچپن میں موج کرتے رہتے ہو اور آہستہ آہستہ آپ کی عمر بھی بڑتی جائے گی، آپ کچھ کلاس پڑھنے کے بعد توڑا بہت سمجھ دار بن جاتے ہو اور آپ کی سمجھ میں آنے لگے گا کہ میں ایک بلوچ ہو اور ہمارا وطن بلوچستان ہے۔
آپ اسکول بھی جاتے ہو اور یہاں وہاں سے اور آپ اپنے والد سے پوچھو گے کہ ہمارا اپنا وطن ہے پر یہ پنجابی فوجی ہمارے ملک میں کیا کر رہے ہیں، ہمارے بلوچ کیوں ہر جگہ پر غلام کی طرح زندگی جی رہے ہیں، ہمارے اپنوں کو یہ فوجی لوگ کیوں مارتے ہیں، ہمارے پیاروں کو یہ کیوں لاپتہ کرتے ہیں اور یہ ہمارے شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کیو کرتے ہیں۔
آپ کا والد آپ کو خان محراب خان، نوری نصیر، شہید نواب نوروز خان، شہید بالاچ خان اور شہید نواب اکبر بگٹی کے قصے سنائے گا جہاں سے آپ کی زہن، دل و دماغ میں ہر روز بلوچستان کی محبت بڑتی جائے گی تو آپ اپنے کاپی کے پنوں سے لیکر اسکول کے دروازے تک بلوچستان کی بیرک اور شہید کی نام ہر جگہ پر لکھتے سجھاتے رہتے ہیں۔
انہی بیداری سے آپ کچھ تحریریں بھی پڑھوں گے، ہر شہید ساتھیوں کے ویڈیو کو دیکھتے رہوگے اور ہر وہ آئے دن سوچتے رہوگے کہ ہمارے وطن کے محافظوں اور ہمارے قوم کے ہیروز “بلوچ سرمچار” اپنے زندگی پہاڑوں میں کیسے گزارتے ہیں اور آپ ہر وہ دن اپنے آپ کو خود سرمچار مانتے ہیں اور کہتے ہو کہ کاش میں بھی اپنے مادرئے وطن کےلئے شہید درویش اور شہید مجید کی طرح اپنے دشمنوں پر ٹوٹ پڑوں اور اپنے وطن کو ایک دن ان پنجابی سے اپنے وطن کو آزاد کرلوں۔
آپ جب 25 یا 30 سال کے ہو جاؤ گئے تو آپ شہید بالاچ کی طرح پہاڑوں کا رخ کرکے اسے اپنا مسکن بناتے ہو اور اپنے وطن کے سرمچاروں کے ساتھ دشمن کے خلاف ایک بندوق اٹھا کر شہید پلین امیر المک کی طرح ایک دلیر اور بہادر فخر زند بننے کی کوشش کرتے ہو تاکہ میں بھی قومی تاریخ میں اپنا ایک مقام حاصل کرلوں جو شہدائے بلوچستان نے ممکن کر دکھایا ہے۔