ایک طرف جدوجہد قومی کاز اور مشن کی کامیابی پر توجہ مرکوز ہے تو دوسری طرف نمود ونمائش شوشا سیلفی گیری کامینابازار گرم ہے،ایک طرف قوم اور لوگوں کو جدوجہد کا محور سمجھ کر اصول پرستی راست گوئی اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر کام ہورہا ہے تو دوسری طرف سے جوڑتھوڑی سیاست سے قومی جدوجہد اور نیشنلزم کی عمارت کو تہہ و بالا کرتے ہوئے قومی سیاست کو ستر اور اسی کے دہائی کی طرح طبقاتی کی طرح معاملہ برعکس کردینے کی شاطرانہ کوششیں ہورہی ہیں ۔ جدید قومی تحریکوں کی طرح اکیسویں صدی میں بلوچ نیشنلزم کی جس درخت کو سنگت حیربیار مری نے اپنی بلند فکری سے لگایا وہ تحریک آج ہر طرح سے اندرونی اور بیرونی تیز سازشی ہواؤں کے باوجود بلند مقام پر کھڑا ہے ۔دنیا میں تمام جدوجہد اور قومی تحریکیں مسئلہ مسائل کا شکار رہے ہیں اورکوئی بھی قومی تحریک صحیح اور دوراندیش ، لیڈر شپ کے بغیر منزل پر نہیں پہنچا ہے ،لیڈرشپ لقب، خطاب اورعہدہ کا نام نہیں بلکہ اثرات،اخلاقی اثر وتاثیراور وجدان کانام ہے ،سکندر اعظم نے لیڈرشپ کے بارے میں کہا ہے کہ میں بھیڑوں کی قیادت کرنے والے شیروں کی فوج سے نہیں بلکہ شیر کی قیادت میں بھیڑوں کی فوج سے ڈرتا ہوں جبکہ جم رون نے لیڈرشپ کے بارے میں کہا ہے کہ لیڈرشپ سب سے بڑا مضبوط چیلنج ہے کہ وہ مضبوط ہوتا ہے لیکن مغرور نہیں ،وہ ہمدرد ہوتا ہے لیکن کمزور نہیں ،وہ نڈر اور دلیر ہوتا ہے لیکن اسے دھمکایا اور بلیک میل نہیں کیا جاسکتا ہے ،وہ صاحب فکراور متفکرہوتا ہے لیکن سست نہیں ،وہ معتدل مزاج ہوتا ہے لیکن بزدل نہیں ،وہ سخت ہوتا ہے لیکن گستاخ نہیں ۔ چرچل نے کہا کہ عظمت کی قیمت ذمہ داری ہے ،سن زو نے کہا کہ ایک لیڈر طاقت سے نہیں بلکہ مثال سے رہنمائی کرتا ہے اگر کوئی محقق بلوچ ،تامل،کردسمیت جنوبی سنٹرل اور مشرقی ایشیا کی تمام تحریکوں اور ان کے لیڈرشپ کا غیرجانبدارانہ موازنہ بلوچ رہشون سنگت حیربیار مری سے کریں تو میں دعوی سے کہتا ہوں کہ قومی اور جدوجہدی لیڈرشپ کے حوالے اس خطے میں عبداللہ اوجلان کے سوا حیربیار مری کے مقابلہ کا کوئی قومی لیڈر نہیں نکلے گا ۔حیر بیار مری اپنے موقف اصولی نقطہ نظر سے کوہ چلتن کی طرح مضبوط ہے لیکن وہ طاقت اور پاور کے نشہ میں مغرور نہیں ہے ،وہ قوم اور جہدکاروں کا ہمدرد ہے لیکن وہ کمزور نہیں ہے ،حیربیار مری اس خطے کا واحد لیڈر ہے جو کسی بھی ملک ریاست طاقت کے سامنے بلیک میل نہیں ہوا ہے ۔حیربیار مری کسی بھی ملک کا پراکسی نہیں بنا ہے وہ اس خطے کا واحد محکوم قومی لیڈر ہے جو امریکہ ،اسرائیل اور مغربی آزاد ممالک کی طرح قابضانہ دور میں بھی دوسری ریاستوں کے ساتھ قومی جاہ و عظمت کے تحت تبادلہ خیال کرتا ہے ،اور واحد قومی لیڈر حیربیارمری ہے کہ قومی طاقت اور اختیار کے ساتھ، ساتھ اس میں ذمہ داری بھی ہے ۔ جہاں کرد لیڈرعبداللہ اوجلان اصولوں کے تحت اپنے بھائی کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو یہاں حیربیار مری بھی اپنے بھائیوں کے خلاف بھی اسٹینڈ لیتا ہے ،کیونکہ کسی بھی لیڈرشپ کا معیار اسکی اقرباپروری سے لگایا جاسکتا ہے کہ کس حد تک وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف فیصلہ لے سکتا ہے کیونکہ لیڈرشپ عدل وانصاف کرنے والا ہوتا ہے جب وہ اپنے خاندان اور باقیوں کو الگ سمجھے تو وہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے نہیں کرسکتاہے ،عدل وانصاف کو میزان اور ترازو اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے دونوں پلڑے برابر ہوتے ہیں ،ذرا سی بھی اونچ نیچ عدل و انصاف کے منافی ہوگا جبکہ عدل کا متوازی لفظ انصاف بھی ہے جہاں عدل کرنے والے کوعادل تو وہاں انصاف کرنے والے کومنصف کہتے ہیں ،صحیع منصف ،لیڈر جب فیصلہ کرتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا ہے کہ سامنے والا اس کا بھائی ،باپ بیٹا ،ماں ،رشتہ دار ،عزیز امیر ،غریب ،بڑا یا چھوٹا ہے بلکہ وہ سب کو ایک جیسے سمجھ کر انصاف ، عدل کے تحت فیصلہ کرتا ہے تب جاکر وہ لیڈر منصف جھونپڑیوں سے لیکر عمارت تک رہنے والے سب لوگوں کی دلوں میں راج کرتا ہے ۔اسی طرح بلوچ قومی موومنٹ میں حیربیارمری کسی بڑے چھوٹے کی تمیز نہ کرتے ہوئے فیصلہ کرتا آرہا ہے جبکہ دوسری طرف جمہوریت ،اداروں اور برابری کے دعوی دار لیڈرشپ کی طرف سے کمزوروں کو دبایا جارہا ہے اور طاقتوروں کی حمایت کی جارہی ہے ،وہاں عدل وانصاف تو کجا وہ انقلابی لیڈر قومی یکجہتی کو اپنے گروہی مفادات کے لیے نقصان پہنچا رہے ہیں ، علاقے ،زبان،رنگ ونسل،سردار ،غریب اور مڈل کلاس کے ہتھکنڈوں کو اپنے گروہی اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں ،ایک منصوبہ کے تحت کلاس وطبقہ کا زہر قوم اورجہدکاروں کے اندر پیھلایا جارہا ہے،استاد قمبر جسکی جدوجہد قربانیوں اور خلوص سے کوئی بھی حقیقی بلوچ انکار نہیں کرسکتا لیکن اسکا نیشنلزم کی جدوجہد کو قبائلیت کا رنگ دینا پانی میں آگ لگاکر تماشا دکھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ان کا کہنا ہے کہ نواب خیر بخش مری نے ادارے نہیں بنائے اور اسکی وجہ سے تحریک کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن حقیقت اسکی باتوں سے کوسوں دور ہے کیونکہ نواب خیربخش مری اگر ایک فرد تھا تو اس وقت بی ایس او ایک ادارہ تھا اور وہ ادارہ 1967سے کام کررہا ہے ،نیشنل عوامی پارٹی ،اور بی این وائی ایم بھی استاد قمبر کی موجودہ مڈل کلاس جمہوری ادارے کی طرح ایک ادارہ تھا پھر کیونکر سلیگ ہیریسن سے لیکر باہر کے تمام محقق نے اس وقت صرف خیربخش مری کی موقف اور اسٹینڈ کو بہترین کہا کیونکر وہ ادارہ آزادی کے فکر کو زندہ نہ کرسکے صرف خیربخش مری نے آزادی کے فکر کو توانائی بخشی۔ انہی اداروں کے ادوار میں بلوچ سماجی ،سیاسی ،قومی ،ثقافتی اور تاریخی قدریں کھوکھلی ہو گئی تھی ،اگر وہ فرد ا س فکر کو زندہ نہ کرتے اور دوسرا فرد سنگت حیر بیار مری کی شکل میں اس آزادی کے فکر کو عملی شکل نہ دیتے تو آج واحد قمبر سمیت ہم سب ڈاکٹر مالک اور باقی مڈل کلاس کی طرح ابھی اس وقت پاکستانیت کا پرچار کررہے ہوتے ،ایک فرد نے اداروں کی موجودگی میں فکر کو زندہ کیا تو دوسرے فرد نے اسی فکر کو عملی شکل دے کر قومی تحریک کو واضع رخ دیا بے شک کوئی بھی آدمی ادارے کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا ہے لیکن ایک قابض کی قبضہ گیریت میں ادارہ اور اس ادارے کاجمہوری انداز میں چلانا بھڑک بازی کی حدتک قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کی دنیا میں بہت مشکل عمل لگتا ہے ،جناب استاد قمبر کہتا ہے کہ بی ایل ایف اور بی این ایم ادارے ہیں کیا بی این ایم کی آئین میں ایران کو دُشمن ملک قرار نہیں دیا گیا ہے ؟ تو کس طرح چند لوگوں نے پارٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے ایران کے ساتھ ساز باز کر رکھا ہے تو کیا کونسل سیشن کی منظوری سے اتنا بڑا قومی یوٹرن لیکر بی این ایم اور بی ایل ایف نے ایران کے ساتھ ساز باز کیا یا کہ چندلوگوں نے اپنے ذاتی اختیارات کو استعمال کرکے یہ عمل سرانجام دیا کیونکہ بی این ایم کی اکثریت اس عمل کی حمایت میں نہیں ہے تو کس طرح جمہوری تقاضے پورے کیئے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیا گیا ،کیا فضل حیدر ،خلیل ساچان ،سمیت بی ایل ایف کے اپنے ہی لوگوں کوادارے کے تحت فیصلہ لیتے ہوئے شہید کیا گیا ؟ یا کہ یہ ایک کمانڈر کا فیصلہ تھا ؟۔کیا کسی بھی قابض کے خلاف قومی جدوجہد میں جمہوری تقاضے پورے ہوسکتے ہیں ؟ ان کو پورا کرنا کیا آسان اورممکن ہے ؟ کیونکہ ایک جمہوری اور ادارتی فیصلہ پارٹی کی اکثریت رائے سے کیا جاتا ہے تو کیا بی این ایم اپنے تمام کونسلران اور زون ،وغیرہ کے لوگوں کو ایک ساتھ ایک جگہ جمع کرکے سیشن کرسکتا ہے ؟ اس نے ایک سیشن کیا جہاں ایک بندہ گرفتار ہوا اس کو ٹارچر کیا گیا تو اس نے تمام بی این ایم کے کونسلران کا نام بتا دیا گوادر سے لیکر پنجگور اور خضدار تک بی این ایم کے تمام کے تمام لوگ ٹارگٹ کیئے گئے کیا قومی آزادی کے جدوجہد میں مسلم لیگ ،پیپلزپارٹی اور نیشنل پارٹی کی طرح کے جمہوری ساخت وترکیب مناسب عمل ہوگا ؟ کیا مسلم لیگی اور کمیونسٹ جمہوری ساخت وترکیب ہمارے جہدکاروں کی بچاؤ کا ضامن ہوسکتا ہے ؟ تو کیا قبضہ گیریت کے دور میں مسلم لیگی اور نیشنل پارٹی جیسی ادارتی جمہوری ادارہ بناکر اپنے لوگوں کو دُشمن کے نرغے میں دیں کہ ادارتی اور جمہوری تقاضے پورے ہونگے ۔ اگر سب کو ایک ساتھ اکھٹا کرنا آسان نہیں تو کس طرح جمہوری تقاضے پورے ہوئے ہیں ؟ قومی آزادی کی تحریک میں جمہوریت کی بھڑک بازی تصوراتی خیال ہوسکتا ہے لیکن عملا اس پر عمل کرنا مشکل ہے ہاں صلاح مشورہ دوستوں سے ضروری ہے اور یہ کام نواب خیربخش مری صاحب سے لیکر حیربیار مری تک سب کرتے رہے ہیں۔ اور حیربیار مری آج بھی اپنے دوستوں سے ہر معاملے پر صلاح و مشورہ کرتے ہیں اور بی ایل ایف اور بی این ایم جیسے نام نہاد ادارے سے بہتر طور پر کام کرسکتے ہیں۔حیربیارمری ایک کام بھی اپنے دوستوں کی صلاح ومشورے کے بغیر نہیں کرتے لیکن بی ایل ایف اور بی این ایم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی طرح ادارے اور جمہوریت کے لبادے میں غیرجمہوری حرکتیں کرتے ہیں ، جنکی مثالیں فضل حیدر،خلیل ساچان کی شہادت سمیت ایران کے ساتھ ان کے جمہوری اور ادارتی لبادے میں غیر جمہوری اور تحریک مخالفانہ فیصلے ہیں ، بی ایل ایف کے اختیاردار لوگوں نے جمہوری اور ادارتی پر فریب نعرے تلے ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ لوگ قتل کئے اور مکران میں عوامی حمایت کا جنازہ جمہوری ماس ادارتی پارٹی کے پر فریب نعرے تلے اٹھ چکا ہے قمبر نے اپنے آرٹیکل میں اپنے ہی تنظیم بی ایل ایف کو باقیوں سے بہتر قرار دے کر اس نے اپنے ہی پارٹی کی بدصورتی کو میک اپ کرنے کی ناکام کوشش کی حالانکہ کسی بھی جہدکار کا اصل حسن اورکردار خیال کی پختگی اوربلندی ہے کیونکہ کردار کو بہت زیادہ میک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ بہت زیادہ میک اپ اس سے فطری دلکشی کھودیتا ہے جبکہ بدصورتی میک اپ اور غاروں کی تہوں میں بھی بدصورت ہوتی ہے ،اگر بقول استاد قمبر بی ایل ایف اور بی این ایم تمام پارٹیوں سے ہٹ کر ادارتی تنظیم اور پارٹی ہیں تو کیونکر بی ایل اے کے معطل شدہ وہ لوگ جو آج بی ایل ایف کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے بی ایل ایف میں شامل نہیں ہوتے ہیں حالانکہ انکی گاڑیوں سے لیکر نسوار تک کا خرچہ بی ایل ایف برداشت کررہا ہے بقول بی ایل ایف دونوں ایک مورچے سے کام بھی کررہے ہیں پھر کیونکر وہ بی ایل ایف کی پلیٹ فارم سے کام نہیں کرتے ہیں اور بی ایل ایف کے نام کے ساتھ کام کو اپنے لئے ندامت اور شرمندگی سمجھ رہے ہیں جبکہ سارے بلوچوں کو معلوم ہے کہ بی ایل ایف سے اسکی غلط حکمت عملیوں اورطاقت کے غلط استعمال کی پالیسیوں سے تنگ آکر سینکڑوں لوگوں نے بڑی شان اور فخر سے بی ایل اے کو جوائن کیا اور بی ایل اے کی شمولیت کو اپنے لیے اعزاز سمجھا وہ بی ایل اے جسکی بقول استاد قمبر قبائلی رہنمائی کررہے ہیں اب یہ فرق خود ظاہر کررہا ہے کہ قوم میں کس تنظیم کی کیا شہرت اور اعتبار ہے وہ لوگ جو فیس بک کے فیک آئی ڈیز سے صبح و شام بی ایل ایف کی تعریف و ثنا ء یا مدہ سرائی کررہے ہیں لیکن خود اس تنظیم میں کام کو اپنے لیے شرم محسوس کرتے ہوں اس سے بڑھ کر ایک قبائلی کے زیر قیادت بی ایل اے اور خودساختہ اداراتی مڈل کلاس تنظیم بی ایل ایف کے درمیان اور کیا فرق کرنا باقی ہے اب الیکڑانک اور جدید دور میں استاد قمبر بی ایل ایف کی بدصورتی کو جتنا بھی میک اپ کریں وہ خوبصورت نہیں ہوسکتا ہے بی ایل ایف جیسا ہے ویسا ہی ہوگا ،قمبر کا قصور بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اس دوسرے استاد (اسلم) کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے جس نے فیس بک میں اسی واحد قمبر، بی ایل ایف اور بی ایس او کے دیگر لوگوں بشمول ڈاکٹر اللہ نذر، اختر ندیم، خلیل وغیرہ کے خلاف لکھتے لکھتے پوتاری بحث کا نیشنل ایوارڈ بھی اپنے نام کر لیا لیکن آج اپنے لکھے ہوئے باتوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے ،اس دور میں بھی جہاں ڈاکٹر مالک ٹولہ تمام خرابیوں کا بوجھ سرداری نظام پر ڈال کر مڈل کلاسی جہد کی جانب چلے گئے تو یہاں اب استاد قمبر نواب خیربخش مری کی وفات کے بعد سارا ملبہ ان پر گرا کر خود کو بلوچ قومی تحریک کا پطرس اعظم بنانے کی ناکام کوشش کررہا ہے ہمیں خوشی ہوگی کہ استاد قمبر بلوچ قوم کا پطرس اعظم بن جائے لیکن پطرس اعظم نے پورے روس میں اصلاحات لاکر نام اور شہرت کمایا اگر استاد قمبر کو بلوچ قوم کا پطرس اعظم بننا ہے تو وہ بلوچ قومی تحریک کو چھوڑ کر بی ایل ایف میں اصلاحات لاکر انہیں قوم کے خلاف طاقت استعمال کرنے والے بدمست ہچ مچاروں اور جنگی منافع خوروں سے نجات دلا کر قومی تنظیم بنائے تو یہ استاد قمبر کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی قوم کو ڈاکٹر مالک کہور خان اور صابر کی طرح کلاس اور طبقوں میں تقسیم کرنے کے بجائے حقیقت اور زمینی سچائی کو دیکھتے ہوئے اپنی پارٹی کو ایران کی پراکسی اور قوم کو مایوس کرنے والے ہچ مچاروں سے بچائے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی آج ستر اور اسی کا دور نہیں بلکہ جدید الیکٹرانک دور ہے اور آج کے الیکڑانک دور میں لوگ لفظوں کی باریکیاں اورانشاپردازی کو سمجھ سکتے ہیں آج کے دور میں لفظی میک اپ کے باوجود خیال کا سطحی پن نہیں چھپتا ہے ، قومی تحریک میں ہر بیس سال کا پراسیس پورا کرنے کے بعد داستان یوسف و زلیخا کی طرح مڈل کلاس طبقہ کی طرح سے پوچھا جاتا ہے زلیخا مرد تھا یا عورت تھی ۔18سال کی جدوجہد کے بعد آج پھر وہاں سے سلسلہ شروع کیا گیا کہ تحریک کیا ہے مقصد ،قومی یکجہتی ،ڈسپلن،عدل وانصاف پر مبنی جدوجہدی نظام ،واضح قومی پیغام کو ایماندار دوراندیش اور اصول پرست قومی لیڈرشپ کے ساتھ ایک لڑی میں پرونا تحریک کہلاتا ہے ،کیا ایک ایسی قومی تحریک ہے جو صحیح اور دور اندیش مستقل مزاج اور قومی تحریک کی پیچیدگیوں کو سمجھنے والے اور اپنے قومی مسئلہ کو دنیا کا مسئلہ بنانے والے لیڈرشپ کے بغیر کامیاب ہوا ہو ؟ اگر پیٹر دی گریٹ نہ ہوتا تو کیا آج روس اس شکل میں ایک طاقت ہوتا ؟ اگر داویدبن گوریون نہ ہوتا تو کیا آج اسرائیل کا وجود دنیا میں ہوتا ؟ تو بلوچ قومی تحریک کو ایک مضبوط اور اصول پرست اور تحریک کی پیچیدگیوں اور دنیا کے حالات کو سمجھنے والے پیٹر دی گریٹ اور داویدبن گوریون کی طرح حیربیار مری جیسا موقف پر ڈٹے رہنے والا اور اصول پرست رہنمائی غلامی کی دلدل سے نکال سکتا ہے اور نیشنلزم کی جدوجہد کو کلاس اور طبقہ کی پیچیدگیوں اورالجھاؤ میں رکھنا قابض کا پسندیدہ ایجنڈہ ہوسکتا ہے لیکن کسی نیشنلسٹ کا قومی پروگرام نہیں ہوسکتا ۔ ہاں لیڈرشپ چاہے قبائلی ہو یا کہ غیر قبائلی ،امیر ہو یا غریب اس سے سوال کیا جانا چاہئے اور کوشش ہونا چاہئے کہ جدوجہد کو پیچیدگیوں اور الجھاؤ کی دلدل سے نکالا جائے ۔ایک قوم بن کر دوسرے قابض قوم اور اسکی فوج اور قبضہ گیریت کو شکست دی جاسکتی ہے قوم کو علاقوں ،طبقوں اور ذات وپات ،میں تقسیم کرکے قومی تحریک کو کم اور قابض دُشمن کو زیادہ فائدہ ہوگا ۔ آپسی اختلافات میں تحریک کی منبع سرچشمہ اور جڑوں کے نقصان سے ہم سب کو پرہیزکرنا چاہئے ورنہ نقصان ایک گروہ ،پارٹی شخص کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہوگا ۔