کوئٹہ (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچ دشمن ہمیشہ سے بلوچ قومی تحریک میں تقسیم اور انتشار لانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں لیکن دشمن کو ہمیشہ بلوچ آزادی پسندوں کی غلط پالیسیوں اور محدود سوچ کی وجہ سے ایسے مواقع ملے ہیں کہ جس کی بنا پر بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچا ہے۔
ایف بی ایم نے گُلزام امام کی دشمن کے ہاتھوں گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پاکستانی ریاست گلزام امام کو اغوا کرکے پھر گرفتاری ظاہر کرکے انہیں میڈیا پر لاکر بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی ہے جب جنگ کے دوران ایک ملک دوسرے ملک کے فوجیوں کو گرفتار کرتا ہے تو انہیں پی او ڈبلیو کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان جیسے دہشت گرد ملک بلوچ نوجوانوں کو پکڑ کر یا تو مار کر پھینک دیتا ہے یا پھر ان کا میڈیا ٹرائل کرتا ہے جو کہ بین الاقومی جنگی قوانین کے خلاف ورزی ہے ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جب عراق میں صدام حسین نے پہلی گلف جنگ میں امریکی پائیلٹوں اور فوجیوں کو گرفتار کیا اور انہیں ٹارچر کرکے میڈیا پر لاکر انہیں امریکہ کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کرکے ان سے ٹی وی پر کہلوایا گیا کہ عراق ایک اچھا ملک ہے اور اس کے خلاف امریکی جنگ ناجائز ہے تب پوری دنیا میں عراق کی اس عمل کی مذمت کی گئی کیونکہ کسی ملک کے فوجی کو پکڑ کر اسے اپنے ملک کے خلاف میڈیا کے ذریعے استعمال غیر قانونی ہے لیکن پاکستان کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان میں گزشتہ سات دہائیوں سے جنگی قوانین کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں مگر دنیا خاموش ہے جس کی سب سے بڑی وجہ بلوچ قوم کی اپنی کمزوریاں ہیں جنہیں دورکرنے کی ضرورت ہے ـ
ایف بی ایم کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا کہ دشمن ریاست کی چالبازیوں پر ہمیں حیرت نہیں کیونکہ دشمن قوتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ بلوچ ایک طاقتور قوم بن کرابھرے اور اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور اپنی آزادی واپس لے۔ اسی طرح ہمیں گلزار امام کی گرفتاری پر تشویش تو ہے مگر حیرانی نہیں کیونکہ ہماری جدوجہد میں شریک تنظیموں کے بھی اپنی کوتاہیاں ہیں جن کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں اور جس طرح ایک سوچی سمجھی حکمت علمی کے تحت مسلح تنظیموں کو توڑا گیا پھر اس توڑ پھوڑ کو جائز قرار دینے کے لیے ان چھوٹے حصوں سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اور اس ناجائز عمل کو جائز قرار دینے کے لیے وجود میں لائی گئی اتحاد کے رکن تنظیمیں اب اپنے ہی اتحادیوں پر ایک دوسرے کو مزید تقسیم کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ بھلا کس طرح ایک ایسی مراحل سے مثبت نتائج حاصل ہوسکتے تھے جس کی بنیاد ہی منفی اعمال کا نتیجہ تھی؟ گلزار امام کی پاکستانی ریاست کے ہاتھوں گرفتاری بھی اسی پراسس کا ایک بائی پروڈکٹ ہے اور اس واقع کے بعد فریقوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات نے نئے سوالات جنم دیئے ہیں۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ اس معاملے کو رفع دفع کرنے کے بجائے تمام کرداروں، واقعات، الزامات اور بیانات پر چھان بین کی جائے تاکہ بلوچ قوم حقائق جان سکے اور دشمن ریاستیں بلوچ تحریک کو ناقابل تلافی نقصانات نہ پہنچا سکیں۔
ایف بی ایم کی جانب سے جاری کردہ اپنے بیان میں مزید کہا کہ دشمن کی بقا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بلوچ کو تقسیم کرکے ہماری قومی قوت کو پنپنے نہ دے جس میں وہ اپنی چالاکیوں سے زیادہ ہماری نادانیوں کے سبب کامیاب ہورہا ہے جبکہ ہماری بقا بلوچ قوم کی بکھری ہوی قومی طاقت تمام بلوچ علاقے بشمول ایرانی اور پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کو یکجا کرکے بلوچستان کی آزادی کی بحالی ہے جس کے لیے اولین شرط سخت ڈسلپن اورسیاسی اداروں کی مضبوطی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فری بلوچستان موومنٹ کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ آزادی پرست بلوچ سیاسی پارٹیوں سے ہمکاری کو فروغ دے تاکہ جدوجہد آزادی کو مزید تیز کیا جاسکے اور اس پالیسی کے تحت ایف بی ایم نے اکتوبر 2021 کوایک کمیٹی تشکیل دے کر بلوچ آزادی پسندُ سیاسی جماعتوں سے اشتراک عمل کے لیے رابطوں کا آغاز کیا تھا، رابطوں کا سلسلہ اور ہمکاری کے لیے ہماری کوششیں اب بھی جاری ہیں۔