سه شنبه, سپتمبر 24, 2024
Homeآرٹیکلزقومی تحریک کے موجودہ حالات اور نئی صف بندی کی ضرورت۔ تحریر:...

قومی تحریک کے موجودہ حالات اور نئی صف بندی کی ضرورت۔ تحریر: آرچن بلوچ

بلوچ تحریک آزادی کو روکنے کے لیے پاکستانی جبر اور استبداد کے نتیجے میں ایک نئی Resultant Force وجود میں آئی ہے جو قابل تعریف ہے۔ اگرچہ موجودہ مسلح مزاحمت انفرادی تنظیمی بنیادوں پر استوار ہے اور اپنی موجودہ شکل میں اپنی حد تک پہنچ چکی ہے، اس کے لیے نئی صف بندیوں کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے، بلوچ مزاحمتی تحریک ہر حال میں جاری ہے، اور پاکستان اسے شکست نہیں دے سکتا۔ اب اس مزاحمتی تحریک نے مہرنگ بلوچ اور اس کی ساتھیوں کی صورت میں ایک بڑی Resultant Force کو جنم دیا ہے جو بلوچ عوام کے انسانی حقوق کا بہترین انداز میں دفاع کر رہی ہے۔ قوی امکان ہے کہ یہ ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قوت کو بلوچستان کی تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔
بلوچ قومی تحریک کے ابتدائی دور میں، تجربے کی کمی یا سیاسی مجبوری کے باعث، پاکستان نے غیر انسانی طور پر تحریک کو Decapitation یعنی “بے سر” کرنے کی کوشش کی۔ تحریک کو نواب اکبر بگٹی، بالاچ مری، اور چیئرمین غلام محمد اور صبا جان دشتیاری جیسے رہنماؤں سے محروم کیا گیا۔ اب بھی وہ تحریک کے ان باقی رہنماؤں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے جو سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ Decapitation تحریک کے رہنماؤں کو قتل کرنے کا وہ عمل ہے جس سے تحریک سنجیدہ اور سوچنے والے سروں سے محروم ہو جائے۔ تاہم، اب اسے وہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے جو پہلے ملی تھی۔ اسی لیے وہ عام عوام کو اجتماعی سزا کے طور پر سفاکیت کا نشانہ بنا رہا ہے تاکہ انہیں مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روک سکے۔
سیاسی اسپیس کے خاتمے کے سبب تحریک کے کئی آزادی پسند سیاسی رہنما اور کارکن مغربی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اس سے خاص طور پر سیاسی عمل کو جاری رکھنے اور سفارتی میدان میں کام کرنے کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اب آتے ہیں اتحاد کے حوالے سے اس سوال پر کہ کیا اتحاد کیے بغیر بلوچ تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہی ہے کہ بالکل نہیں ہو سکتی، اور اس کی افادیت سے آج تک کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ تاہم، ہمارے ہاں سیاسی طور پر عملاً اس سے انکار کیا گیا۔ اس بات کا ثبوت گزشتہ آٹھ سالوں کے وہ سارے منفی فیصلے ہیں جو کہ بالکل غلط تھے، جس سے ممکنہ قومی اتحاد کے سارے راستے بند ہو گئے۔
ممکنہ اتحاد کی طرف جانے سے پہلے، دنیا کی رسمی سیاسی طریقہ کار سے فائدہ اٹھانے کی اگر کوششیں کی جائیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ پارٹی بازی اور قبائلی اپروچ سے بالاتر ہو کر اگر قومی سوچ کے تحت قوم کا تشکیل مقصد ٹھہرے تو سابقہ دور کے غلط فیصلوں کا اعتراف اور مثبت اقدامات و واضح پالیسی اپروچ کے ساتھ چلا جائے تو بعید نہیں کہ ہم دنیا کے دوسرے اقوام کے سامنے سرخ رو ہوں، ایک قومی اتحاد سے ایک کامیاب قوم کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔
یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ سنگت حیربیار مری کی طرف سے قومی سوچ کے تحت قوم کی تشکیل کی مقصد کی برآوری کے لیے بہت کوششیں کی گئیں کہ تمام آزادی پسند قوتیں اتحاد کریں، مگر کسی طرف سے مثبت جواب نہیں ملا۔ اب ایچ بی مری کی طرف سے مزید کوششیں کرنا شاید ممکن نہ ہو! یہ میرا ذاتی رائے ہے۔ لیکن ابھی تک براہمدگ بگٹی اور ڈاکٹر نسیم کی طرف سے کوئی ایسا قومی پروگرام پیش نہیں کیا گیا جس سے قومی اتحاد کے راستے کھل سکیں۔
آج تحریک کو انسانی وسائل کی تقسیم اور انتشار کا سامنا ہے۔ اس انتشار کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے ہندوستان اور بنگلادیش کی طرح بلوچ قومی تحریک کو بھی ایک قیادت، ایک Line of Action، اور ایک اپروچ کی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ بلوچ قومی قوت کو مجتمع کرنے کی ضرورت اور منصوبہ 2007 میں پیش کیا گیا، مگر انفرادیت پسندی اور تحریک پر ایک مخصوص نظریہ کے حامل افراد کی وجہ سے قومی اداروں کی تشکیل میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ قومی سیاسی اداروں کی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے تحریک کی قومی قوت کو مجتمع کرنے میں رکاوٹیں کھڑی ہیں۔
قومی قوت کا راز متحدہ بلوچستان کی مشترکہ جدوجہد میں مضمر ہے۔ عرب ممالک کی اقوام متحدہ میں 22 نشستوں کے باوجود وہ اسرائیل اور ایران کے سامنے بے بس ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ تحریک کی کامیابی کا دارومدار قومی پالیسی اور اپروچ پر ہے۔ اگر قومی سطح کی منصوبہ بندی سے کام لیا جائے تو دشمن کو متحدہ سرزمین سے نکالنا ممکن ہوگا۔ قومی قوت کو مجتمع کرنے کی ضرورت پہلے تھی اور اب بھی ہے۔ ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لے کر مستقبل کی سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کے لیے معروضی حالات کے فلسفہ اور سائنسی اپروچ کے باہمی ارتباط کے ساتھ جانا ہے نہ کہ اس کے متضاد رویہ یعنی انا پرستی اور پسند و ناپسند جیسے رکاوٹیں پیدا کریں۔
نادانستہ طور پر پاکستانی بیانیہ سے متاثر ہوکر بلوچ پارٹیاں اپنی قومی قوت کو underestimate کرچکے ہیں، میرے نظر میں یہ سب سے بڑی غلطی ہے، بلوچ قوم قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کی امیر ترین قوموں میں سے ایک ہے۔ 65 ملین کی آبادی اور 700,000 مربع کلومیٹر کے جغرافیہ کے ساتھ بلوچستان ایک طاقت ور قوم ہے، دنیا کی تمام قوموں کی average آبادی 40.31 ملین ہے، جبکہ بلوچ کی 65 ملین آبادی ہے اس آبادی کے ساتھ بلوچ ہر لحاظ سے ایک بڑا قوم ہے۔ بلوچستان کی جغرافیائی محل وقوع اور معادنیات اھمیت کو کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ مگرہماری کوردیدی myopia ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے، ہمیں اپنے قومی قوت کا پتہ نہیں۔
بلوچ قوم کو ہندوستان کی طرح کوئی کانگریس اور گاندھی نہیں ملا اور نہ ہی بنگلادیش کی طرح کوئی عوامی لیگ اور شیخ مجیب ملا، جو اپنی قومی قوت کو مجتمع کرتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرسکے۔ بلوچ عین اپنی فطرت کے مطابق انفرادیت پسندی کا شکار ہیں، یہی بدقسمتی عرب فلسطینیوں کی بھی ہے، وہ بھی انفرادیت پسندی اور انتشار کا شکار ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ہندوستان اور بنگلادیش نے قومی سوچ، قومی قیادت اور ایک Line of Action اور اپروچ کے تحت صف بندی کرتے ہوئے اپنی اپنی آزادیاں حاصل کرلیں۔
اب خارجی طور پر ہمارے سامنے تین ایسی مثالیں ہیں جن کا مختصر جائزہ لے کر ہم اچھا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔ ایک ناکام تحریک کی مثال اور دو کامیاب تحریکوں کی مثال ہمارے سامنے ہیں، جن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
فلسطین کی تحریک کو دنیا بھر کی حمایت حاصل ہے مگر پھر بھی کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اندرونی انتشار اور قیادت کا خلفشار ہے۔ دنیا کے مختلف بلاکوں سے ان کی جیوپالٹکس وابستگی ہے۔ حماس، حزب اللہ اور دیگر ایرانی ملیشاؤں کا تعلق ایران سے ہے، اور فلسطین کا جغرافیہ ایک ایسی آبی گزرگاہ پر واقع ہے جہاں اگر ایرانی حمایت یافتہ ملیشاؤں کا کنٹرول ہو تو وہ یورپ کی تجارت کو بلاک کرسکتے ہیں۔ یہ تمام جنونی ملیشیائیں اسرائیل کی وجود کو ختم کرنے کی قسم کھا چکی ہیں، ایسے میں ایران کا کردار نہ صرف یورپی ملکوں بلکہ خود معتدل عرب ممالک کو بھی قابل قبول نہیں۔ ایرانی حمایت یافتہ ملیشاؤں کو ختم کیے بغیر دنیا کی وہ طاقتیں جو دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں فلسطین کی جداگانہ حیثیت کو قبول نہیں کریں گی۔
ہندوستان چھوڑو تحریک، جسے اگست کی تحریک بھی کہا جاتا ہے، ہندوستان کی برطانوی راج سے آزادی کی جدوجہد کا ایک اہم مرحلہ تھا۔ اس کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس (INC) نے کیا تھا اور 1942 میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں شروع کیا گیا تھا۔ گاندھی ہندوستانی تحریک کا چہرہ تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانوی دنیا بھر میں اسٹریٹجک پوزیشن کمزور ہو رہی تھی، اس لیے برطانوی حکومت نے جنوب مشرقی ایشیاء اور برما میں ہونے والی ناکامیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگی کوششوں کے لیے ہندوستانی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مارچ 1942 میں اپنے نمائندہ اسٹافورڈ کرپس کو ہندوستان کی آئین میں ترامیم کے لیے تجاویز کے ساتھ ہندوستان بھیجا گیا تھا، جسے ہندوستانی رہنماؤں نے مسترد کر دیا تھا کیونکہ ان کے تجاویز میں ہندوستان کی آزادی شامل نہیں تھی۔ 8 اگست 1942 کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے بمبئی میں ہندوستان چھوڑو کی قرارداد منظور کی، جس میں ہندوستان میں برطانوی راج کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ہندوستان چھوڑو تحریک ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا ایک اہم موڑ تھا، جو برطانوی راج کے خاتمے کے لیے متحد مطالبے کی نمائندگی کرتا تھا۔ اگرچہ اسے شدید جبر کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے ہندوستانی عوام کے عزم کا مظاہرہ کیا اور 1947 میں ہندوستان کی حتمی آزادی کی راہ ہموار کی۔
بحیثیت ایک پاکستانی فیڈرٹنگ یونٹ بنگلادیش کی بنگلا عوام نے 1970 کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور ان کی نمائندہ جماعت عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیتی، مگر کامیابی کے باوجود انہیں حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ عوامی لیگ، جس کی قیادت شیخ مجیب الرحمن کر رہے تھے، بنگلادیش کی تحریک کا قومی چہرہ تھے۔ انہوں نے بنگالی عوام کے حقوق کے لئے پاکستانی حاکموں کے سامنے چھ نکات پیش کیے، جو مشرقی پاکستان کے لیے خودمختاری کی بنیاد تھے۔ 7 مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمن نے ایک تاریخی تقریر کی جس میں انہوں نے بنگالیوں کو آزادی کے لیے تیار رہنے کی تلقین کی۔
ردعمل میں پاکستانی پنجابی آرمی نے 25 مارچ 1971 کو “آپریشن سرچ لائٹ” شروع کیا، جس کا مقصد مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک کو دبانا تھا۔ اس کارروائی میں بے شمار لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ اس کے جواب میں بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے مکتی باہنی نامی گوریلا تنظیم نے پاکستانی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی۔ دسمبر 1971 میں بھارت نے بنگلہ دیش کی حمایت میں جنگ میں مداخلت کی۔ 16 دسمبر 1971 کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے، اور بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بنگلادیش کی ایک ہی سیاسی قیادت تھی، ایک ہی Line of Action تھا، سوائے انڈیا کے باقی دنیا کی کسی ملک نے ان کی حمایت نہیں کی۔ مگر پھر بھی وہ آزاد ہوگئے۔ تمام تحریک ایک سیاسی قیادت کے کنٹرول میں تھی۔
خرف آخر: اب ہم جانتے ہیں کہ ہمارا فطرت ہندوستانی اور بنگلادشی جیسی عاجز قوم کی طرح نہیں جو ایک قیادت اور ایک پارٹی کے تحت متفق ہوسکے۔ انفرادیت ہمارا نصب العین ٹھہرا ہے تو یہی رویہ ہی سہی۔ دنیا کے دوسرے اقوام نے متحدہ، الائنس اور اس جیسے کئی دوسرے اتحادی فکر کے اصطلاحات ایجاد کیے ہیں، ہمیں بھی بقول سائنس کے “نیا چکر ایجاد نہیں کرنا” بلکہ انہی اصطلاحات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی انتشارپسند فطرت کی تسکین کرتے ہوئے ایک شراکتی قیادت تشکیل دینی ہوگی۔ تکمیلی (complementary) اصول کے تحت تمام قوتوں کے درمیان ایک قومی راہ نکل سکتا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی شکل میں جو ایک پراعتماد Resultant Force ابھر کر سامنے آ چکی ہے، یہ قوت قومی تحریک کو ایک Genuine Realignment فراہم کر سکتی ہے۔ اسی پر آسانی سے Build Up کیا جا سکتا ہے۔ ایک سنجیدہ قوت کے ساتھ ہماری تحریک بھی بنیادی نعرے کو لے کر ہندوستانیوں کی طرح پاکستان کو دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ سکتا ہے: Pakistan Quit Balochistan
یہ بھی پڑھیں

فیچرز