تاریخ کی ورق گردانی اور مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ قوم کوطاقت اور قوت کے ذریعے فتح کرنا بہت مشکل رہا ہے لیکن اس کے بر عکس بلوچ قوم کو عیاری سے زیادہ زیر نگوں کیا گیا ، جب انگریز بلوچستان میں داخل ہوئے شروع میں انھوں نے طاقت وقوت استعمال کی لیکن انھیں کامیابی نہیں مل سکی جس میں نیپیئر ، جان جیکب وغیرہ وہ کام نہ کرسکے کہ سنڈیمن نے اپنی دغابازی سے اپنی فارورڈپالسی کے تحت بلوچستان کے فتح کو ممکن بنادیا اور ا سے بلوچستان کا پر امن فتح کا نام دیا گیا ،سنڈیمن طاقت و قوت ا ستعمال کئے بغیر بلوچستان کو فتح کرگیا، بلوچ قوم خاص کر مری قبائل تمام انگریزوں کے لئے سر درد تھے انگریز طاقت سے انھیں ختم نہ کر سکا لیکن چالاکی اور عیاری سے وہ کام سنڈیمن نے کیا بقول عزیز بگٹی کے سنڈیمن نے چھاونی تعمیر کی اور نا ہی پولیس اسٹیشن بلکہ اس نے ہر قبیلے کے سردار کو حکومت اوراسکے قبیلے کے درمیان مڈل مین یا بروکر کی حیثیت دیکر سارے ملک کو کنٹرول کیا ،سنڈیمن نے سرداروں کو انگریز ی حکومت کے تسلط کا مظبوط ترین ستون بنا دیا بلکل ایسی طرح پاکستان نے بھی موجودہ جہد کو ختم کرنے کے لیے بہت طاقت استعمال کی کئی ہزار لوگ مار ڈالے اور ہزاروں کو گمنام کیالیکن اسے وہ کامیابی نہیں مل سکی جسکی اسے امید تھی اس لیے پا کستان نے اپنی پالسی تبدیل کی اور اب وہ طاقت کے ساتھ ساتھ چالبازی اور حیلے حربے سے بھی بلوچ قومی تحریک کو بلکل انگریز کی طرح ختم کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے ،پاکستان اپنے کاونٹر انسرجنسی سے جہد کو کاونٹر کررہا ہے اور قومی جہد کا رخ موڑنے کی کی کوشش کررہا ہے ،اور یہ سب اپنے مہارت یافتہ چند لوگوں کو قومی جہد میں مختلف پارٹیوں میں سرایت کرواکر ان سے کام لے رہا ہے اسکی کوشش ہے ان سے مختلف حوالے سے کام لیں ان سے اسی طرح کام بھی لے رہا ہے ،اور یہ لوگ ریاستی پلاننگ کے تحت قومی جہد کا رخ موڑ رہے ہیں اور قوم میں بھی ناامیدی بڑ ھارے ہیں قومی جہد کا رخ قابض سے ہٹا کر اسے اپنے لوگوں کی طرف منتقل کرچکے ہیں ،یہ تربیت یافتہ تنظیموں کے اندر سرایت کردہ لو گ ۴ یا ۵ سے زیادہ نہیں ہو سکتے ہیں ، لیکن تمام ایماندار مخلص اور کمٹٹ لوگوں کو اپنی مہارت اور دغابازی میں پاکستان کے بجائے بلوچ قومی جہد کے خلاف استعما ل کررہے ہیں
، حلانکہ دنیا میں بہت سے جگہ اپنے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اس میں وہ لوگ جو مکمل جہد کے سامنے رکاوٹ رئے انکو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن عام لوگوں کو تمام کامیاب قومی جہد میں قومی مورچے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے انھیں ڈال کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا تمام جہد میں قابض کی رٹ کو چیلنج کرنے کیلے جہدکاروں نے قابض کے حمایتی لوگوں کو بھی چیلنج کیا جس میں الجزائر میں FLN نے ۱۹۵۴سے ۱۹۵۷ تک الجزائر کے مقامی ۶۳۵۰مقامی مسلمان اور۱۰۳۵ یورپیں مار ڈالے اسی طرح ویت نام میں بھی ہوا اور انھوں نے اپنے قومی جہد کو کامیاب کروانے کیلیے رکاوٹ ختم کئے لیکن اس میں ایک چیز کا بہت خیال کیا جاتاتھا کہ عوامی حمایت ان سے نہ نکل جائے اور لوگ انکی جہد کی حمایت کریں ،اور قو می امید ،ارزو اور تمنا کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا جبکہ دوسری طرف قابض کی سب سے بڑی کوشش رہی کہ قومی امید ختم ہو اس کیلئے قابض قومی جہد کے اندر اپنے لوگ داخل کرتا ہے تاکہ قومی جہد کا رخ موڑ دیں ،اس میں راز جو اور جاسوس کئی قسم کے ہوتے ہیں اور مخبروں کی ھنرمندی ،اور تیزدستی کے مطابق انھیں کام پر لگایا جاتاہے ،انکی مہارت کے مطابق انکو کام دیا جاتا ہے جیسا کہ کے جے بی کے جاسوس جب امریکہ کے ایٹم بم کے خلاف کام کرتے تو انھیں ایٹم بم کے بارے میں مکمل عبور حاصل تھا اور انھیں سائنسدان بناکر ایٹم بمب کی راز معلوم کرنے کے لیے Manhattan Project.میں جاسوسی کے لئے بیج دیا جاتا تھا Theodore Hall ایک کے جے بی کا جاسوس تھا جو امریکہ میں عالم طبیعات تھا اور ایٹم بم کے میدان میں جاسوسی کرتا تھا جس نے اس فیلڈ میں جاسوسی سے بڑی کاری ضرب لگائیں ۔ انسٹی ٹیو ٹ فار انٹیلی جنس اینڈ اسپیشل سروسس یعنی موساد ،موساد کی بنیاد رکھنے والے اور اسکے پہلے سربرہ ریوین صیولا نے کہا کہ ہماری ریاست خطرے میں گھیرا ہوا ہے اور اسکو جاسوسی کی تمام ہربے استعمال کرتے ہوئے تمام خطروں سے نجات دلانا چاہئے پھر موساد نے جاسوسی کے میدان میں تلکہ مچایا سب کو معلوم ہے اس نے زیادہ تر عورتوں کوجاسوسی کے لیے استعمال کیا اور انکے ذریعے دوسری ممالک میں اپنے مخالفین کا کس طرح صفایا کیا یہ کام وہ مہارت یافتہ لوگوں سے کرواتا رہا ہے ۔اور اس نے حزب اللہ کے ٹاپ لیول پر اپنے جاسوس سرایت کئے اور ان میں بہت سے لوگ پکڑے بھی گئے ہیں حالیہ دنوں حسن نصراللہ نے کہا کہ اس نے اپنے خاص بندے پر ا نکی نقل عمل کی وجہ سے شک وشبہات کااندازہ لگایا او ر بعد میں جب اسے گرفتار کیا تفتیش کی تو پتہ چلا کہ وہ موساد کے لیے کام کررہا تھا ،اسی طرح فلسطین کی تحریک میں مسلح تنظیم میں بہت سے لوگ گرفتار ہوئے جو موساد کے لیے کام کررے تھے موساد کے مائیک ہراری نے ہولمپک کے تمام حملہ آوروں کو مختلف ممالک میں جاسوسی سے قتل کروا یا اور وہاں بڑے بڑے ہربے استعمال کئے ، ۲۰۱۰ میں موساد نے دبئی میں حماس کے رہنما محمد ود مباح کو زہر دیکر قتل کردیا ،برطانیہ نے ائرش تحریک کے اندر کئی لوگ شامل کرکے انکے پالسیاں تبدیل کی اور کچھ جاسوس سے انکے لوگ قتل کرائے ۔Stakeknifeجو کے برطانیہ کی فوج میں ۲۵ سال تک ذمداری سرانجام دیتا تھا بعد میں اسکی مہارت کی وجہ سے ا سے IRAکے اندر گھسایا گیا اور یہ اپنی چالاکی کی وجہ سے انکا خاص بندہ ہوگیا وہاں سے وہ جہد کا رخ ٹیکنکل انداز میں موڑنے کے ساتھ ساتھ جہد کے حمایتیوں کو کنارہ کش کرواتا رہا اوور اسکا کام تھا کہ real IRA,IRA,اور PIRAکے درمیان اختلافات کو بڑھائیں اور اندرونی طور پر انکو ایک دوسرے کے خلاف دست گریبان کریں اور سیاسی اختلافات کو اس ایجنٹ نے بہت بڑھا چڑھایا اور انتہائی مہارت سے ساراکام کروا تا رہا اسلئے اسے جبرالٹر میں ۸۰۰۰۰پاونڈ سالانہ ملتے تھے جو کہ برطانیہ میں کم لوگوں کو اتنی بڑی رقم ملتی تھی ۔Kevin Fultonجسکا اصلی نام Peter Keeleyتھا جو کہ MI5کا بندہ تھا جسے پلاننگ کے تحت ائرش ریپلک آرمی میں سرایت کرویا گیا اور یہ IRAمیں بمب بنانے والے ٹیکنکل ماہر کے طور پرکام کرتا تھا اور اس طرح تنظیم میں لوگوں کی حمایت بھی حاصل کی لیکن جس طرح انتہائی مہارت سے بمب بناتا تھا اسی طرح مہارت سے خفیہ طور تحریک کا بھی ستیاناس کرواتا رہا ،Benedict Arnoldامریکی جنگ آزادی میں ایک جنرل تھا جیسے جارج واشنگٹن نے Philadelphiaمیں کمانڈر مقرر کیا ،یہاں سے آرنولڈ بناڈک حب الوطن امریکی جنرل سے برطانیہ کا ایجنٹ بن گیا اور وہ برطانیہ کا ایجنٹ ہوتے ہوئے تحریک کے اندر دشمن کے لئے انتہائی ہوشیاری اور چالاکی سے کام کرتا رہا حلانکہ سارے علاقے کا کمانڈر اور گوریلا جنگ میں امریکہ کے بانی اور قومی آزادی کی جنگ لڑنے والے جارج واشنگٹن کا دست راست اور خاص بندہ تھا لیکن اندرونی سطع پر دشمن کیلئے کام کرتا رہا ۔John Andr233جو کہ امریکن فوج میں ایک جنرل تھا اس نے ارنولڈ کی بیوی کے توسط اس سے رابطہ کرکے اسکو مخبری پر راضی کیا جب اسکو جنگ آزادی کی ایجنٹ ۳۳۵ نے گرفتار کیا تو معلومات ملی کہ امریکی جنگ آزادی کے ٹاپ کمانڈر جنرل بناڈک ایجنٹ ہے تو جارج واشنگٹن کو یقین نہیں آرہا تھا کہ بناڈک جیسا شخص دغا کرتے ہوئے دشمن کے ساتھ مل سکتا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دشمن سے ملا ہوا ہے اس لیے آج تک اسکا نام انگریزی زبان میں مخبری کے لیے استعمال ہوتا ہے Pakistan: Between Mosque and Militaryکے مصنف اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے ایک فورم میں اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ جب میں پاکستان کا امریکہ میں سفیر تھا تو مجھے پنڈی میں بریفنگ کے لئے فوج نے بلا یا اور مجھے بلوچستان کے حوالے بریفنگ دی گئی وہ پاکستانی فوج کی ذہنیت سے اتفاق نہیں کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ کچھ بلوچ لیڈران جو اس وقت افغانستان میں موجود تھے ان کی نقل وعمل کی ساری تصاویریں انکے پاس تھیں۔ جب وہ لیڈران ھندوستان جاتے اور وہاں قیام کرتے ، ٹیکٹ سے لیکر ھندوستاں میں قیام کے تصوریریں پاکستانی فوج کے پاس موجود تھیں۔ یہ معلومات کون انھیں دئے رہا تھا؟ ضرور اندر کے لوگ ہیں اور باہر کا کوئی ایجنٹ کسی سرمچار اور لیڈر کی تمام نقل و عمل کی رپورٹنگ نہیں کرسکتا ہے ،اسی طرح قابض نے بلوچستا ن میں اپنے جن لوگوں کو اندر سرایت کیا ہوا ہے ان سے بھی دو حوالے کام لے رہا ہے ایک وہ ہیں جن کے ذریعے اچھے اچھے جہدکاروں کونشانہ بنارہا ہے اور انکی مخبری کرواکر انھیں راستے سے ہٹارہا ہے دوسر ے ایجنٹوں کے توسط سے مکمل قومی پالسی اور پروگرام کو تباہ کرنے اورقومی امید ،آس ،کو ختم کررہا ہے ، کیونکہ امریکن اداروں کی نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اگر آپ کسی بھی جہد کو جڑ سے اکھاڑپھنکنا چاہتے ہو تو لوگوں میں قومی جہد اور پروگرام کے حوالے سے مایوسی پھیلاوُ اور جہد اور قوم کے حوالے انکی امید کو توڑو، کہتے ہیں کہ امید کے سہارے انسان زندہ ہے اسی طرح امید کے سہارے جہد بھی چلتے ہیں اورقابض کے اندرونی مہارت یافتہ ،چابک دست ،جاسوسی میں تربیت یافتہ لوگ کسی کی مخبری کرکے گرفتار نہیں کرواتے ہیں بلکہ وہ قومی آس ،امید کو توڑتے ہیں اور قوم میں مایوسی پھلاتے ہیں ،جس طرح ڈاکٹر کہور خان ،ڈاکٹر مالک اینڈ کمپنی ہمشہ کہتے تھے کہ بلوچ قوم نہیں ہے اور اسکی قومی تشکیل نہیں ہوئی ہے ،کیونکہ بلوچ قبائل میں تقسیم ہیں کیا انھیں قوم کے بارے میں معلومات نہیں تھی یا کہ وہ یہ سب کچھ پلاننگ کے تحت قومی امید کو تو ڑنے کے لیے کر رئے تھے ؟ ،۔
بلوچ جہد کے خلاف مختلف ابعادی طور پر کام ہورہا ہے ،آئے روز نوجوان ان اندرونی مخبروں کی مخبری کا نشانہ بن کر شہید کئے جارئے ہیں اور تنظیمیں باہر کے لوگ کو نشانہ بناکر صرف رسم اور ریت پورا کرتے ہوئے عام لوگوں کو انکے بدلے نشانہ بنارے ہیں اور وہ اندر کے ایجنٹ ساری جہد کا جوس نکال رے ہیں ،اور جہد کے خلاف نئے دشمن پیدا کررے ہیں اس مثل کی مانند کہ آبلاگلے پڑ نہیں پڑتی تو بھی پڑ ،خومخوا عام لوگوں کو دشمن بنایا جارہا ہے ،یہ سب کچھ خود نہیں ہورا ہے بلکہ کروایا جارا ہے اور کروانے والے لوگ اندر کے باقی ماندہ مخبروں اور ایجنٹوں کی طرح کے کچھ بناڈک ،اورStakeknifeہیں کچھ میں ہماری لیڈری ،نادانی اور شوشہ کا بھی اثر ہے ۔ اور اندر کے سرایت کردہ لوگوں کی پہچاں ضروری ہے اور زیادہ جہدکاروں اور سرمچاروں کو انکی قہر اور بلا سے بچانے کے لیے رازداری اور کم سے کم لوگوں تک معلومات کی فرہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے ،پوشیدگی اور راز داری کسی بھی قومی اور انقلابی جہد میں دولت اور خزانہ کی طرح ہے جس طرح خزانے کی چابی جتنے کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے اتنا ہی دولت کی محفوظی یقینی ہوتا ہے جتنا چابی زیادہ لوگوں کے پاس ہوتاہے اتنا ہی دولت کی چوری کا امکان ہوتاہے اور اگر چابی دو آدمی کے پاس ہو اور خزانہ سے چوری ہو تو دو کے اوپر شک کرکے چور کو پکڑنا آسان ہوتا ہے بجائے کہ وہ چابی بہت سے لوگوں کے پاس ہو۔ اسی طرح قومی جہد میں کم سے کم لوگوں کو رازدار کیاجاتاہے تاکہ اگر کل کو راز افشان ہوں تو ان چند لوگوں سے پوچھ گچھ آسان ہو ں نسبت بہت زیادہ لوگوں کے ،اس طرح کرنے سے اندرونی مخبروں کی پکڑ بھی آسان ہوتا ہے ، جس جہد کا اصول یہ ہو کہ
کم جانو اور کم سے کم لوگوں کو معلومات میں حصہ دو تو اس جہد میں قابض آسانی سے اگر سرایت کربھی جائیں تو ساری معلومات اور سب کو نقصان دینا انکے لیے مشکل ہو جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں سب کو سنگت دوست اور جہدکار سمجھ کر سوئی سے لیکر دھاگے تک سب معلومات دی جاتی ہے ،اس لئے ہم قابض کا آسانی سے ہدف بھی بن رہے ہیں ،کسی بھی جہدکار سے اسکی ساتھی کی گرفتاری یا شہادت کے بارے میں کوئی جانچ ،کھوج اور تفتیش کے بغیرسب کچھ فراموش کیا جاتا ہے جس سے اندر کے مخبروں کی حوصلہ افزائی ہورئی ہے اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام کررئے ہیں ،کوئی ایک تنظیم کہے کہ میرے اندر قابض کے لوگ نہیں ہیں تو یہ اکسویں صدی کی سب سے بڑی مزاق ہوگی ،اگر ہیں تو امریکن ،ائرش،حماس کی جہد کی طرح انکو پکڑنے کی کوشش ہونا چاہئے اور کسی بھی جہدکار ساتھی پرشک صیح عمل نہیں ہے لیکن چیک رکھنا انتہائی ضروری ہے ،ہر ایک کی اعمال پر نظر رکھنا ضروری ہے اور انکے طریقہ واردات کے بارے میں بھی لوگ لکھیں تاکہ سب کو اندازہ ہو کہ یہ لوگ کس طرح کام کرتے ہیں اور قومی جہد کو کس طرح نقصان دیتے ہیں ،سب کی وفادریاں پارٹی گروہ اور شخصیات کے بجائے قومی کاز اور قومی پروگرام سے ہو اور قومی کاز کو کوئی بھی آدمی چائے اندر کا ایجنٹ ہے یا کوئی اور جہد کو نقصان دے رہا ہے تو سب کا قومی فرض بنتا ہے کہ اس کے خلاف تعمیری اور اصلاحی تنقید کرتے ہوئے جدوجہد کو اندر کے سرایت کردہ لوگوں کی نقصان کے ساتھ ساتھ قوم کو مایوسی اور ابہام کی دلدل سے نکالیں ۔
اگر بی ایل ایف اور بی ار اے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان ان تنظیموں میں اپنے ایجنٹ سرایت کرا چکی ہے جو کافی عرصے سے بی ایل ایف اور بی ار اے کی پالسی بدل رہے ہیں. جس طرح امریکی جنگ آزادی میں برطانیہ کے ایجنٹ کمانڈر تھے اسی طرح بی ایل ایف اور بی ار اے میں بھی ان کے ایجنٹ بڈے بڈے پوزیشن پر تھے اور اب بھی ہیں . جس سے ان تنظیموں کے اندر مخبروں کی موجودگی کا انکار کیا جاتا رہا لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ مقبول شمبے زئی جو بی ایل ایف کا کمانڈر اور ڈاکٹر اللہ نظر کا قریبی ساتھ تھا. اس نے بی ایل ایف کے مخلص سرمچاروں کو شہید کروایا. ذاتی دشمنوں کو تحریک کے نام پر شہید کیا اوربیگناہ لوگوں کو سرکاری ایجنٹ کا لقب دیکر گہرام بلوچ کے زریعے قبول بھی کروایا اس کے بعد اپنا کام تمام کرکے دشمن کے ساتھ مل گیا اور آج پاکستانی فوج کا مکمل سپورٹ اس کے ساتھ ہے . اسی طرح حسن بی ایل ایف میں تھا جو سرکار کے لئے کام کر رہا رہا تھا لیکن اس نے بی ایل ایف کے تین مخلص سرمچاروں کو کیمپ میں شہید کیا لیکن بی ایل ایف نے کچھ نہیں کیا لوگوں نے اس کے مشکوک سرگرمیوں پر اعتراض کیا لیکن بی ایل ایف ٹھس سے مس نہیں ہوئی اور حسن بھی آخر اپنا ٹاسک تمام کرتے ہوئے اپنے آقا پاکستان کے پناہ میں چلا گیا ۔ اسی طرح بی آر اے کے رکن میجر باسط ، حمل اور صمد چوری ،قزاقی ،ڈاکہ،رہزنی ،لوٹ مار اور بے گناہ لوگوں کو مارنے جسے سرگرمیوں میں ملوث تھے . باسط نے پنجگور کے علاقے کاٹاگیری، پروم، گچک میں درندگی کی انتہاہ کردی ، یہاں تک کے ان دلالوں نے کسی بیرونی قابض فوج کی طرح بلوچ عورتوں کی عزت کو بھی پامال کیا ۔ لوگوں کو بلوچ قومی تحریک سے بدظن کرنے کے لیے ان لوگوں نے قابض کے ایما پر چوری چکاری بے گناہوں کا قتل جیسے عمل انجام دیے ۔ ان اندرونی ایجنٹوں کی وجہ سے تحریک کے لیے عوامی حمایت تقریبا ختم ہوگیا یہی باسط دشمن کا ایجنڈا سرانجام دینے کے بعد باقیوں کی طرح ۱۴ اگست میں سلنڈر کر جاتا ہے
بی آر اے کا سربراہ تو آج کل خود آزادی سے دستبردار ہونے کی تیاری میں ہے اور اس کی تنظیم نے بھی بلوچ قومی تحریک کو بہت نقصان دیا. ستار بگٹی برھمداگ بگٹی کا دست راست تھا اس نے نصیرآباد اور دوسرے جگوں میں غریب عوام کا جینا حرام کیا ، تحریک سے لوگوں کو بدظن کیا براھمداگ کی پشت پناہی میں اس نے تمام کام کیے، لوگوں کو دھمکا کر بھتا لینا، اغوا برائے تاون اور بیس بیس کھو سو بلوچوں کو شہید کرنا یہ وہ جگہ ہیں جہاں کے لوگ تاریخی طور پر بلوچ تحریک سے دور تھے لیکن ستار بگٹی او ر براھمدگ کے دوسرے لوگوں نے نصیرآباد کے لوگوں کو موجودہ تحریک سے نزدیک کرنے کے بجائے انھیں قومی تحریک سے مایوس کیا جو کچھ حد تک تحریک میں دلچسپی لے رہے تھے۔ . انھیں برہمدگ کے دست راست ستار اور باقی بی ار اے کے سرمچار تحریک سے کسی حد تک نراس اور ناامید کردیتے ہیں پھر ستار بھی اپنے تنظیمی سربرا کے قومی آزادی پر سمجوتہ کرنے سے پہلے دشمن کے پاس سرینڈر کرتا ہے ؟ مکران میں بی ایل ایف کے صفوں میں موجود ان ایجنٹوں نے بی ایل ایف کی پالسی کسی نہ کسی طرح سے بدل دی ہے ۔ بی ایل ایف کی قومی آزادی کی پروگرام سے ۷۰ ڈگری اور برہمدگ بگٹی کی ۱۹۰ڈگری کی تبدیلی حالت اور قالب بدلنے کی سیاست کے پیچھے بیناڈک ارنولڈ اور شمبے زئی ستار ،باسط جسیوں کے کردار کو نظر انداز کرنا بھی صیح عمل نہیں ہوگا ،کیونکہ ان اندر کے ایجنٹوں نے ان تنظیموں کی پالسی تبدیل کرواتے ہوئے قوم کو ان سے اور کسی حد تک قومی جہد سے اس طرح بیگانہ کیا کہ ڈاکٹر اللہ نظر کے بھائی سمیت نزدیکی لوگوں کی شہادت کے بعد بھی مکران میں عوامی ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا ۔حالانکہ ۔پہلے ان ہی علاقوں میں نواب اکبر خان بگٹی ، غلام محمد بلوچ، قمبرچاکر کی شہادت پر لوگوں نے پاکستان کے خلاف بڈے پیمانے پر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ بی ایل ایف اور بی آر اے میں کچھ مخلص سرمچاروں کے علاوہ اکثریتی رکن دو صدی قبل تحریر شدہ میری شیلی کے ناول فرینکاسٹین کے درندہ کی طرح بن چکے ہیں.ناول کا مرکزی کردار ڈاکٹر وکٹور فرینکاسٹین ایک قابل ڈاکٹر ہوتا ہے جو اپنی سائینسی علم کے ذریعے ایک انسان نما درندہ اپنے مفادات کے لئے پیدا کرتا ہے. وہ درندہ فرینکاسٹین کے خاندان کے افراد کو چن چن کر قتل کرتا ہے. فرینکاسٹین جانتے ہوے بھی اس کا کچھ نہیں کرسکتا اور فرینکاسٹین کے مرنے کے بعد وہ درندہ اپنے آپ کو خود تباہ کردیتا ہے. بی ایل ایف اور بی آر اے بھی فرینکاسٹین کی درندہ کی طرح بن چکے ہیں ۔جو قابض کے خلاف وجود میں لائے گئے تھے لیکن اسکے برعکس یہ عام بلوچ عوام اور فرینکاسٹین کی طرح اپنے لوگوں کو چن چن کر ہلاک کر رے ہیں ۔ قمبر قاضی ، حکیم بلوچ، کچکول بہار اور ندیم حاجت جیسے سرمچاروں کو یہ تنظیمیں خود شہید کرچکے ہیں. یہ درندہ آخر میں اپنے بانی کو بھی شکار کرسکتا ہے اور اس کو کوئی روکھ نہیں سکتا کیوں کہ اسکی فطرت ہی ہے اپنے لوگوں کا شکار کرنا ہے ،اس لئے اس وحشت انگیز ،جفا جو وحشی سے شکاری جسے اچھے لوگ خود کو اور قومی سوچ رکھنے والے اپنے جہدکاروں کو محفوظ رکھیں ،پاکستان کی کوشش اور ان تنظیموں کے ذمداروں کی مفاد پرستی نے آج ان تنظیموں کو ایک ایسا وحشی درندہ بنادیا ہے جو ایک طرف قوم پر عذاب سے کم نہیں.تو دوسری طرف اپنی ہی تنظیم کے لوگوں کو خود نگل رہے ہیں ۔ اب بلوچ قوم کا امید صرف بلوچ لبریشن آرمی ہے. بی ایل اے میں بھی پاکستان نے اپنی بھر پور کوشش کی کہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے قومی پروگرام کو نقصان دے سکیں لیکن بی ایل اے نے IRA،حماس،آمریکی جنگ آزادی کے جہدکاروں کی طرح انھیں ڈھونڈ نکالا ان مخبروں کو گرفتار کیا اور قوم کے لئے انکی ویڈیو بھی شایع کی . کچھ مخبر شیرباز جمالدینی کی طرح جان بچا کر لندن میں بی این ایم کے ممبر حمل حیدر اور مہران مری سے تعلقات استوار کرتے ہوئے انکے حمایتی بن گئے ۔باقیوں کو بی ایل اے نے پکڑ کر سزا دی ۔ بلوچ سیاسی ورکروں کو یہ بات سمجنا ہوگا کہ دشمن کے بہت سے روپ ہوتے ہیں کبھی کبھی وہ ساتھی ،سنگت ،دوست بن کر وہ نقصان دیتا ہے کہ دشمن فوج نہیں دے سکتا ہے ،مخبر اور ایجنٹوں کو بہت سے ، کار مفوضہ اور کردار دئے جاتے ہیں سب سے ہم قومی سوچ کو قومی آزادی کی تحریک سے ٹیکنیکل انداز میں پھیردینا ،اچھے فکری اور قومی سوچ کے حامل افراد کو نشانہ بنانا ،اور تیسرا چھوٹا کام انکی مخبری کروکر انھیں گرفتار کروانا ، لیکن دشمن کی ان چالوں سے صرف وہ تنظیمیں بچ سکتی ہیں جن کا ڈسپلن سخت اور وہ ہروقت چوکس رہتے ہیں ،وہ تنظیم جو دوستوں پر شک نہیں بلکہ ہر وقت چیک رکھتا ہے وہ قابض کی چالبازیوں اور قومی تحریک کو نقصان دینے پر کاونٹر حملہ بھی کرتا ہے وائی تنظیمیں قابض کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر انھیں شکست دے سکتے ہیں باقی ناوقف اور قابض کی چالبازیوں سے غافل تنظیمیں فرینکااسٹین کی درندہ کی طرح قابض کی چالبازیوں کا شکار ہوکر خود کے ختم ہونے کا سبب بنتے ہیں