ہم کہاں بھٹک رہے ہیں ؟ ایک طرف جنگ اور دوسری طرف قوم پارٹی بازی کی شکل میں انتشار کا شکار! قومی سوچ کو لیکر مزاحمت کی ابتدا ہوئی اور جب بھی قومی جہد کی بات ہوئی تو پارٹی بازی آڑے آگئی ۔ اس پارٹی بازی کی لعنت سے قوم کی جان کب چھوٹے گی؟ قومی تحریک پارٹی بازی کی اپروچ سے کب باہر نکلے گی یہ وقت بتائے گا، مگر وقت کا انتظار کیے بغیر ہمیں قومی تحریک کے تمام سیاسی معاملات کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تو آئیے سب سے پہلے قومی سوچ کے حوالے سے بات کریں۔ قومی سوچ یا نیشنل آئیڈیالوجی کیا ہے؟۔ قومی سوچ اس وابستگی کے رشتے کو کہتے ہیں جس سے کسی معاشرے کی یکساں کلچر و زبان اور زمین کی مخصوص پہچان رکھنے والے افراد آپس میں جڑے رہتے ہوں۔ اجتماعی سود وزیاں کا ادراک رکھتے ہوں۔ سماجیات کے ماہریں اس بات پر متفق ہیں کہ انسان پیدائشی ہم فکر نہیں ، بلکہ وہ اس ڈر کی وجہ سے ہم فکر بنے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تنہائی میں فطرت کے تباہ کن بلاؤں کے سامنے اپنے وجود کو برقرار نہ رکھ سکیں۔ اسی ڈر نے آپسی وابستگی کے رشتوں کو مضبوط کیا اور انسانی معاشروں کو تشکیل دی۔ قبائلیت کی سفر طے کرتے ہوئے قومی کلچر وتہذیب تمدن کو اپنے معاشرتی رشتوں کا پہچان بنایا۔ جس زمین پر زندگی شروع کی وہاں آداب حکمرانی کے اصولوں کو رواج دی۔ مختصر یہ کہ اس تمام پروسس سے گزر کر بلوچ بھی دوسرے اقوام کی طرح معاشرتی بود باش رہن سہن کے قومی دائرے میں پہنچ گئے اور قومی سوچ کا حامل معاشرہ تشکیل دینے میں بھی کامیاب ہوئے۔پچھلے زمانوں میں صرف فطرت کے تباہ کن بلائیں، یعنی طوفانی ہوائیں برف باریاں، وبائی امراض، ہولناک انسانی قبائلی جنگیں قحط سالیاں، اور بہت سارے دوسرے نامعلوم عوامل نے انسانوں کے لیے خطرات پیدا کی تھیں۔ مگر اب اس نئے زمانے کی ترقی یافتہ انسان کے اپنے پیدہ کردہ تباہ کن خواہشات، لالچ ، استحصالی خصلت اور قبصہ گیریت نے بھی کمزور اور زیردست انسانوں کیلئے کئی گنا کی خطرات پیدا کیئے ہیں۔ وجود کی بقا کو تحفظ اجتماعی معاشرہ نے دی اور اسی نے ہم فکری یعنی قومی سوچ کے تصور کو جنم دیا ۔ اسی قومی سوچ کے تصور کو لیکر پروفیسر محمد عزیز بگٹی نے اپنے کتا ب بلوچ قومی تاریخ شخصیات کے آئینہ میں ، میں لکھا ہے کہ بلوچ قوم کی قوم بننے کی پروسس اس وقت مکمل ہوئی جب نیپ میں بلوچ قوم کے سارے نمائندے میر غوث بخش بزینجو، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطاللہ خان مینگل ایک ہی پلیٹ پارم پر اکھٹے ہوئے! پروفیسر عزیز کی بات سچ ہے کہ یہ چاروں رہنما ایک مختصر مدت تک اکھٹے رہے مگر غیروں کی پلیٹ فارم پر یعنی نیپ میں اس مختصر سی مدت کا ان کا یہ ا کٹھ بلوچ قوم کیلئے ایک ایسی بلا ثابت ہوئی کہ جس کے اثرات سے ہم آج تک نکل نہیں پارہے ہیں۔ ان کے بعدکی آپسی بیر اتنی سخت تھی کہ وہ دوبارہ قومی سوچ کے تحت کبھی اتحاد نہ کرسکے اور چاہتے ہوئے بھی قومی سوچ کے تحت بلوچ قومی مفاد کو تحفظ دینے میں سخت ناکام رہے۔ مجبوری کہوں یا لاچاری، مگر چاروں نے اپنے الگ الگ گھروندے بنائے ، ایک دوسرے سے بڑھکر قوم کی نمائندگی کا دعوی تو کر بیٹھے۔ مگر قومی جہد کو پس پشت ڈالا۔ یہاں قومی سوچ کو بلوچ کی فطری خشک مزاجی اور اکھڑپن مڑاہ و میار اقبائلی انا نے پروان چڑھنے نہیں دیا۔ ان بلوچ رہنماوں نے قومی سوچ کی ابتدا تو کی مگر اسے تنا ور درخت بننے سے پہلے ہی اپنے ہی ہاتھوں نرسری کی عمر تک پہنچتے ہی کاٹ ڈالا۔ سائنسی مکانیزم کے مطابق جب قومی سوچ پختہ ہوگی وہ قومی جہد کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ موجودہ دور میں انفرادی طور کئی مسلح اور سیاسی تنظیموں میں آزادی کے نعرے کو لیکر جہد کررہے مگر ان میں ابھی تک قومی جہد کی بجائے پارٹی پالٹکس کے شوق نے یکجاہ ہونے سے روکے رکھا ہے۔ ہاں البتہ سنگت حیربیار مری نے کئی دفعہ کوششیں کیں کہ تمام آزادی پسند قوتیں قومی سوچ کے تحت قومی جہد کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں تاکہ قوم کیلئے آسانیاں پیدا ہوں لیکن قومی سوچ کو قومی جہد میں تبدیل ہونے میں بہت سے رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں ۔ اب یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی جہد کیا ہے؟ مروجہ فی زمانہ جمہوری دستور کے مطابق جن آزاد ملکوں میں جب الیکشن ہوتے ہیں تو وہاں جو فریق یا پارٹی جیت جاتا ہے وہ اقتدار میں آتا ہے ۔ لیکن جب واضح جیت ثابت نہ ہو تو اکثر وہاں قومی حکومت بنائی جاتی ہے، جیسے کہ حال ہی میں ا فغانستان میں برابر قوت کے طور پر ابھرنے کی وجہ سے اشرف غنی اور عبدللہ عبدللہ کی مخلوط حکومت بنی اور حال ہی میں شام کے زیر تسلط 16 کرد تنظیموں نے 2011 میں عراقی کردستان کے صدر مسعود برزانی کے مصالحت کے تحت عبدالحکیم بشار کے سربراہی میں ارابیل کے شہر میں ایک ا امبر یلہ کردش نیشنل کونسل Kurdish National Councilتشکیل دی ہے۔ اب اس سے بڑھ کر تقریباً ایران ،عراق ، شام اور ترکی کے زیر تسلط تمام آ زادی پسند کردش پارٹیاں ایک ہی قومی پلیٹ پارم Kurdish Supreme Councilپر جمع ہوچکے ہیں۔ اور یہی ان کی قومی جہد کا ثمر ہے کہ دنیا کے تقریبا تمام ممالک ایک سے ایک بڑھ کر ان کی ہر طرح کی کمک و مدد کیلئے تیار کھڑاہے۔ اسی طرح فلسطین کے ٹکڑیوں میں بٹی کئی تنظیموں نے 1964 میں یاسرعرفات کے سربراہی میں فلسطین کی امبریلہ تنظیم پی ایل او کو اردن میں تشکیل دی ۔ بعد ازاں ۱۹۷۴ میں تمام عرب ممالک کے نمائندوں نے رباط میں یہ اعلان کیا کہ پی ایل او ساری فلسطینی قوم کی نمائندگی کا تمام ذمہ واری قومی اور بین الاقوامی سطح پر لے گا۔ ۲۲ مارچ ۱۹۷۶ کو پی ایل او کے نمائندوں کو اقوام متحدہ میں داخلہ دیا گیا تاکہ وہ اسرائیل کے زیر تسلط اردن کی مغربی پٹی کے بارے تمام شرائط پر بحث کرسکیں اور پی ایل او کی امبریلہ قومی اتفاق نے دنیا کو اخلاقی طور پر مجبور کیا کہ وہ اس کی جائز حیثیت کو مانیں۔ اسی طرح فلسطینیوں نے بھی قومی جہد کو اپنا کر اپنے جائز حیثیت کو منوائی۔ جب بلوچ ، قومی جہد کے مرحلے میں داخل ہوگی تو لیڈرشپ کو بلوچ کی آزادی کے کیس کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں نہ صرف آسانیاں ہونگے بلکہ دنیا میں بلوچ دوست ممالک کو بھی بلوچوں کی جائز حیثیت کو ماننے میں بھی دشواریاں پیش نہیں آئیں گے۔ مگر آ ج ہماری تمام آزادی پسند پارٹیاں قومی جہد کی تصور سے بہت پیچھے ہٹ چکی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ سب سولو فلائٹ کرنے کا مصمم ارادہ کرچکے ہیں۔ سولو فلائٹ نوبت اس لیے پیش آئی ہے کہ مزاحمتی تحریک کے ابتدائی ایام کے خوش گوار سیاسی ماحول سے کماحقہ استفادہ کرنے کے بجاے، شک و شبہات کے بنیاد پر بی ایل اے کی ۲۰۰۸ میں تحریک آجوئی کو قومی جہد میں تبدیل کرنے کی تجاویز کو بی ایل یف نے یہ کہتے ہوئے مسترد کیا کہ آ پ کا کیا بھروسہ ، آ پ ایک سردارکی قیادت میں لڑ رہے ہو، کل اگر سردار پاکستانی سیاست میں مراجعت کرے تو وہ جہد کو جاری رکھیں گے؟۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی ایل اے کی وہ تجویز یعنی قومی تحریک کے تمام وسائل (افرادی قوت سے لیکر جنگی سازوسامان بمع تمام آزادی پسند تنظیموں ) کو یکجاہ کرتے ہوئے اسے قومی جہد کی شکل دینگے اب بھی ٹیبل پر پڑا برقرار ہے ؟ اور اگر اب بھی برقرار ہے تو کیا بی ایل ایف کی بھی طبقات والا خدشہ و مستردگی اب بھی برقرار ہے ؟ اپروچ پارٹی بازی!: قومی سوچ کے تحت شروعاتی دور میں بی ایل اے نے دوسرے آزادی پسند تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات روایتی بھائی بندی کے اپروچ کے تحت آگے بڑھائے جس کا نتیجہ منفی نکلا۔ یار لوگوں نے قومی سوچ کو قومی جہد میں تبدیل کرنے کی بی ایل اے کی ہر تجویز کو پارٹی بازی کے نوک پر رکھا۔ ۲۰۰۸ میں قومی وسائل کو یکجاہ کرنے کی تجویز کی مستردکی، ، مہران مری کے کرپشن کے حوالے بی ایل ایف پر اعتماد کرتے ہوے اسے ذمہ واری سونپنا کہ وہ اس معاملے کو غیرجانب داری سے حل کے بارے میں غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس ذمہ واری سے عہدہ برآ ں نہ ہونا، پھر آزاد بلوچستان کے چارٹر کو بی ایل ایف، بی آر پی ، بی ایس او آزاد اور بی این ایم کی طرف سے بلا وجہ معقول جواز دیے بغیر مسترد کرنا ۔ قومی تحریک کے سیاسی پہلو ،بلوچ نیشنل فرنٹ پر شب خون مارنا، شہید چیر مین غلام محمد کی تمام سیاسی کامیابیوں پر پانی پھیرنا، بی این ایف کو بلا وجہ تھوڑ نا، بی ایس او آزاد کی غیرجانبدار حیثیت کو پارٹی بازی کی نظر کرنا، عوام دوست تنظیمی پالیسیوں کی پرواہ کیئے بغیر ہر بندوق بردار کو کمانڈر کا نام دیکر اسے عوام کی عرصہ حیات تنگ کرنے کی کھلی چوٹ دینا ۔ مذکورہ تمام مسائل کو حل correction) ( کرنے اور پھر اسے قومی جہد کی جانب رواں کیے جانے کی ایک نئی اپروچ کے ساتھ سنجیدہ فکری دوستوں نے تحریک میں موجود تمام تضادات کو عوام کے سامنے لانے کی غرض سے لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ۔ اور یہ سلسلہ by choice نہیں بلکہ مجبوری کی حالت میں غلط رویوں کے تعین اور ان کی درستگی کیلئے شروع کیا گیا ،مگر اس تنقید نے آزادی پسند قوتوں کے درمیان ایک سیاسی کشمکش کو جنم دے دیا ۔ اس میں احتساب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایک طبقہ فکر یہی سمجھتی ہے کہ جب تک ہم قومی تحریک کے سابقہ ادوار کی غلطیوں اور متضاد رویوں کا اعتراف نہ کریں اور ان کی درستگی کیلئے عملی قدم نہ اٹھائیں اس وقت تک اتحاد کیلئے ہر اٹھتا ہوا قدم مزید پستیوں کی طرف لے جائے گا۔ ان کے خیال میں ا گر فکری دوستوں نے اس کی اہمیت کو نہیں مانا اور اسے درغور اعتناء نہیں سمجھا تو ان کیلئے صرف یہی ایک آپشن رہ جاتی ہے کہ وہ عوام کے سامنے ان تمام حقائق کوپیش کریں جن کی وجہ سے قوم اپنی آزادی کھو چکی ہے لیکن دوسری طرف کے طبقہ فکر کے پیروکار موجود ہ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کیلئے ابھی تک معقول جواز پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسے روکنے کی ہر طرح کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ لوگ سوشل میڈیا میں نامعقول کلمات اور تہمات کے سہارے ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔ ایک ایسا لکھاری بھی ان کو نہیں مل رہا جو ایک اچھے وکیل کی طرح عوام کے سامنے ان کا کیس پیش کرسکے ، ماسواے ان اخباری بیانات کے جو خلیل بلوچ اور بانک کریمہ بلوچ کی طرف سے میڈیا کے زریعہ عوام تک پہنچ جاتے ہیں جن میں سوائے الزامات کے اور کچھ نہیں اور وہ ابھی تک کوئی معقول دلیل اپنے غلط پالیسیوں کے دفاع کیلئے پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے طرف سے کچھ سنجیدہ دوست ضرور ایسے ہیں جو اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ تمام مسائل بات چیت کے زریعے حل کیے جائیں ، اور زور دے رہے ہیں کہ سوشل میڈیا میں آپسی معاملات کو مزید نہ اچھالا جائے۔ تو اسی بات کو لیکر میں نے جب شبیر بلوچ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ عملی طور پر ان کے طرف سے ان تمام اختلافی معاملات کے حوالے اعتماد بحالی کے اقدام اٹھاے گئے تو ان کے دوست ان کے ساتھ رسمی طور پر تمام قومی معاملات کو قومی جہد کے لوازمات کے روح کے عین مطابق بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ڈاکٹر اللہ نظر اور براھمدگ بگٹی اور ان کے ہم فکری دوست گزشتہ ۷ سالوں سے پارٹی بازی کے کسوٹی کو لیکر تحریک آجوئی کا فیصلہ کرتے آر ہے ہیں اور یہی پارٹی بازی اپروچ قومی جہد کے سامنے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ، موجودہ قومی تحریک کے تمام پہلو یعنی سیاسی پہلو عسکری پہلو، خارجہ امور کا پہلو دگرگوں حالات کے شکار ہیں۔ اور موجودہ حالت میں تمام سیاسی اور عسکری تنظیمیں قومی جہد کے لوازمات کو پوراکرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ا ب تحریک کے اندر کی حالات نے بہت سے کروٹیں بدلی ہیں۔ بلوچی زبان میں ایسی صورتحال کی تشریح کیلئے مُہر روگ کی لفظ استعمال ہوتی ہے جہاں کچھ نہ سوجھا جاے۔ یعنی باالفاظ دگر political deadlock سیاسی ڈیڈلاک صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ مگر اس تمام صورتحال سے نکلنے کیلئے ان تمام سیاسی سفارت کاری کے اوزار Instruments Diplomatic Politicalسے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کیا جارہاہے جن سے دوسرے اقوام نے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اندرونی اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کیا اور یکسوئی سے دشمن کے خلاف صفٖ آرا ہوئیں۔ ان میں سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ confidence building measures , یعنی دنیا کے دوسرے اقوام کی طرح پہلے اختلافی مسائل کے حوالے اعتماد سازی کے اقدامات اٹھائے جائیں اور پھر دوسرے مرحلے میں سیاسی سفارت کاری جیسے کہ پولیٹیکل ڈپلومیسی کو بروے کار لاتے ہیں۔ سیاسی سفارت کاری کے رابطے روایتی نہیں بلکہ رسمی یعنی فارمل formal ہوتے ہیں جسے اکثر سیکٹریز یا نائب یا دانشور، لکھاری یا سابقہ رہنما خفیہ یا عام حالت میں کنڈکٹ کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے روایتی اور سیاسی اوزار سے کما حقہ استفادہ نہیں کیا جارہا۔ میر ے خیال میں اسکی بنیادی وجہ بلوچ کی وہ سخت و خشک مزاج فطرت ہے جو بلوچ قومی زندمان کے ہر سطح پر یعنی عام بلوچ سے لیکر پرامن سردار تک میں پائی جاتی ہے۔ قومی تحریک کو متاثر کرنے والے تمام خارجی عوامل پر بلوچ قوم کا کوئی دسترس نہیں۔ بلوچ اپنی خواہش کے مطابق ہر قسم کا فیصلہ نہیں کرسکتا! اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ واقعات وقوع پذیر ہونے کے بعد پالیسیاں بنتی اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ صدام حسین نے کردوں پر کیمیکل ہتھیار استعمال کیے ، ہزاروں کے حساب میں کردوں کو شہید کرڈالا مگر کسی نے کردوں کی داد رسی نہیں کی اور کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگی اور جب حسب ضررورت امریکہ اور مغربی ممالک کو ان کی ضرورت پڑی تو عراق کے زیر انتظام تما م کردش علاقوں کو نو فلائی زون قرار دیا گیا او ر واقعات کو وقوع پذیر کرنے والے ہمیشہ اپنی پلانینگ کو خفیہ ر کھتے ہیں۔ اب ہم کیا جانیں کل کیا ہوگا۔ کس کے کچن میں کیا پک رہی ہے؟ اور جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں چاروں طرف دشمنیا ں ہی دشمنیا ں چل رہی ہیں۔ اور ہم متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ اب مڈل ایسٹ کو لیجئے ، ہمارے سرزمین کا ایک آدھا حصہ ایران کے قبضے میں ہے ، اور میڈل ایسٹ میں ایران سب سے بڑا کھلاڑی ہے، اور ہم براہ رست اس کی سیاست سے متاثر ہورہے ہیں ۔ لیکن مڈل ایسٹرن اقوام ایران کے بارے میں جو فیصلے لیتے ہیں تو کیا وہ بلوچ کی رضا یا قومی موقف کو دراعتناء سمجھتے ہیں؟ نہیں! مگر بات یہ ہے کہ کیا بلوچ قوم کا کوئی ایسا نمائندہ ہے جو مڈل ایسٹ میں بلوچ قوم کی ترجمانی کرے؟ ایران نے تقریبا تمام عرب ممالک کے ناک میں دم کر رکھا ہے، اور بلوچ مڈل ایسٹ کا ایک فریق ہے تو کیا بلوچ کی اس حیثیت کو منوانے کیلئے گزشتہ ۱۳ سالوں میں کیا کیا ہے؟ اب قومی تحریک کے سفارت کاری کے پہلو سے کون احمق انکار کرسکتا ہے۔ اس کام کو صرف باہرے بیٹھے ہوئے لوگ کرسکتے ہیں۔ باہر کی سفارت کاری کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب قومی تحریک کے اندرونی معاملات میں ناجائز مداخلت کرنے کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر نے بیرونی دنیا میں قومی تحریک کی ترجمانی کرنے والوں کے خلاف یہ بیان دیا کہ جس کو وار سائیکی کی بیماری لگ چکی ہے و ہ جنگ کے میدان میں آ ئے اس کا علاج ہوگا۔ لیکن آج کی ہمارے خطے کی جیوپولیٹکل سناریو کو دیکھتے ہوے ہماری موجود ہ دگرگوں صورتحال ایک بے ہودگی کے سوا اور کچھ نہیں۔ دنیا کے سپورٹ کے بغیر ہم اپنی آزادی لے نہیں سکتے۔ اور دنیا اس وقت ہماری سپورٹ کریگی جب ہم ایک مکمل قوم بن کر اپنا جائز مقام حاصل کرنے کا مطالبہ کرینگے۔ دنیا کیونکر ایک لنگڑے گھوڑے پر شرط لگائے؟ دوستوں کو یاد ہوگا جب سوریا میں جمہوری مزاحمتی قوتوں نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا تو اس دوران کئی کواٹروں سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اسدی رجیم انقلابی مزاحمت کو روکنے کیلئے کیمیائی ہتھیار استعمال کرے گا۔ تو امریکی صدر نے واضح انداز میں یہ بیان ٹوک دیا کہ اگر اسدی رجیم نے ریڈ لائن کراس کیا تو اس کے خلاف بلا ترد و فوجی کاروائی کی جائے گی۔ مگر اسی دوران کیمیائی ہتھیار استعمال بھی ہوئے، لیکن امریکی انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سنی مذہبی قوتیں جنہیں کئی مسلم ممالک کی طرف سے زبردست کمک اور مالی وسائل اسلحہ دیا گیا اور انھوں نے اپنی دہشت گردانہ کاروایوں کی وڈیو ز ، لوگوں کے سربریدے تصاویر کو بڑی جوش و جذبے کے ساتھ دنیا کے سامنے لاچکے تھے۔اور یہ مذہبی قوتیں شام میں نہ عیسائی مذہب کے پیرکاروں پر حملہ آور ہوچکے تھے بلکہ سیکولر مزاحمتی انقلابی قوتوں کے خلاف بھی کاروائیاں کررہے تھے۔ جارج گالوے جوکہ برطانوی پارلیمنٹ کا ممتاز رکن ہے نے شام کے اسدی فورسز کے خلاف امریکی اور برطانوی حکومتوں کو فوج استعمال کرنے کے فیصلے کو آڑے ہاتھو ں لیتے ہوے کہا کہ آ پ اگر اسدی رجیم کے خلاف فوجی کاروائی کروگے تو اس کی جگہ یہ وحشی مذہبی قوتیں سامنے آئینگے جو کہ انسانوں کے بریدہ سروں کو لہراتے پہرتے ہیں۔ مبصرین یہی کہتے ہیں جارج گالوے کی برطانوی پارلیمنٹ میں 6.50منٹ کی تقریر نے نہ صرف برطانوی بلکہ تمام یورپی یونین کی رائے عامہ کو بھی یہ باور کرایا کہ اسدی رجیم کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی جنگ غلط ہے، اس سے صرف مذہبی قوتوں کو فائدہ ہوگا۔ اب بلوچ مسئلے میں مغرب یا بین الاقوامی مداخلت کو روکنے کے غرض سے یہی سنیاریو کو پاکستان بلوچستان میں بڑی شاطرانہ انداز کے ساتھ متعارف کرا سکتا ہے، یعنی داعش کی بلوچستان میں موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے ان کے لیے کوئی بڑا مشکل کام نہیں، کیوں کہ اس نے بلوچستان کے ہر ضلع و تحصیل میں پہلے ہی مدرسوں کا جال بچھا رکھا ہے، اور ان ہی مدرسوں سے اسے داعش کیلئے افرادی قوت فراہم کرنے کیلئے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اب اگر پروپیگنڈے کی حد تک پاکستان بلو چستا ن کو داعش کے کنٹرول میں جانے کا پروپیگنڈہ کریگاتو کیا مغربی دنیا اس رایہ عامہ کو قبول نہیں کریگی؟ میں کہتا ہوں کہ بالکل کریگی کیونکہ پاکستان بڑی حد تک بلوچ مسئلے کو بین الاقوامی میڈیا کی رسائی کی راستے کو مسدود کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اس بات سے یہی ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کے بڑے طاقتوں کا سپورٹ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ بلوچ قومی تحریک کو روکنے کی غرض سے پاکستان ہر طرح کی ہر سطح کی مکر و فریب کرسکتا ہے اور بلوچ قوم کو بھی کم و بیش یہی حالات درپیش ہیں جو کردوں کو درپیش ہیں ۔ مگر آج انکی آ واز کو سنا جارہا ہے۔ اور ہم چیخ چیخ کر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان اور ایران دونوں بلوچ قوم کا نسل کشی کررہے ہیں، مگر کوئی سننے کیلئے تیار نہیں۔ مگر ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ دنیا کی اس لاتعلقی کا بنیادی سبب ہم خود ہیں اور بنیادی وجہ ہے پارٹی بازی کی خود غرضانہ سیاست۔ حرف آخر۔ قومی سوچ کو لیکر اگر قومی جہد نہیں کی گئی اور تحریک پارٹی بازی کے ہاتھوں ہائی جیک رہا تو بعید نہیں کہ ہماری حالت ریڈ انڈین لوگوں سے بھی بہت بری ہوگی ، خوش قسمتی سے ہمارے خطے کی جیوپولیٹکس ہمارے قومی جہد کی لیے بالکل سازگار و موافق حالات پیدا کیے ہوئی ہے، جیوپولیٹکس کی سیاست مست سمندر کی موجوں کی طرح ہے اور آج ہمارے چاروں اطراف طوفانی لہریں اٹھ ر ہی ہیں ، زندہ قومیں سمندر کی اٹھتی ہوئی طوفانی لہروں کے ساتھ surfing سرفینگ کرتے ہوئے کھیلتے ہیں۔ اور پسماندہ قوموں کے لوگ مچھیروں کی طرح طوفانی لہروں کے نیچے ڈوب جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیڈر صاحبان مچھیروں کی طرح ہماری ناو کو کنارے لگانے کی کوشش کرہے ہیں۔ اگر ہمارے لیڈر صاحبان نے موجودہ بلند ہوتی ہوئی موجوں کے ساتھ سرفینگ surfing نہیں کی تو ہماری ناؤ طوفانی لہروں کے نیچے آکر ڈوب جائیگی۔