شنبه, اکتوبر 5, 2024
Homeآرٹیکلزقومی مفادات اور حقیقی لیڈر

قومی مفادات اور حقیقی لیڈر

تحریر: شہزاد بلوچ
ہمگام کالم:
حصول آزادی ایک کٹھن جنبش کا نام ہے. جو تحریک عرصے دراز  تک رواں دواں ہوتے ہوں وہ مسائل کے انبار سے گزر کر یا تو کامیاب ہوتے ہے یا ناکامی سے دوچار ہو کردونوں صورتوں میں  تاریخ کے اوراق میں  پیوست ہوکر دیگر قومی تحریکوں کے لیے کامیابی کے اسباب بن جاتے ہیں. بلوچ قومی جہد ہنوز اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے، یہ کس کروٹ اوڈ لیتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس مرحلے میں ہم بخوبی تحریک کی کامیابی و خدانخواستہ ناکامیابی کے ادوار کا جائزہ حال, مستقبل اور ماضی کے عمل سے لگا سکتے ہیں.
جنگ ء آزادی محظ بندوق اور فوج کو مارنے سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ سفارت کاری میں بلوغت اور عالمی عوامی رائے کو دشمن کے ظلم و ستم کی جانب مبعوث کرنا اور اپنی پوری قوم کو مظلوم ظاہر کرنا اور ساتھ ہی اپنے سرمچاروں کے عمل کو عالمی سطح پر پروٹیکٹ کرنا  قومی لیڈر کے فرائض میں شمار ہوتے ہیں. لیڈر ہی قوم کے اعمال کا ذمہ دار  ہوتا ہے کیونکہ جنگ آزادی کی شروعات  جو اسنے آزادی کی خاطر قوم کے اوپر مسلط کی اسے اپنی ذمہ داری کا احساس آزادی کے حصول و بعد آزادی کرنا لازم ہوتا ہے. اگر قومی معاملات میں لیڈر چپ سادھ لے اور قوم کو وقت و حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو ایسے لیڈر  کا شمار نمودونمائش، شخصیت پرستی اور فرضی لیڈر کے طور پر ہوتا ہے جو اپنے نام و لیڈری کے بقا کے لیے قوم کو کچھ سناتا ہے اور خود عملی طور پر شخصی مفاد کے لئے کام کرتا ہے. یعنی قول وفعل کے تضاد کا حامی لیڈر بن کر قومی معاملات پر انفرادی سوچ کو تقویت دینے کی خاطر ہر اس معاملے سے خود کے دامن کو بچانے کے چکر میں قوم و قومی معاملات کا ستیاناس کر دیتا ہے. ایک لیڈر کی سوچ و فکر گروہیت سے بالاتر ہوتی ہے مثلاً اگر ایک تنظیم کوئی ایسا عمل سر انجام دیتی ہے جو قومی جہد کے لئے نقصان کا باعث ہو تو لیڈر کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس بابت قوم کی نمائندگی کرکے اپنی رائے دے تاکہ آئندہ کے لئے ایسی غلطیاں بار بار نہ دہرائی جائیں جس کی سے  عالمی سطح پر تحریک دہشتگردی کے زمرےمیں نہ آئے یا عالمی قوانین کی نفی نہ کرے. اس اسنا میں لیڈر اپنی سوچ و فکر اس بابت نہں لگاتا کہ اس کی ذات کی بابت دیگر جہدکار یا آزادی پسند کیا سوچتے ہیں. قومی مفادات کا دفاع ہی حقیقی لیڈر کا فرض ہے.
بلوچ جہد کے ماضی کا جائزہ اگر ہم لیں تو ماضی قریب میں آزادی کی جنگ کو کچھ جہدکاروں نے موڈ کر قوم دوست اور مخبری کی جنگ کی بد ترین شکل دی. ذاتی دشمنی کی انا کو تسکین دینے سے لے کر سیاسی اختلافات کی بنا پر ریاست سے زیادہ قوم کو ان سرمچاروں سے زیادہ خوف آنے لگا  جنہوں نے سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خود ریاست کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ لیڈر کی پہچان اسی وقت ہوگئی تھی جب اس نے قوم کے حق میں مخبری کے نام پر لوگوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھایا تھا. اسی اسنا میں بہت سے بیانات دوستوں کو یاد ہونگے کہ مخبری کی بنا پر جو قتل ہوئے تو اس بابت آواز اٹھی. قوم کے ذہن کی عکاسی کر کے کچھ سنجیدہ دوستوں نے نمود و نمائشی سرمچاروں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ اپنی پہچان کو مخفی رکھنا قوم و تحریک دونوں کی بقا میں ہے. لیکن بضد لوگوں نے گالم گلوچ کے ذریعے حقیقی اور قوم دوست دوستوں کو طرح طرح کے القابات سے نوازا, باوجود کے اپنی اپنی اصلاح کرتے  سرینڈر شدہ سرمچاروں نے اپنا دھندہ منشیات فروشوں سے جوڑ کر تحریک کے نام پر عوام کا قلع قمع کیا.
قوم نے بھی مشاہدہ کیا کہ ماسوائے کچھ دوستوں کے گراؤنڈ گراؤنڈ کی رٹ لگا نے والے کسی ذمہ دار نے اس قومی المیے کی بابت اپنے کان نہیں دھرے. مگر سنگت حیربیار مری نے وقتی سیاسی قدکاٹ کو بالائے تاک رکھ کر قومی ترجما نی کی چونکہ قوم ایک کرب سے گزر رہی تھی اور لوگ بار بار اپنے پیاروں کےقتل کی بابت سوالات کے جواب و ثبوت کے منتظر تھے جو آج تک انہیں کسی نے بھی فراہم نہیں کئے. حیر بیار مری نے وقت پر ایک ڈیڑینٹ کا کردار ادا کرکے قومی جہد کو ماؤ ماؤ طرز سے بچا کر اپنی دوراندیشی کا ثبوت دیا. اسی پالیسی کی بنا پر اس وقت کے ناقدین یہ تجزیہ کرتے نظر آئے کہ سنگت اپنی پالیسی کی بنا پر تنہا ہوگا مگر اسی دوران سینکڑوں لوگ سخت حالات میں ان کے کارواں سے جُڑے رہے بہت سوب نے سختیاں دیکھ کر اپنے راستے الگ کردئیے مگر حیربیار مری کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں آئی.
بلوچ معاشرے میں گروہی لیڈر تو بہت ہیں جو اپنے اپنے گروہ کے مفادات کو قومی مفادات پر ہمیشہ ہاوی دیکھتے نظر آتے ہیں اور بیشتر تو یوں نظر آتے ہیں کہ انہیں اپنے گروہ تک کا کنٹرول نہیں مگر بلوچ قوم نے اس تحریک میں حیربیار مری کو قومی لیڈر کے طور پر لیا جس نے کسی گروہ کو چاہے اپنا ہی کیوں نہ ہو قوم پر حاوی ہونے نہ دیا. اسی اسنا میں بلوچ قوم میں ایک ابہام تھا کہ اگر بلوچستان آزاد ہو تو کیسا نظام ہو گا؟ قومی بحث کو قوم کی امنگوں کی مانند حل کرنا قومی لیڈر کا ذمہ ہوتا ہے. دیگر یہ کہ عالمی سطح پر بھی ایک منشور دینا لیڈر کا فرض ہے کہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ آزاد بلوچستان اور اسکے باشندے یا جہد کار کیسی ریاست چاہتے ہیں؟ چونکہ ریاست کا متبادل ہی ریاست ہو تا ہے تو یہ لیڈرشپ کا فرض تھا کہ وہ ایک متبادل ریاستی ڈھانچے کو دنیا کے سامنے پیش کرتے. بلوچ تاریخ میں واحد لیڈر سنگت حیربیار مری ہے جہنوں نے قومی اور عالمی امنگوں کو پورا کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن چارٹر پیش کی مگر شومی قسمت سے گروہ اس قدر خودغرض ثابت ہو ئے کہ ایک قومی کاز کو سبوتاژ کرنے کے لیے چارٹر کی نفی کرتے رہے ہونا تو یہ چاہئیے تھا اس پر بحث ہوتی ایک صحت مند اور شائستگی کے ماحول میں اس کی شقوں میں بہتری لانے کے لئے سر جوڑتے لیکن ضد اور انا میں ڈوبے لوگوں نے اس کو بلا وجہ رد کردیا اور آج تک ان میں یہ اخلاقی جرات نہیں کہ وہ قوم کے سامنے آکر اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی وجوہات پیش کریں. مگر دور اندیش لیڈرشپ نے قومی چیز کو قوم کے سامنے مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے قوم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اپنی اپنی رائے دئے دیں۔ ابتک کی اطلاعات کے مطابق پچاس ہزار سے زائد رائے شماری چارٹر کے بابت آ چُکی ہے اور یوں حیربیار مری نے جمہوریت اور جمہوری سوچ کی بنیاد بلوچ قوم مے رائج کی. اس عمل کے ساتھ ہی وہ تمام حربے اب بے معنی ہیں جس سے قوم کو گمراہ کرنے کے لیے کلاس سسٹم کو متعارف کرانے کی کوشش بار بار کی جا رہی ہے. گویا اس چارٹر نے پاکستان کے اس حربے کو ناکام کر دیا جس سے وہ دنیا کو باور کرانا چاہتا تھا کہ بلوچ جہد کچھ سرداروں کی ملکیت ہے. مگر شومی قسمت کہ پاکستان تو ناکام اور چپ ساد کر کلاس سسٹم کی بابت بیٹھ گیا مگر ہمارے نام نہاد مڈل کلاسوں نے اس کو قابض سے بھی زیادہ دوام بخشا جو کسی صورت تحریک کے لیے سودمند نہیں.
بلوچ قومی جہد اندرونی و انتظامی مسائل سے دوچار ہی سہی مگر ایک حوصلہ افزا رفتار سے جاری و ساری ہے. ماضی کی نسبت آج کے مسائل سنگین نوعیت کے ہیں جس کی طرف سنگت حیربیار مری نے ماضی میں اپنے بیانات کے ذریعے واضح کیا تھا کہ تنظیموں کو تھوڑنے اور دھڑوں کو سپورٹ کرنے سے بلوچ جہد کو نقصان ہوگا مگر کچھ نادان دوستوں نے ہر موڈ پر صرف ایک پالیسی اپنائی کہ مائنس حیربیار مری کیسے کرنا ہے. تنظیمی معاملات میں مداخلت کرنا اور تنظیموں کو توڑنا آج کچھ لوگوں کا وطیرہ ہے. اگر خود اپنی تنظیم میں ڈسپلن رائج نہیں کر سکتے تو اس طرح سے چیزوں کو الجھا دو کہ  قوم کو یہ پیغام جائے کہ جو مسلح جہد کار ہیں انہیں ہر لحاظ سے استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کریں قومی جہد کو اگر پروکسی شکل دیں تو کوئی قباحت نہیں. مگر لیڈر اگر گراؤنڈ پر موجود نہ بھی ہو تب بھی وہ کنٹرول اور کمانڈ اسٹریٹجی کے ذریعے معاملات کی سوج بوج رکھتا ہے. سنگت حیربیار مری کے سوچ و فہم کا اندازہ آج سچ ثابت ہوا کہ بی. ایل. اے کو دو لخت کرکے مفاد پرستوں نے جوانوں کو ورغلا کر سرداری و مڈل کلاسی کی آڈ میں تنظیم کا نام استعمال کرکے کوشش کی کہ بی. ایل. اے کو ایران نواز تنظیم قرار دے سکیں. ایسے کام معطل ٹولہ نے دو سالوں میں انجام دئیے کہ پلک جھپکتے ہی بی ایل اے کو ایک دہشتگرد اور عالمی پابندیوں کے تنظیموں کی فہرست میں شامل کروا لیا. میں ان مخلص جوانوں کی طرف اپنی بات رکھتا ہوں کہ کیوں بی ایل ایف کوئی ایسا فدائی حملہ نہیں کرتا اور کیوں صرف معطل شدہ ٹولے کو دیگر تنظیم فدائی مہیا کرتے ہیں کیوں براس ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا؟ جواب صاف ہے کیونکہ عالمی دہشتگردی کا ٹھپہ جو لگے گا.  لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ راہ شون بن کر چیزوں کو پرکھے اور اپنے قومی سرمچاروں کو ایک ایسا ڈائریکشن دے کہ ان کے عمل کو عالمی سطح پر تقویت کے ساتھ ساتھ اس بابت جواب دہ بھی ہو. مثلا جب زیارت زیزیڈنسی کا واقع ہوا تو اسے جواز فراہم کرنے کے لیے سنگت نے ایک ایسا دفاعی اسٹینڈ لیا کہ دنیا میں ہمت نہیں ہوئی کہ اُسے کسی حیریٹیج پرحملہ کا ایشو بناتی جیسا کہ آج ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ داعش کے حملوں کے بابت عالمی ادارہ کلچر و حیریٹیج کس قدر سیخ پا ہے. مگر آج کونسلیٹ یا پھر اسٹاک ایکسچینج حملے کی بابت صرف سب اچھا ہے کہ سوا کوئی معقول دلیل نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر ہم دفاعی پوزیشن سے آگے بڑھ سکیں.جنہوں نے اسی حملے کی ناکامی کا غصہ سنگت کو یورپ کے ایجنٹ سے نواز کر بات کو گول مٹول کرکے خود کو کنارہ کش کر دیا اور شہداء کے خاندانوں کو جنہیں طرح طرح کے اذیت سے ریاست نے دوچار کیا ان کی طرف کوئی عملی اقدام لیا بس یا پھر نمود نمائش کے چکر میں سب بھول گئے.
اگر ہم عالمی سیاست کی بات کریں تو ایک سرد جنگ کی سی فضا ہے امریکہ ایک بلاک کی نمائندگی کر رہا ہے تو دوسری طرف چین ہے. امریکی بلاک میں بلوچ حمایتی ممالک میں انڈیا, بنگلادیش, افغانستان اور یورپ کے بہت سے ممالک ہیں. مگر چین کے الائینس میں صرف بلوچ دشمن ممالک ہیں جیسا کہ پاکستان, ایران, ترکی سر فہرست ہیں. اب کس زاوئیے سے کوی کہہ سکتا ہے کہ ایران بلوچ دوست یا پاکستانی زیر دست بلوچستان کی آزادی کا خواہاں ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ چین نے پاکستان میں  CPEC  کے نام سے اپنا سامراجی منصوبہ جاری رکھا ہے اور اس منصوبے کے خدوخال پاکستان کے وزیر اعظم کو بھی نہیں پتا کیونکہ یہ ایک مخفی معاہدہ ہے جس کا اعلامیہ کچھ دن پہلے ہی  CPEC authority  کے بے پناہ اختیارات کے تناظر میں دیکھا گیا جس کی سربراہی اب صرف قابض فوج کے  دست رس کے اندر ہوگا، جس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی اسٹریٹجی بھی شامل ہے. حال ہی میں ایران نے انڈیا کو بے دخل کرکے ایک ایسا ہی معاہدہ چین کے ساتھ کیا یقیناً ایران چین معاہدے میں بلوچ تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اس مسودے میں شامل ہوگا. چین ایران اور پاکستان کی اشتراک سے ہم اس امر کو کیسے باور کریں کہ بلوچ تحریک ایران کی بابت محفوظ ہے؟ مگر اس ایشو کو سنگت حیربیار مری نے عرصہ دراز سے آزادی پسندوں کے سامنے رکھا کہ ایران و پاکستان چینی مفادات کی خاطر آج نہیں تو کل بلوچوں کو بارگیننگ چپ سےسینڈوچ کرے گا. سنگت نے قوم کو اگاہی تو دی مگر ہم شاید اس وقت سمجھیں گے جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا.
بلوچ قومی تحریک کامستقبل روشن اور کامیابی پر اختتام پذیر ہوگا، جو لوگ آج سمجھتے ہیں کہ سنگت حیربیار مری آئیسولیٹڈ ہے وہ شاید اس بات سے آشنا نہیں کہ مستقبل میں حقیقی جنگ وہی لڑے گا جو آج روپوش ہے اور ریاست یا ایران کو ان کی بھنک بھی نہیں. عالمی رساکشی میں بلوچ تحریک انتہائی متحرک اور مخفی جنگوں کے ساتھ ہوگی اور سنگت ہی اس کے بانی رہے ہیں اور آزادی کو منزل تک اس جنگ کو وہی لے جائینگے. خواہش تویہی ہے کہ نادان دوست ایرانی چال بازیوں کو سمجھیں اور بلوچ سرمچاروں کو لقمہ اجل ہونے سے بچائیں اور اپنے اپنے اختلافات دور کر کے مشترکہ طور پر  قوم کو ایران و پاکستان کی غلامی سے نجات دلائیں، مگر چند لوگ اپنی فہم و بصیرت سے شاید ہزاروں بلوچوں کے نقصان کا سبب بنیں گے. آج عالمی سطح پر حیربیار مری نے افغان قوم کو شعور دی اور افغانستان بھی انڈیا کی طرح بلوچوں کا خیر خواہ اور پاکستان کا دشمن ہے. دیگر یہ کہ امریکہ کی سینٹ میں لابئینگ کرکے عالمی سطح پر تحریک کو بغیر کسی نقصان کے متعارف کروایا مگر آج قوم مشاہدہ کر رہی ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیشوں کی بغض حیربیار والی پالیسی کی وجہ سے کس قدر تحریک نے نقصانات اٹھائے. باوجود کہ قوم پر کھٹن امتحان ہے مگر میں وثوق سے کہتا ہوں کہ آنے والے چند سالوں میں قومی تحریک ایک بار پھر اپنے عروج پر آکر دنیا کو مجبور کرے گی کہ وہ آزاد بلوچستان کو عملاً سپورٹ کرے اور بلوچ تحریک کے اندرونی معاملات بھی ایک نیا رخ اختیار کریں گے جو خالصتاً قومی مفادات کی بنا پر ہونگے.
یہ بھی پڑھیں

فیچرز