ہمگام کالم:
انسانی فطرت اور نفسیات کا حصہ ہے کہ وہ کچھ بھی سوچھے، کچھ بھی کرے یا کچھ بھی کہے بات گھوم پھر کر وہاں آجاتی ہے جس نقطے سے اس کو سب سے زیادہ پریشانی اور الجھن ہورہی ہوتی ہے۔ جس چیز کو انسان اپنا سب سے بڑا مسئلہ اور پریشانی سمجھے وہ اس کے شعور و نفسیات پر اس قدر گہرا اثر چھوڑتا ہے کہ اس کو کچھ اور سوجھتا ہی نہیں اور وہ ہمیشہ اس تگ و دو میں رہتا ہے کہ وہ اس مصیبت، پریشانی، الجھن یا مسئلے سے کس طرح نکلے اور اپنے لئے بہتری کی گنجائش پیدا کرے۔
مقبوضہ بلوچستان میں رہنے والے ہر بلوچ کے لئے غلامی کی بدترین صورت اس کا سب سے بڑا مسئلہ، اس کی سب سے بڑی مصیبت، پریشانی اور الجھن ہے لہٰذا وہی اس کی نفسیات اور شعور پر حاوی ہے۔ وہ ہمیشہ یہی سوچھتا ہے کہ اس بدترین اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا کیسے حاصل کرے؟
جب بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں نے سنگت حیربیار مری کی سربراہی میں بلوچستان کی آزادی اور بلوچ عوام کو غلامی کی بدترین و اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی بنیاد ڈالی تو ایک یقین، ایک حوصلہ ملا کہ اب غلامی کی زنجیریں کٹنے کو ہیں۔ اب بلوچ کو بھی ایک آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لینے کا موقع میسر آئے گا، اب بلوچ بھی اپنے فیصلے خود کرنے کا اہل ہوگا، اسی بنیاد پر بلوچ نوجوانوں نے آزادی کی راہ میں اپنا آپ جھونک دیا۔ کوئی جمہوری سیاست کے میدان میں تو کسی نے بندوق اٹھا کر سر پر کفن باندھ لیا، کسی نے میڈیا میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا تو کوئی اس میں حسب گنجائش مالی مدد کرنے لگا یوں ایک کم مدت میں ہی یہ تحریک نمایاں کامیابیوں کے ساتھ توقعات سے زیادہ اور تیز ترنظر آنے لگے جس کی وجہ سے بلوچ عوام کا اعتماد بھی یوں ہی بڑھنے لگا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ پاکستانی ریاست کی عمل داری بلوچستان میں اس قدر گھٹ کر کم ہوگئی کہ بلوچ اپنے آپ کو آزاد تصور کرنے لگا۔ اسکولوں میں حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے “پاک سرزمین” کی جگہ عبدالمجید گوادری کے “چُکیں بلوچانی” نے لے لیا، 14 اگست یوم سیاہ اور 11 اگست یوم آزادی بنا، 28 مئی نے پورے بلوچستان میں یوم سیاہ کی شکل اختیار کی، پارلیمانی سیاست اس قدر قابل نفرت شے بن گئی کہ اس سے منسلک لوگ گھروں تک محدود رہ گئے، بہ کوئی سیاسی جلسہ نہ ریلی اور بہ انتخابات کے وقت کسی قسم کی بھی کوئی چہل قدمی، مختصراً یہ کہ ریاست اپنی طاقت اور غرور کے باوجود بے بس نظر آنے لگی۔ اگر حالات اسی طرح ہی رہتے تو شائد اب تک بلوچستان کی سیاسی صورتحال پوری طرح سے مختلف ہوتی مگر ہماری کمزوریوں نے ریاست کو پھر سے وہ مظبوط مقام دیا کہ اس وقت ہم مکمل طور پر “بیک فُٹ” پر چلے گئے ہیں۔ سیاسی ورکر، مسلح جنگجو، عام بلوچ سب کے سب ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اور یوں وہ مایوسی کی طرف جارہے ہیں اگر رویے وہی رہے تو یہ حالات جو آج ہیں یہ بھی برقرار نہیں رہیں گے اور ہم مزید کمزور ہوتے جائیں گے کیونکہ ہم نے اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور وقت کی ضرورتوں کو نظر انداز کیا اور تحریک کی اس طرح سے آبیاری کرنے میں ناکام رہے جس طرح کی اس کو ضرورت تھی تو نتیجہ ایک منظم عوامی تحریک پستی کا شکار ہوگئی اور دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی، لہٰذا اگر اس کمزور پوزیشن کو ہی ہم نے نہ سنبھالا یا سنبھالنے میں ناکام ہوئے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ میرے منہ میں خاک مگر ایک مکمل ناکامی ہی اس کا نتیجہ ہوگی۔
پچھلے دنوں ایک دوست سے بات ہورہی تھی، بحیثیت سیاسی کارکن ہمارے درمیان بھی ذاتی اور غیر رسمی گفتگو سیاست پر آگئی اور مکالمے کی شکل اختیار کرگئی۔ دراصل بات وہی ہے کہ سیاست، بلوچستان کی سیاسی صورتحال، بلوچ کی سیاست میں یہ اتار چڑھاؤ، نئی نئی دکانوں کا وجود وہ تمام مسائل اور الجھنیں ہیں جس کا ہر سیاسی کارکن شکار ہے اور اس کی نفسیات پر مکمل حاوی ہے لہٰذا ہماری بات بھی ہماری پریشانی اور الجھن پر آکر اٹک گئی۔
دوست گلہ کررہا تھا کہ آپ لوگ کبھی خوش نہیں ہوتے، کبھی مطمئن نہیں ہوتے، کبھی مثبت نہیں سوچھتے، ہر وقت منفی باتیں ہی کرتے ہو، آپ لوگ جہد کاروں کے بارے میں منفی بات کرتے ہو، اس سے بلوچ عوام میں مایوسی آئیگی اور وہ تحریک سے بدظن ہوکر کنارہ کش ہوجائیگا۔ دوست نے مشورہ دیتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی کہ اس وقت ان حالات میں جب بلوچ حالت جنگ میں ہے، عورتیں اور بچوں کو قابض فوج اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے، بلوچ نوجوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دشمن سے جنگ میں مصروف ہے اور اب تو بات یہاں تک آگئی ہے کہ بلوچ نوجوان شعور کی پختگی میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ فدائی حملے تک دشمن پر ہورہے ہیں۔ دشمن کے اوسان خطا ہیں اور وہ گھبرا کر نہتی عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے پر مجبور ہے تو آپ لوگوں کو چاہئیے کہ اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ان نوجوانوں کو مزید ہمت ملے۔ میں اطمینان اور خاموشی سے دوست کی بات سُن رہا تھا اور چاہ رہا تھا کہ آج اس کو موقع دوں تاکہ وہ اپنی ساری باتیں کردے تاکہ اگر میں غلط ہوں تو میری غلطی کی نشاندہی ہو اور میں اس کی تصحیح کرسکوں لہٰذا دوست نے اپنی بات جاری کی اور کہا کہ دیکھو اس وقت بلوچ مسلح تنظیموں کے درمیان بھی ہم آہنگی ہے اور ایک اتحاد قائم ہوا ہے جو بہترین انداز میں جنگی کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔ جب دوست نے اپنی بات ختم کی تو میں نے کچھ سوال اس کے سامنے رکھے۔ سوال اس لئے کہ اگر میں غلط ہوں تو ان سوالوں سے میری رہنمائی ہوسکے جس سے اپنی تصحیح کرسکوں۔
سب سے پہلے میں نے دوست کے سامنے یہ سوال رکھا کہ بلوچ کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے، جس پر حسب توقع اس نے غلامی کو ہی سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جس سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں، جب اس مسئلے کے حل کا سوال دوست کے سامنے رکھا تو اس کا جواب غلامی سے چھٹکارا ہی ملا، اور وہ کیسے ملے گی کے جواب میں دوست نے بھی جدوجہد، ہم آہنگی، اتحاد اور یکجہتی کو ہی منزل نجات کے ذرائع قرار دیا۔ میں نے عرض کیا کہ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے مگر تمہیں کیا لگتا ہے اس سب میں رکاوٹ کیا ہے، کہنے لگا ہمارا رویہ، نا اتفاقی جس پر میں نے عرض کیا کہ یہی تو ہم کہتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہوا بھائی؟ جب ہمارے رویے اور نااتفاقی ہماری راہ میں سب سے زیادہ اور بڑی رکاوٹ ہیں تو پھر ہماری ذمہ داری یہی بنتی ہے کہ ہم سب سے پہلے ان چیزوں پر غور کریں ان پر بات کریں انہی کو دور کرنے کی کوشش کریں اور ہم یہی تو کرتے ہیں تو اس پر ناراضی کیسی؟ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ کسی بھی عوامی تحریک میں سب سے اہم شے عوامی حمایت ہے کیا اس سے آپ کو کوئی اختلاف ہے جس پر دوست نے نفی میں سر ہلایا جس پر میں نے سوال کیا کہ کیا ہمارے رویے عوامی حمایت کم کرنے کا سبب نہیں ہیں جس پر دوست نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔
چلیں اب اس دوست کی باتوں کو مزید واضح انداز میں دیکھتے ہیں۔ میری نظر میں سب سے اہم شے یہ ہے کہ ہمیں مسائل کو ان کی عددی اعتبار سے دیکھنے کی ضرورت ہے تب ہی ان کے حل طلبی پر غور کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کسی بھی بیماری کے علاج سے پہلے اس کی تشخیص ضروری ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح سے مسائل کا حل بھی اس وقت ہی ممکن ہوتا ہے جب ان مسائل کا پتہ ہو کہ اصل مسئلہ ہے کیا تب ہی اس کا حل ڈھونڈا یا نکالا جاسکتا ہے۔ اگر منزل آزادی ہے، حالت ہماری جنگ کی ہے، مقصد قومی ہے تو ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ ایپروچ بھی قومی ہی ہو لیکن غور کرنے کی ضرورت ہے، کیا ہمارا رویہ و ایپروچ قومی ہے؟ شائد کچھ لوگوں کی نظر میں اس کا جواب ہاں ہو تو ان کے لئے عرض ہے کہ قوم کی تعریف کیا ہے؟ اردو میں عام طور پر قوم سے مراد کسی خاص افرادی گروہ کی لی جاتی ہے جس کی اقدار و روایات آپس میں مشترک ہوں۔ اب اس کے پس منظر پر اگر غور کریں تو ہماری اقدار، روایات تو ہیں ہی مشترک برطانوی قبضے اور سرزمین کی تقسیم سے پہلے زمین بھی مشترک تھی مصنوعی اور قابض کی کھینچی گئی سرحد کے دونوں اطراف “رشتہ داریاں” بھی ہیں لیکن بیگانگی کا وہ عالم ہے کہ مصنوعی اور قابض کی کھینچی گئی لکیر جو کھینچی ہی ہماری تقسیم کے لئے گئی تھی نے ہمیں تقسیم کرکے رکھ دیا، اور اب ہم ان کے دکھ درد، خوشی غمی، مرگ زند میں بھی ساتھ نہیں۔ ان پر جو بھی ظلم ہو، جس طرح کی بھی قیامت ٹوٹے، جس پیمانہ پر بھی نسل کُشی ہو، جس انداز میں بھی ان کو زندانوں میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنایا جائے، جس طرح سے بھی ان کو اجتماعی انداز میں سولیوں پر لٹکایا جائے ہم ہیں کہ قومی بیانیہ ہی اپنانے سے کتراتے ہیں۔ جب پوچھا جائے کہ جناب یہ بیگانگی اور بے رخی کیسی تو فرمایا جاتا ہے کہ ان کو اپنی جنگ خود لڑنی پڑے گی۔ اپنی قومی آزادی کے لئے ان کو خود ہی اٹھنا ہوگا، تو میرا سوال ہے پھر قوم کی بات کہاں رہ گئی، قوم کی تعریف کیا ٹھہری، قومی مقصد کا کیا بنا، قومی آزادی کی جنگ کتنی معنی خیز رہ گئی؟ انتہائی ڈھٹائی سے ہم بیان تو داغ دیتے ہیں کہ فلاں شہید اپنے رشتہ داروں سے ملنے گیا ہوا تھا تو یہ کیسی رشتے داریاں ہیں کہ آپ کو ان رشتہ داروں کی لاچارگی اور بے بسی تک نظر نہیں آتی۔
شگان آتا ہے کہ بے عمل لوگ اپنی بے عملی چھپانا چاہتے ہیں، تو میری نظر میں منفی عمل سے بے عملی سو درجہ بہتر ہے کیونکہ اگر آپ منفی عمل سے اپنا دامن بچا لیں تو کسی نہ کسی دن مثبت عمل کی امید اور گنجائش رہتی ہے۔ امید تو کم از کم ختم نہیں ہوتی مگر جب منفی اعمال کا ڈھیر ہو تو امیدیں دم تھوڑنے لگتی ہیں اور امیدیں ختم ہونے پر انسان مایوسی کی طرف جاتا ہے جو ہمیشہ خطرناک اور تباہ کن ہوتا ہے۔ اگر آج سے بیس سال پہلے کے بلوچستان کی سیاسی صورتحال دیکھی جائے تو مجھ سمیت بہت سے میری طرح کے نا تجربہ کار سیاسی کارکن شائد پاکستان کو ہی وطن عزیز اور دھرتی ماں سمجھتے تھے مگر امید اور جہد مسلسل سے کھینچی گئی لکیر نے یہ فرق واضح کردیا اور بلوچ نوجوان پاکستانیت کی گندی قومیت کی الجھن سے نکلے اور ایسا نکلے کہ اب نفرت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا۔
سیاست اور جدوجہد ہے ہی مشکل چیز اگر ہر مشکل اور تکلیف دہ راستے پر ہمارا انتخاب آرام دہ اور پرسکون زندگیوں کی طرف جھکاؤ ٹھہرے تو پھر ہماری جدوجہد بے معنی رہ جاتی ہے۔ اس طرح کے انتخاب سے ہم اپنے شہدا اور اسیران کی قربانیوں کی بے قدری کے سوا کچھ بھی نہیں کررہے ہونگے۔ جو شہدا قومی مقصد کے لئے قربان ہوئے جو اسیران دس دس سال کی طویل اذیت ناک قید و دشمن تشدد میں بھی ثابت قدم ثابت ہورہے ہیں ان سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے قومی مقصد کو عزیز رکھا جاتا ہے۔ ان کے لئے تو بہت آسان ہوتا اگر وہ تھوڑی سی بھی مشکل کے سامنے ڈھیر ہوتے اور قومی مقصد اور ضرورت سے رو گردانی کرتے۔ دنیا کے سامنے ہماری جدوجہد کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اگر یوں ہی ہم سیاسی “یوٹرن” لیتے رہے؟ تھوڑی مشکل آئی ہم مغربی بلوچستان سے دست بردار کیا ہوئے قابض کی انگلیوں اور اشاروں پر ناچنے بھی لگ گئے۔ برطانیہ کی ائیر پورٹ پر کچھ سوال جواب کیا ہوئے ہم نے بلوچستان کا بیرک اٹھانا چھوڑ دیا، آزادی کے دو ٹوک موقف پر کیا بات ہوئی ہم نے اس مطالبے کو ہی چھوڑ دیا اور حق خودارادیت پر آگئے اور ایک تقریب میں بی این ایم کی نمائندگی کرنے والے اس کے برطانیہ زون کے صدر نے ایک تقریب میں باقاعدہ یہ کہہ دیا کہ بی این ایم بلوچستان کی حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کررہی ہے جس کی ویڈیو آج بھی موجود ہے مگر مجال ہے کہ اس پر کوئی سوال کرتا۔ اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ اگر ہم یوں ہی پریشر میں آکر اپنے قومی مقصد کو چھوڑتے جائیں گے تو ہماری کیا حیثیت رہ جائیگی؟ مجھے لگتا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ ہمارے “قومی مقصد” میں صرف مقصد رہ جائے گا بس، اس میں قومی کہیں دور نکل جائے گا۔
اگر مسائل، الجھنیں، ناامیدیاں، تقسیم در تقسیم ہی ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں اور انہی کی وجہ سے ہم کمزور ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے تو ہمیں سب سے زیادہ انہی چیزوں پر غور کرنا چاہئیے، لکھنا چاہئیے بات کرنی چاہئیے کیونکہ جتنا میں بلوچ قومی تحریک کا مشاہدہ کیا ہے اور جتنا میں اس کو جان سکا ہوں تو دشمن نے ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہم نے اپنے نقصان کا سامان خود پیدا کیا۔ اگر مسائل ہمارے ہی پیدا کردہ ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہمیں انہی پر ہی بات کرنی چاہئیے تاکہ ان پر قابو پاکر ان کا تدارک کیا جاسکے۔ جس طرح سے کینسر کا علاج پیناڈول سے ممکن نہیں اسی طرح مسائل کا حل، دوریوں کا خاتمہ اور الجھنوں کا حل بھی سب اچھا ہے کہ نعرے سے ممکن نہیں۔ اگر ہمیں ان منفی رویوں کا خاتمہ کرنا ہے تو سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ ہم ان پر بات کریں ان کی نشاندہی کریں اور ان کو ختم کرنے کے ذرائع تلاش کریں۔
اس وقت ایسی حالت ہوگئی ہے کہ ہماری سیاست میں پاکستانی طرز سیاست بہت زیادہ سراعت کرچکی ہے۔ ہم غلطیاں کرتے ہیں جو یقیناً ممکن ہے اور قابل برداشت بھی مگر اس کے لئے دنیا، سماج، اخلاقیات، معاشرے اور بلوچی اقدار نے ایک پیمانہ بنایا ہے۔ وہ پیمانہ ہمیں حل کی نشاندہی کراتا ہے مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ منافقت مو ہمیں پرے رکھنا ہوگا۔ منافقت اور قول و فعل میں تضاد کا یہ عالم ہے کہ ہم آج ایک بات کرتے ہیں کل دوسری اور اس پر ندامت بھی نہیں ہوتی بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے ہم اس پر مختلف بھاشن بازی بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے اپنے معیار بنائے ہوئے ہیں جو میرے معیار پورا اترا وہ صحیح اور اس کی ہر صحیح غلط بات بھی صحیح اور جو میرے خود ساختہ معیار سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہوا وہ غلط، غلط تک تو بات پھر بھی سمجھ میں آتی ہے مگر ہم اس میں بھی ایک قدم اور آگے نکل جاتے ہیں کہ اس پر الزامات، گالیاں، تہمتیں، قوم دشمنی، مخبری اور دلالی کی بھی تمہید باندھ دیتے ہیں۔
میں نے اپنی پچھلی تحریر میں بھی یہی بات لکھی تھی اور آج اُسی کو دھرا رہا ہوں کہ ایک شخص کے خلاف بی این ایم نے برطانیہ کے ہوم ڈپارٹمنٹ کو باقاعدہ ایک خط لکھا جس میں اس پر الزام لگایا کہ یہ شخص ڈیتھ اسکواڈ اور گینگ وار کا ممبر ہے جس پر وہ گرفتار بھی کیا گیا مگر آج وہی شخص برطانیہ میں بی این ایم کا صدر ہے۔ اس طرح کی ہزار مثالیں ہیں جو تحریر کی جاسکتی ہیں جہاں پر جھوٹ، منافقت اور دو نمبری واضح انداز میں ابھر کر سامنے آئیگی۔ اس طرح کے اعمال سے بیرونی اعتبار تو ختم ہوگا ہی مگر ہماری اپنی قوم کی بھی امیدیں ہم سے ختم ہوجائیں گی۔
قوم صرف آپ کے آس پاس منڈلاتے چاپلوس، موقع پرست اور پیداگیر نہیں ہیں کہ استاد استاد، واجہ واجہ کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور تعداد ہے جو خاموش ہے مگر دیکھ رہی ہے۔ آپ کے ساتھ نہیں ہے مگر آپ کی ہر بات، ہر عمل، ہر قدم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ وہ وہی تعداد ہے جو آپ کی اصل طاقت ہے، جن کی امید پر ہی آپ نے ایک سلسلہ شروع کیا ہے اور انہی کے دم پر ہی آپ ایک قومی ریاست کی تشکیل ممکن بنا سکیں گے اور ان کی بد گمانی، بے اعتباری اور عدم بھروسہ آپ کی سیاسی موت ہوگی۔ اب کیا قوم کو یہ نظر نہیں آرہا کہ آپ کو ایک چھوٹی طاقت ملی اور آپ شہنشاہ بن گئے؟ کیا آپ کی اقربا پروری کہ آپ اپنوں کو اپنے محدود وسائل سے کس طرح نواز نے کی کوشش کررہے ہیں، طاقت کا غلط استعمال اور دیگر سماجی برائیاں کسی کو نظر نہیں آتیں یا لوگ اتنے سادے ہیں کہ وہ ان کو ہی نہیں سمجھ پارہے کہ کس طرح اپنے خاندان اور بھائی وغیرہ کو آپ قومی امانت سے نواز رہے ہیں؟
ایک ادنیٰ سیاسی طالب علم کی حیثیت سے میں یہ یقین رکھتا ہوں اور یہ امید اور ایمان ہے کہ سنگت حیربیار مری جس دو ٹوک موقف کے ساتھ اس کارواں میں شامل ہوئے تھے وہ اُسی پر قائم رہیں گے۔ مشکلیں، مصیبتیں، دوستوں کی بے وفائیاں و دھوکے بازیاں اور ہر طرح کی تکالیف سہنے کے باوجود وہ کسی بھی حالت میں لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے بلکہ ثابت قدم رہ کر اپنے قومی مقصد اور قومی ضرورتوں کی ان کی صحت کے عین مطابق ترجمانی کرتے رہیں گے۔ ایک طرف وہ حیربیار مری جو نواب زادہ، قبیلے اور علاقے کا سربراہ ہونے اور وزارت جیسی پُرکشش منصب پر رہنے کے باوجود بھی ان سب کو قومی مقصد کی خاطر ٹھوکر مار کر اس پر کٹھن اور تکلیف دہ راہ کا انتخاب کرتے ہیں اگر وہ اس راہ کا انتخاب نہ کرتے تو یہ تمام مراعات تاحیات ان کے نام پر لکھی جاچکی ہوتیں۔ ان میں اضافہ ہوسکتا تھا مگر ان میں کمی کبھی بھی نہیں آتی، جبکہ دوسری طرف وہ جو کچھ عارضی مفادات کی خاطر کس طرح سے رنگ بدل کر قومی مقصد میں سمجھوتے اور لچک پیدا کررہے ہیں۔
آخر میں ان الفاظ کے ساتھ اپنی تحریر سمیٹوں گا کہ وقت کی ضرورت اور قومی مقصد کے پیمانے کو سمجھ کر ہی ہم اپنی منزل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ تمام سیاسی ورکر چیزوں کو سنجیدگی سے لیں اور اپنی قیادت کے ہر عمل کا بغور جائزہ لیں۔ ان کے ہر منفی عمل پر سوال اٹھائیں، احتساب کی ضرورت کو سمجھیں اور اُسی پر ہی قائم رہیں تاکہ قیادت کو ہمیشہ ہی یہ احساس رہے کہ اس کا ورکر اس کا احتساب کرنے اور سوال کرنے کے لئے موجود ہے۔ زیادہ تر دوست کہتے ہیں کہ لیڈر شپ، قیادت وغیرہ کی بلوچ کو اشد ضرورت ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بلوچ کو سب سے زیادہ سلجھے، سمجھدار، پڑھے لکھے اور سوچھنے سمجھنے والے سیاسی ورکروں کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت کے مطابق ہمارے پاس سیاسی ورکروں کی ایک تعداد اور کھیپ موجود ہو تو قیادت کی کیا مجال کہ وہ ہڈ دھرمی کرسکے۔ اگر یہ چیز ہم نے اپنے اندر پیدا کردی تو نہ صرف امید بلکہ یقین اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگا اور ہم ضرور اپنے قومی مقصد میں کامیاب ہونگے۔