وادی حلب ، اور بحیرہ کیسپیئن سے کوچ کر کے آ ئے ہوئے مہرگڑھ کی تہذیب میں رہتے ہوئے قوم بلوچ کہلاتا ہے ۔ بلوچ ثقافت مضبوط ہے جس میں آزادی ،حساسیت،اورعسکری اوصاف شامل ہیں ۔بلوچستان میں شروع سے قومی، وطنی اور ملکی روح نے اپنا اثر دیکھا کرا یک مشترکہ ثقافتی مقصد پیدا کرتے ہوئے سارے بلوچوں کویکجان دو قلب کردیا ۔سارے بلوچوں میں زبان کے معمولی فرق کے بغیر ساری چیزیں ایک جیسی ہیں پوشاک ،رہن سہں،معاش ،معیشت ،رقص ،موسیقی،کھیل ،عقائدمیں مکمل یکسانیت ہے ۔اصل بلوچوں کی ثقافت میں عورتوں کا مقام ،احترام بہت اہم ہے لیکن اب کچھ لوگ اسکا غلط فائدہ اٹھا تے ہوئے عورتوں کو کم تر سمجھتے ہیں،بلوچوں کی ثقافت و تہذیب،تاریخ وتمدن ،معشیت ومعاشرت،اخلاق وعادات،بہادری وجوانمردی،گفتار وکردار ،ایثار وقربانی،ایفائے عہد و انتقام سنٹرل ایشا ء جنوبی ایشا اور مڈل ایسٹ میں موجود تمام اقوام سے مختلف ہیں بلوچوں کے کہانی قصہ اورmythsمہرگڑ قلات اسٹیٹ ،سیوی ،حمل جیئند کی پرتگیزی سے لڑائی اور رند کے کہانی کے مرد کا قول اسکے سر کے ساتھ بندھا ہوتا ہے،پھر چاکر کی گوہر کو امان اور رند کے ساتھ لڑائی بحث کے قابل ہے،۔بلوچستان وہ علاقہ ہے کہ جہاں تہذیب نے پہلے جنم لیا تھا پرانی تہذیب اور ہزاروں سال پرانی اسکی تاریخ ہے جب ۱۲۰۰ میں نئی نیشلزم اور قوم نے یورپ میں جنم لیا اس وقت بلوچوں کی ایک گرو ہ جلال حاں کی قیادت میں نقل مقانی کر رہا تھا اوروہ اس وقت ایک ملک کے طور پر ابھر رہے تھے ،۔انگلش ،فرنچ ،جرمن ،سویڈش،روسی وغیرہ سے بہت زیادہ پرانی بلوچ قوم کی وجود اور اسکی اپنی سرزمین بھی تھی ۔یونانی تاریخ دانوں نے بلوچستان کا ذکر کیا کیونکہ سکندر اعظم یا کہ الینگزینڈر دی گریٹ جو یونان کا جنرل تھا گدروشیہ مکران میں ۳۲۵ قبل مسیح میں داخل ہوا اور انکے تاریخ دانوں نے بھی گوادر سمندر کا ذ کر کیاجو بلوچ کی پرانی تاریخ کا ثبوت ہے۔گوادر کی اہمیت اس وقت ان لوگوں نے بیان کیا ۔گوادر اس وقت بھی پرکشش تھی۔گوادر کا ذکر مشہور یورپی مورخ مارکو پولو کی کتاب میں بھی ہے ۔اسی طرح قدیم مورخ مقدسی نے خضدار کے بارے میں بھی لکھا ہے ۔مہرگڑ کی تہذیب ۹۰۰۰ سال پرانی ہے ۔اور باقی قو موں سے مختلف اور الگ بلوچ قوم کی پرانی تاریخ کا نمونہ ہے ، بلوچستان میں قابض کی شکل میں مقدونیین ،پرتگیزی ،عرب ،غزنویز،منگول ،مغل اور انگریز بھی آئے اور پھر بلوچ نیشنلزم اور سرزمین کی احساس اور مزاحمت نے انھیں یہاں مسقل قیام کر نے نہیں دیا ۔بلوچوں کی سب سے بڑی ریاست کے لیے جواز ہے کہ انھوں نے ۱۶۶۶ سے لیکر انگریز کے آمد اور پھر ۱۹۴۸ تک سرزمین پر حکمران تھے اور بلوچ قوم سرزمین ،ثقافت ،تہذیب ،تمدن کو بچاکر رکھا ۔نصیر خان نوری جوبلوچ تاریخی لیجنڈہے ،اسنے بلوچ سرزمین کے باونڈری ترتیب دے دہے اور صحیح معنوں میں ایک ملک کے طورپر ریاست بلوچستان کی تشکیل کی ابتدا ء کی ۔اس سے ظاہر ہے کہ بلوچ خطے میں باقی ماندہ اقوام سے الگ قوم ہے اور اسکی تاریخ ،ثقافت،رسم ورواج ،ہر چیز باقیوں سے الگ ہے،قوم کے ساتھ ساتھ ایک زمین کے مالک ہیں اور اسی زمین پر حکمران بھی رہے اور اسی زمین میں مختلف ادوار میں غلام بھی بنائے گئے لیکن بلوچ قوم نے غلامی کبھی بھی قبول نہیں کیا سکندر اعظم ،پرتگیزی ،غزنوی ،منگول ،اور انگریز کے دور میں قبضہ گیروں کے خلاف لڑتے رہے ۔رحم علی مری انقلابی شاعری کے ساتھ ساتھ انگریز کے خلاف جہد کرتے رہے اسنے اس وقت کے قومی غداروں کے خلاف بھی شاعری کرتے ہوئے کہا کہ جو انگریز کا ساتھ دیگا وہ مویشوں کے ریوڈکی طرح مشرقین کے بچے ہونگے یعنی اپنی ریوڈ سے الگ دوسرے ریوڈ کا ساتھی تصور کئے جاہینگے ۔ رحم علی مری نے کہا کہ غلامی ان میں پوری طرح جذب ہوچکا ہے جس طرح شراب انسان کو بد مست کرتا اسی طرح غلامی نے بھی اسے زمین اور وطن بیجنے والوں کی شعور اور ادراک اٹھا کر انھیں مدہوش کیا ہوا ہے جو بلوچ ریوڑکے بجائے غیر اور قابض کی ریوڑ میں شامل ہوکر اپنے قوم کے خلاف استعمال ہورہے ہیں ۔ رحم علی مری نے کہا کہ مریوں نے انگریز کے خلاف آزادی کی شمع اور مشعل کو روشن کیا ہے ،اسی طرح انگریز کے خلاف محمد خان مری نے بھی جہد کے ساتھ ساتھ انقلابی شاعری کی اور مزاحمتی ادب میں نمایاں رہا اسنے گنبد کی لڑائی کے بارے میں کہا کہ وہ مریو، جنگ کیلئے تیار ہوکر شہادت کیلئے دعاکرواور اپنے خوبصورت داڑ ھیوں کو خوشبو لگا کراپنے عزیزوں کو خدا حافظ کہہ کر وطن کی خاطرجنگ کرو۔اسی طرح مہراب خان کی مددنہ کرنے والے سرداروں کے بارے میں بلوچ شاعر نے کہا کہ سراواں کے اچھے لوگو تم اپنی حماقت سے اپنی بادشاہت اور ملک کھو چکے ہو۔اب تم پہلے ہی اپنی عزت ،تعظیم اور شرف کو خدا حافظ کہہ چکے ہو جب تم نے غلامی کی زندگی کو قبول کرلی انگر یز نے تمہارا قلات تم سے لے لیااور تم اپنے ملک کا سوداکر کے چند سکون کی خاطرغداربن گئے ۔مولا محمد حسن نے خان مہراب خان کی جرات بہادری اور دلیری کو بھی اپنی شاعری میں بیان کیا ہے کہ جس نے غلامی کے بجائے اپنی جان دے دی ۔انگریز اور ایرانی قبضہ کے خلاف سردار خیربخش مری اول ،یوسف عزیز مگسی،عبدالرحمان بگٹی ،بلوچ خان ،خان محمد ، دوست محمد،دادشاہ،سمیت بہت سے بلوچوں نے جہد کیا اور قومی آزادی کی شمع کو روشن کیا،۔انگریز کے دور میں بلوچوں میں قومی جذبہ اور احساس نمایاں تھا اسی جذبہ کے تحت قومی جنگ لڑے ،۔انگریز کی غلامی کے بعد پاکستان ایک نئے اور قابض کی روپ میں بلوچ سرزمین میں نمودار ہوا اور ۔مذہب کے نام قوم بنا کر انگریز کی مہربانیوں سے ایک ملک پاکستان کے نام بنائی گئی جس نے بلوچوں کو غلام بنایا جس طرح مشرقی تیمور میں پرتگال کے نکلنے کے بعد انڈونیشیالعنت ، وبا اور مرض کی طرح پھیل گیا اسی طرح پاکستان بھی بلوچستان میں قابض کے بھیانک روپ اور شکل میں داخل ہوا ۔آج کی حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قوم سے اسکا ملک بلوچستان پاکستان نے حیلہ ،فریب ،دھوکہ اور زبردستی طاقت و قوت کے زور پر لے لیا ہے اور آج پاکستان بلوچستان پر قابض ہے ،جس طرح ویت نام پر امریکہ،الجزئر پر فرانس،مشرقی تیمور پر انڈونیشیا،ہندوستان ،یوگینڈا ،امریکہ ،آسٹریلیا ،نیوزلینڈ ،رودیشیہ،مالٹا،وغیرہ پر برطانیہ قابض تھا بالکل اس طرح بلوچستان پر پاکستان قابض ہے ۔ اب قبضہ سے نکلنے کیلئے نظریہ کیا ہونا چاہیے ،سوشلزم ،کمیونزم ، ،سماجی تبدیلی ،یا کہ نیشنلزم ۔کیونکہ سوشلزم ،سماجی تبدیلی میں ریاست کے اندر رہتے ہوہے جہدکیا جاتا ہے ۔ایک قوم پر جب کوئی غیر قوم پر قبضہ کرکے اسے غلام بناتا ہے جسے کہ بلوچ تو عین اس حال میں قومی ریاست کی بحالی ضروری ہوتا ہے اور ایسی صورت میں نیشنلزم کے تصور کے تحت جہد کرکے ریاست بحال یا کہ تشکیل دیا جاتاہے۔کیونکہ اگر بلوچ قوم جسم ہے قومی ریاست اسکی روح ہے ،بلوچ قوم اگر جسم ہے قومی ریاست اسکی اکسیجن ہے ،بلوچ ،قوم،اور قومی ریاست ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہیں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل اور ادھورے ہیں نیشن ، اورنیشنل کیلئے نیشنلزم ہی موجب ،ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی قومی ریاست حاصل کرسکتے ہیں۔دنیاکی زیادہ تر اقوام نے ایسی ہی نیشنلزم کے اوزاراور وسیلہ کے ذریعے اپنی ریاست حاصل کئے ،اور کچھ اقوام نے خود قصہ کہانی اورmyths and memories دریافت کرکے اپنی الگ پہچان کرواکے خود کو قوم قرار دیکر قومی ملک کا مطالبہ کرنے لگے ۔کیونکہ قوم کے لیے تاریخ ،تہذیب ،تمدن،کلچر ،ہیروز،myths and memoriesبہت اہم ہیں انھیں سے اسکی الگ پہچان الگ شناخت ہوتا ہے ،قوم پرستی دماغ کی حالت ہے ، جس میں تا ریخی عمل کے ذریعے کمیو نٹی کی نفسیات کی تبدیلی کی جانشینی کا تجزیہ کیا جا تا ہے ۔انسانی زندگی کے سماجی تمام حالت اور انداز جس میں یہ عنصر ہیں زبان ،عملداری ،علاقہ ،نقل و روایت،عقیدہ ،رسم و رواج ،جسے احساس پروردہ رجحان �آبا ئی سرزمین کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ۔قوم پرستی ایک تصور اور خیال ہے ،ایک خیالی طاقت ہے جو انسانی دماغ اور دل کو نئی سوچ اور احساس سے بھرتا ہے اور پھر اسے بیدار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی احساس ،شعور کو منظم کاروائی کے عمل میں تبدیل کر تے ہوئے پھر قوم قومی ریاست کا مطالبہ کر تے ہیں ۔قوم پرستی کی مانگ قومی ریاست ہے پھر قومی ریاست کی تشکیل قوم پرستی کو مضبوط کرتی ہے نیشنلزم کی تاریخ عبرانی او رگریک کے دور میں شروع ہوا پھر یورپ میں نشاط ثانیہ اور اعتدال پسندی کے دور میں اس پر نظر ثانی کی گئی ۔اسی دور میں علماْ ،فضلاور دانشوروں نے Greco Roman patriatism دوبارہ دریافت کیا کالونی کے دور میں نیشنلزم کے پرانے عہد نامہ کو تبدیل کیا گیا نئے حالات کے مطابق اس میں تبدیلی لائی گئی فرانس کے انقلاب میں قوم پرستی کے نظریہ کوپروان چھڑایا گیا ،جس میں فرانس کی قوم کی تعمیر کیا گیا ۔ملک کے اندر بلکہ ملک کے باہر بھی لوگ قوم پرست تھے وہ خود کی شناخت قوم سے کرنے لگے ۔ہر ایک اپنی شناخت قوم زمین ،قومی تمدن ،تہذیب سے کرنے لگے۔قوم پرستی لوگوں کے رویوناورصدمہ پر اثرانداز ہوا اور پھر ریاست اور اقتدار اعلی کے اصول کیلئے سوال کیا جانے لگا ۔اقتدار اعلی کے دو حصے ہیں ایک لوگوں کے ساتھ دوسرا باقی ممالک کے ساتھ سلوک کرنے کا ہے ۔قوم کیلئے آزاد ریاست کی حصول ضروری ہونے لگا ۔نیشنلزم کے تحت فرانس ،برطانیہ ،امریکہ سارے ملک کے طور ابھرے ۔قوم کی جدید خیال ۱۶صدی میں آ یا جس میں انگلینڈ دنیا کی پہلی قوم کے طور سامنے آیا ۔ پہلے collelectivistic nationalism فرانس اور روس میں ابھرا بعد میں جرمنی میں بھی متعارف ہوا ،فرانس کی نیشنلزم شہری اور اجتماعی تھی جبکہ جرمن اور روس نسلی نیشنلزم کے طور ابھرے ۔نیشنلزم کے دو اقسام ہیں سیاسی نیشنلزم اور ثقافتی نیشنلزم ،سیاسی قوم پرستی کا آئیڈئل شہری نظام سیاست ہے ، جو تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ مشترکہ قانون اصول کے تحت ایک قوم بناتے ہیں ،و ہ کم روایات کو اہمیت دیتے ہیں وہ ایک نسلی شناخت کے تحت یکجا ہوکر قومی ریاست کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔جبکہ ثقافتی نیشنلزم الگ تہذیب ،ثقافت ،تاریخ،جغرافیائی پروفائل کا نتیجہ ہے ،خاندان کی طرح اس میں بھی قدرتی یکجہتی پائی جاتی ہے ،ثقافتی قوم پرستی میں قوم کی ایک نامیاتی پہچان اور شناخت ہوتا ہے ۔اس میں قوم کے تمام افراد کی حیثیت کمیونٹی میں برابر ہوتا ہے اور یہ نیشنلزم سیاسی قوم پرستی کے آئیڈئل عالمگیر شہریت کے حق کی مخالفت میں ہوتا ہے ، قو موں کے درمیان قدرتی اور جبلی تقسیم ثقافتی قوم پرستوں کا مانگ ہوتا ہے،جو نئے جدید قومیں بنی ہیں اور پھر قوم پرستی کے بعد انھوں نے ملک کا مطالبہ کیا ،یورپ میں جدید ریاست زیادہ تر نیشنلزم کے تصور کے تحت بنے جبکہ مغربی یورپ کے پرانی قومیت صرف انگلش ،سکوٹ ،فرنچ،ڈچ،پرتگیزی ،تھے جبکہ شمالی یورپ کے ڈینش،سویڈیش مشرقی یورپ کے ہنگریں ،پولش،اور روسی تھے باقی سارے بعد میں بنے ،پولش ۱۷۹۵تک روس ،پرشیااورہنگری میں بٹے ہوے تھے لیکن انھوں نے اپنی الگ قوم اور قومی پہچان کی وجہ سے دوبارہ اپنا ملک لیا اور الگ ملک کے طور پر ابھرے ،کلچرل نیشنلسٹ اخلاقی موجد کے طور پر عمل کرکے نظریاتی تحریک چلاکر ملک بنا تے ہیں جس کی مثال چیک قوم پرستی ہے ، جوکلچرل قوم پرستی کے تحت وجود میں آیا ،۱۸۳۰سے ۱۸۴۰تک چیک کے انٹیلی جنس ،ٹیچرز،سرکاری ملازم ،طلباہ اور تجارتی لوگوں نے آسٹریا کے خلاف بغاوت کر تے ہوئے الگ ملک کا مطالبہ کیا جس میں انھیں اپنی ا لگ شناخت حا صل کرنی تھی ،الگ شناخت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے الگ ملک کا مطالبہ کیا اور اسکے لیے جہد کیا اخرکار ملک حاصل کیا چیک قوم نے چیک کے لیے ملک بنایا ، اسی طرح یوکرین کی قوم نے اپنی الگ پہچان کروائی اور یہ کلچر نیشنلزم کے تحت کیا shevchenko ,scientific ,society,of polish Galacia ۱۸۷۳میں قائم کیا اسے شیونچکوشاعر کے نام کیا جو یوکرین کی حیات نوکا سمبل تھا ۔اس سوسائٹی نے یوکرین کے لوگوں کی Ruthenian زبان اور ادب پر کام کیا یہ تدریجی سے umbrella تنظیم بن گیا ،پھر پولش اور روسی قوم پرستی کی جگہ اپنی الگ قوم پرستی کو اجاگر کیا پھر دانشور ادیب فرانکو اور ڈراکومینو اور Hrushevsky ,نے یوکرین کی لوگوں کو ایک قوم بنانے میں ا ہم کردار ادا کیا انھیں الگ قوم کے طور پر شناخت دی نئی قوم کے طور ابھرنے کے بعد نیشنلزم کے جہد کے تحت اپنی ملک بنائی ۔کیونکہ کلچرل نیشنلزم قوم اور ملک بنانے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے ۔اسی طرح آسٹریا جرمن ایک قوم تصور کئے جاتے تھے پہلی آسٹریا ریبلک ۳۰ اکتوبر ۱۹۱۸میں قائم ہوا جسے قانونی طور پر جرمن آسٹریا کہا جاتا تھا ،وہاں زیادہ پناہ گزین ایشا ،مڈل ایسٹ ،اور افر یقہ سے آئے ہوے تھے پھر آسٹریا نے جرمن آسٹریا کے بجائے اپنی الگ شناخت بنائی اسنے ۶ زبانوں کو نئی قوم کی میراث سمجھا اور قوم بنے کے بعد ملک بنایا جس طرح چیک قوم کوpalacky رومانیین کو lorgaیوکرین کو Hrushevsky جسے زانتکار ،ادیب دانشورں نے نئی پہچان دی اورالگ قوم بنتے ہی انھوں نے قومی آزادی حاصل کی ۔رومانیہ کے لورگا نے اپنی الگ پہچان کے حوالے کہا transylvaniaرومانیہ تھا کیونکہ انکی اکثریت رومانیوین تھے جبکہ اسکی روح اورسانس ،آتما بھی رومانین تھے ۔اسطرح الگ قوم بن کر رومانیہ ریاست تعمیر کی ۔ایک قوم کو دوسرے سے الگ کرنے کے لیے اور الگ قوم بنانے کیلئے فرضی داستان ،myths,یادیں،سمبل،بنیادی ا ہمیت کے عامل ہیں انھیں سے الگ قومیں بنتی ہیں اور وہ خود کو دوسروں سے الگ کرتی ہیں ۔بولیویا میں نئی قوم بنانے کیلئے انھوں نے دیومالائی قصہ اور فرضی داستان ڈھونڈ نکالے ،میکیسکو نے مستیزوmythنکالا لیکن اس میں ثقافتی ،تاریخی اور حیاتیاتی شہادت کی کمی تھی جو ان لوگوں نے سکولوں کے زریعے ۵۰ سال تک وہ ہدف حاصل کیا اور الگ شناخت پائی ۔پھر ایسی میکسیکو کے خلاف اپنی الگ پہچان بنانے کیلئے EZLNزافستان موومنٹ نے انڈین نیشلزم کے سوال کو اٹھایا ۔سوشلزم کی جہد کر رہے تھے لیکن انھیں اب الگ قوم کے طور پر خود کو منوانے کی کوشش کر رے ہیں کیونکہ نیشنلزم ہی الگ ملک کا جواز بنتا ہے ،اس تحریک میں مارکوس بھی سوشلزم کے پروگرام کے تحت ڈاکٹر چے کی طرح شامل ہوا اسے امریکہ میں دوسرا چے کہا جاتا ہے chaips ملک کیلئے لڑ رہے ہیں ۔مارکوس ۱۹۹۴سے اس پسماندہ سماج میں لڑ رہے ہیں مارکوس خود تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ دوسرے علاقے سے اسکاتعلق ہے ڈاکٹر چے کی طرح اس نے سوشلزم کے تحت EZLNکی جہد میں حصہ لیا اور انکا لیڈر اور ترجمان بنا لیکن کبھی بھی اپنا شکل میڈیا میں ظاہر نہیں کیا ،مارکوس دانشور اور ادیب بھی ہے اسنے کہا کہ یہاں بہت سے الفاظ ہیں اسطرح زیادہ تعداد میں سوچ اور خیال بھی ہیں ،جہاں کہی کوئی دنیا ہے کہ جہاں الفاظ پیدا ہوئے تھے ہیں ہم اور ہماری تنظیم لوگوں کو سکھائے گی کہ سچ بولو کیونکہ سچ انسانی دل سے بولا جاتاہے ۔ مارکوس کو ساری دنیا ڈکٹر چے کہتا ہے مگر وہ ڈاکٹر نظر کی طرح خود کو چے کہ کر ذاتی نمود نمائش کرنے کے بجائے اپنے کاز سے جڑا رہا اسنے کبھی بھی شوشہ اوردکھاؤ کی سیاست نہیں کی ہے اس لئے اسے امریکہ میں ڈاکٹر چے کا دوسرا جنم کہا جاتا ہے ،کہا جا رہا ہے کہ چے نے مارکوس کے روپ میں دوسرا جنم لیا ہے اس نے مقامی لوگوں کو کہا کہ تمہاری زمین ملکیت اور جائیداد ہے تو لوگوں کی نیشنلزم ابھرا اور اسے وہاں کے لوگوں نے جواب دیا کہ ہماری زمین جائیداد نہیں بلکہ کمیونٹی کی دل ہے کیونکہ یہ انکی نیشنلزم کو ظاہر کر رہاتھا کیونکہ قومی ریاست کے تالے کی چھابی قوم پرستی ہے ۔اگر قوم جسم ہے تو ریاست اسکی روح ہے ،قوم اگر مچھلی ہے تو ریاست پانی کی مانند ہے،۔قوم اور ریاست ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہیں ۔دونوں کی اہمیت ایک جیسا ہے ہٹلر نے ایک بار اپنے ملک میں ،قوم،مادروطن ملک کے لیے لوگوں سے اپیل کی کہ کس چیز کو لوگ زیادہ قدر ،منزلت اور فضلیت دیتے ہیں تو سب کیلئے ایک جسے جذبات ،جوش،اور احساس پایا گیا ۔اسی طرح قوم اور ملک کے ساتھ جوش جذبہ جاپان کے جنگ میں بھی دیکھا گیا کہ لوگوں نے اپنی قوم اور سرزمین کی خاطر Bangzai charage خودکش حملے کئے گئے انکے لیڈر کا فیصلہ تھا کہ جاپانی قوم اور سرزمین کی خاطرسرنڈر کرنے کے بجاے خودکش کیا جائے اور انھوں نے خودکش کئے ۔قوم ایک باڈی کی مانند ہے جو ملک کو جائز قرار دیتا ہے ، جاپانی ۔جرمن،فرنچ،اور باقی ماندہ قوموں کی طرح بلوچ بھی ایک قوم ہے اور اس میں قومی احساس زیادہ ہے ،ایسی قومی احساس اورقومی جذبہ نے اسکی زبان ،تاریخ ،روایات ،ثقافت ،زبان ،کو محفوظ کیا ہے ۔ ۔نیشنلزم کے جذبہ کے تحت سارے بلوچ جسم اور اسکے عضو کی طرح ایک جسے ہیں ایسی طرح اسکے علاقے جس طرح اگربلوچستان جسم اور باڈی ہے تو کوہلو کاہاں اسکا دل ،ڈیرہ بگٹی اسکا سر ،بولان گردہ ،خضدار اسکا معدہ، کھچی اسکا کان ،گوادر اسکے ہاتھ ،بندرعباس اسکا شے رگ ،ہلمند اسکا گردن ،ڈیرہ غازی خان اسکے جبڑے ،کراچی اسکا سینہ ہے ،بیلہ اسکے انگلی اور خاران اسکا منہ ہے جس طرح جسم کے ایک عضو کو درد ہو تو پورا جسم اس درد کی شدت کو ایسی طرح محسوس کرتا ہے بالکل نیشنلزم میں ایک کا درد دوسرا بھی محسوس کرتا ہے اور سارے ایک خاندان کی مانند ہوتے ہیں،انگریز کی طرح پاکستان کی غلامی میں بہت سے بلوچ اپنی قوم سے الگ ہو کر قابض خنزیر کی صف اور قطار میں شامل ہوکر خنزیر اور سور کی طرح اپنے قوم لوگون اورسرزمین کی مھٹی پلید کرکے آنے والے نسلوں کی نظر میں قابل نفرت کی مانند یاد کئے جاہینگے ۔جس میں شفیق ،مقبول،راشد پٹھان ،سراج ،مالک،حاصل خان،سمیت بہت سے لوگ تاریخ کے کھڑے میں چند سکون کی خاطر وطن اور ملک ،قوم بیچنے والوں کی صف میں شامل ہونگے ۔باقی جو جہد کر رہے ہیں جس میں حیربیار بالکل وا ضح ،صاف اندازمیں قومی ریاست کی بحالی کیلئے جہد کر رہے ہیں ،اسکی پالیسی ،طریقہ اور قومی سوچ کو دیکھیں تو وہ موجودہ دور میں نصیر خان نوری اور یوسف عزیز مگسی کی طرح قومی اسٹیٹ کی بحالی اور تشکیل کی طرف جہد کر رہے ہیں۔۔اس میں لبریشن چارٹر ،اور کسی بھی پارٹی میں عدم مداخلت اور قومی سوچ کے تحت قومی جہد کو کوہلو کاہان سے نکال کر ڈیرہ بگٹی خضدار اور مکران میں پھیلانا اور بی ایس او ،بی این ایم،باقی تمام پارٹیوں کی قومی سوچ کی بنیاد پر حمایت اور تعاون ،بقول ایک دوست کے خلیل کا اسے بی این ایم کی لیڈر شپ کا عہدہ دینے کی پیشکش اور اسکا انکار اور ایک عام بلوچ ساتھی ، دوست اور جہدکار کی طرح انکی کمک اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ لیڈری اور گروئیت کے بجائے اس قومی مشن کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف بی این ایم ،بی ایس او،بی ایل ایف ،یو بی اے ابھی تک تعین کرنے میں ناکامیاب ہوئے ہیں کہ انکی جہد کا محور کیا ہے ،وہ شوشلزم اور نیشنلزم کے د رمیان فیصلہ نہیں کرپا رے ہیں کہ انھیں کس نظریہ کے تحت جہد کرنا چاہیے کیونکہ انکی سوچ قومی مشن کے کامیابی اور قومی ریاست کی تشکیل کے بجائے اپنی الگ شناخت بنانے پر لگی ہوئی ہے ،اس لئے قوم کو منظم اور مضبوط کرنے کے بجائے علاقائی سیاست اور قومی ہیروز تاریخ myths and memories کو مانے سے انکاری ہیں کیونکہ خان قلات سے انکی سیاسی اختلاف ہے اپنی مختصر مدتی سیاست کی وجہ سے پوری قومی جہد کو نقصان دینے کی کوشش میں ہیں ۔ خان قلا ت سے انکی اختلافات ہونے چاہیے اور خان قلات کو قومی داہرے میں آزاد بلوچستان میں عام بلوچوں کی طرح رہنا چاہے ،آزاد بلوچستان جدید ریاستوں کی طرح فلاحی ،بہتری و بہبودی ریاست ہونا چاہے جو لبریشن چارٹر میں بھی ہے یہ حقیقت خان کو بھی مان لینا چا ہیے اس پر اگر کوئی تنقید کرتا ہے اور خان کو پا بند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ تنقید جائز ہے اور ہونا چا ہیے لیکن اسے ہدف بنانے کے لیے بلوچ قومی ریاست سے انکاری یہ بلوچ کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا ہے باقی جہد میں الگ الگ کہانی اور فرضی داستان بنائے اور ہم اپنی تاریخ ،ہیروز ،زبان ،رسم ورواج اور ریاست سے انکاری ہیں ۔بلوچ نیشنلزم کے تحت ہی ہم اپنی قومی ریاست حاصل کرسکتے ہیں ہمارے لیے بھی زبان ،قوم سرزمین جرمن ،جاپانی ،چیک ،ویت نامی قوم کی طرح ایک جسے ہیں اور بلوچ قوم کے جزبات سب کیلئے ایک جسے ہونگے ۔واجہ ناگمان ، منظور بسمل و دیگر بلوچ ادیب دانشور ،زانتکار وں کو چاہیے تھا کہ فر نچ ،چیک،یوکرین،اسٹریا ،بولویا،رومانیہ اور میکسیکو کے دانشوروں اورادیبوں کی طرح ہماری قوم میں سمبل ،ہیروز،قومی یگانگت،کو فروخ دیکر قوم کو جسم و جان کی طرح ایک کرتے لیکن افسوس کہ یہ لوگ بھی بی ایل ایف پر اسکے غلط پالسیون اور گروئی سوچ کی وجہ سے تنقید کو روکھنے کیلیے زبان کے مسلے پر سیاست کرنے لگے ۔حالانکہ بی ایل ایف ،بی آر اے فرعون بن کے قوم پر ظلم کر رہے ہیں ان پر تنقید کرنے کے بجائے ان کے اوپر تنقید کو روکنے اور انکے اعمال کو ڈھانک لینے کیلے قوم پرستی ،قومی سیاست کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ،۔ہر قومی جہد میں اندرونی اختلافات ہوتے ہیں اور کچھ میں اپسی لڑائیاں بھی ہوئے لیکن انھوں نے اپنے قومی پروگرام کو خسارے پر نہیں لگایا پھر بعد میں وہ مسئلے مسائل گفت شنید اور مکمل انقلابی اور قومی سوچ کے اپنا لینے کی وجہ سے حل ہوئے ۔انکے برعکس بی این ایم ،بی ایل ایف ،بی ایس او اور انکے زانتکار،دانشور ،شعوری لوگ پوری قومی پروگرام کو تکراری اور نزاعی بنا رہے ہیں ۔ ۔ جبکہ بر اہمدگ اور اسکی پارٹی نیشنلزم کے حوالے کسی حد تک واضح ہے ہاں اگر وہ قبائلی سوچ کے فروغ کے بجائے قومی سوچ کو وسعت دیتے تو اس سے جہد کا زیادہ فائدہ ہوتا ایک قوم چیک ،یوکرین ،فرنچ،میکسکو،جرمن،انگلش،سویڈش،بولویا،اسٹریا،رومانینہ کی تھی جو قوم نہیں تھی جنھوں نے خود کو قوم بنائی اور قوم بناتے ہوہے قوم پرستی کے تصور کے تحت اپنا قومی ملک بناہے اور ٓاج آزاد اور خوشحال ریاست کے طور پر وجود رکھتے ہیں اور ایک قوم بلوچ ہے کہ جسکی ہزاروں سال کی تہذیب ،تاریخ ،اپنی الگ کلچر ،رواج ،زبان ،اور سرزمین ہے ایسی زمین جس میں اسنے ۱۶۶۶ سے لیکر ۱۸۳۹ تک مکمل حکمرانی کیا،۔آج اسی نیشنلزم کے تحت باقیوں کی طرح بلوچ بھی اپنی قومی آزادی حاصل کر سکتا ہے مگر جو جہد کر رہے ہیں وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہوکر خود کو سوشلزم اور ریجنلزم کے نظریات کے تحت دوسری شکل وصورت میں ڈھونڈ رہے ہیں ۔لیکن بلوچ قومی جہد کی کامیابی نیشنلزم کے تصور اور نظریہ کے تحت ممکن ہے اور اس میں علاقیت ،گروہیت ،قبائلیت ،پارٹی پرستی ،شخصیت پرستی ،کے بجائے ایک سلوگن کے تحت جہد کرتے ہوہے قوم کو بچایا جاتاہے وہ ہے قومی سلوگن ،اس مقدس سلوگن کے سامنے باقی سلوگن کی کوئی اہمیت نہیں ہونا چاہیے اور قوم باڈی اور جسم کی مانند ہو اور اسکے لوگ اور سارے علاقے اسکے عضو کی طرح ایک ہوں اور سارے ایک آواز ہوکر جہد کرہیں اور وہ آواز اور سلوگن باقی ماندہ قوموں چیک ،جرمن،فرنچ،بولیویا ،میکیکو ،اسٹریا،رومانیہ ،ویت نام ،قوم کی طرح اپنی قومی ریاست کی تشکیل کا ہو ۔لوگون نے اپنی زندگیاں ،مال ننگ عزت،غیرت،سب کچھ کسی کو لیڈر بنانے اور کسی کی پوزیشن بنانے کیلئے نہیں دیتے ہیں بلکہ آزاد ریاست کی تشکیل کے لیے اتنی بڑی قربانیان دی ہیں اور اب بھی لوگ اپنے ریاست کی بحالی اور نئی ریاست کی تشکیل کیلئے یہ سب کچھ کررہے ہیں اور نیشنلزم کے نظریہ کے تحت قومی جہد قومی ریاست کی تشکیل تک قومی جہد جاری و ساری رہے گا ۔ریاست کی تشکیل کے بعد نیشنلزم حب الوطنی میں تبدیل ہوتا ہے پھر کوئی اسلامی نظام ،سوشلزم ،مخلوط معیشت لانا چاہے یا کوئی اور نظام اس میں وہ آزاد اور خود مختار ممالک کے آزاد شہری اور سیاست دان کی طرح کر سکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہونا چاہیے لیکن ،غلامی کے دور میں باقی ماندہ نظریہ کی پرچار اور نیشنلزم کو کاو نٹر اور قومی myth and memories اور اپنی تاریخ ، قومی ہیروز سے انکاری ، اجتماعی قومی خود کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے