قیادت کے فقدان سے ہر گز یہ مراد نہ لیا جائے کہ جی فلاں شخص چئیرمین اور فلاں وائس اور فلاں سیکریٹری ہے لہذا قیادت تو ہے، بلکہ قیادت کے فقدان کا بنیادی مطلب ظاہری قیادت کی صلاحیت کا فقدان ہے، ویسے اگر غور کیا جائے تو پورے بلوچ قومی تاریخ میں قیادت کا فقدان کم و بیش ہر دور میں موجود رہا ہے جہاں کئی کارناموں کے تمغہ شجاعت اپنے سینے پر سجانے کے باوجود لوگ اصل میں حقیقی قیادت کا اہل نہیں رہے اگر خانہ پری کو قیادت سے تعبیر کیا جائے تو پھر نہ کوئی شرائط ہونگے اور نہ ہی کوئی سیاسی و انقلابی اصول بلکہ جو شخص جب بھی اٹھے گا اور قیادت کا دعوی دار بن جائے گا، اسطرح گروہی سیاست کے ذریعے لوگوں کا جم غفیر بھی لگے گااور لوگ ان کی ہر بات پر جے جے کا ر بھی کریں گے، مگر قیادت کے سامنے اگر اسکی نصب العین واضح ہو، ہدف متعین ہو، اخلاقی اصولوں کی پاسداری کا کوئی نظریہ ہو، اپنی وقت اور آنے والے کل پر اسکی گرفت مضبوط ہو، زمینی حقائق کو تسلیم کرنے میں اسے کوئی عار نہ ہو، اور سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ قیادت کی ذمہ داری ایک فرائض منصبی کی طرح ادا کرتے ہوئے اسے وقت و حالات کے مطابق قیادت کو پھرکسی دوسرے کے سپرد کرنا اسی طرح لازمی ہے جس طرح ایمانداری سے قیادت کرنا لازمی ہوتا ہے، مگر شاید ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے کیونکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نہ قیادت میں خود وہ قوت ہے کہ وہ معاملات کو چلاسکے اور نہ یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ مستقبل کے لیئے کوئی اچھے لوگوں پر مشتمل ایک لیڈر شپ کی کیپ تیار کرسکے کہ جو معاملات کو احسن طریقے سے چلا سکیں، اسکے پیچھے شاید کئی ایک معمے منہ چھپائے بیٹھے ہوں مگر سب سے بڑی معمہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر شپ کو شاید یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ہم سے ہماری منصب کوئی چھین نہ لے، فرائض ادھوری ہیں اور ہماری لیڈر شپ اپنی عہدے اور قد کو بچانے کے چکر میں تحریک کی سفر کو ایک گول دائرے میں لاکر بند کرچکے ہیں ،اصل میں قیادت سے فقدان کا مطلب انسانی ڈھانچوں کی موجودگی، انکی جذباتی وابستگی اور قربانی سے سرشار ہونے کے علاوہ ایک ایسا نقطہ ہے جہاں سب کچھ موجود ہے مگر انکو استعمال کرنے کاڈھنگ نہیں اور اسی لیئے اسے قیادت کا فقدان کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔زمین ہے تو انسان ضرور ہونگی مگر قیادت اسی زمین سے ماخوذ تجربات سے وابستہ ہے جو ہمارے ہاں ناپید ہے۔ اب آتے ہیں ان تما م باتوں کی طرف جو کہ بی ایس او آزاد کی مرکزیت پر قابض گروہ اور بی ایس او آزاد کانسٹیٹیوشنل بلاک کے مابین اس دراڈ کے بنیادی سبب بنے، مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے ان سے بات کی تو ہمیشہ کہتے رہے کہ آپ لوگ ان پر تنقید کررہے ہیں کہ جنہوں نے اپنی پوری ماضی بلوچ قوم کے لیئے وقف کرکے ہر طرح کی ممکنہ قربانی سے گریز نہیں کیا، بانک کریمہ ہو یا پھر زاہد بلوچ کسی سے بھی بات کرووہ اپنی ماضی کو گنواتے ہوئے ایک احسان جتانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اس میں کارکنان کو لبانے کی مذموم کوشش کی جاتی رہی ہے، لہذا اب کارکنان سے مثالیے کے حساب سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جب ہم غلطیوں کی بات کرتے ہیں تو اس میں دو نوعیت کی غلطیاں ہمیشہ ہوتی ہیں،ایک ایسی غلطی جس میں شخصی غلطی تحریکی مجموعی عمل کو کم اور اس مخصوص شخص کی اپنی زات کو زیادہ نقصان پہنچانے کا احتمال اپنے اندر رکھتاہے، مثلا کوئی ایسا بندہ ہے جو کہ زمہ دار نہیں ہے، زمہ داریوں سے بھاگتا ہے، صحیح کام نہیں کرتا ، انداز کار درست نہیں ہے، بہت کچھ چیزوں کا سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، احکامات کی پیروی نہیں کرتا، آزاد منشی اسکا شیوہ ہے، سونے اور جاگنے کی اوقات کار کو ایک ترتیب وار انداز میں ٹھیک نہیں کرتا اور کئی طرح کی سماجی برائیوں میں ملوث ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ، اب اگر ان تمام غلطیوں کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ اگر ان غلطیوں کا سد باب کرکے ان کو ٹھیک کیا جائے تو تحریکی مجموعی عمل کو آگے جانے میں بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے اور کام احسن طریقے سے انجام پا سکتے ہیں اور اگر ان غلطیوں کو نہ سدھارا جاسکا تو اس ایک شخص کو اپنے سے الگ کرلیں اور کوئی دوسری شخص لے لیں تاکہ مستقبل میں کاموں کے اندر بہتری کی گنجائش پیدا کیا جا سکے مگر اس سے مجموعی تحریکی عمل کو نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے اور ایسی غلطیاں قابل اصلاح ہیں اور ان پر کھلے عام تنقید اس لیئے نہیں کی جائیگی کہ وہ اداروں کے اندرونی معاملات سے متعلق ایسی کوتاہیاں ہیں جنہیں یا تو ادارے کے اندرحل کیا جاتا ہے یا پھر ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے واسطے اس شخص کو ہی خود سے الگ کیا جاتا ہے،یہ ادارے کا اپنا ایک صوابدیدی اختیار ہے، اب اگر دوسری نوعیت کی غلطیوں پر بات کرلیں تو کچھ ایسی غلطیاں ہوتی ہیں جو کسی شخص کی زات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ انکے ضربی اثرات(multiply effects)ہوتے ہیں جو نہ صرف اس شخص کی انفرادی کیئے دھرے پر خاک ڈالتے ہیں بلکہ انکا تدارک نہ کیا گیا تو وہ پوری تحریکی عمل کی بساط کو لپیٹ کر رکھ دیں گے، مثلا غلط طریقوں سے قوت اقتدار پر قبضہ کرنا، کارکناں کی تعلیمی سرگرمیوں کو محدود رکھ کر انہیں زہنی حوالے سے اپنا مقلد بنانا، عہدہ اختیارات کی بنیاد پر غلط کاموں کی کھلے عام دفاع کرنا، اچھائی اور برائی کے درمیان غیر جانبداری کا شوشہ چھوڑنا اورغیر محسوس طور پر اپنے لوگوں کو غیر انقلابی سرگرمیوں جیسے دروغ گوئی ،منافقت اور ریاکاری کی ترویج کے لیئے ابھارنا،اپنے لوگوں کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا، وغیرہ شامل ہیں یہ سارے ایسے عمل ہیں جو کہ مجموعی تحریکی ساکھ سے تعلق رکھتے ہیں، بہت سارے لوگ یہی دلیل دیتے ہیں کہ غلطیوں کو در گزر کیا جائے یا پھر ان پر کھلے عام بحث مباحثے سے گریز کیا جائے مگر کبھی کسی نے غلطیوں کی درجہ بندی کرنے ضرورت محسوس نہیں کی کہ کس طرح کچھ غلطیاں مجموعی حوالے سے انسانی کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہیں، اب اگر ایسی غلطیوں کے سامنے لب بمہر ہوکر صرف یہ سوچا جائے کہ انسان غلطیاں ضرور کرتا ہے تو پھر کوئی بتائے کہ مجموعی تحریکی عمل کو ہم کہاں تک سرخرو کر سکیں گے اور اگر ایسی غلطیوں کے سامنے کسی نے اپنی ماضی کی قربانیوں کا یاد دلایا تو کیا ہمیں خاموش ہوجانا چاہیے ، فیصلہ آپ لوگ خود کرلیں، مگرامریکہ میں غلامی کے خلاف بولنے والے نڈر سیاہ فام افریقی جہد کار فریڈرک ڈوگلس لکھتے ہیں کہ ’’قومی احساس بہرصورت زندہ رہے، قومی ضمیر ہمیشہ متحرک ہو،مستعدی قوم کا وصف ہونا چاہیئے ، قومی منافقت کو ضرور طشت از بام کیا جائے اور اسکی جرم کو چاہے وہ خدا کے خلاف ہو یا انسان کے اسکا اعلان کرکے اسکے خلاف اٹھنا چاہیئے‘‘اصل میں یہ ہماری لیڈر شپ کی نااہلی ہے کہ آج ہم بی ایس او آزاد کی صف اول کے کارکنان کی جتنی تعداد میں قربانی دے چکے ہیں اتنی تعداد میں کیا انکا نصف بھی ہم سے نہ پیدا ہو سکا اسکی بنیادی وجوہات پر کبھی غور نھیں کیا گیا، کیونکہ خود لیڈروں کے اندر یہ وصف ہی موجود نہ تھی کہ قومی تحریک کے لوازمات کو لے کر کے ہم کس طرح مسقبل کی ایک کیپ تیار کرسکتے ہیں ، مثلا بی ایس او آزاد ایک انقلابی تنظیم ہوتے ہوئے کیوں اپنے لیئے طویل المعیاد حکمت عملیوں کا ڈھانچہ نہ بنا سکی ، پہلے تو سیل سسٹم کے تحت کام کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کو اتنا سکیڑ کر محدود کردیا گیا کہ جتنے بھی مخلص ساتھی تھے وہ سارے اس لیئے دلبرداشتہ نہ ہوئے کہ حالات سنگین ہوچکے تھے بلکہ انکو بی ایس او آزاد کے صفوں میں سے اس طرح نکال باہر کیا گیا جیسا کہ دودھ میں مکھی ، یہ سب محض کارکنان کی تحفظ کے نام پر سیل سسٹم کے زریعے کیا گیا ، اسکی توجیح بنتی بھی تھی یا نہیں ؟؟ کیا کبھی کارکنان نے غور کیا ہے کہ سیل سسٹم واقعی اس لیئے متعارف کیا گیا کہ سیکیورٹی کے خدشات بہت زیادہ تھے، اسوقت کسی نے یقین کرلیا سو کرلیا مگر پھر دوسری طرف جو ہوا اور ہو رہا ہے تو اس پر کم از کم غور کرو، اگر باریک بینی سے تعصب سے بالا ہوکر سوچا جائے تو کیا زہن اس چیز کو قبول کر سکتی ہے کہ دو سال پہلے حالات اتنے خراب ظاہر کیئے جاتے رہے کہ اس دوران مرکزی قیادت اپنے ممبران سے میل ملاپ تک کی روا دار نہ تھی، سیشن جیسے اہم موقع پر کارکنان کو اسلیئے محروم رکھا گیا تھا کہ سیکیورٹی سسٹم ہمارے حق میں نہیں تو پھر یکا یک حفظ ماتقدم کی اصول کو پس پشت ڈال کر کس طرح بی ایس او آزاد سڑکوں پر آگئی جہاں وہ پہلے اپنے کارکنان پر ہر بات ظاہر کرنے کو اپنے لیئے خطرہ سمجھتی رہی اور آج وہ پاکستان کے بائیں بازو کے طلبہ تنظیموں کے ساتھ آئے روز اپنی کرسی بھی شئیر کرتا ہے اور کسی حد تک اپنی حکمت عملیاں اور راز بھی ان پر آشکار کرتی رہی ہے، اب آو ان تمام باتوں پر غور کریں میں یہ نہیں کہتا کہ کہاں بی ایس او آزاد غلط تھی یا ہے بلکہ بی ایس او آزاد کی سابقہ و حالیہ متضاد حکمت عملیاں خود اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ یا تو سابقہ سیل سسٹم اور چھپ چھپا کر سیاست کرنے کے نرالے انداز غلط تھے یا پھر آج کی حکمت عملیاں غلط ہیں، ہمیں اپنی عقلی حس کو استعمال کرتے ہوئے ضرور سوچنا چاہیئے کہ کل اور آج میں کیا فرق ہے اور اس فرق کی نوعیت کیا ہے، اگر فرق اتنا گہراہے کہ دو اطراف آپس میں تضاد کی سی منظر نامہ پیش کریں تو پھر یہ حق بنتا ہے کہ کارکن پوچھیں کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں سرکردہ کارکنان کی بھلی چڑھا کر اگر بی ایس او آزاد اپنی دو سالہ حکمت عملی مرتب کرکے اس پر قائم نہیں رہ سکتی تو پھر وہ لیڈر شپ کارکنان کی کیا خاک آبیاری کریگی، دور مت جاو بلکہ ماضی قریب کا ایک واقعہ ہے کہ کولواہ میں ہونے والے جلسے میں بڑے بڑے حروف کے ساتھ ڈائس پر لٹکے ہوئے بی ایس او آزاد کے جھنڈے پر تمام عسکریت پسند تنظیموں کے نام تحریر تھے جو کہ ایک غیر معیاری ، غیر ضروری اور خالصتا رومانوی عمل تھا اسکے پیچھے کے محرکات پر کبھی کارکنان نے غور بھی کیا تھا کہ نہیں،کیونکہ اب یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ کس طرح ہمارے مرکزی دوستوں نے ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران ایک عسکریت پسند تنظیم کے ساتھی پر بازیبا انداز میں جملے کھسے تھے تو پھر اسطرح کی منافقت کس لیئے جب کہ اختلافات کی نوعیت اس حد تک تھی کہ ہر بچہ بچہ واقف ہے لیکن یہاں صر ف عوام کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ دیکھو ہم کس طرح ایک دوسرے کی ساتھ ہیں مگر ان سب باتوں پر جو چیز بھاری ہے وہ اس طرح کہ پھر اس جلسے کے چند مہینے بعد زاہد بلوچ کی بازیابی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بانک سمیت لطیف بلوچ نے کس طرح جمہوریت، امن پسندی اور انسان پسندی کا نعرہ لگایا(بھوک ہڑتالی کیمپ کا روداد اور لطیف بلوچ کا زاہد کے کیس کے ساتھ کھلواڑ نیچے ملاحظہ ہو) ، آخر کیوں ہم نے ریاست کو بیوقوف سمجھا ہے یا پھر ہم خود سیاسی اعتبارسے عقل سے پیدل ہیں ، اس ضمن میں آخر ذکر کے لیئے امکانات کیا یقین بھی محکم ہے۔

اسی طرح بعد بی ایس او آذاد اپنی اندرونی تضادات کا شکاررہی اسکی سب بڑی مثال یہ ہیکہ کہ چوتھے سی سی میٹنگ میں زاہد اٹھ کر چلے گئے اور مستعفی ہونے کی دھمکی دی اور بانک کریمہ بلوچ نے اور رضا جہانگیر نے معافی شافی کرکے معاملے کو سی سی میٹنگ کے اندر دفن کردیا اور اسکے بعد ذاکر مجید کے حوالے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسکے ماما قدیر کے مہم کے علاوہ تنظیم کی جانب سے ایک مہم کوئٹہ میں چلائی جائیگی جو کہ ممکنات میں سے شامل نہیں تھی مگر سیاسی حوالے سے زندہ رہنے کے لیئے یہ ایک اہم پتا تھا مگر ان سے نہ کھیلا جا سکا،یہ وہی سی سی اجلاس تھا جو کہ مسلسل تین دن تک چلتا رہا اور اس کے بعد جس طریقے سے گروہ بندی کرکے اپنے من پسند لوگوں کو بچانے کی کوشش کی گئی وہ بذات خود انقلابی و آئینی اصولوں کی دھجیاں اڑانے کا بہترین مثال ہے، اسی میٹنگ میں بہت سارے مرکزی کابینہ کے عہدیداروں نے یہ اعتراف بھی کرلیا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا میں آکر منفی بحث مباحثوں میں حصہ لیا جو گزشتہ سی سی اجلاس کے فیصلے کہ( ہمارے ممبرز کسی بھی طرح کے بحث میں حصہ دار نہیں بنیں گے) کا صریحا خلاف ورزی تھا، اسی لیئے بہت سارے لوگوں کو معافی مانگنی پڑی مگر کارکنان اسی سنٹرل کمیٹی کی اجلاس کو سامنے رکھ کر مرکز پر قابض گروہ سے ضرور پوچھیں کہ اگر آپ سوشل میڈیا میں اسطرح غیر سنجیدگی سے کھود پڑے ہیں تو پھر اختلافات کو ہوا دینے کا الزام دوسروں پر کیوں؟؟؟؟ اسی طرح حکمت عملیوں کی فقدان اصل میں قیادت کی فقدان کو ظاہر کرتی ہے ایک بار سیاست کو خفیہ رکھ اندرون خانہ رکھنے کی کوشش اور پھر ابھر کر اس طرح سامنے آنا کہ زاہد بلوچ کا کوئٹہ سے گرفتاری عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ آخر اس طرح کیوں پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جب کہ ان پر عمل کرنے کی طاقت نہ ہو، کبھی کارکنان نے سوچا کہ آیا سیاست کو خفیہ رکھنے کا عمل اور پھر زاہد بلوچ کا کوئٹہ آکر اغوا ہونے کا عمل خود خالص بی ایس او آزاد کی اندرونی صفوں سے نکلی ہوئی کوئی حکمت عملی تھی یا پھر کہیں باہر سے پہلے حکمت عملی بنائی گئی اور پھر ختم کروائی گئی؟ مگر کارکن کیوں سوچیں گے انکا کام تو نعرہ بازی ہے اور وہ برابر کررہے ہیں پھر اسکے بعد لطیف جوہر نے جو بھوک ہڑتالی کیمپ سجا دیا، اس سے نہ ہم زاہد کی اغوا کی بات کو منوا سکے اور نہ ہی کسی اہم فورم کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکے اور اسی طرح کی ڈمی وجود کو واضح کرنے کے واسطے اور میڈیا میں سانسیں بحال رکھنے کی خاطر تمپ میں تا دم تحریر علامتی بھوک ہڑتال جاری ہے، کوئی پوچھے تو کہ جب کراچی سے کچھ نہ ملا تو تمپ میں وہ کونسی عالمی زرائع ابلاغ کی پہنچ ہے کہ جو تمھاری بات عالمی برادری تک پہنچا سکے، تو اس کا حاصل وصول کیا ہوگیا کچھ بھی نہیں بلکہ مزید یہ کہ بی ایس او آزاد کی تنظیمی ڈھانچے سے لیکر اسکے کارکنان اور قوت و ساکھ سب کچھ کھلی کتاب کی طرح دشمن کے سامنے اور غیر قومیتوں کے سامنے واضح ہوگئی اور انجام کار نتیجہ بلوچی معقولے کی طرح ’’سر کن پر کن ہپ کن ہچ‘‘مگر کوئی پوچھے تو!!!!! اب لطیف بلوچ اپنا دکھڑا لے کر لاہور بھی پہنچ گئے جہاں وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی تقریر کرتے ہوئے زاہد بلوچ کی کیس کو سامنے لانے کی کوششوں میں مصروف عمل تھے جو کہ ماما قدیر اپنے لانگ مارچ میں تمام لاپتہ بلوچوں کا مسئلہ لے کر ویسے ہی پیش کرکے بغیر کسی نتائج کے واپس آچکے ہیں، اب اگر غور کریں تو بی ایس او آزاد کا یہی تکیہ کلام رہا ہے کہ ہم بلوچ آزادی پسندوں کو نہ چین سے رہنے دیا جاتا ہے، نہ پڑھنے دیا جاتا ہے، نہ کام کرنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی آزادی سے گھومنے پھرنے کی اجازت ہے جو کہ حقیقت پر مبنی ہے خیر بی ایس او آزاد کی بیانات کو چھوڑ دیں صر ف بھوک ہڑتال کے دوران لطیف بلوچ کی اس بیان کااحاطہ کرلیں تو معاملہ سمجھ میں آجائیگی کہ ’’ میں کراچی آتے ہوئے کئی بسیں اور راستے بدل کرچکا ہوں کیونکہ ہمیں خطرات اتنے ہیں کہ ہم آزادی سے سفر بھی نہیں کرسکتے ‘‘اب موصوف لاہور بھی پہنچ گئے ہیں اور سفر کی واپسی بھی بخیر و عافیت ہوئی تو پھر زاہد بلوچ کی کیس کے حوالے سے ریاست جو پہلے سے ہی انکاری ہے اب لطیف بلوچ کا لاہور جاکر وہاں کھلے عام سمینار میں شرکت اور پھر واپسی،یہ سب کچھ زاہد بلوچ سمیت لاپتہ افراد کی کیس کو کس نہج پر لاکر چھوڑے گی، ہماری جس حقیقی کیس ریاست جھوٹا ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تو کیوں اس میں لطیف بلوچ نے ایک ایسا قدم اٹھا یا جہاں ہریاست کا کام مزید آسان ہوگیا ، اب لطیف سمیت بی ایس او آذاد کس طرح یہ باور کروئی گی کہ ہمیں اپنے گھر سے نکلنے نہیں دیا جاتا ،اب خود موصوف لاہور کا چکر کاٹ کہ آچکے ہیں، اس طرح کا مہم جوئی آخر کس لیئے۔۔۔۔تم جو یہ پڑھ رہے ہو۔۔۔۔کیا تم آزادی سے اپنے گھر سے نکل سکتے ہو۔۔۔۔نہیں ناں۔۔۔۔تو پھر لطیف بلوچ نے لاہور جاکر تمھاری اس حقیقت کو کیوں سامنے نہیں رکھا۔۔۔۔۔۔ کبھی پوچھا ہے؟؟؟؟ درج بالا تمام تر ایسی چند مثالیں ہیں جو ہم پر یہ ضرور واضح کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں قیادت کا فقدان ہے اور یہ خلا کافی عرصے سے پر نہیں ہو پارہی ہے، اسکی بنیادی وجہ کیا ہے اگر سوچوگے تو شاید سمجھ جاوگے کہ کس طرح ہمارے ہاں تنقید ، مباحثے اور تعمیری سوچ کا قلع قمع کیا گیاہے غیر محسوس طور پر ہم کو اس نہج پر پہچایا گیا جہاں دشمن نے ہمیں پہچانا تھا کہ ہم صرف دیکھ سکیں پر عقلی حوالے سے کچھ محسوس نہ کرسکیں اور بی ایس او آزاد کی نام نہاد مرکزی گروہ نے بھی وہی کیا، آج اسی لیئے تضادات کو سمجھ کر ان کو حل کرنے کے واسطے ہمارے کارکنان کے پاس کوئی راستہ نہیں اور وہ آئے دن اپنی سوچ کا محور کو بدلتے رہتے ہیں انکے پاس محض دو الفاظ حقائق کی اہمیت رکھتے ہیں اور تجزیاتی حس سے بیگانگی ان تمام لوگوں کے لیئے ایک نعمت ہے جو متذبذب زہنوں کے سہارے اپنی وجود کو قائم رکھنا چاہتے ہیں،کارکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ تاریخ کسی کی مثبت عمل کو انکی منفی عمل کی وجہ سے اپنے ریکارڈسے نکال باہر نہیں کرتی بلکہ وہ منفی کردار کو بھی اسی انداز میں اپنے اندر سموئے گی جیسے کہ ماضی میں اس نے مثبت کردار کی لیئے جگہ پیدا کیا تھا تاریخ کوئی کاونٹر بیلینس کا عمل نہیں جہاں حسابی نصاب کی طرح جمع اور نفی کرکے متعلق سفر کی برابر ی پر ختم ہوگی بلکہ تاریخ کے دو پیرائے ہیں منفی اور مثبت اور ہر ایک عمل اپنی نوعیت کے حساب سے انہی دو خانوں میں سے کسی ایک میں رقم ہوگی جہاں منفی کے اثرات مثبت پر اس طرح نہیں ہونگے کہ وہ اسے صفحہ ہستی سے ہی مٹا ڈالے ہاں مگر تاریخ ہر عمل کو اس کے زمان و مکان کے حساب سے اپنے اندر رقم کریگی جہاں اسے مٹانا امر نا ممکن ہوگی ، ایک بی ایس او آزاد کی وہ تاریخ ہے جہاں معاملات قدرے بہتری کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں تحریک کے حوالے سے بحث مباحثے کو ایک صحتمند عمل کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہا مگر آج ہم کیا دیکھ رہے ہیں یہاں تو متعلق العنانیت کا دور دورہ ہے اور کسی کو اختلاف کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اگر بحث و تمحیص کی گنجائش کو ختم کیا جائے تو ارتقاء اپنی عمل کو کیونکرجاری رکھ سکی گی اور اگر تغیر و ارتقا ء کی جدلی عمل کو بزور قوت روکنے کی کوشش کی جائے تو کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ راہیں جدا ہونگی ، انقلاب اپنے اندر ایک متحرک عمل ہے اور اس کو اسکی متضاد رنگ میں ڈال کر جامد کرنے کی کوششوں کو مرکزی قابض گروہ اپنا انقلابی شعار مانتی ہے، جوزف اسٹالن جدلیات کی بنیادی تعریف کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ’’ جدلیت کا لفظ یونانی لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں مباحثہ کرنا۔پرانے زمانے میں جدلیت اس فن کا نام تھا جس کی رو سے مقابل کی دلیلوں کا تضاد ظاہر کرکے اور اس کو رفع کرکے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی تھی‘‘اب بی ایس او آزاد میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں انکی کھوجی رویوں کی وجہ سے تنظیم بدر کردیا گیا ہمارے نزدیک تو انقلاب کی بہترین خدمت یہی ہوگی کہ ہم اچھے سے بہترین کی طرف سفر کرتے ہوئے حقیقی تغیر کو قبول کریں اور بحث مباحثے کی ماحول کو پروان چڑھائیں تاکہ کسی کی بہتر رائے سے ہمارے کاموں میں نکھار آ سکے، مجھے یاد ہے زاہد بلوچ کے ساتھ کئی ایک نشست میں ان سے اس بات پر تکرار ہوتی رہی کہ ہمارے یہ وضع کردہ تربیتی طریقے قدرے غلط ہیں جہاں ایک شخص کھڑے ہوکر گھنٹوں اپنی تقریر جھاڑتی رہتی ہے اور لوگوں کونہ چاہتے ہوئے بھی سننا اور برداشت کرنا پڑتا ہے یہ چیز اپنی خیالات کو ان پر مسلط کرنے کے زمرے میں آتا ہے تو وہ اس بات کے حق میں رہے کہ طریقے کار تبدیل ہونا چاہیئے مگر کہاں ہے وہ تبدیلی؟؟؟ کبھی پوچھا؟؟؟؟ یہ بھی ان وقتوں کی بات ہے جب زاہد بلوچ بی این ایم کے خلیل بلوچ سے اختر مینگل کو بھائی کہنے کی وضاحت بذریعہ بیان اخباروں میں طلب کرتے تھے، مگر آج وہ سیاسی ماحول غائب ہے اسی طرح سے آج ارتقا کا عمل بھی ساکت ہے کیونکہ حالات تبدیلی کی انگڑائی لے رہے ہیں اور ان پر باہر کی قوتوں کا جبر مسلط کرکے تبدیلی کو روکا جارہا ہے اور نتیجہ یہی کہ اب اندرونی حوالے سے پھوٹ پڑ چکی ہے کہ اندرونی قوت محرکہ کو بالجبر روکنے کا یہی انجام ہوتا ہے، جدلیاتی عمل کے بارے میں فریڈرک اینگلز لکھتے ہیں کہ ’’تمام فطرت چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لیکر بڑی سے بڑی چیز تک، ریت کے زرے سے لے کر آفتاب تک اور پوٹسٹا (چھوٹے سے چھوٹا جانداروجود) سے لیکر انسان تک مسلسل وجود میں آتی اور وجود سے خارج ہوجاتی ہے اور برابر حرکت کرتی اور بدلتی رہتی ہے ‘‘لہذا بدلنے اور بننے کا عمل جاری رہتا ہے اگر اسے باہر کی جبر سے روکا گیا تو نتیجہ اس سے بھی بد تر ہوسکتے ہیں ، اگر بی ایس او آزاد کے مرکزی گروہ کے سوچ میں تغیر کو قبول کرنے کی جرات ہوتی تو اسے قبول کرتے اور اسے اسکی فطری انداز میں آگے بڑھنے دیتے مگر نہیں بلکہ وہ کئی دیگر طریقوں سے تبدیلی و حرکت کے راستے میں صرف اس لیئے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں تاکہ انکی شخصی سیاسی وجود برقرار رہ سکے، کارکنان ماضی قریب کی تمام کرداروں ، دعوں ، انکی پس منظر اور حقائق کو سامنے رکھ کرذرا سی دیر کو سوچ لیں تو پوری تصویر بڑی باریکی سے سمجھ میں آجائیگی ۔۔۔ ***